HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اس شمارے میں

انسان کی شخصیت کی تعمیر میں بچپن کے زمانے کی بے پناہ اہمیت ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انسان کی عادات پیدا ہونے کی ابتدا ہوتی ہے۔ پھر ان کی نشوونما ہوتی ہے۔ اور اس طرح بالغ ہونے تک یہ عادات پختہ ہو جاتی ہیں۔ اور اگر یہ عادات منفی ہوں تو بسا اوقات ان کی اصلاح آدمی کے تائب ہونے کے بعد بھی نہیں ہو پاتی۔ 

اصلاح و دعوت کا کام کرنے والے لوگ نوجوانوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر بچوں کو بالعموم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ متوازن نہیں ہے یہ بات ملحوظ ر کھنی چاہیے کہ اچھا رہنما حال ہی میں نہیں الجھا رہتا بلکہ وہ مستقبل پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ اس لیے کہ آج کا بچہ کل کا جوان ہے۔ آج انگلی پکڑ کر چلنے والا کل دوسروں کو راہ دکھانے والا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جائے ؟ اس کام کے بہت سے طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کی ذہنی سطح پر اتر کر نظمیں کہی جائیں۔ شاعری کی گرفت اور تاثیر بے مثل ہوتی ہے۔ اس میں ترغیب اور تحریک کی معجز اثر قوت ہوتی ہے۔ اس میں کہی گئی باتیں تیر کی طرح دل میں ترازو ہو جاتی ہیں۔ شاعری کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ بہت جلد یاد ہو جاتی ہے اور طویل عرصے تک یاد رہتی ہے۔ لہٰذا وہ ترغیب جو شاعری کے ذریعے سے دی جاتی ہے، وہ ایک طویل عرصے تک اپنے اثرات دکھاتی رہتی ہے۔ 

یہ کمپیوٹر ایج ہے۔ مشینی دور ہے۔ اس دور کی یہ خصوصیت اپنے اندر مثبت اور منفی، دونوں قسم کے پہلو رکھتی ہے۔ منفی پہلو یہ ہے کہ اس نے انسان کو فطرت سے دور کر دیا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ فطرت سے دوری، فاطر سے دوری کا باعث بنتی ہے۔ ظاہر ہے اس چیز کا اثر بچوں پر بھی پڑا ہے۔ ان کا بھی بہت سا وقت مشینوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں بھی مادی رویہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ رویہ پھر پختہ ہو جاتا ہے۔ نتیجۃً وہ بڑے ہو کر بھی اسباب کی دنیا میں الجھے رہتے ہیں اور ماورائے اسباب دنیا سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ 

اس وقت ’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں بچوں کی ایک نظم شائع کی گئی ہے۔ اسے بچوں کوبالخصوص اپنے بچوں کو یاد کرانا چاہیے۔ یہ محض شاعری نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ منظوم تذکیر و نصیحت ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ بند کمروں میں کمپیوٹر گیموں کے شور میں وقت گزارنے والے بچے جب یہ نظم پڑھیں گے تو امید ہے انھیں کھلی فضا اور کھلی ہوا میں فطرت کے سریلے نغمے سننے اور رنگیں مناظر کو دیکھنے کی ترغیب ملے گی۔ پھر ان کی آنکھیں اور کان فطرت کی طرف متوجہ ہوں گے تو نہ صرف یہ کہ وہ اس سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ان کے اندر فاطر کی بے پناہ عظمت، بے پایاں قدرت اور بے مثل ربوبیت کا احساس بھی ابھرے گا جس سے ان کے اندر خدا کے خوف اور شکر کے جذبات جنم لیں گے۔ انھی جذبات سے بندگی کا ظہور ہوتا ہے جو دراصل انسان کی وجۂ تخلیق ہے۔ 

’’ادبیات‘‘ ہی میں ایک افسانہ طبع کیا گیا ہے۔ افسانہ ایک ایسی مختصر کہانی ہوتی ہے جو ایک نشست میں پڑھی جا سکے۔ اس کی بنیاد میں بالعموم ایک خاص کردار، ایک خاص واقعہ، ایک خاص تجربہ یا ایک خاص تاثر ہوتا ہے۔ افسانے کے بارے میں عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے اندر من گھڑت باتیں ہوتی ہیں، بلکہ لفظ ’’افسانہ‘‘ لفظ ’’جھوٹ‘‘ کے متبادل کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ایک پہلو سے دیکھیں تو یہ بات اگرچہ ٹھیک معلوم ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے پہلو سے سوچیں تو یہ بات صد فی صد صحیح نہیں ہے۔ ایک زمانے میں غزل کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اس کا موضوع حسن وعشق کے حوالے سے دردِ فراق کیفِ وصال اور اضطرابِ انتظار ہی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غزل کا کینوس بہت وسیع ہو گیا اور علمی، فکری، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی اس کا موضوع بننے لگے ــــــ ’’اشراق‘‘ کے پچھلے شماروں میں ایسی غزلیں شائع ہو چکی ہیں ــــــ یہی معاملہ افسانے کا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں، ایک عرصہ ہوا افسانہ زندگی کے تلخ حقائق کو اپنا موضوع بنا رہا ہے۔ معاشرے کے جیتے جاگتے کردار اس میں بنیادی حیثیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح افسانہ محض جذباتی تسکین یا ذہنی تفریح ہی کا سامان فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے اندر ایک قابلِ ذکرتعمیری پہلو بھی لیے ہوئے ہے۔ 

اس کے علاوہ ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’دین و دانش‘‘، ’’مدیر کے نام‘‘،’’یسئلون‘‘، ’’تبصرۂ کتب‘‘ اور ’’ادبیات‘‘ کے سلسلے حسبِ روایت موجود ہیں۔

ـــــــــ محمد بلال

___________

B