HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

اصول و مبادی (۱۰)

میزان


مبادیِ تدبر ِ قرآن


۳۔ سورۂ نساء کی آیات ۱۱- ۱۲ میں تقسیم ِ وراثت کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے جہاں مختلف وارثوں کے حصے بیان فرمائے ہیں، وہاں یہ بات بھی نہایت لطیف طریقے سے واضح کر دی ہے کہ وراثت کا حق جس بنیاد پر قائم ہوتا ہے، وہ قرابتِ نافعہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:


اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْﵐ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًاﵧ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا . (۴: ۱۱)
’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے والدین اور تمھاری اولاد میں سے کون بہ لحاظِ منفعت تم سے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کا ٹھیرایا ہوا فریضہ ہے۔ بے شک، اللہ علیم و حکیم ہے ۔‘‘

والدین، اولاد، بھائی بہن، میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیرائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجائے سراسر اذیت بن جائے تو حکم کی یہ علت تقاضا کرتی ہے کہ اسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔ یہ استثنا اگر غور کیجیے تو کہیں باہر سے آ کر اس حکم میں داخل نہیں ہوا، اس کی ابتدا ہی سے اس کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا قرآن کا کوئی عالم اگر اسے بیان کرتا ہے تو یہ ہرگز کوئی تغیر و تبدل نہیں ہے، بلکہ ٹھیک اس مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے پیشِ نظر جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا:

لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم.(بخاری، کتاب الفرائض)
’’ نہ مسلمان ان میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔‘‘

یعنی اتمامِ حجت کے بعد جب یہ منکرینِ حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آ گئے ہیں تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے۔

۴۔ سورۂ مائدہ کی آیات ۳۳- ۳۴ میں اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے مجرموں کی یہ سزا بیان کی ہے کہ انھیں بدترین طریقے سے قتل بھی کیا جا سکتا ہے، سولی بھی دی جا سکتی ہے، ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹے بھی جا سکتے ہیں اور انھیں جلا وطن بھی کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا اطلاق اپنے زمانے میں زنا کے بعض عادی مجرموں پر کیا اور فرمایا:


خذوا عنی، خذوا عنی، قد جعل اللّٰه لھن سبیلاً. البکر بالبکر جلد مائة ونفی سنة والثیب بالثیب جلد مائة والرجم.(مسلم، کتاب الحدود)
’’مجھ سے لو، مجھ سے لو، زنا کی ان عادی عورتوں کے بارے میں اللہ نے جو راہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا، وہ اس نے نکال دی۔ اس طرح کے مجرم اگر کنوارے یا الھڑ ہوں تو ان کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے اور رنڈوے یا شادی شدہ ہوں تو سو کوڑے اور سنگ ساری ہے۔ ‘‘

آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ عورتیں چونکہ محض زنا ہی کی مجرم نہیں ہیں، بلکہ اس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں، اس لیے ان میں سے جو اپنے حالات کے لحاظ سے رعایت کی مستحق ہیں، انھیں زنا کے جرم میں سورۂ نور کی آیت ۲ کے تحت سو کوڑے اور معاشرے کو ان کے شروفساد سے بچانے کے لیے ان کی اوباشی کی پاداش میں مائدہ کی آیت ۳۳ کے تحت نفی، یعنی جلاوطنی کی سزا دی جائے۔ اسی طرح جنھیں کوئی رعایت دینا ممکن نہیں ہے، وہ اس آیت کے حکم ’

ان یقتلوا‘ کے تحت رجم ۲۶؎ کر دی جائیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی قرآن کے مدعا میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں کرتا۔

۵۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حرام ٹھیرائی ہیں، اُن میں سے ایک ’میتة‘ یعنی مردار بھی ہے۔ عربی زبان کے اسالیب سے واقف ہرشخص جانتا ہے کہ اس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے اور یہ عرف و عادت کی رعایت سے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں یہ ہر اُس چیز کے لیے مستعمل ہے جس پر موت وارد ہو گئی ہو لیکن دوسری صورت میں عربیت سے آشنا کوئی شخص اسے مثال کے طور پر مردہ ٹڈی یا مردہ مچھلی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر فرمایا ہے:

احلت لکم میتتان ودمان، فاما المیتتان فالحوت والجراد واما الدمان فالکبد والطحال.۲۷؎ (ابنِ ماجہ، کتاب الاطعمہ)
’’ تمھارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں: مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون جگر اور تلی ہیں۔‘‘ 

امام اللغتہ زمخشری لکھتے ہیں:

فان قلت: فی المیتات ما یحل وھو السمک والجراد وقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: احلت لنا میتتان ودمان، قلت: قصد ما یتفاھمه الناس ویتعارفونه فی العادة، الا تری ان القائل اذا قال: اکل فلان میتة، لم یسبق الوھم الی السمک والجراد کما لو قال: اکل دماً، لم یسبق الی الکبد والطحال، ولاعتبار العادة والتعارف قالوا من حلف لایاکل لحما فاکل سمکا لم یحنث وان اکل لحما فی الحقیقة. (الکشاف، ج ۱، ص ۲۱۵ )
’’ پھر اگر تم سوال کرو گے کہ مری ہوئی چیزوں میں سے تو کچھ ہمارے لیے حلال بھی ہیں، جیسے مچھلی اور ٹڈی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال کیے گئے تو ہم جواب میں کہیں گے: قرآن میں لفظ ’میتة‘عرف و عادت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب کوئی کہنے والا کہتا ہے: فلاں نے مردار کھایا، تو ہمارا خیال کبھی مچھلی یا ٹڈی کی طرف نہیں جاتا، جس طرح اگر اس نے کہا ہوتا: فلاں شخص نے خون پیا، تو ذہن کبھی جگر اور تلی کی طرف منتقل نہ ہوتا۔ چنانچہ عرف و عادت ہی کی بنا پر فقہا نے کہا ہے کہ جس نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا، پھر اس نے مچھلی کھا لی تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، دراں حالیکہ اس نے فی الحقیقت گوشت ہی کھایا ہے ۔‘‘

۶۔ چوری کی سزا قرآنِ مجید کی سورۂ مائدہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے:


وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْ٘ا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۣ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِﵧ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ .
(۵: ۳۸)
’’ اور چور خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اُن کے عمل کی پاداش اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔‘‘ 

اس سے واضح ہے کہ یہ سزا چور مرد اور چور عورت کے لیے ہے۔ قرآن نے اس کے لیے ’سارق‘ اور ’سارقة‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیںز عربی زبان کا ہر عالم جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوعِ فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں، لہٰذا ان کا اطلاق فعلِ سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے۔ چنانچہ کوئی بچہ اگر اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یاکسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتا ہے یا بغیر کسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتا ہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یا بھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک، یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور ان پر اسے تادیب و تنبیہ بھی ہونی چاہیے، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے۔  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن کے اسی مدعا کا بیان ہے:

لا قطع فی ثمر معلق ولا فی حریسة جبل فاذا اواہ المراح اوالجرین فالقطع فیما یبلغ ثمن المجن.(مؤطا، کتاب الحدود)
’’میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا بکری پہاڑ پر چرتی ہو اور کوئی اسے چرا لے تو اس میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ اگر وہ کھلیان میں آ جائے اور وہ باڑے میں پہنچ جائے تو ہاتھ کاٹا جائے، بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔‘‘

 اس میں بھی دیکھ لیجیے، شرح و بیان کے حدود سے سرِمو کوئی انحراف نہیں ہوا۔

 (باقی)

ـــــــــــــــــــــــــ

۲۶؎ روایت میں اس کے ساتھ سو کوڑے کی سزا کا ذکر بھی ہوا ہے، لیکن یہ محض قانون کی وضاحت کے لیے ہے۔ موت کے ساتھ کوئی دوسری سزا اگر ہو تو اسے قانون، فیصلے یا حکم میں بیان تو کیا جاتا ہے لیکن عملاً کبھی نافذ نہیں کیا جاتا۔  

۲۷؎ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہاتِ کتب، بخاری ومسلم اور موطا امام مالک میں اس طرح نہیں آئی لیکن اس کا مضمون اصلاً ان کتابوں میں بھی موجود ہے۔  

B