HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

خواب کی حقیقت

ترجمہ و تحقیق: محمد حسن الیاس


ــــــ ۱ ــــــ

حَدَّثَنِي أَبُو قَتَادَةَ،۱ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الرُّؤْيَا ]الصَّالِحَةُ[۲ مِنَ اللّٰهِ، ]فَإِنَّهَا بُشْرَى[ ۳، ]فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلَا يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ[، ۴ وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ شَيْئًا يَكْرَهُهُ ]وَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا[۵ فَلْيَبْصُقْ۶ عَنْ شِمَالِهِ۷ ثَلاثَ نَفَثَاتٍ ]إِذَا اسْتَيْقَظَ[، ۸ وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ،۹ فَإِنَّهُ لا يَضُرُّهُ».۱۰

___________________________

‏‏‏‏ ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا:اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،لہٰذا اُس میں بشارت ہوتی ہے۔ سو تم میں سے کوئی شخص جب ایسی چیز خواب میں دیکھے جو اُسے اچھی لگ رہی ہو تو اُس کا ذکر صرف اُسی سے کرے جو اُسے عزیز ہو۔۱ اِسی طرح برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ چنانچہ تم میں سے کوئی شخص جب ایسی چیز خواب میں دیکھے جو اُسے بری لگ رہی ہو تو اُس کا ذکرکسی سے نہ کرے ۔تاہم اٹھنے کے بعدشیطان کے شر سے پناہ مانگتے ہوئے تین مرتبہ اپنے بائیں جانب تھوتھو کر دے ،۲ اور مطمئن رہے، وہ اُس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔

___________________________

۱۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ انسان حسد کے شر سے محفوظ رہے، اُسے کوئی اچھی تاویل سننے کو ملے اور اِس طرح کے موقعوں پر اُس سے محبت کرنے والوں کی دعائیں اُس کے شامل حال رہیں۔

۲۔ یہ ایک نفسیاتی تدبیر ہے۔ اِس طرح کے خواب سے جو اثرات انسان کے ذہن پر ہو سکتے ہیں، اُن سے نجات کے لیے اِس نوعیت کی تدابیر بہت موثر ہوتی ہیں۔ اِن کا ماخذ انسانی تجربات ہی ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات اِسی حیثیت سے فرمائی ہے۔ اِسے دین کا کوئی حکم نہیں سمجھنا چاہیے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً جامع معمر بن راشد،رقم ۹۶۵سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابو قتادہ انصاری کے نام سے معر وف حارث بن ربعی رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

جامع معمر بن راشد،رقم۹۶۵۔موطا امام مالک،رقم ۸۱۰، ۱۱۰۹، ۱۷۲۰۔مسند طیالسی،رقم ۶۳۰۔ مسند حمیدی، رقم ۴۰۹، ۴۱۰۔ مسند ابن الجعد،رقم۱۳۴۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۲۸۹۶۷، ۲۹۹۰۲۔ مسند احمد، رقم ۲۱۹۳۵، ۲۱۹۶۹، ۲۱۹۸۵، ۲۱۹۹۵، ۲۲۰۰۱، ۲۲۰۳۴، ۲۲۰۴۱۔سنن دارمی، رقم ۲۰۷۷، ۲۰۷۸۔ صحیح بخاری، رقم ۳۰۹۶، ۵۳۳۳، ۶۴۹۷، ۶۴۹۹، ۶۵۰۸، ۶۵۱۶، ۶۵۴۹۔ صحیح مسلم، رقم ۴۲۰۲، ۴۲۰۳، ۴۲۰۴، ۴۲۰۵۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۳۶۸، ۴۳۶۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۹۰۷۔ السنن الکبریٰ ، نسائی، رقم ۷۳۲۳، ۷۳۵۰، ۱۰۲۴۴، ۱۰۲۴۵، ۱۰۲۴۶، ۱۰۲۴۷، ۱۰۲۴۹، ۱۰۲۵۰، ۱۰۲۵۸۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۱۹۲، ۶۱۹۳۔  

۲۔موطا امام مالک،رقم۱۷۲۰۔

۳۔ مسند طیالسی،رقم ۶۳۰۔ سنن دارمی،رقم ۲۰۷۸ میں یہاں یہ اضافہ نقل ہوا ہے: ’فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ، فَلْيَحْمَدِ اللّٰهَ‘،یعنی تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جواُسے پسند ہو تو اِس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔

۴۔ صحیح بخاری،رقم ۶۵۴۹۔سنن دارمی ،رقم ۷۷۰میں’ وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ‘ کے بجاے ’حُلْمًا يَخَافُهُ‘،کے الفاظ ہیں، یعنی ایسا کوئی خواب، جس سے اُسے خوف محسوس ہو ۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۲۵۸ میں یہی بات اِس طرح نقل ہوئی ہے: ’فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الشَّيْءَ يُعْجِبُهُ فَلْيَعْرِضْهُ عَلَى ذِي رَأْيٍ نَاصِحٍ، فَلْيَتَأَوَّلْ خَيْرًا وَلْيَقُلْ خَيْرًا‘،یعنی تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اُسے اچھی لگے تو اُسے چاہیے کہ کسی خیرخواہ مدبر کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ اُس کے لیے بہتر تاویل کرے اور اچھی بات کہے۔اِسی طرح سنن ابی داؤد،رقم ۴۳۶۸ میں ’وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِي رَأْيٍ‘نقل ہوا ہے، یعنی تم خواب کو اُسی شخص سے بیان کرو، جس سے تمھاری محبت اور دوستی ہو، یا وہ صاحب عقل ہو۔

۵۔صحیح بخاری،رقم ۶۵۴۹۔

۶۔موطا امام مالک،رقم ۸۱۰ میں ’فَلْيَبْصُقْ‘ کی جگہ یہاں ’فَلْيَنْفُثْ‘ نقل ہوا ہے۔ اِسی طرح مسند احمد، رقم ۲۱۹۳۵ میں ’فلْيَتْفُلْ‘ منقول ہے۔اِن سب کے معنی ایک ہی ہیں۔

۷۔مسند طیالسی،رقم ۶۳۰ میں شمال کے بجاے ’عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثًا‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، یعنی بائیں جانب تین مرتبہ۔

۸-موطا امام مالک، رقم ۸۱۰۔

۹۔ موطا امام مالک، رقم ۱۱۰۹ میں اِس جگہ ’ وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهَا‘ کے الفاظ ہیں، یعنی شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے ۔

۱۰۔موطا امام مالک، رقم ۱۱۰۹ میں ’فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ‘ منقول ہے،یعنی اِس طرح، اگر اللہ نے چاہا تو شیطان اُسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ 

بعض روایات میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اِس روایت کا پس منظر بھی نقل ہوا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری، رقم ۶۵۴۹میں ابوسلمہ کا بیان ہے کہ وہ برے خواب دیکھتے اوراِن کی وجہ سے پریشان ہوکر بیمار ہو جایا کرتے تھے۔ پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اُنھیں بتایا کہ وہ بھی ایسے خواب دیکھ کر بیمار پڑ جایا کرتےتھے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اُن کے علم میں آگئی۔اِسی طرح بعض روایات میں روایت کے خاتمے پر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا یہ تبصرہ بھی نقل ہوا ہے کہ پہلے بعض خواب مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوتےتھے، لیکن جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات میں نے سنی اور اُس پر عمل کیا ہے، اب مجھے اِن خوابوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ملاحظہ ہو:صحیح بخاری،رقم۳۳۳ ۵۔


ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ،۱ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ۲ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ۳ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ».۴

___________________________

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔۱

___________________________

۱۔ نبوت کی حقیقت  مخاطبۂ الہٰی ہے۔سچا خواب اِسی کی ایک صورت ہے۔ انبیا علیہم السلام کو ماضی، حال اور مستقبل کے بعض حقائق اِسی ذریعے سے دکھائے جاتے ہیں۔ اِسرا کا رؤیا اِس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اِسی لحاظ سے وضاحت فرمائی ہے کہ بندۂ مومن کے سچے خواب کو نبوت کے مقابل میں رکھ کر دیکھیے تو یہ اُس کے چھیالیس حصوں میں سے محض ایک حصہ ہے۔ تاہم یہ ہے اُسی کا حصہ، اور اِس لحاظ سے بندوں پر اللہ کی بڑی عنایت ہے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم ۶۵۰۱ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

صحیفہ ہمام بن منبہ،رقم ۴۹۔جامع معمر بن راشد،رقم ۹۶۴، ۹۶۷۔مسند طیالسی،رقم ۱۱۷۲۔موطا امام مالک، رقم ۱۱۰۶، ۱۱۰۷، ۱۷۱۸۔ مسند ابن جعد، رقم ۱۴۵۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۸۵۹، ۲۹۸۶۰ ،۲۹۸۶۱، ۲۹۸۷۱۔مسند احمد،رقم۷۰۱۰، ۷۴۵۷، ۷۴۵۸، ۷۹۶۲، ۸۱۱۲، ۸۳۰۲، ۸۶۱۹، ۹۴۴۲، ۱۰۲۰۹، ۱۵۸۴۲، ۱۵۸۴۳ ،۱۵۸۵۱، ۱۵۸۵۵، ۱۵۸۶۵۔ سنن دارمی،رقم۲۹۸۴۔صحیح بخاری،رقم ۶۵۰۳۔صحیح مسلم،رقم ۴۲۰۹، ۴۲۱۰، ۴۲۱۱۔سنن ترمذی،رقم ۲۲۰۹، ۲۲۱۰، ۲۲۲۵۔ سنن ابی داؤد،رقم۴۳۶۸۔سنن ابن ماجہ، رقم ۳۸۹۲، ۳۹۱۲۔ مسند بزار، رقم ۱۱۷۹۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۲۵۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۶۶۵۔مشکل الآثار، طحاوی،رقم ۱۸۱۸، ۱۸۱۹، ۱۸۲۰۔ صحیح ابن حبان،رقم ۶۱۸۲۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی مضمون عبادہ بن صامت ، ابوسعید خدری ، عبد الله بن عباس ،عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، لقيط بن عامر ، عبد اللہ بن عمر اور جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہم سے بھی نقل ہوا ہے۔ اُن سے یہ روایات درج ذیل کتابوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں:

موطا امام مالک،رقم۱۷۱۷۔مسند طیالسی،رقم۵۷۱۔مسند ابن جعد،رقم۱۱۷۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۴۵۳۹، ۴۹۵۹، ۵۸۶۹، ۶۰۴۶، ۲۹۸۶۵، ۲۹۸۶۹۔ مسند احمد، رقم ۱۲، ۶۸۶، ۱۱۸۱۴، ۱۲۰۴۴ ،۱۲۲۵۱، ۱۲۲۷۰، ۱۲۶۸۶،  ۲۲۰۸۸، ۲۲۰۸۹، ۲۲۱۱۳، ۲۲۱۵۴۔ سنن دارمی، رقم ۲۰۷۳۔ صحیح بخاری، رقم ۶۴۹۶، ۶۵۰۰، ۶۵۰۲۔ صحیح مسلم، رقم ۴۲۰۸، ۴۲۱۲۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۰۲، ۲۲۰۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۸۹۱، ۳۸۹۳۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۳۶۶۔ مسند بزار، رقم ۱۱۸۰، ۱۲۳۹، ۱۲۴۰، ۲۳۵۰، ۲۳۵۱، ۲۴۰۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۳۲۰، ۷۳۲۱، ۷۳۲۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۳۵۴، ۳۱۹۰، ۳۳۷۶، ۳۷۰۳، ۳۷۶۰، ۳۸۹۲۔ مشکل الآاثار، طحاوی، رقم ۱۸۱۷۔ صحیح ابن حبان،رقم۶۱۷۷۔مستدرک حاکم، رقم ۸۲۴۸۔

۲۔بعض روایات میں ’’رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ‘ کے بجاے ’الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ‘ ،یعنی اچھا خواب نقل ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو: مسند ربیع بن حبیب،رقم۵۲ ۔اِسی طرح بعض روایات میں ’رُؤْيَا الرَّجُلِ الصَّالِحِ ‘ اور ’رُؤْيَا الْمُسْلِمِ‘ کے الفاظ منقول ہیں، یعنی مسلمان یا مومن کا خواب۔دیکھیے:صحیح مسلم،رقم ۴۲۰۹اورمسند احمد، رقم۱۰۲۰۹۔صحیح مسلم ،رقم ۴۲۱۰ میں یہاں ’رُؤْيَا الْمُسْلِمِ يَرَاهَا أَوْ تُرَى لَهُ‘ کا اضافہ روایت کیا گیا ہے۔ یعنی   وہ خواب جو مسلمان دیکھتا ہے یا اُس کے لیے کسی اور کو دکھایا جاتا ہے۔

۳۔مسند احمد ،رقم ۸۳۰۲میں اِس جگہ ’مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ‘ کے بجاے ’سَبْعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ‘ کے الفاظ منقول ہیں، یعنی ستر اجزاے نبوت میں سے۔مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۲۹۸۷۱میں بھی ’سَبْعِينَ‘ ہی نقل ہوا ہے۔ ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’خَمْسَةٍ وَأَرْبَعِينَ‘’’پینتالیسواں حصہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ملاحظہ ہو:مسند ابی یعلیٰ،رقم۱۳۵۴۔ مسند بزار، رقم ۱۱۸۰میں عبد الله بن عباس کی روایت سے ’خَمْسِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ ‘ نقل ہوا ہے ،یعنی پچاس اجزاے نبوت میں سے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ’خَمْسِينَ‘ کا عدد منقول ہے۔ملاحظہ ہو:مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۸۶۹ ۔مسند ابی یعلیٰ،رقم ۶۶۶۵ میں اُنھی کی روایت سے ’أَرْبَعِينَ جُزْءًا‘ ’ ’چالیسواں حصہ‘‘ نقل ہوا ہے۔ یہی معاملہ لقيط بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایات کا ہے۔مثال کے طور پر دیکھیے:مسند طیالسی،رقم ۱۱۷۲۔

۴۔ لقيط بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے: ’الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعْبَرْ، فَإِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ ‘ ’ ’ خواب کی جب تک تعبیر نہ بیان کی جائے، وہ اڑتی ہوئی خبر ہی ہوتا ہے، پھر جب تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ واقعہ بن جاتا ہے‘‘۔ ملاحظہ ہو:سنن ابن ماجہ،رقم۳۹۱۲۔صحیح مسلم،رقم ۴۲۰۷ میں، البتہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہاں ’إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ تَكْذِبُ، وَأَصْدَقُكُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُكُمْ حَدِيثًا‘، کا اضافہ منقول ہے،یعنی جب قیامت کا زمانہ قریب آ جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے۔ اِن میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا، جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی۔سنن ترمذی،رقم ۲۲۰۱ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سےیہ اضافہ بھی روایت کیا گیاہے:’وَأُحِبُّ الْقَيْدَ فِي النَّوْمِ وَأَكْرَهُ الْغُلَّ، الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ‘ ’’خواب میں قید،یعنی پیر میں بیڑی پہنے دیکھنا پسند کرتا ہوں، لیکن طوق کو پسند نہیں کرتا ۔ اِس میں قید سے مراد دین پر ثابت قدمی ہے“۔


ــــــ ۳ ــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،۱ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ، فَالْبُشْرَى مِنَ اللّٰهِ،۲ وَحَدِيثُ النَّفْسِ،۳ وَتَخْوِيفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ،۴ فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا تُعْجِبُهُ فَلْيَقُصَّهَا إِنْ شَاءَ، وَإِذَا رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ يُصَلِّي»۵.

___________________________

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: اللہ کی طرف سے خوش خبری، نفس انسانی کے مکالمات۱ اور شیطان کے ڈراوے۔۲ پھر تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو اُسے ،اگر چاہے تو بیان کر سکتا ہے، لیکن کوئی ایسا خواب دیکھے جو اُسے اچھا نہ لگے تو کسی سے بیان نہ کرے،۳ بلکہ اٹھ کر نماز پڑھے۔۴

___________________________

۱۔زیادہ تر خواب یہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ نفس انسان پر گزرنے والے احوال،اُس کے ذہن پر طاری رہنے والے خیالات اور اُس کی آرزوؤں اور تمناؤں کو اِس طرح کے خوابوں میں ممثل کر کے اُسی کے سامنے پیش کردیتا ہے۔

۲۔ اِس لیے کہ اِسی طرح کے خواب ہیں، جن سے دیکھنے والوں میں یاس پیدا کی جا سکتی ہے، جو خلق اور خالق، دونوں سے انسان کو بتدریج بے تعلق کرتی اور بالآخر تباہی کے گڑھے تک پہنچا دیتی ہے۔

۳۔یہ اِس لیے فرمایا کہ سننے والوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی حماقت سے اِس کے برے تاثر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے۔

۴۔  یہی ہدایت قرآن میں بھی کی گئی ہے کہ پریشانی کے ہر موقع پر اللہ ہی سے اور نماز کے ذریعے سے مدد مانگنی چاہیے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۲۹۹۱۷ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

مصنف ابن ابی شیبہ ،رقم ۲۹۹۲۱۔مسند اسحاق،رقم۴۱۵۔ مسند احمد، رقم ۸۹۲۲۔ سنن دارمی، رقم ۲۰۷۹۔ سنن ترمذی، رقم ۲۲۱۱۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۹۰۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۳۴۹، ۱۰۲۵۱، ۱۰۲۵۲، ۱۰۲۵۹۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۴۰۳۔ مسند شامیین، طبرانی، رقم ۲۶۱۶۔ 

یہی روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔اُن سے اِس کے مصادر یہ ہیں:

مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۴۵۶۳، ۲۹۹۱۶۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۹۰۵۔ مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۱۸۲۱۔ صحیح ابن حبان،رقم۶۱۷۶۔المعجم الکبیر،طبرانی،رقم۱۴۵۶۳۔المعجم الاوسط،طبرانی،رقم۶۹۱۷۔

۲۔سنن دارمی،رقم ۲۰۷۹ میں اِس جگہ ’فَالْبُشْرَى مِنَ اللّٰهِ‘ کے بجاے ’الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ‘ کے الفاظ آئے ہیں،یعنی اچھا خواب۔سنن ترمذی،رقم ۲۲۱۱ میں اِس جگہ ’فَرُؤْيَا حَقٌّ‘ ’ ’سچا خواب ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔

۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۲۵۲ میں ’وَالشَّيْءُ يُحَدِّثُ بِهِ الإِنْسَانُ فَيَرَاهُ فِي مَنَامِهِ‘ ’کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں انسان گفتگو کرتا ہے ، نیند میں وہی دیکھ لیتا ہے۔ سنن ابن ماجہ، رقم۹۰۵ ۳میں عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بات اِس اسلوب میں نقل ہوئی ہے: ’وَمِنْهَا مَا يَهُمُّ بِهِ الرَّجُلُ فِي يَقَظَتِهِ فَيَرَاهُ فِي مَنَامِهِ، ‘، یعنی اُن میں سے بعضایسے ہوتے ہیں کہ انسان بیداری کی حالت میں جو کچھ ارادےکرتاہے، وہی کچھ خواب میں نظر آجاتا ہے ۔

۴۔سنن دارمی،رقم ۲۰۷۹ میں اِس جگہ ’تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، یعنی شیطان کی طرف سے رنج و الم۔مسند شامیین، طبرانی،رقم ۲۶۱۶ میں اِس جگہ ’وَالتَّحْذِيرُ مِنَ الشَّيْطَانِ‘ ’’شیطان کی طرف سے ڈراوا ‘‘کے الفاظ ہیں۔مصنف ابن ابی شیبہ میں عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے اِس جگہ بات یوں بیان ہوئی ہے: ’مِنْهَا تَخْوِيفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيُحْزِنَ بِهَا ابْنَ آدَمَ‘ ، یعنی ا ُن میں سے بعض شیطان کی طرف سے ڈرانے والے خواب ہوتے ہیں تاکہ اِن سے وہ انسان کوغم زدہ کر دے۔ملاحظہ ہو: رقم ۲۹۹۱۶۔ سنن ابن ماجہ،رقم ۳۹۰۵ میں اِنھی کی روایت سے ’أَهَاوِيلُ مِنَ الشَّيْطَانِ‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں،یعنی شیطان کی جانب سےڈرانے والے  خواب۔

۵۔المعجم الاوسط،طبرانی،رقم ۴۰۳میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے: ’ فَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ‘،یعنی اِس موقع پر چاہیے کہ کھڑے ہو اور دو رکعت نماز ادا کرو۔


ــــــ ۴ ــــــ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۱، قَالَ: كَشَفَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ، وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ۲، إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ، أَلَا وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا، أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ، فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ وَأَمَّا السُّجُودُ، فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ».

___________________________

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دروازے کا ) پردہ اٹھایا تو لوگ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پیچھے صف بستہ تھے۔ آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا : لوگو، نبوت کی بشارتوں میں سے اب سچے خواب ہی باقی رہ گئے ہیں۔۱ اِنھیں مسلمان خود بھی دیکھیں گے اور اُن کے لیے یہ دوسروں کو بھی دکھائے جائیں گے۔ خبردار رہو! مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔۲ سو جہاں تک رکوع کا تعلق ہے تو اُس میں اپنے پروردگار کی کبریائی بیان کرو ،اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے تو اُس میں خوب دعا کیا کرو ، اِس لیے کہ تمھاری دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ موقع بہت ہی موزوں ہے۔

___________________________

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات جس موقع پر فرمائی ہے، اُس سے صاف واضح ہے کہ وحی و الہام اور تفہیم الٰہی کے جو دعوے آپ کے بعد کیے گئے ہیں، اُن کے بارے میں آپ لوگوں کو کس درجہ متنبہ کردینا چاہتے تھے۔

۲۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ قرآن پڑھنے کی جگہ نماز میں متعین کر دی گئی ہے، اور وہ قیام ہے۔ اِس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ رکوع اور سجدے کی حالت میں بھی قرآن پڑھا جائے۔ پھر اگر غور کیجیے تو یہ دونوں حالتیں کلام الٰہی کی تلاوت کے لیے موزوں بھی نہیں ہیں۔ ہر صاحب ذوق سمجھ سکتا ہے کہ اِنھیں تسبیح و تہلیل اور دعا و مناجات ہی کے لیے خاص ہونا چاہیے، اِس لیے کہ نماز کو اگر ذکر کے لحاظ سے دیکھیے تو اُس کی حقیقت بھی یہی ہے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح مسلم،رقم۷۴۳سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۸۸۲، ۲۹۸۶۶، ۲۹۸۶۷۔مصنف عبد الرزاق، رقم ۲۷۵۲۔ مسند حمیدی، رقم ۳۴۳، ۴۷۳۔ سنن دارمی،رقم۱۲۹۵۔ مسند احمد،رقم ۲۹۵۱، ۲۳۱۶۴، ۲۴۴۱۵۔ سنن ابی داؤد، رقم ۷۴۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۸۹۷۔مسند بزار،رقم۶۱۶۔السنن الصغریٰ،نسائی،رقم ۱۱۰۷، ۱۰۰۳۴۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۲۸، ۷۰۰، ۷۳۱۹۔مسند ابی یعلیٰ،رقم ۲۳۳۳، ۲۳۵۹، ۲۵۷۱۔صحیح ابن خزیمہ، رقم ۵۳۶، ۵۸۴، ۱۹۳۳، ۱۹۳۸، ۶۱۸۰۔ صحیح ابن حبان، رقم ۱۹۳۳، ۱۹۳۸، ۶۱۷۹، ۶۱۸۰۔ ربیع بن حبیب، رقم ۵۲۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۴۴۲۳۔ مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۱۸۱۶، ۱۸۲۲، ۵۰۷۲۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۱۴۶۹۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم،ابو نعیم ،رقم ۹۲۴۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، عامر بن واثلہ الليثی رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہا، ام كرز الخزاعيہ رضی اللہ عنہا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےبھی مروی ہے۔ اُن سے یہ درج ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے:

موطا امام مالک،رقم ۱۱۰۷، ۱۷۱۸۔ مسند احمد، رقم ۱۸۹۲، ۲۷۷۷، ۸۱۱۲۔سنن دارمی،رقم ۲۰۷۴۔صحیح بخاری، رقم۶۵۰۳۔صحیح ابن حبان،رقم۶۱۷۸، ۶۱۸۲۔صحیح ابن خزیمہ،رقم ۱۹۳۳، ۱۹۳۸، ۶۱۸۰۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۳۶۵۔ سنن ابن ماجہ،رقم۳۸۹۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۱۸۱۔مستدرک حاکم،رقم،۸۲۴۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۳۸۹۲۔ 

۲۔مسند حمیدی،رقم ۳۴۳ میں اِس جگہ اُم كرز رضی اللہ عنہا کی روایت سے یہ الفاظ منقول ہیں: ’ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ‘،یعنی نبو ت چلی گئی اور مبشرات باقی رہ گئےہیں۔

سنن ترمذی،رقم ۲۲۰۳میں یہی مضمون اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے: 

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ»، قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: «لَكِنَ الْمُبَشِّرَاتُ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: «رُؤْيَا الْمُسْلِمِ، وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ». 
”انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعدنہ کوئی رسول ہوگا اورنہ نبی، انس کہتے ہیں: یہ بات لوگوں پر گراں گزری تو آپ نے فرمایا: البتہ بشارتیں باقی ہیں، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول، بشارتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: مسلمان کا خواب ،اور یہ نبوت کےاجزا میں سے ایک جزو ہے۔

المصادر والمراجع

ابن حبان، أبو حاتم بن حبان. (1414هـ/۱۹۹۳م). صحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حجر، علی بن حجر أبو الفضل العسقلاني. (۱۳۷۹هـ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. (د.ط). تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار المعرفة.

ابن قانع، ابوالحسین عبد الباقی. (۱4۸۱هـ/۱۹۹۸م). معجم الصحابة. ط۱. تحقیق:حمدي محمد. مکة المکرمة: نزار مصطفی الباز.

ابن ماجة، ابو عبد اللّٰه محمد بن یزید القزویني. (د.ت). سنن ابن ماجة. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار الفکر.

ابن منظور، محمد بن مکرم بن الأفریقي. (د.ت). لسان العرب. ط۱. بیروت: دار صادر.

أبو نعیم، احمد بن عبد اللّٰه اصفهانی (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.

أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني. (د.ت). مسند أحمد بن حنبل. ط۱. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

البخاري، محمد بن إسمٰعیل. (۱4۰۷هـ/ ۱۹۸۷م). الجامع الصحیح. ط۳. تحقیق: مصطفی دیب البغا. بیروت: دار ابن کثیر.

بدر الدین العیني ابو محمد محمود بن احمد. عمدة القاري شرح صحیح البخاري. (د.ط). بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

البیهقي، أحمد بن الحسین البیهقي. (1414هـ/۱۹۹4م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.

السیوطي، جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابوبکر السیوطي. (1416هـ/ ۱۹۹6م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط ۱. تحقیق: أبو إسحٰق الحویني الأثري. السعودیة: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.

الشاشي، الهیثم بن کلیب. (۱4۱۰هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰه. المدینة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

محمد القضاعي الکلبي المزي. (۱4۰۰هـ/۱۹۸۰م). تهذیب الکمال في أسماء الرجال. ط۱. تحقیق: بشار عواد معروف. بیروت: مؤسسة الرسالة.

مسلم، مسلم بن الحجاج. (د.ت). الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

النسائي، أحمد بن شعیب. (۱406هـ/۱۹۸6م). السنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة.

النسائي، أحمد بن شعیب. (۱4۱۱هـ/۱۹۹۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.

ـــــــــــــــــــــــــ

B