بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ٢١ﶫ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءًﵣوَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْﵐ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٢
(اِن۳۸؎ کے پیچھے لگ کر تم اپنے آپ کو برباد کیوں کرتے ہو)، اے لوگو، تم اپنے اُس پروردگار کی بندگی کرو۳۹؎ جس نے تم کو پیدا کیا ہے اور تم سے پہلوں کو بھی۔۴۰؎ یہی صورت ہے جس سے تم (اُس کے عذاب سے) بچنے کی توقع کر سکتے ہو۔۴۱؎ (وہی) جس نے تمھارے لیے زمین کوبچھونا اورآسمان کوچھت بنایاہے اوراِسی آسمان سے پانی اتارا ہے، پھر اُس سے تمھاری روزی کے لیے طرح طرح کے میوے پیدا کر دیے ہیں۔ اِس لیے تم اللہ کے ہم سر نہ ٹھیراؤ، دراں حالیکہ تم (اِن سب باتوں کو۴۲؎) جانتے ہو۔۴۳؎ ۲۱- ۲۲
وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖﵣ وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٣ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُﵗ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ٢٤ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُﵧ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاﶈ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُوَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاﵧ وَلَهُمْ فِيْهَا٘ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّهُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥
( یہی اِس کتاب کی دعوت ہے۔ اِسے مانو۴۴؎ اے لوگو)، اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اِس کے بارے میں اگرتمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور) اس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ ۴۵؎ اور خدا کو چھوڑ کر (اِس کے لیے) اپنے سب حمایتی۴۶؎ بھی بلا لو، اگرتم اپنے اِس گمان میں سچے ہو۔۴۷؎ پھر اگر نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن۴۸؎ یہ لوگ بھی ہوں گے (جو نہیں مانتے) اور اِن کے وہ پتھربھی (جنھیں یہ پوجتے ہیں ۴۹؎)، آگ جو اِنھی منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اور (اِس کے ساتھ، اے پیغمبر)، اُن لوگوں کو بشارت دو جو (اِس کتاب پر) ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اِس بات کی بشارت کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اُن کا کوئی پھل جب انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا تو کہیں ۵۰؎گے: یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ۵۱؎ہمیں دیا گیا، دراں حالیکہ یہ جو اُنھیں دیا جائے گا، یہ اُس سے ملتا جلتا ہو گا،۵۲؎ اور اُن کے لیے وہاں پاکیزہ۵۳؎ بیویاں ہوں گی اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۳- ۲۵
۳۸؎ یہود سے صرفِ نظر کر کے یہ ذرا دیر کے لیے مشرکینِ یثرب کی طرف التفات ہے جو خدا کے اِن دشمنوں کی وسوسہ اندازیوں سے متاثر ہو کر اِن کے اعتراضات بے جانے بوجھے دہرا رہے تھے اور اِس طرح اپنے آپ کو اُس نعمتِ عظمیٰ سے محروم کر رہے تھے جو خدا نے قرآن اور پیغمبر کی صورت میں اُنھیں عطا فرمائی تھی۔
۳۹؎ یعنی وہ بندگی جس کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں۔ بندگی کے لیے اصل میں لفظ ’اعبدوا‘استعمال ہوا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ لفظ جب اپنے جامع مفہوم میں استعمال کیا جائے تو پرستش اور اطاعت دونوں کو شامل ہوتا ہے۔
۴۰؎ یعنی تمھارے اُن بزرگوں کو بھی پیدا کیا ہے جنھیں تم خدائی صفات میں شریک قرار دیتے ہو اور اُن کے بت بنا کر اُن کی پرستش کرتے ہو۔
۴۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’لعلكم تتقون‘ ان میں ’تتقون‘ کا مفعول یہاں محذوف ہے۔ اسے قرآن نے اس کے بعد کی آیت ’فاتقوا النار التي وقودها الناس والحجارة‘ میں خود واضح کر دیا ہے۔
۴۲؎ یعنی خدا کے بارے میں وہ سب باتیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوا ہے۔
۴۳؎ ’جانتے ہو‘ کے الفاظ یہاں ’مانتے ہو‘ اور ’اقرار کرتے ہو‘ کے مفہوم میں آئے ہیں۔
۴۴؎ یعنی شرک کی ہر آلایش سے بالکل پاک ہو کر خدا کی بندگی کرنے کی جو دعوت یہ کتاب لے کر نازل ہوئی ہے، اِسے مانو اور اس کے مطابق خدا کی بندگی کرو۔
۴۵؎ مطلب یہ ہے کہ تم اگر اسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت اور اسلوبِ بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر تمھاری قوم کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے متعلق یہ قرآن کا چیلنج ہے جو اُس نے اپنے اولین مخاطبین کو دیا اور اُن میں سے کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔
۴۶؎ یعنی جنوں اور انسانوں میں سے اپنے وہ سب حمایتی جو تمھارے اس دعوے میں شریک ہیں اور جن میں سے بعض کو تم خدائی اختیارات کے حامل سمجھتے ہو۔
۴۷؎ یعنی اپنے اس گمان میں کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں۔
۴۸؎ مطلب یہ ہے کہ اس آگ کی مرغوب غذا یا وہ جسم ہوں گے جن میں کفر و شرک کا مواد بھرا ہوا ہے اور یا وہ پتھر جو معبود کی حیثیت سے اس دنیا میں پوجے گئے ہیں۔ یہ آگ اپنے اصلی رنگ میں انھی دو چیزوں سے بھڑکے گی۔
۴۹؎ یہ پتھر اپنے پوجنے والوں کی فضیحت اور اِس طرح اُن کے عذاب میں اضافے کے لیے دوزخ میں پھینکے جائیں گے تاکہ وہ دیکھ لیں کہ دنیا میں جن کی خدائی کا شہرہ تھا، آج وہ کس انجام کو پہنچے ہیں۔
۵۰؎ یعنی اپنے دل میں کہیں گے۔
۵۱؎ یعنی اس سے پہلے اسی جنت میں۔
۵۲؎ مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں ہو گا بلکہ اُس سے ملتا جلتا ہو گا۔ یہ جنت کی نعمتوں کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے کہ وہ ہر دفعہ نئے حسن، نئی لذت اور نئے ذائقے کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ ایک ہی پھل جب بار بار کھانے کے لیے دیا جائے گا تو ہر مرتبہ لذت، حسن اور ذائقے کی ایک نئی دنیا اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔
۵۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’ازواج مطهرة‘۔ان میں ’مطهرة‘ کی صفت سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ اچھوتی ہیں، ان کی تربیت نہایت اہتمام اور توجہ کے ساتھ ہوئی ہے اور انھیں اس طرح سنوارا اور پاکیزہ بنایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کی رفاقت کے لیے وہ پوری طرح موزوں ہو گئی ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ