بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَاﵧ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا ٩ﶔ اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ١٠ﶠ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا ١١
ایمان والو، (تم اِن کی پروا نہ کرو، تمھارے لیے اللہ کافی ہے ، اور) اپنے اوپر خدا کی عنایت کو یاد رکھو، جب تم پرفوجوں کی فوجیں چڑھ آئیں۱۹؎ تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی۲۰؎ اور ایسی فوجیں جو تم کو نظر نہیں آئیں۲۱؎ اور (یقین رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس کو برابر دیکھنے والا ہے۔ یاد کرو، جب وہ تمھارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی تم پر چڑھ آئے تھے،۲۲؎ جب (خوف کے مارے)آنکھیں بہک گئی تھیں۲۳؎ اور کلیجے منہ کو آگئے تھے اور اللہ کے بارے میں تم لوگ طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔۲۴؎ اُس وقت ایمان والے امتحان میں ڈالے گئے اور بری طرح ہلا دیے گئے۔۲۵؎ ۹- ۱۱
وَاِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ٘ اِلَّا غُرُوْرًا ١٢ وَاِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ يٰ٘اَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْاﵐ وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌﵨ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍﵑ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا ١٣ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوْا بِهَا٘ اِلَّا يَسِيْرًا ١٤ وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَﵧ وَكَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔوْلًا ١٥ قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَاِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٦ قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةًﵧ وَلَا يَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا ١٧
اور۲۶؎ جب منافقین کہتے تھے اور وہ بھی جن کے دلوں میں روگ ہے۲۷؎ کہ اللہ اور اُس کے رسول نے جو وعدے۲۸؎ ہم سے کیے تھے، وہ نرا فریب ہی تھے۔ اور جب اُن میں سے ایک گروہ۲۹؎ نے کہا کہ یثرب والو، تمھارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، اِس لیے لوٹ جاؤ۔۳۰؎ اور اُن میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں، دراں حالیکہ وہ خطرے میں نہیں تھے۔ وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔۳۱؎ اُن کے گھروں کے اطراف سے اگر اُن پر حملہ ہو جاتا، پھر اُنھیں فتنے۳۲؎ کی دعوت دی جاتی تو وہ اُس میں جا پڑتے اور اِس میں بہت کم توقف کرتے۔ اِس سے پہلے اُنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہیں دکھائیں گے۳۳؎ اوراللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو (ایک دن) ہونی ہے۔۳۴؎ اُن سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے تو یہ بھاگنا تمھارے کچھ بھی کام نہ آئے گا او ر اگر بچ بھی گئے توچند دنوں ہی کے لیے کچھ فائدہ اٹھا لو گے۔ اُن سے پوچھو، کون ہے جو تمھیں خدا سے بچا سکے گا، اگر وہ تمھیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا اُس کی رحمت کو روک سکے گا،۳۵؎ اگر وہ تم پر رحمت کرنا چاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے مقابل میں وہ اپنے لیے کوئی حامی اور مددگار نہ پائیں گے۔۳۶؎ ۱۲- ۱۷
قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ وَالْقَآئِلِيْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَيْنَاﵐ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٨ﶫ اَشِحَّةً عَلَيْكُمْﵗ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰي عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِﵐ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَي الْخَيْرِﵧ اُولٰٓئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْﵧ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا ١٩ يَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوْاﵐ وَاِنْ يَّاْتِ الْاَحْزَابُ يَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِي الْاَعْرَابِ يَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۣبَآئِكُمْﵧ وَلَوْ كَانُوْا فِيْكُمْ مَّا قٰتَلُوْ٘ا اِلَّا قَلِيْلًا ٢٠
اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (اُس کی راہ میں) اِس جنگ سے دوسروں کو روکتے اور اپنے بھائیوں سے کہتے رہے ہیں کہ ہمارے پاس آجاؤ۳۷؎ اور تم سے جان چراتے ہوئے وہ خود بھی لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے رہے ہیں۔ چنانچہ جب خطرے کا موقع آجاتا ہے تو تم اُن کو دیکھتے ہو کہ تمھاری طرف دیکھ رہے ہیں، اِس طرح کہ اُن کی آنکھیں گردش کر رہی ہیں، جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو۔ پھر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو مال کی حرص میں وہ تم پر تیز زبانوں سے چڑھ چڑھ کر بولتے ہیں۔۳۸؎ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے اِن کے اعمال اکارت کر دیے اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔۳۹؎ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دشمن کے لشکر ابھی گئے نہیں ہیں۴۰؎ اور اگر یہ لشکر پھر آجائیں تو اِن کی تمنا ہو گی کہ بدوؤں کے ساتھ کہیں دیہات میں ہوں اور وہیں سے تمھاری خبریں پوچھتے رہیں۔ (یہی بہتر ہے، اِس لیے کہ) اگر یہ تمھارے درمیان ہوتے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔۱۸- ۲۰
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا ٢١ﶠ وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَﶈ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗﵟ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّا٘ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا ٢٢ﶠ
(لوگو)، اللہ کے رسول میں تمھارے لیے (اُس وقت ثبات و استقامت کا) ایک بہترین نمونہ موجود تھا، اُن کے لیے جو اللہ سے ملاقات۴۱؎ اور روز آخرت کی توقع رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔۴۲؎ اور سچے اہل ایمان (کاحال اُس وقت یہ تھا کہ اُنھوں )نے جب لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھااور اللہ اور اُس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔۴۳؎ اور (اُن کے اندر کوئی کم زوری پیدا کرنے کے بجاے) اِس چیزنے اُن کے ایمان و اطاعت ہی کو اور بڑھا دیا۔۲۱- ۲۲
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِﵐ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰي نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُﵠ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا ٢٣ﶫ لِّيَجْزِيَ اللّٰهُ الصّٰدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْهِمْﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٢٤ﶔ
ایمان والوں میں وہ مردان حق۴۴؎ بھی ہیں کہ اُنھوں نے اللہ سے جس چیز پر عہد کیا تھا، اُسے پورا کر دکھایا ہے۔پھر اُن میں سے کوئی اپنا ذمہ پورا کر چکا اور کوئی منتظر ہے۔۴۵؎ اُنھوں نے اِس میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی ہے۔ (یہ امتحان اِسی لیے برپا کیا گیا تھا) تاکہ اللہ سچوں کو اُن کی سچائی کا بدلہ دے اور منافقوں کو، اگر چاہے تو عذاب دے اور چاہے۴۶؎ تو اُن پر عنایت فرمائے اور اُن کی توبہ قبول کر لے، (اگر وہ توبہ کریں)۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۲۳- ۲۴
وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًاﵧ وَكَفَي اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا ٢٥ﶔ وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا٢٦ﶔ وَاَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَطَـُٔوْهَاﵧ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا ٢٧
(تم نے دیکھا نہیں کہ) اللہ نے منکروں کو اُسی طرح اپنا غصہ دلوں میں لیے ہوئے بالکل بے نیل مرام پھیر دیا۴۷؎ اور مسلمانوں کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا۔اللہ بڑی قوت والا ہے، بڑا زبردست ہے۔ اورا ہل کتاب میں سے جنھوں نے اُن کی مدد کی تھی،۴۸؎ اللہ اُنھیں بھی اُن کی گڑھیوں سے اتار لایا۴۹؎ اور اُن کے دلوں میں اُس نے رعب ڈال دیا، اُن کے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے تھے اور ایک گروہ کو قید کر رہے تھے۔۵۰؎ اوراُن کی زمین اور اُن کے گھروں اوراُن کے اموال کا تمھیں وارث بنا دیااورایک ایسی زمین کا بھی جس کو تمھارے قدموں نے چھوا بھی نہیں ہے۔۵۱؎ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۲۵- ۲۷
۱۹؎ آگے کی آیات سے واضح ہے کہ یہ غزوۂ احزاب کے واقعات کا حوالہ ہے۔ یہ غزوہ شوال۵؍ ہجری میں واقع ہوا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... یہود بنی نضیر کے کچھ لیڈروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا تھا۔ اُنھوں نے مکہ جا کر قریش کے لیڈروں سے فریاد کی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پر حملہ کریں۔ قریش حملے کے لیے پہلے سے پر تول رہے تھے۔ جب اُن کو یہود کی شہ بھی حاصل ہو گئی تو گویا مانگی مراد مل گئی۔ اِس کے بعد غطفان اور ہوازن کے لیڈروں کو بھی اُنھوں نے ہموار کر لیا۔ اِس طرح تقریباً دس ہزار کا ایک لشکر جرار مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ قریش کا لشکر ابو سفیان کی سرکردگی میں تھا اور غطفان و ہوازن عیینہ بن حصن اور عامر بن طفیل کی قیادت میں نکلے۔ مزید برآں حیی بن اخطب نضری نے یہود بنی قریظہ کو بھی اِس متحدہ محاذ میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ اگرچہ اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدۂ امن و صلح کر رکھا تھا، لیکن اِس موقع کو اُنھوں نے غنیمت جانا اور معاہدے کی پروا نہ کی۔ اِن کی تعداد کم و بیش آٹھ سو تھی۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمنوں کی اِن تیاریوں کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مسلمانوں کو مدینہ کی اُن سمتوں میں خندق کھودنے کا حکم دیا جن سے حملہ کا خطرہ تھا۔ چنانچہ شہر کی شمالی اور مغربی سمت میں ساڑھے تین میل لمبی ایک خندق کھودی گئی اور یہ کام نہایت سرگرمی کے ساتھ اُن تین ہزار مجاہدوں نے انجام دیا جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور خود سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہ نفس نفیس اِس کام میں حصہ لیا۔
دشمنوں نے مدینے کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ رہا، لیکن اِس دوران میں سنگ باری اور تیراندازی کے اکا دکا واقعات کے سوا دو بدو جنگ کی کوئی نوبت نہیں آئی۔ دشمن نے یہ اندازہ کر لیا کہ مسلمانوں نے مدافعت کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ پھر محاذ میں پھوٹ بھی پڑ گئی اور مزید برآں ایک طوفانی ہوا نے اُن کے خیمے و شامیانے، سب اکھاڑ کے پھینک دیے جس کے بعد اُن کے حوصلے پست ہو گئے اور ابوسفیان نے واپسی کا اعلان کر دیا*۔‘‘ (تدبرقرآن ۶/ ۱۹۳)
۲۰؎ یہ آندھی اُس وقت آئی تھی، جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینا گزر چکا تھا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی طوفانی آندھی تھی کہ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس سے خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھڑ گئیں، دیگیں الٹ گئیں، سواری کے جانور تتر بتر ہو گئے، سردی کی شدت کے باوجود آگ جلانا ناممکن ہو گیا، تاریکی کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔
۲۱؎ یہ فرشتوں کی فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو ہمیشہ پیغمبر اور اُس کے ساتھیوں کے ہم رکاب رہتی ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ مسلمانوں نے تو، جیسا کہ بیان ہوا، اِن کو نہیں دیکھا، لیکن قریش کو یہ فوجیں نظر آئیں جس سے اُنھوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ چنانچہ آندھی کے ساتھ یہ چیز بھی اُن کی مرعوبیت کا باعث ہوئی۔
۲۲؎ مدینہ کی مشرقی سمت بلند اور مغربی سمت نشیبی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ غطفان وغیرہ کا حملہ مشرق کی طرف سے اور قریش اوراُن کے حلیفوں کا مغرب کی طرف سے ہوا تھا**۔یہ اُسی کی طرف اشارہ ہے ۔
۲۳؎ یہ اُس صورت حال کی تعبیر ہے، جب منظر ایسا دہشت ناک ہو کہ نگاہ اُس پر ٹکنے نہ پائے اور بے قابو ہو کر بار بار بہک جائے۔
۲۴؎ آگے کی آیتوں سے واضح ہو جائے گا کہ یہ اشارہ اُن لوگوں کی طرف ہے جو ضعف ایمان اور منافقت کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اُن کے اوسان یہ منظر دیکھ کر خطا ہو گئے اور خدا کی نصرت اور اُس کے وعدوں کے بارے میں جو کچھ اُنھیں بتایا گیا تھا، وہ سب اُن کے لیے مشکوک ہو کر رہ گیا۔
۲۵؎ اِس لیے کہ ایک طرف دشمنوں کی یورش تھی اور دوسری طرف اُن کی اپنی صفوں کے اندر بعض لوگوں کا وہ حال ہو رہا تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
۲۶؎ یہاں سے آگے اب اُس اجمال کی تفصیل ہے جس کے لیے پیچھے ’تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۲۷؎ یعنی بغض و عناد اور کینہ بھرا ہوا ہے۔ یہ منافقین کے اُس گروہ کی طرف اشارہ ہے جو محض منافق ہی نہیں تھا، اِس کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دلی عناد بھی رکھتا تھا۔
۲۸؎ یعنی اِس بات کے وعدے کہ اللہ کی مدد آئے گی اور آخر کار غلبہ اہل ایمان ہی کو حاصل ہو گا۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اِسی گروہ کے بعض شریروں نے یہ تک کہہ دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ہمیں قیصر و کسریٰ کے خزانوں پر قبضے کی نوید سنا رہے تھے اور یہاں حال یہ ہے کہ رفع حاجت کے لیے بھی نکلنا مشکل ہو رہا ہے***۔
۲۹؎ یہ غالباً منافقین اعراب کا گروہ ہے جن کے لیے قرآن میں ’اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِس کا قرینہ یہ ہے کہ اِنھوں نے مدینہ کے لوگوں کو ’یثرب والو‘ کہہ کر خطاب کیا ہے۔ یہ اگر مدینہ کے باشندے ہوتے تو اپنے ہی شہر کے لوگوں کو اِس طرح مخاطب نہ کرتے۔
۳۰؎ اُن کا مدعا یہ تھا کہ اِس صورت میں ممکن ہے کہ حملہ آور فوجیں تمھارے ساتھ کچھ نرمی کا معاملہ کریں، لیکن نوبت اگر جنگ کی آگئی تو پھر تمھاری خیر نہیں ہے۔
۳۱؎ یہ بھی اُنھی منافقین اعراب کا ایک دوسرا گروہ ہے جس نے جنگ سے بھاگنے کے لیے یہ عذر پیش کیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... پہلے گروہ نے مدینہ والوں کو پست ہمت کر کے اُن کو محاذ سے ہٹانے کی کوشش کی اور اِس گروہ نے خود اپنے لیے راہ فرار تلاش کرنے کی تدبیر کی تاکہ دشمن کے لیے میدان بالکل صاف ہو جائے۔ اِس گروہ کا یہ عذر بھی کہ ’’ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں‘‘، اِس بات کا قرینہ ہے کہ اِن کا تعلق اطراف مدینہ کے دیہاتوں سے تھا۔ جہاں تک اہل مدینہ کا تعلق ہے، اُن کے لیے اِس قسم کے کسی بہانے کی گنجایش نہیں تھی۔ اِس جنگ سے متعلق جو تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا انتظام پہلے سے کر لیا گیا تھا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۰۲)
۳۲؎ یعنی اِس بات کی دعوت دی جاتی کہ خدا کے دین کو خود بھی چھوڑیں اور دوسروں کو بھی اِسے چھوڑنے کے لیے مجبور کریں۔
۳۳؎ یہ خاص طور پر اُس عہد کی طرف اشارہ ہے جو اِن لوگوں نے اِس سے پہلے غزوات میں شرکت سے گریز کے بعد اپنے اوپر اعتماد کی بحالی کے لیے کیا تھا۔ قرآن میں اِس کا ذکر ایک سے زیادہ مقامات پر ہوا ہے۔
۳۴؎ یہ بڑی سخت وعید ہے۔ مدعا یہ ہے کہ باز پرس تو ہر جرم کی ہو سکتی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ اِس عہد کا معاملہ معمولی نہیں ہے، اِس کی بازپرس لازماً ہونی ہے۔
۳۵؎ یہ فقرہ اصل میں محذوف ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس حذف کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہو گی: ’أَوْ يُمْسِكُ رَحْمَتَهٗ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً‘ (یا اِس کی رحمت کو روک سکے، اگر وہ تم پر رحمت کرنا چاہے)۔ عربی میں حذف کے اِس اسلوب کی مثالیں بہت ہیں۔ ’متقلدًا سيفًا ورمحًا‘ میں بھی یہی اسلوب ملحوظ ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۰۴)
۳۶؎ یہاں سیاق کلام چونکہ تنبیہ کا ہے، اِس وجہ سے آخر میں تنبیہ کے پہلو ہی کو نمایاں کیا ہے، دراں حالیکہ اوپر رحمت کا ذکر بھی ہوا ہے۔
۳۷؎ یعنی خطرے کی جگہوں سے دور اپنے آپ کو بچا کر جہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں، وہاں آجاؤ۔ غزوۂ خندق کے موقع پر دفاعی لائن چونکہ بہت طویل تھی، اِس لیے جنگ سے گریز و فرار کے لیے اِ س طرح کی جگہیں تلاش کرلینا مشکل نہیں تھا۔
۳۸؎ یعنی اپنی شجاعت و شہامت کے دعوے کرتے اور دوسروں کو ہدف مطاعن بناتے ہیں تاکہ مال غنیمت میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکیں۔
۳۹؎ یہ اِس لیے فرمایاہے کہ کوئی اِس مغالطے میں نہ رہے کہ خدا اپنی شان کریمی سے اِن کے چھدا اتارنے والے اعمال کو بھی قبول کر لے گا۔ ہرگز نہیں، وہ بڑا غیورہے اور اِن کے کسی عمل کا محتاج بھی نہیں ہے، لہٰذا اُس کے لیے بہت آسان ہے کہ جو عمل خالص اُس کی رضا جوئی کے لیے اور خوبی کے ساتھ نہیں کیا گیا، اُسے اِن کے منہ پر پھینک مارے کہ جاؤ، اِس کا صلہ وہیں تلاش کرو، جہاں یہ کرکے آئے ہو۔
۴۰؎ یعنی ایسے خوف زدہ ہو چکے ہیں کہ لشکر اپنے ٹھکانوں پر پہنچ گئے ہیں اور یہ ابھی تک یہی خیال کررہے ہیں کہ وہ اُسی طرح پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔
۴۱؎ آیت میں یہاں مضاف محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
۴۲؎ روے سخن منافقین ہی کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے اگر رسول کی پیروی نہیں کی تو اِس کی وجہ یہ تھی کہ نہ خدا اور آخرت پر تمھارا ایمان تھا، نہ خدا کی یاد سے تمھارے دل آباد تھے اور یہ سعادت اُنھی کو حاصل ہوتی ہے جن کے اندر خدا اور آخرت پر سچا ایمان ہو اور اپنے اِس ایمان کو وہ خدا کی یاد سے تازہ رکھیں۔
۴۳؎ اوپر منافقین کا قول گزر چکا ہے۔ یہ اُس کے مقابل میں اب سچے مسلمانوں کا تاثر بیان کیا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول کا وعدہ یہی تو تھا کہ اُس کی راہ میں اِسی طرح کے صبر آزما امتحان پیش آئیں گے جن سے گزرنے کے بعد ہی تم کامیابی کی منزل تک پہنچو گے۔ لہٰذا یہ وعدہ پورا ہوا اور یہ بات بالکل سچی ثابت ہو گئی۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۱۴ اور سورۂ عنکبوت (۲۹)کی آیات ۲- ۳ میں اللہ تعالیٰ نے اِسی وضاحت کے ساتھ اِسے بیان کیا ہے۔
۴۴؎ اصل میں لفظ ’رِجَال‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔ ہم نے اِسی کو ’مردان حق‘ کے الفاظ سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
۴۵؎ یعنی سر ہتھیلی پر لیے ہوئے انتظار کر رہا ہے کہ کب موقع آئے اور وہ بھی اپنا عہد پورا کرے۔
۴۶؎ آیت میں ’يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ‘ کے بعد بھی ’اِنْ شَآءَ‘ کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر محذوف ہیں۔ یہ اُنھی کا ترجمہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس ٹکڑے میں منافقین کے لیے دعوت استغفار ہے کہ اُن کے لیے اب بھی گنجایش باقی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو استغفار و توبہ کے ذریعے سے پھر خدا کی رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ یاددہانی بھی ہے کہ تمام امور کا انحصار اللہ واحد کی مشیت ہی پر ہے، اِس وجہ سے جھوٹے سہاروں پر تکیہ کرنے کے بجاے وہ اپنے آپ کو اللہ ہی کے حوالے کریں۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۱۰)
۴۷؎ یعنی جس بغض و عناد میں بھرے ہوئے آئے تھے، اُسی کے ساتھ لوٹ گئے، نہ اُس کو نکالنے کا موقع ملا اور نہ کوئی دوسرا فائدہ حاصل ہوا۔ اُن کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے اور جس طرح آئے تھے، خائب و خاسر ہو کر اُسی طرح واپس چلے گئے۔
۴۸؎ یعنی یہود بنی قریظہ، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و صلح کا معاہدہ کر رکھا تھا، لیکن منکرین کے دل بادل لشکروں کو دیکھ کر اُنھوں نے یہ معاہدہ توڑ دیا اور یہودی لیڈر حیی بن اخطب نضری کے بہکانے سے حملہ آوروں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ یہ چیز، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بن گئی****۔
۴۹؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی واپسی کے بعد جب اِن کے نقض عہد اور غداری کی سزا دینے کے لیے اِن پر حملہ کیا تو یہ اپنے قلعوں میں محصور ہو گئے اور کم و بیش ۲۵ دن تک محصور رہے۔ لیکن محاصرے سے تنگ آ کر بالآخر اِنھیں اپنے قلعوں اور گڑھیوں سے نکلنا پڑا*****۔یہ اُسی کا ذکر ہے۔
۵۰؎ یہ اُسی رعب کا نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جب اِنھی کے مقرر کردہ حکم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ اِن کے تمام قابل جنگ افراد قتل کر دیے جائیں اور بقیہ کو قیدی بنا لیا جائے تو اِن میں سے کسی کو اِس کے خلاف چوں کرنے کی بھی جرأ ت نہیں ہوئی۔******
۵۱؎ یہ خیبر ، مکہ اور روم و شام کی فتوحات کی بشارت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ نقد عاجل تو جو کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، وہ تم نے دیکھ لیا، لیکن ابھی اور زمینیں بھی ہیں، جن کی وراثت ہم نے تمھارے لیے مقدر کررکھی ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۱۹۵۔
** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۰۰۔
*** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۰۲۔
**** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۰۰۔
***** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۱۶۔
****** السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۱۷۔