HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

عورتوں کو نصیحت

 (مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۱۹)


وعن ابی سعید الخدری قال: خرج رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فی اضحی او فطر الی المصلی. فمر علی النساء. فقال: تصدقن. فانی اریتکن اکثر اھل النار. فقلن: وبم یا رسول اللّٰه؟ قال: تکثرن اللعن و تکفرن العشیر. مارایت من ناقصات عقل و دین اذھب للب الرجل الحازم من احداکن. قلن: مانقصان دیننا و عقلنا یا رسول اللّٰه؟ قال الیس شہادة المرأة مثل نصف شہادة الرجل؟ قلن: بلی. قال: فذلک من نقصان عقلھا. قال: الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن: بلی. قال: فذلک من نقصان دینھا.

لغوی بحث

اریتکن‘: مجھے تم دکھائی گئی ہو۔ اس جملے میں اس فعل کے تین مفعول ہیں ایک ضمیرمتکلم، دوسرے ضمیر مخاطب مؤنث اور تیسرے ’اکثر اھل النار‘: دوزخ والوں میں زیادہ، پوری ترکیب اس طرح ہے: ’اکثر من اھل النار من الرجال‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مردوں سے زیادہ عورتیں جہنم میں دکھائی گئیں۔

بم‘: یہ اصل میں ’بما‘ ہے جس کا الف تخفیف کی خاطر حذف کر دیا جاتا ہے۔ ’ما‘ استفہامیہ ہے اور ’ب‘ سبب کے معنی میں ہے۔

اللعن‘: اس کا اصل مفہوم کسی فرد کا خدا کی ناراضی کی وجہ سے اس کی رحمت سے محروم ہونا ہے۔ اسی مفہوم میں یہ بد دعا کے موقع پر بولا جاتا ہے۔

العشیر‘: لفظی معنی تو ساتھ رہنے والے کے ہیں، لیکن یہ شوہر کے لیے خاص ہو گیا ہے۔

من ناقصات عقل و دین‘: یہاں ’من‘ بیان کے لیے ہے۔ گویا جار مجرور صفت ہیں اور موصوف محذوف ہے۔ ’ناقصات‘ کے معنی کمی والیاں ہیں۔

اذھب‘: ’ذھب‘ سے افعل کے وزن پر صفت ہے۔ یہاں یہ زائل کر دینے والے کے معنی میں ہے۔

فذلک‘: اس میں کاف پر زبر بھی پڑھی جا سکتی ہے اور زیر بھی۔ زبر تعمیم کے موقع کی مناسبت سے درست ہے اور زیر مخاطب کی رعایت کے مطابق۔

ترجمہ 

’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدِ اضحیٰ یا عیدِ فطر کے موقع پر عید گاہ کی طرف نکلے۔ (اس موقع پر) آپ عورتوں کے پاس سے بھی گزرے۔ آپ نے فرمایا: اے عورتو، خیرات کیا کرو۔ کیونکہ مجھے جہنم میں تمھیں (یعنی عورتوں کو) زیادہ دکھایا گیا ہے۔ عورتوں نے پوچھا: یا رسول اللہ اس کا سبب کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا: تم بہت لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی عقل و دین میں کم بھی ہو اور تم میں سے کسی ایک کی طرح اچھے خاصے بردبار آدمی کی مت بھی مار دے۔ اس پر عورتوں نے وضاحت چاہی کہ اے اللہ کے رسول، یہ عقل اور دین کی کمی سے آپ کی مراد کیا ہے۔ آپ نے (سمجھانے کے لیے عورتوں سے) پوچھا: کیا ایک عورت کی گواہی ایک مر د کی گواہی کے نصف کے برابر نہیں ہے ؟ عورتوں نے جواب دیا: جی، ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ تمھاری عقل کی کمی کے سبب سے ہے۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا ایسا نہیں ہے کہ جب کوئی عورت حائضہ ہوتی ہے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے ؟ عورتوں نے اس پر بھی وہی جواب دیا: جی ایسا ہی ہے۔ آپ نے کہا: یہ تمھارے دین میں کمی کے سبب سے ہے۔‘‘

متون 

ایک روایت میں یہ بھی تصریح ہے کہ عورتوں کو نصیحت کرنے سے پہلے آپ نے جو عید کا خطبہ دیا تھا اس میں بھی بنیادی موضوع کی حیثیت انفاق ہی کو حاصل تھی۔ اس طرح کچھ روایات میں بیان ہوا ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجۂ محترمہ نے حضور کی نصیحت سے متاثر ہو کر اپنا زیور خیرات کرنے کا فیصلہ کیا تو ابنِ مسعود نے اس کا سب سے زیادہ مستحق ان کے بیٹے کو قرار دیا۔ ان کی اہلیہ اس بات پرمطمئن نہیں ہوئیں اور حضور کے گھر جا کر ان کی رائے دریافت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ مسعود کی رائے کو درست قرار دیا۔ سب سے حیرت انگیز فرق دارمی کی روایت میں ہے۔ اس میں یہ تصریح ہے کہ عورتوں کی کمی والی بات حضور نے نہیں خود ابنِ مسعود نے کہی تھی۔ 

ان کے علاوہ لفظی فرق بھی ہیں۔ مثلاً ’للب‘ کے بجائے ’لذی لب یا لذوی الالباب ولذوی الرای‘ بھی آیا ہے۔ اسی طرح ’تکثرن اللعن‘ کی جگہ ’کثرة لعنکن‘ اور ’شہادة المراة نصف شہادة الرجل‘ کے بدلے میں ’شہادة امراتین تعدل شہادة رجل‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ مزید برآں ایک روایت میں سوال کرنیوالی عورت پر ’فقالت امراة منہن جزلة یا لیست من علیة النساء‘ کے الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں یہ اضافہ بھی روایت ہوا ہے کہ حضور نے عورتوں کو خیرات کی تلقین کرتے ہوئے ’تصدقن‘ کے ساتھ ’ولومن حلیکن‘ یا ’فتقربن الی اللّٰه ما استطعتن‘ کے الفاظ بھی بولے تھے۔

معنی 

ا س روایت میں تین باتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک یہ کہ لعن طعن اور ناشکر گزاری کے رویے سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس طر ح کا رویہ اختیار کرنے والا جہنم میں چلا جائے۔ اس روایت میں اگرچہ عورتیں مخاطب ہیں لیکن یہ رویہ اگر مردوں میں بھی ہو تو ان کی نیکیاں بھی برباد ہو جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ صدقات یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان کی برائیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ زیرِ بحث رویہ در حقیقت دنیا سے لگاؤ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور خدا کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے سے دنیا کی محبت میں کمی آتی اور آخرت اور خدا سے تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیسری بات ذرا بحث طلب ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے۔ روایت میں جو دو مثالیں دی گئی ہیں، ان کا تعلق عورت کی صلاحیت سے نہیں ہے۔ حیض کی حالت میں نمازنہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے کی وجہ ایک عارضی اور فطری معذوری ہے۔ اسی طرح گواہی میں دوسری عورت کا ساتھ نفسیاتی سہارے کے لیے ہے جس کا سبب عورتوں کا عمومی دائرۂ عمل اور ماحول ہے نہ کہ کسی صلاحیت کی کمی۔ 

اصلاً جس چیز کی نشان دہی کی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے عورت ہونے کی وجہ سے کچھ مسائل پیش آتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ مرد کو الجھا لیتی ہیں۔ 

مزید یہ کہ اگر دارمی کی تصریح درست ہے تو پھر یہ محض ایک صحابی کا ذاتی نقطۂ نظر ہے۔ 

قرآن سے تعلق 

بنیادی طور پر اس روایت کا موضوع صدقہ و خیرات سے اپنے گناہوں کی تلافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات قرآن مجید میں بیان کردہ ایک اصول پر مبنی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ.(ہود ۱۱: ۱۱۴)
’’بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں۔‘‘

 کتابیات:

بخاری، کتاب الحیض، باب ۶، کتاب الزکوٰۃ، باب ۴۴، کتاب الصوم، باب ۴۰، کتاب الشہادات، باب ۱۲۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۳۴، ترمذی، کتاب الایمان، باب ۳۴، ابنِ ماجہ، کتاب الفتن، باب ۱۹۔ دارمی، کتاب الطہارہ، باب ۱۰۳ اور مسند احمد، عن عبداللہ بن مسعود، عن عبداللہ بن عمر۔

___________

B