HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

’’مختصر تاریخ خلافتِ اسلامیہ‘‘

مصنف: عبد القدوس ہاشمی 

صفحات: ۲۸۰

ملنے کا پتا: دارالتذکیر، رحمان مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور ۵۴۰۰۰۔ فون ۷۲۳۱۱۱۹ 


زیرِ نظر کتاب کے نام ہی سے واضح ہے کہ اس کا موضوع تاریخ ہے۔ تیرہ سو اکتیس قمری برسوں پر محیط تاریخ جس کا آغاز خلافتِ راشدہ سے ہوا اور جس کا انجام ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال پر ہوا۔ اہلِ مکہ کے مذہبی تشدد کا شکار چند نفوس مدینہ پہنچے۔ ایک ریاست قائم ہوئی، جس کا رقبہ چند میل تک محدود تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریاست پھیلتی چلی گئی اور براعظم ایشیا کی تمام اہم سلطنتیں اس کا حصہ بن گئیں۔ بلکہ براعظم یورپ کے بھی کئی علاقے اس کے زیرِ نگیں آ گئے۔ یہ کتاب اسی ریاست کے آغاز و انجام اور مد و جزر کی کہانی سناتی ہے۔

 اس کتاب کے مصنف کا مقصد محض تاریخ نگاری نہیں بلکہ اس کے پیشِ نظر اپنے قاری کوعظیم خلافتِ اسلامیہ سے متعارف کرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تیرہ سو سال کی کہانی کو دو اڑھائی سو صفحات میں سمو دیا ہے۔ اس اعتبار سے مصنف اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے اس طویل زمانے کے اہم واقعات اور تاریخی دھارے کے بڑے بڑے موڑ سامنے آجاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں عام قاری بڑی بڑی تصنیفات پڑھنے کا وقت نہیں پاتا۔ یہ کتاب اس قاری کے لیے بہت مفید ہے۔  

تاریخ کی کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں، عام طور پر ہر مصنف ایک نقطۂ نظر کے مطابق واقعات کو سامنے لاتا اور اپنے قاری کی ایک رائے بناناچاہتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسی قسم کی ایک کتاب ہے۔ مصنف اسلامی خلافت کے احیا کی شدید تمنا رکھتا ہے اور اپنے قاری کو خلافت اسلامیہ کی عظمت کی بھرپور جھلک دکھانا چاہتا ہے۔ چنانچہ مصنف اسلامی تاریخ کے ہر اس حکمران کا دفاع کرتا ہے، جس کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، یا جس کی خاص مقصد کے تحت کردارکشی کی گئی ہے۔ تصنیف کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے پیش لفظ میں لکھاگیا ہے:

’’میں نے مشہور محقق، مصنف اور مؤتمر العالم اسلامی، مرکزی دفتر کے ڈائریکٹر مونا سید عبدالقدوس ہاشمی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ ایک مختصر سی کتاب خلافت اسمیہ کے تعارف اور تاریخ پر لکھی جائے جو اگرچہ ایک فہرست ہی کی حیثیت رکھتی ہو مگر اس میں خلفاے اسلام کے نام و نشان آجائیں۔ 
شائد اس سے بعض وہ غلط فہمیاں بھی رفع ہو جائیں جو خاص خاص غرض سے تاریخ لکھنے والوں نے پھیلا دی ہیں۔‘‘ (ص: ۱۲)

 مصنف نے مختلف ادوار کو بیان کرنے میں سب سے زیادہ صفحات خلافتِ راشدہ کے لیے مختص کیے ہیں۔ ظاہر ہے خلافتِ اسلامیہ میں خلافت راشدہ کی خاص اہمیت ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ایک شان دار سلطنت کا آغاز ہوا بلکہ یہ دور آنے والے تمام ادوار کے لیے آئیڈیل کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ 

مصنف کا اسلوبِ بیان سادہ ہے اور ایک عام پڑھے لکھے قاری کے لیے یہ ایک موزوں کتاب ہے۔ مصنف نے بہت سی کتب کا مطالعہ کر کے ایک مفید ملخص تیار کیا ہے۔ تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں تمام خلافتوں کی ایک فہرست بھی دے دی ہے۔ جس سے ہر حکمران کا دور اور زمانہ ایک نظر میں سامنے آجاتا ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں ہر دور کی مناسبت سے اگر نقشے بھی شامل کر دیے جاتے تو یہ کتاب زیادہ لائقِ استفادہ ہو جاتی۔ 

اسلامی تاریخ کے بعض واقعات کے بارے میں مصنف نے منفرد آرا ظاہر کی ہیں۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے موقع پر حضرت علی اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کے بیعت نہ کرنے کا واقعہ عام بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن مصنف اس کی بھر پور تردید کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: 

’’بعض جعلی روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر چھ ماہ تک بیعت نہیں کی، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بے جا اور غلط الزام ہے۔ انھوں نے اسی دن حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی، جس دن دوسرے صحابہ نے بیعت کی تھی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے ہی سے حضرت ابوبکر الصدیق  کی امامت میں نمازیں ادا کرتے تھے، وہ بیعت سے انکار کیوں کرتے۔ بعض فسانہ گویوں نے یہ افسانہ بھی تراشا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ الخزرجی انصاری نے کبھی بیعت ہی نہیں کی اور چھ ماہ کے بعد وفات پاگئے۔ یہ محض افسانہ ہے، حضرت سعد نے وہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کرلی تھی۔ لیکن چونکہ وہ بیمار تھے۔ اور اسی بیماری میں وفات پاگئے، اسی لیے ان کا ذکر عہدِ صدیقی میں نہیں ملتا۔ وہ بیماری ہی میں مدینہ کے ایک قریبی گاؤں میں بغرض صحت چلے گئے تھے، جہاں چند دنوں میں ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘ (ص ۵۱)

 البتہ خلافت راشدہ میں خود خلیفہ کا انتخاب کس طرح ہوتا تھا اس کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر روایتی ہے۔

 مصنف نے بعض مقامات پر خلفا کی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کردار نگاری بھی کی ہے۔ مثلاً حضرت عمر کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں صحابہ کو ہجرت کر کے مدینہ جانے کی اجازت فرمائی تو مکہ مکرمہ سے صحابہ چھپ چھپا کر مدینہ منورہ جانے لگے۔ کفار روکتے اور ستاتے تھے اس لیے لوگ چھپ کر مکہ مکرمہ سے نکل جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر کی ہجرت سے چند یوم قبل حضرت عمر نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ لیکن فاروقی جلالت سے یہ بعید تھا کہ وہ چھپ کر مکہ سے نکلتے۔ انھوں نے اس شان سے ہجرت فرمائی کہ ہتھیار بدن پر سجا کر کعبہ کے پاس آئے۔ کعبہ کا طواف کیا۔ مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد قریش کے عمائد کو جو وہاں موجود تھے، فرمایا: ’’میں یہاں سے ہجرت کر کے حسب حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) جارہا ہوں۔ جو چاہتا ہو کہ اس کی ماں روئے، اس کی بیوی بیوہ ہو جائے اور بچے یتیم ہو جائیں وہ مجھ کو آکر روکے۔ ‘‘
سارے کفار دم بخود بیٹھے رہے، نہ کوئی اٹھا اور نہ کوئی کچھ بولا۔‘‘ (ص ۷۶)

 خلافت راشدہ کے ضمن میں مصنف نے ان کے طرزِحکومت اور نظام حکومت کو بطور خاص موضوع بنایا ہے۔

خلافت راشدہ کے دور کی تعیین میں بھی مصنف کا نقطۂ نظر عام مورخین سے مختلف ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...چھ بزرگ یعنی ابوبکر صدیق اکبر، حضرت عمرِ فاروق، حضرت عثمان ذی النورین، حضرت علی المرتضی، حضرت حسن بن علی اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ کبار تھے۔ انھیں خلفاے راشدین کہا جاتا ہے اور ان کی خلافت کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ یہ سلسلہ ۱۱ ہجری سے ۶۰ ہجری یعنی حضرت صدیق اکبر کی خلافت سے شروع ہو کر حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی وفات تک شمار ہوتا ہے۔ 
بنی عباس کے عہد میں بعض سیاسی وجوہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروان ثانی تک کے خلفا کو خلفاے بنو امیہ کہا گیا اور ان کے عہد کو خلافت بنی امیہ کا نام دیا گیا۔ یہی اموی خلافت کا دور کہلاتا ہے۔ اس طرح خلافت راشدہ کے عہد کو حضرت علی رضی اللہ عنہ تک محدود کر دیا گیا۔ بنو عباس کے عہد میں جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں سے اکثر میں عہدِ خلافت کی تقسیم اسی طرح ہوئی اور یہی اب تک رائج ہے۔‘‘ (ص ۴ ۲- ۲۵)

 خلافت راشدہ کے باب میں بعض معلومات بڑی حیرت انگیز ہیں۔ مثلاً مصنف یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ نہرِسویز کا تصورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی سامنے آیااور اس کی کھدائی کا کام بھی کیا گیا۔ (ص ۸۵) اسی طرح انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایران وغیرہ میں عربی رسم الخط خلافت راشدہ ہی کے زمانے میں رائج ہونا شروع ہو گیا تھا۔ (ص ۹۹)

 اموی دور کا ایک اہم واقعہ سانحۂ کربلا ہے۔ مصنف نے اس واقعے کو بیان کرنے میں بھی انفرادی رنگ اپنایا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’۱ ۵ ہجری میں حضرت معاویہ نے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تھا اور اس کے بموجب ۲۲ رجب ۶۰ ہجری کو ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت ہوئی، ساری دنیاے اسلام میں صرف دو اشخاص نے ان کی خلافت کو قبول کرنے سے اختلاف کیا اور آخر دم تک اپنے اختلاف پر قائم رہے۔ ان دو حضرات میں سے ایک حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ تھے، جنھوں نے ۶۱ ہجری میں عراق پر قبضہ کرنے کی جدوجہد کی اور مقام الطف پر (کربلا) میں بتاریخ یکم محرم (مطابق ۱۰ اکتوبر ۶۸۰) اپنے ۱۶ ساتھیوں کے ساتھ قتل کر دیے گئے۔ دوسرے شخص حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے...۔‘‘ (ص ۱۱۵)

یہ انفرادی آرا قاری کی فکرِ رسا کو آواز دیتی ہیں۔ کتاب کا حجم قاری میں پڑھنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ ان خصوصیات کے باعث یہ کتاب عام آدمی کی لائبریری کا ضروری حصہ معلوم ہوتی ہے۔  

___________

B