HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

متفرق خطوط

محترم مدیرِ ’’اشراق‘‘

السلام علیکم،

’’اشراق‘‘ فروری ۱۹۹۹ میں ڈاکٹر آغا طارق سجاد صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے حکیم محمد سعید مرحوم و مغفور اور جناب صلاح الدین مرحوم کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔  

حکیم محمد سعید کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ انھوں نے طبی خدمات کے علاوہ کوئی دینی یا علمی خدمت انجام نہیں دی۔ حکیم محمد سعید کے قتل پر اخبارات و رسائل میں جو مضامین و خیالات شائع ہوئے ہیں اگر ڈاکٹر صاحب نے ان کا مطالعہ کیا ہوتا تو میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کبھی یہ اعتراض نہ کرتے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر طارق صاحب کے نزدیک علمی و دینی خدمات کا کیا معیار ہے ۔ حکیم محمد سعید صاحب نے ایک طرف خود چار پانچ کتابیں سیرتِ نبوی اور دینی موضوعات پرلکھی ہیں جو ادارہ ’’ہمدرد‘‘ نے شائع کیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ مدینہ الحکمت قائم کی۔ انٹرنیشنل قرآن کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ابن الہیثم کانفرنس، البیرونی کانفرنس وغیرہ منعقد کیں۔ کیا یہ علمی خدمات نہیں ہیں۔ ڈاکٹر آغا طارق حکیم محمد سعید کی دینی و علمی خدمات کا اگر اعتراف نہ کریں تو حکیم صاحب کی شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جس طرح سورج چاند اور ستارے روشن ہیں اسی طرح حکیم محمد سعید صاحب کی خدمات روشن ہیں ۔

 جناب محمد صلاح الدین مرحوم کے بارے میں ڈاکٹر طارق صاحب نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس پر میں کسی قسم کا تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

 والسلام  

عبدالرشید عراقی  

گوجرانوالہ  

ـــــــــــــــــ

جناب مدیرِ ’’اشراق‘‘

السلام علیکم،

آپ نے ڈاکٹر آغا طارق صاحب کا خط چھاپا ہے۔ مجھے یہ خط پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی ہے۔

 آغاطارق صاحب نے حکیم سعید صاحب کی وفات پر لکھے گئے مضمون کو آڑ بنایا ہے اور اصلاً مدیرِ ’’تکبیر‘‘ کے حوالے سے اپنے جذبات ظاہر کیے ہیں۔ مدیرِ ’’تکبیر‘‘ چار سال پہلے فوت ہوئے تھے لیکن ان کو چار سال بعد یہ خیال آیا کہ ’’اشراق‘‘ میں ان کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا وہ درست نہیں تھا ۔ 

پھر ڈاکٹر صاحب نے آخر میں جو کچھ لکھا ہے وہ بھی حد سے تجاوز ہے۔ مدیرِ ’’تکبیر‘‘ کے بارے میں ان کی رائے جو بھی ہو انھیں چاہیے تھا کہ وہ ’’اشراق‘‘ کے اخلاقی معیار کو پیشِ نظر رکھتے ۔ 

خیر اندیش  

ڈاکٹر ظفر اعجاز  

ڈیرہ غازی خان 

ـــــــــــــــــ

محترم مدیرِ ’’اشراق‘‘

السلام علیکم،

’’اشراق‘‘ فروری ۱۹۹۹ میں شائع شدہ ڈاکٹر آغا طارق صاحب کے خط کے حوالے سے عرض ہے کہ ’’اشراق‘‘ تحقیقی اور علمی کاوشوں پر مبنی ایک ایسا جریدہ ہے جو دینِ اسلام کے شعوری فکر کا احاطہ کرنے اور اس کی اشاعت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ یہی اس کی شناخت اور وجۂ توقیر بھی ہے۔ چنانچہ اس میں جو تحریریں بھی شامل کی جائیں ان کا تعلق لازماً اس بنیادی فریضہ سے ہونا چاہیے۔ 

اس کے برعکس زیرِ نظر تحریر ایک ایسے مسئلے سے متعلق ہے جو اگرچہ صحیح بھی ہو تب بھی اس کا تعلق کسی طرح بھی اس جریدے کے بنیادی مشن سے نہیں ہے۔  

لہٰذا (اس کے مندرجات کی صحت یا عدم صحت پر خیال آرائی کیے بغیر) زیادہ سود مند یہ ہو گا کہ اس طرح کی بحثوں کو نہ توخود چھیڑا جائے اور نہ ہی ان کو آگے بڑھانے کے لیے صلاے عام دی جائے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی شخصیات جو عوامی اور سیاسی پس منظر کی حامل ہوتی ہیں ان کو پسند کرنے اور ناپسند کرنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اور ہر ایک کے پاس اس پسند و ناپسند کا اپنا اپنا جواز موجود ہوتا ہے جس کو بدلنے کی کوشش کرنے کا بالعموم کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لیے ایسے جریدے میں صفحات مختص کرنے چاہییں کیونکہ اس طرح کوئی بھی اہتمام ایک کبھی نہ ختم ہونے والی اور لاحاصل بحث کو جنم دے سکتا ہے جس میں الجھ کر خواہ نادانستہ ہی سہی آپ اپنے مشن کی اصل کو متاثر کر بیٹھیں گے۔ الاّ یہ کہ آپ کسی ایسی شخصیت کو زیرِبحث لائیں جس کا زیرِبحث لانا آپ کے کاز کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہو۔  

کیا آپ اس کی تائید کریں گے کہ فزکس یا کیمسٹری کی تحقیقات پر مبنی کسی جریدہ میں حکیم محمد سعید یا محمد صلاح الدین کی طرح کی اختلافی شخصیات کے تجزیے پیش کیے جائیں اور ان کو موضوعِ بحث بنایا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے جرائد میں جو کسی بھی نوع کے تحقیقی کام کا بار اٹھائے ہوئے ہیں اس طرح کے تذکرے غیرمتعلق ہی کہلائیں گے اور بے مقصد اور لاحاصل مباحث کو جنم دیں گے۔ البتہ اس طرح کی مشق کے لیے سیاسی یا نیم سیاسی اخبارات و رسائل وافر تعداد میں دستیاب ہیں۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے انھیں استعمال کرنا بدرجہا بہتر ہو گا۔

 خیر اندیش  

مشتاق احمد  

لاہور  

ـــــــــــــــــ

 محترم معز بھائی 

السلام علیکم 

الجماعة‘ کے بارے میں آپ کا تحقیقی مضمون مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا۔ یہ مضمون اس قابل ہے کہ علیحدہ سے شائع ہو۔ دسمبر کے ’’اشراق‘‘ میں بلاشبہ، رمضان کے حوالے سے بہت عمدہ مضامین شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے اور ہم سب کے لیے ذریعۂ نجات بنائے۔ آمین!

اپنے پچھلے خط میں ’’اشراق‘‘ کے حوالے سے ایک بات تو میں نے یہ عرض کی تھی کہ یہ علمی پرچہ بن چکا ہے۔ الحمد للہ اس اعتبار سے بتدریج ’’اشراق‘‘ میں بڑی’ Improvement‘ ہوئی ہے اور علمی پہلو کم ہوئے بغیر دعوتی اسلوب جو نہ صرف موثر ہے بلکہ عام قارئین کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہے، بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم اُس خط میں میں نے یہ چیز بھی ’Point out‘ کی تھی کہ پاکستان میں دعوت کے کام کے لیے کھڑے ہونے والے کسی شخص، گروہ یا ادارے کے لیے لازم ہے کہ وہ لوگوں کو مایوسی کے اس بھنور سے نکالے جس میں پھنسنے والی کوئی قوم اعلیٰ انسانی خصلتوں کے اعتبار سے مردہ ہو جاتی ہے۔ ایسی کسی قوم میں میرے ناقص مطالعے اور فہم کی روشنی میں بڑے سے بڑا فرد اور بڑی سی بڑی دعوت پیدا ہو جائے، تب بھی وہ صفحۂ تاریخ پر کوئی روشن کارنامہ رقم کرنے کے قابل نہیں ہو پاتی۔ میری قوم میں ابھی تک بڑا صبر ہے۔ لیکن اگر یہی مایوسی پھیلانے والے خودغرض قائدین اور نام نہاد دانش ور اور دین کی سمجھ سے عاری مصلحین قوم کے اعصاب پر سوار رہے تو پھر آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ کسی درخت کی کھوہ میں پناہ ڈھونڈیں ۔ 

میں نے اس ضمن میں مولاناوحید الدین خان کے ماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ کا حوالہ دیا تھا مگر جواب میں آپ نے فرمایا کہ آپ ’’الرسالہ‘‘ کے انداز میں اپنا پرچہ نہیں نکال سکتے۔ میری مراد ’’الرسالہ‘‘ سے اس کی دعوت تھی جو امید کا سبق دیتی تھی۔ میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ کئی سال تک میں ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کا قاری رہا ہوں مگر ’’تکبیر‘‘ پڑھ کر ہمیشہ ذہنی جھنجلاہٹ اور انتشار ہی میں مبتلا ہوا۔ سازشوں کے تذکرے، مسائل کے انبوہ، اغیار کی دشمنی اور اپنوں کی بے حسی، ان سب کو پڑھ پڑھ کر میں اس کے بعد کیا کرسکتا تھا کہ دوسرے لوگوں سے ان کا تذکرہ کر کے اپنی بھڑاس نکالوں، قوم و ملت کے مستقبل سے مایوس ہو کرایک خود غرض انسان بن جاؤں جسے اپنے کیرئیر، جاب اور مستقبل کے سوا کسی چیز کی فکر نہ ہو۔ میں ایک ایسا منافق بن جاؤں جو ہرمحفل میں امت کی بربادی کے تو مرثیے پڑھے مگر عین اس وقت اپنے مسقبل کی شان دار عمارت کی تعمیر پر پوری توانائی خرچ کر رہا ہو۔ معز بھائی میں عرض کرتا ہوں اور سچ عرض کرتا ہوں اس سوچ کے حاملین یہی کام کرتے ہیں۔  

ہمیں چاہیے کہ ہم لوگ اپنی قوم کو یاس و حرمان کی موجودہ کیفیت سے نکالنے کی کوشش کریں۔ مایوسی وہ مرض ہے جو انسان اور پوری سوسائٹی میں بدترین اخلاقیات پیدا کر دیتا ہے۔ مایوسی انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔ یہ انسان سے قربانی و ایثار کا جذبہ چھین لیتی ہے۔ یہ فرد کو معاشرے کے لیے ضرر رساں بناتی ہے۔ انسانوں سے عملیت چھین لیتی ہے۔ باہمی بغض و عناد پیدا کرتی ہے۔ غرض وہ ساری خامیاں جو قوموں کو تباہ کر دیتی ہیں مایوسی کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہیں۔  

مجھے امید ہے کہ آپ میری ان گزارشات پر توجہ فرمائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پوری قوت و طاقت، علمی زور و استدلال اور نصیحت و خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے تو اصلاح کا بہت کچھ امکان ابھی باقی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم قوم میں ان بلند مقاصد کا شعور پیدا کریں جس کا تعین قرآن نے ہمارے لیے کیا ہے۔

 اس ضمن میں مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں:

’’یاد رکھیے، ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم ایک بامقصد قوم تیار کریں، ہمیں قوم کے افرادکو وہ تعلیم دینی ہے جس سے وہ ماضی و حال کو پہچانیں۔ ان کے اندر وہ شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہونا جانیں۔ ان کے اندر وہ حوصلہ ابھارنا ہے کہ وہ شخصی مفاد اور وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر قربانی دے سکیں۔ یہ سارے کام جب قابلِ لحاظ حد تک ہو چکے ہوں گے اس کے بعد ہی کوئی ایسا اقدام کیا جا سکتا ہے جو فی الواقع ہمارے لیے کوئی نئی تاریخ پیدا کرنے والا ہو۔ اس سے پہلے اقدام کرنا صرف موت کی خندق میں چھلانگ لگانا ہے نہ کہ زندگی کے چمنستان میں داخل ہونا۔‘‘ (رازِ حیات ص ۱۹)

 اس ضمن میں، میں اپنا تجربہ بھی عرض کر دوں۔ مختلف اسباب کی بنا پر میرے دل میں شرعی قوانین کی کوئی خاص قدر نہ تھی۔ مگر اس رمضان میں نظمِ قرآن کو مدنظر رکھ کر جب قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ خدا شریعت کو کتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ مگر اسی مطالعہ میں مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ شریعت کی یہ شان دار عمارت تقویٰ کی بنیادوں ہی پر قائم ہو سکتی ہے۔ اس کے بغیر شریعت کی بات کرنا قرآن سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ خدا کا خوف اور خدا سے مایوسی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے اور یقیناً خدا نے کسی بشر کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ۔ 

آخر میں آپ کی خدمت میں ملاحظے کے طور پر دو دعائیں پیش کر رہا ہوں۔ پہلی دعا ایک اعرابی کی ہے جو اس نے دورانِ طواف میں پڑھی تھی:

اللھم قد اطعنا فی احب الاشیاء الیک شھادة ان لا اله الا انت وحدک لا شریک لک ولم نعص فی البعض الاشیاء الیک الشرک بک. فاغفر اللھم ما بین ذلک.
’’اے اللہ ہم نے تیری سب سے پسندیدہ چیز، یعنی تیرے سوا کوئی الہٰ نہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں تیری فرماں برداری کی اور تیری سب سے ناپسندیدہ چیز، یعنی شرک، میں تیری نافرمانی نہیں کی۔ اے اللہ، ان کے درمیان جو کچھ ہوا اسے معاف کر دے۔‘‘

دوسری دعا اموی خلیفہ غالباً ہشام بن عبد الملک کی ہے جو اس نے دوران خطبہ میں مانگی تھی اور بے اختیار رونے لگا تھا۔ اس وقت اس کا متن مجھے یاد نہیں۔ البتہ ترجمہ کچھ اس طرح ہے:

’’میرے مالک میرے گناہ بہت بڑے ہیں لیکن تیری رحمت میرے گناہوں سے بڑھ کر ہے۔ تو بس اپنی بہت بڑی رحمت کے چھوٹے سے حصے سے میرے بڑے بڑے گناہوں کو معاف کر دے۔‘‘

فروری کے ’’اشراق‘‘ میں ڈاکٹر آغا طارق کی صلاح الدین صاحب اور حکیم سعید پر تنقید پڑھی۔ تفصیلی تبصرہ کا تو موقع نہیں مگر میری وہ قوم جو اپنی ذات سے بلند لوگ پیدا کرنے کے معاملے میں دن بدن بنجر ہوتی جارہی ہے اس کے بڑے لوگوں پر ایسی یک طرفہ تنقید اس کی اعتباریت اور خود اعتمادی بالکل ختم کر دے گی۔ اختلاف ہرشخص سے ہو سکتا ہے۔ مگر اسے شیطان قرار دینا مناسب نہیں۔ انسان فرشتہ اور شیطان کے درمیان کی مخلوق ہے، اسے وہیں رہنے دیں۔ 

دعاؤں کا طالب  

ریحان احمد  

سعودی عرب  

ـــــــــــــــــــــــــ

B