HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

بسنت اور ہمارا رویہ

ہر موسم ہماری زندگی پرمختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ہر موسم ایک پہلو سے خوش گوار اثر ڈالتا ہے تو دوسرے پہلو سے ناگوار مسائل پیدا کر دیتا ہے، لیکن بہار کا موسم اس خصوصیت سے مستثنیٰ ہے۔ یہ خوش گوار اور صرف خوش گوار موسم ہوتا ہے۔ جب یہ موسم آتا ہے تو سردی کی شدت سے بند کمروں میں ’’مقید‘‘ انسان ’’آزاد‘‘ ہو جاتا ہے۔ موٹے موٹے کپڑوں کا بوجھ اس کے جسم سے اتر جاتا ہے۔ بے رنگ باغوں کا ماحول قسم قسم کے پھولوں سے رنگین ہو جاتا ہے۔ 

ہماری زندگی میں یہ تبدیلی کون لاتا ہے ؟ یہ خوش بو دار ہوا، یہ خوش گوار ہوا، یہ بہار کی ہوا کون چلاتا ہے ؟ یہ سرسوں پھوٹنے، یہ شگوفے نکلنے اور یہ گیہوں کی بالیوں میں دانے پڑنے کا دل کش سماں کون پیدا کرتا ہے ؟ یہ سارا دن پرندوں کے چہچہانے، یہ موروں کے ناچنے، یہ ہرنوں کے کلیلیں کرنے کا مسرور کن منظر کون دکھاتا ہے ؟ لاریب، وہ جو زمین و آسمان اور اس کے اندر ساکن اور متحرک ہر چیز کا خالق، ناظم اور مالک ہے۔ 

اگر ہم کہیں گرمی کی شدت سے پسینے میں شرابور ہو رہے ہوں اورایسے میں کوئی شخص ہمارے سامنے پنکھا لا کر چلا دے یا ہم کہیں سردی کی شدت سے ٹھٹھر رہے ہوں اور ایسے میں کوئی شخص ہمارے سامنے ہیٹرلا کر جلا دے تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارے دل میں اس شخص کے لیے شکر کے جذبات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ شکریہ، تھینک یو، مہربانی کے الفاظ تو فوراً زبان پر آ جاتے ہیں۔ 

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہمارے ہاں بہار کی آمد ہوئی جس کے نتیجے میں ہمارے کسی ایک کمرے ہی کی فضا سازگارنہیں ہوئی بلکہ ہمارے گھروں، ہمارے محلوں، ہمارے میدانوں کی فضابھی سازگار بلکہ خوشگوار ہوگئی۔ اس پر ہم نے خوشی کا اظہار کیا، بسنت کا تہوار منایا مگر خدا کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس رویہ اختیار کیا۔ سرکشی کا رویہ۔ سرکشی کا رویہ کیسے؟ 

دیکھیے، قرآنِ مجید میں ہے:

بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ.(الزمر ۳۹: ۶۶)
’’ بلکہ صرف اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسی کے شکر گزاروں میں سے بنو ۔‘‘

 ایک دوسرے مقام پر ہے:

وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ.(العنکبوت ۲۹: ۱۷)
’’ اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کے شکرگزار بنو۔‘‘

اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل دیکھیے۔ حضور رات کی نماز میں بہت طویل قیام کیا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے کہا : آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخشے جا چکے، پھر آپ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں ؟ حضور نے فرمایا : کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ۱؎

لہٰذا خدا کا شکر ادا کرنا، خدا کی بندگی اختیار کرنا ہے۔ اور خدا کی بندگی اختیار کرنا، خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ اب ظاہر ہے خدا کا شکر ادا نہ کرنا، سرکشی اختیار کرنا ہی ہے۔ 

ہم نے نہ صرف یہ کہ آمدِ بہار پر خدا کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ معاملہ اس طرح سنگین تر کر دیا کہ اس موقع پر بسنت مناتے ہوئے کچھ باتوں میں اللہ کی حدود کو پامال کر دیا: ہم نے کریکر چلائے، بلند آواز سے بے ہودہ گانے بجائے، بوکاٹا کی آوازیں لگائیں، ہوا میں گولیاں چلائیں، ہمسایوں کو تکلیفیں پہنچائیں، بچوں کی نیندیں اڑائیں، خواتین کے لیے مشکلیں پیدا کیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی چھت پر آنا محال بنا دیا۔ ان کے لیے اپنے گھر کے صحن میں بیٹھنا دشوار کر دیا۔ 

دین جذبات کے اظہار پر پابندی نہیں لگاتا۔ وہ جذبات کے اظہار کو کچھ حدود کا پابند کرتا ہے۔ یہ وہ پابندی ہے جو انسان کو حیوان سے اور معاشرے کو جنگل سے ممیز کرتی ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ جذبات جب اپنا اظہار کرتے ہوئے حدود ناآشنا ہو جاتے ہیں تو اس صورتِ حال کو تہذیب نہیں بدتہذیبی کہا جاتا ہے۔ 

خدا نے ہمیں خیر وشر کا شعور دیا۔ ردوقبول کا اختیار دیا۔ اور ہماری آزمایش کا ایک سلسلہ چلا دیا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس کی شکر گزاری کرتے ہیں یا سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنا نفع چاہتے ہیں یا نقصان۔ اور یہ ہم پر ہے کہ ہم تہذیب کے تحت زندگی گزارتے ہیں یا معاشرے کو جنگل بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم انسان کہلاتے ہیں یا حیوان۔ 

ـــــــــ محمد بلال

___________

۱؎ صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین و احکامہم۔

B