HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

بحران کا مقابلہ

[زیر نظر تحریرایک عالمی ادارے کے سربراہ کے نام بھیجی گئی تھی۔ اسے اب تعینات  کے بجاے تعمیم اور بعض جزوی حذف و ترمیم کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ مصنف]


حال میں ملکی اور عالمی سطح کے بعض ’مذہبی‘ اداروں اور ارباب مدرسہ واساتذہ کے درمیان برپا انتشار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اب یہ اضطراب ایک سخت بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں کوئی حقیقی اور مثبت تبدیلی اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ہمارے ملی ادارے بے جاپابندی، حزبیت پرستی، اجارہ داری، گدی نشینی اور دوہرے پن جیسے رویوں کے بجاے خود اپنے اعلان کے مطابق، علم پروری،عالی ظرفی،عملی خیرخواہی، حریت اورافراد کی قدردانی کے بلند حوصلہ و کردار کا ثبوت پیش نہیں کرتے۔

ہمارے ملی اور ’مذہبی‘ اداروں کو چاہیے کہ وہ فتویٰ طرازی، ریشہ دوانی، ’مذہبی‘ ڈکٹیٹر شپ اور برطرفی و اخراج جیسے سطحی اور روایتی طریقوں کے بجاے شورائیت اور ڈائیلاگ کا اعلیٰ اورسنجیدہ طریقہ اختیار کریں۔ اس صحت مند روش کو اختیار کیے بغیر کبھی اس طرح کے بحران کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

الصُّلۡحُ خَيۡرٌ‘ (النساء ۴: ۱۲۸)کے ارشاد ربانی کے مطابق، اختلاف کے وقت طرفین کے درمیان ’صلح‘ کا طریقہ بہتر ہوگا۔ تاہم ارباب ادارہ اگرکسی وجہ سے یہ محسوس کریں کہ ایک شخص اب اُن کے لیے ”غیرمطلوب“ (unwanted) بن چکا ہے تو اس صورت حال میں بھی یہ خودادارے کے وسیع ترمفاد کے لیے ضروری ہوگا کہ ادارہ اپنے درمیان ایسا عملی میکانزم(mechanism) پیدا کرے جس کے ذریعے سے وہ اس طرح کے بحرانی مسائل سے حسن وخوبی کے ساتھ عہدہ بر آہو سکے۔

اس میکانزم سے مراداعلیٰ تنظیمی اسٹریٹجی کے علاوہ، علمی ڈسکشن اور آزادانہ ڈائیلاگ ہے۔ اسی کے ذریعے سے جدید دنیا کے تمام ادارے کامیاب طورپر چلائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس،عموماً برطرفی و اخراج جیسی اصطلاحات میں سوچنا نہ صر ف یہ کہ اس طرح کے معاملات کا کوئی مثبت حل نہیں ہواکرتا،بلکہ اکثر وہ خود ادارہ اوراُس کے ایڈمنسٹریشن کی سخت ناکامی کا اعلان ثابت ہوتا ہے، اور ایک سچا ادارہ کبھی اس قسم کی بدترین ناکامی (miserable failure) کا تحمل نہیں کرسکتا۔

مزید یہ کہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو لوگ کسی عہدہ ومنصب کو معبود کا درجہ نہیں دیتے،اُن کی ”اصلاح“ کے لیے برطرفی و اخراج جیسے روایتی طریقے صرف اُن کے ”ذوق گناہ“ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، نہ کہ اصلاح کا سبب۔تاریخ کا تجربہ ہے کہ خدا کی طرف سے برتر ذہن کے حامل لوگ کبھی اس طرح کی فہمایش سے خائف نہیں ہوئے، بلکہ اکثر اوقات فکری جبر کے مقابلے میں بصد مسرت ”زہر کا پیالہ“پی لینے کو وہ زندگی کی سب سے بڑی علامت سمجھتے رہے ہیں۔  

افسوس کہ ’سنن من کان قبلکم‘(احمد، رقم ۱۰۶۴۱) کے زوال یافتہ ظاہرے کی پیروی میں ہمارے درمیان بھی اب ایک قسم کا ’مذہبی چرچ‘وجود میں آگیا ہے، جس کا حال یہ ہے کہ اُس کے نزدیک شتم رسول جیسے مسئلے کا حل تو اعراض ہوسکتاہے، مگر شتم ’مذہب‘(مسلک، مشرب، معتقدات، وغیرہ)جیسے مسئلے کا حل اخراج کے سوا اور کچھ نہیں۔ علمی ڈسکشن اور آزادانہ ڈائیلاگ زندہ لوگوں کی پہچان ہے۔اس کے برعکس، رَبیائی (rabbinic)طرز کے بے اصل فتویٰ و تکفیر اورریشہ دوانی جیسے سطحی حربوں کے ذریعے سے کسی ادارہ یا اپنے ’مذہب‘ سے برطرفی و اخراج صرف بے روح لوگوں کی پہچان ہے۔

 ’عقیدہ‘و ’گستاخی‘ (blasphemy) کے ’مقدس مذہبی‘نام پرایک مطلوب فردکواپنے درمیان غیرمطلوب (unwanted) بنانا، تکفیر کی’مذہبی‘ سان پر چڑھاکر اُسے بدنام کرنا اور پھرتمام دینی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے کردار کشی کا پست طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسے شخص کو اپنی راہ سے ہٹ جانے پر مجبور کر دینا ایمان و اسلام تو کجا، خود انسانی اور اخلاقی طریقہ بھی نہیں۔دوہرے پن کی یہی وہ روش ہے جسے قرآن میں زوال یافتہ ’مذہبی‘ گروہ کا طریقہ قرار دیا گیا ہے(الحشر ۵۹: ۱۴)۔

کاش ”اختلافُ أمتي رحمة‘‘جیسے فرمودات کو درست سمجھنے والے حضرات عملاً اختلاف کو زحمت کے بجاے رحمت قراردیں۔وہ ایک سنجیدہ اختلاف کونامطلوب عمل قراردینے کے بجاے ایک فطری اور مطلوب ظاہرے کی حیثیت سے اُس کا استقبال کرسکیں۔کاش، ہمارے ادارے اس معاملے میں اُن ناکام انتظامی ڈھانچوں کی مثال قائم نہ کریں جنھوں نے اس میکانزم سے محرومی کے باعث علامہ سید سلیمان ندوی (وفات: ۱۹۵۳ء)جیسے جلیل القدر علما کو ہمیشہ کے لیے کھودیا۔

کاش، افراد کی قدردانی کے معاملے میں ہمارے بیش تر ادارہ و افراد ”مردہ پرستی“ کے بجاے ”زندہ پرستی“ کا ثبوت دے سکیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (وفات: ۱۹۹۹ء)نے ہمارے اس زوال یافتہ ذہن کے متعلق گفتگو کے دوران میں ایک بار درست طورپر فرمایا تھاکہ:

”مسلمان زندہ فراموش اور مردہ پرست قوم ہیں۔“  

اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قومی اور ’مذہبی‘ ادارے اس اہم پہلو کے اعتبار سے عملاً اپنا احتساب کریں، اس سے پہلے کہ وقت کا بے رحم محتسب اُن کا احتساب کرے اوریہ بے رحمانہ احتساب خود اُن کے وجود و بقا کے لیے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہو جائے۔ 

[لکھنؤ، ۱۰/ جولائی ۲۰۲۲ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

B