HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

اونٹوں کی دنیا

افسانہ

محمد بلال


’’اللہ دتہ، پانی لاؤ۔‘‘

’’جی سر۔‘‘ چپڑاسی اللہ دتہ، کلرک کا حکم سن کر اسے پانی لا کر دیتا ہے۔

’’اللہ دتہ، یار میرے لیے ذرا سگریٹ تو لے آؤ۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسرا کلرک اپنی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہتا ہے۔ اللہ دتہ سخت گرمی میں بازار سے سگریٹ لا کر دیتا ہے۔ 

’’اللہ دتہ، یہ میری میز صاف کر دو..... چائے گر گئی ہے۔‘‘ اللہ دتہ سگریٹ دے کر ہٹا ہی ہے کہ اکاؤنٹنٹ نے کام کہہ دیا۔ 

’’جی سر‘‘۔ اللہ دتہ میز صاف کرتا ہے۔ 

چند منٹوں کے بعد ایک بیل بجتی ہے۔ اللہ دتہ فوراً ڈپٹی ڈائریکٹر کے کمرے میں جاتا ہے۔ ائرکنڈیشند اور وال ٹو وال کارپیٹڈ کمرے میں بہت آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہوا یہ افسر اخبار پڑھ رہا ہے۔ اللہ دتہ کو سامنے پا کر اپنا بریف کیس کھولتا ہے۔ اور ٹیلی فون کا بل اللہ دتہ کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے:

’’اسے جمع کرا آؤ۔ لمبی لائن دیکھ کر گھبرانا نہیں ہے۔ آج اسے ہر صورت میں جمع کرانا ہے۔ آخری تاریخ ہے اس کی۔‘‘

’’جی سر۔‘‘

 اللہ دتہ چلچلاتی دھوپ میں اپنی سائیکل کو ہینڈل سے پکڑے گیٹ سے نکلتا ہی ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کی گاڑی اس کے قریب آ کر رکتی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل گاڑی سے نکلتا ہے۔ اُس کے ساتھ اس کے کچھ دوست بھی ہیں۔ وہ اللہ دتہ کو انگلی کے اشارے سے قریب بلاتا ہے اور پوچھتا ہے:

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

اللہ دتہ مسکینی سے وضاحت کرتا ہے: بل جمع کروانے۔ ڈائریکٹر جنرل قدرے گردن اکڑا کر بولتا ہے:

’’یہ میرے دوست آئے ہیں۔ پہلے ان کے لیے کیک اور سموسے لے آؤ..... ابھی جاؤ اور پانچ منٹ میں واپس آؤ۔‘‘

’’جی سر۔‘‘

O

اللہ دتہ کیک اور سموسے لانے کے لیے سڑک پر جا رہا ہے اس نے ابھی بل بھی جمع کرانا ہے۔ آج بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ وہ بہت تیز سائیکل چلا رہا ہے۔ دور اسے چوک پر ٹریفک کی سبز بتی جلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’وقت بچانے کے لیے مجھے سرخ بتی جلنے سے پہلے چوک کراس کر لینا چاہیے۔‘‘ یہ سوچ کر اللہ دتہ سائیکل کے ہینڈل پر قدرے جھک کر تیز سائیکل چلاتا ہے۔ ابھی وہ چوک کے قریب زیبرا کراسنگ کے پاس پہنچتا ہی ہے کہ سرخ بتی روشن ہو جاتی ہے۔ وہ بڑی مشکل سے سائیکل روکتا ہے۔ لیکن زیبرا کراسنگ کے اوپر۔ اسی اثنا میں ایک بہت قیمتی کار اس کے بالکل ساتھ چیخ مار کر رکتی ہے۔ قریب کھڑا ٹریفک کا سارجنٹ ان کے پاس آتا ہے اور کار والے کو کہتا ہے:

’’پلیز، اپنی گاڑی زیبرا کراسنگ سے پیچھے کر لیں۔‘‘ گاڑی والے کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرتے ہیں۔ وہ بادلِ نخواستہ گاڑی پیچھے کرتا ہے۔ سارجنٹ مسکرا کر اسے ’’تھینک یو‘‘ کہتا ہے۔ پھر وہ اللہ دتہ کو دیکھتا ہے۔ غصے سے گھورتے ہوئے اس کے قریب آتا ہے۔ اپنی چھڑی اس کی سائیکل کے اگلے ٹائر پر مارتے ہوئے کہتا ہے:

’’پیچھے مر‘‘۔

اللہ دتہ فوراً اپنی سائیکل پیچھے کرتا ہے۔ وہ سارجنٹ کے رویے پر صبر بھی کرتا ہے اور شکر بھی کہ اس نے اس کے ٹائر کی ہوا نہیں نکالی۔

O

رات کا وقت ہے۔ اللہ دتہ اپنے گھر کے چھوٹے سے صحن میں چارپائی پر لیٹا ہوا ہے۔ سب گھر والے گہری نیند سو رہے ہیں لیکن اللہ دتہ جاگ رہا ہے۔ نیند اس سے کوسوں دور ہے۔ آسمان پر چودھویں کا چاند چمک رہا ہے۔ اس کی چاندنی نے اس کے سرخ اینٹوں والے صحن پر سفیدی پھیر دی ہے۔ لیکن اللہ دتہ اس چاند اور اس کی چاندنی اور اس کی سفیدی سے لطف اندوز نہیں ہو رہا۔ وہ اس وقت اپنے خارج سے بے نیاز، اپنے داخل میں ڈوبا ہوا ہے۔ جہاں اماوس کی رات چھائی ہوئی ہے۔ لیکن اسے اس تاریکی میں اپنی تارتار رداے ناموس صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے دل کی نازک رگوں سے خون رِس رہا ہے۔ وہ اپنے آپ سے سوال کر رہا ہے:

’’میں لوگوں کی اتنی خدمت کرتا ہوں۔ ان کی کرسی پر ان کی خواہشیں اور ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں۔ وہ صاف ستھرے ماحول میں بیٹھے ہوتے ہیں اور میں ان کے لیے باہر سڑکوں کی دھول سے آلودہ ہو رہا ہوتا ہوں۔ وہ گرمیوں میں پنکھے کے نیچے بیٹھے ہوتے ہیں اور میں ان کے لیے باہر دہکتے سورج کے نیچے جل رہا ہوتا ہوں۔ وہ سردیوں میں بند کمرے میں ہیٹر کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور میں ان کے لیے باہر ہڈیوں میں اترنے والی یخ ہواؤں میں ٹھٹھر رہا ہوتا ہوں۔ دفتر کے سب کلرک اور افسر عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں۔ لیکن کوئی بھی مجھے ’’آپ‘‘ کہہ کر نہیں پکارتا۔ کوئی بھی میرے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا لفظ نہیں لگاتا۔ لوگ مجھے قابلِ احترام کیوں نہیں سمجھتے۔ لوگ میرا انسانی درجہ کیوں نہیں مانتے۔ میرے اندر بھی عزتِ نفس ہے، لوگ اس کا وجود تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ دنیا میں انسانوں میں فرق خدا نے امتحان کے لیے رکھا ہے، لوگ اس فرق کو برتری اور کمتری کا معیار کیوں بنائے ہوئے ہیں۔‘‘ 

اللہ دتہ بڑے کرب کے ساتھ ان سوالوں پر غور کرتا ہے۔ اس کے ذہن کے ایک گوشے سے اس کا جواب آتا ہے: 

’’اس دنیا میں عزت، طاقت ور کی ہوتی ہے۔ یہ طاقت، دولت کی بھی ہوتی ہے، علم کی بھی اور اختیارات کی بھی۔ تم ایک دفتر میں چپڑاسی ہو۔ نہ تمھارے پاس دولت ہے، نہ علم اور نہ اختیارات۔ 

خیالوں اور خوابوں کی دنیا سے نکلو اللہ دتہ۔ حقیقت کی دنیا میں ایک حقیقت پسند آدمی کی طرح رہو۔ تم ایک چھوٹے آدمی ہو۔ ایک حقیر آدمی ہو۔ اور حقیر آدمی کی اس دنیا میں عزت نہیں ہوتی۔‘‘

اللہ دتہ یہ جواب سن کر ایک سرد آہ بھرتا ہے اور اپنی آنکھوں سے ڈھلکنے والے پانی کو انگلیوں کی پوروں سے خشک کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے داخل سے نکلتا ہے اور اپنے خارج کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے چودھویں کا چاند چمک رہا ہے لیکن اسے وہ سیاہ دکھائی دے رہا ہے۔

O

ایک دن اللہ دتہ کو معلوم ہوتا ہے کہ دفتر میں ڈائریکٹر جنرل کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ اب وہاں اس عہدے پر عبید اللہ نور آنے والا ہے۔ عبید اللہ نور ..... نئے ڈائریکٹر جنرل کا نام سنتے ہی اللہ دتہ کا چہرہ خوشی سے پھول کی طرح کھل اٹھتا ہے۔ اس کی خوشی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اب اس کی تنخواہ بڑھ جائے گی۔ اس کی خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہو گی۔ اب اس کی عزتِ نفس کو مکھی مچھر کی طرح کچلا نہیں جائے گا۔

 نیا ڈائریکٹر جنرل باصلاحیت نوجوان ہے۔ وہ بڑا دین دار ہے۔ وہ بہت اچھی تقریریں کرتا ہے۔ اللہ دتہ باذوق آدمی ہے۔ اس کے پاس دنیوی ڈگریاں نہیں ہیں لیکن وہ دین کا اچھا فہم رکھتا ہے۔ اس نے بھی عبید اللہ نور کی ایک تقریر سنی ہوئی ہے۔ اس وقت اللہ دتہ کی یادداشت کے پردے پر ایک منظر باربار ابھر رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے:

’’ایک بہت بڑے ہال میں مذہبی سیمینار ہو رہا ہے۔ وہاں عبید اللہ نور تقریر کر رہا ہے:

ہم سب آدم کی اود ہیں۔ ایک ہی شخص کی نسل ہیں۔ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں ..... برہمن اور شودر کی تقسیم بے معنی ہے ..... چودھری اور کمی کمین کا فرقہ بے ہودہ ہے ..... سب انسان برابر ہیں ..... سب انسان یکساں طور پر قابلِ احترام ہیں۔ 

ہمارے ہادیِ اکبر نے کالے پر گورے کی فضیلت کا انکار کر کے انسانی فضیلت کے دنیوی معیارات کو اپنے پیروں تلے روند دیا۔ ہاں، اس نے ایک معیار تسلیم کیا اور وہ ہے تقویٰ۔

 یاد رکھیے، کسی شخص کو اپنے سے حقیر سمجھنا، تکبر ہے۔ اور متکبر کے بارے میں سن لیں کہ وہ ایک نامراد آدمی ہے۔ جس شخص کے اندر رائی کے برابر بھی تکبر ہوا، اس کا جنت میں جانا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا محال ہے۔‘‘

’’اللہ دتہ ..... اللہ دتہ ..... کہاں پہنچے ہوئے ہو ..... یہ فائل اندر صاحب کو دے کر آؤ۔‘‘

اکاؤنٹنٹ کا حکم اللہ دتہ کو ایک خوش گوار یاد سے نکالتا ہے۔

O

رات کا وقت ہے۔ اللہ دتہ اپنے صحن میں چارپائی پر لیٹا ہوا ہے۔ خوشی کی وجہ سے نیند اس سے کوسوں دور ہے۔ وہ اماوس کی رات ہے۔ اللہ دتہ کے خارج میں بہت تاریکی ہے لیکن اس کے داخل میں بہت روشنی ہے۔ وہاں تو چودھویں کی رات ہے۔ وہ چمکتی ہوئی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہے:

’’نئے ڈائریکٹر جنرل عبید اللہ نور نے دفتر کے تمام ملازمین کو اپنے دفتر میں بلایا ہوا ہے۔ وہ خبردار کرنے کے انداز میں بڑی جذباتی گفتگو کر رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے: میں اس دفتر میں دین کے منافی کوئی بات برداشت نہیں کروں گا۔ آج کے بعد کوئی ورکر دوسرے ورکر کو غیر مہذب اسلوب میں نہیں پکارے گا۔ اللہ دتہ صاحب کا دفتری منصب جو بھی ہو وہ عمر میں ہم سب سے بڑے ہیں۔ سب انھیں اللہ دتہ صاحب اور آپ کہہ کر پکاریں۔‘‘

خوش گوار خواب دیکھتے دیکھتے اللہ دتہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ اس رات وہ خواب میں اپنے آپ کو ایک اکڑے ہوئے طرے والی پگڑی پہنے ہوئے بہت خوش دیکھتا ہے۔

O

یہ دوسرے دن کی صبح ہے۔ اللہ دتہ دفتر میں موجود سب سے گھٹیا کرسی یعنی اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ عبید اللہ نور اندر داخل ہوتا ہے۔ سب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ سب سے مسکرا کر ہاتھ ملاتا ہے۔ ہر شخص اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا نام بھی بتاتا ہے۔ اللہ دتہ عبید اللہ نور سے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے بڑی امید اور عقیدت سے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ دیکھتا ہے۔ اسی اثنا میں ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر اختر اپنے کمرے سے نکلتا ہے اور عبید اللہ نور کو بڑے تپاک سے ملتا ہے۔ 

سب کو ملنے کے بعد عبید اللہ نور اپنے کمرے میں جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بیل بجاتا ہے۔ اللہ دتہ فوراً اس کے کمرے میں جاتا ہے۔ عبید اللہ نور اسے کہتا ہے:

’’اللہ دتہ ..... تنویر اختر صاحب کوبلاؤ۔ اور دیکھو تنویر صاحب کے آتے ہی دو کپ چائے لے آنا ..... ٹھیک ہے ..... جاؤ اب۔‘‘

عبید اللہ نور کا طرزِ تخاطب اللہ دتہ پر بجلی بن کر گرتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ یہ ملازمت چھوڑ دے۔ لیکن فوراً اسے اپنے بیوی بچوں کا خیال آتا ہے۔ وہ اپنی یہ خواہش مارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنا لعاب نگلتا ہے۔ سر جھکاتا ہے۔ اور بوجھل قدموں سے چلتا ہوا حکم کی تعمیل کرنے کے لیے کمرے سے چلا جاتا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B