اس دنیا میں انسان ہمیشہ مختلف خطرات کی زد میں رہتا ہے۔ ان خطرات سے بچنے کے لیے انسان جتنی بھی کوشش کر لے، بہرحال غفلت یا بے خبری میں انسان کبھی نہ کبھی ان کا نشانہ بن جاتا ہے۔ انسان کا یہی وہ عجز ہے جس کی بنا پر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے اپنے پروردگار کی مدد و پناہ حاصل رہے۔ قرآن مجید کی آخری دو سورتیں، یعنی فلق اور ناس جنھیں ملا کر مُعَوِّذَتَیْن کہا جاتا ہے، انسان کے اسی عجز کا جواب ہیں۔
صحیح احادیث کے مطابق جب یہ سورتیں نازل ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبصرہ فرمایا کہ ان جیسی آیات پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں (مسلم، رقم ۱۱۸۱ - ۱۱۸۳)۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ رات سوتے وقت تین دفعہ سورۂ اخلاص کے ساتھ یہ دونوں سورتیں پڑھتے اور دونوں ہاتھوں پر پھونک کر پورے جسم پر پھیر لیتے (بخاری، رقم۵۰۱۷)۔ حفاظت کے پہلو سے ان سورتوں کے اور بھی متعدد فضائل روایات میں بیان ہوئے ہیں۔
جب ان دو سورتوں کے مضامین کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا کہ بلاشبہ، ان میں اس اعلیٰ طریقے سے اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہے کہ اس سے بہتر طریقہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ حقیقت اس وقت اور واضح ہو جائے گی جب یہ بات سامنے رہے کہ انسانی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک جسمانی اور دوسرا نفسیاتی۔ پہلی سورت، یعنی سورۂ فلق انسان کے جسمانی وجود اور دوسری اس کے نفسیاتی وجود کو ہر قسم کے نقصان دہ اثر سے بچاتی ہے۔
پہلی سورت میں ’’رب الفلق‘‘ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ ’فلق‘ کا لفظی مطلب پھاڑنا ہوتا ہے۔ اس سے عام طور پر صبح مراد لی جاتی ہے، کیونکہ صبح کے وقت دن کی روشنی تاریکی کے پردے کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے۔ تاہم یہاں ’’رب الفلق‘‘ سے مراد صرف صبح نہیں، بلکہ ہر چیز کا پھاڑ کر نکالنے والا ہے۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے ’فَالِقُ الْاِصْبَاحِ‘ (الانعام ۶: ۹۶) کے الفاظ قرآن مجید نے استعمال کیے ہیں۔ اور اسی پس منظر میں ’فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰي‘ (الانعام ۶: ۹۵) کے الفاظ آئے ہیں، یعنی دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا۔ مراد اس سے تخلیق کرنا یا پیدا کرنا ہے، کیونکہ دنیا میں ہر چیز کسی نہ کسی چیزکا پردہ یا خول پھاڑ کر اس طرح نمودار ہوتی ہے کہ ایک وجود دوسرے وجود سے برآمد ہوا صاف محسوس ہوتا ہے۔ جیسے تمام حیوانات رحم مادر یا انڈے سے اور نباتات گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر نمودار ہوتے ہیں۔ یا پھر جیسے صبح کی مثال گزری جو رات کا پردہ پھاڑ کر نکلتی ہے۔ چنانچہ اسی خالق کا سہارا لے کر تمام مخلوقات کے شر سے پنا ہ مانگی گئی ہے۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کو ’’خالق‘‘ کہنے کے بجاے ’’رب الفلق‘‘ کیوں کہا گیا؟ ہمارے نزدیک یہی وہ صفت ہے جس کا سمجھنا پناہ اور تحفظ کی حقیقی نوعیت کو واضح کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’رب الفلق‘‘ بول کر یہاں تخلیق کے اس مرحلۂ آغاز کو سامنے کر دیا گیا ہے جب ایک وجود جسمانی طور پر کم زور ترین حالت میں ہوتا ہے۔
اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلے میں ہر مخلوق، چاہے حیوانات ہوں یا نباتات، انتہائی کم زور ہوتی ہے، مگر یہ ’’رب الفلق‘‘ ہی ہے جو اس کم زور وجود کا سہارا بنتا ہے۔ وہ ہر خطرے اور اندیشے سے اسے بچا کر وجود کامل بنا دیتا ہے۔ یوں صبح کی سفید دھاری دن کی روشنی میں ڈھل جاتی ہے، ناتواں بچہ مرد کامل بن جاتا ہے اور نرم و لطیف کونپل توانا درخت کا روپ دھار لیتی ہے۔ چنانچہ ایک بندۂ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ اگرپناہ چاہنی ہے تو اسی ’’رب الفلق‘‘ کی چاہو جو ہر ناتواں کا سب سے بڑا سہارا ہے۔
تمام مخلوقات کے شر سے عمومی پناہ مانگنے کے بعد اس ’’رب الفلق‘‘ کی پناہ تین ان مواقع پر مانگی گئی ہے جب انسان اپنی بے خبری کی بنا پر اپنے دفاع کے قابل نہیں ہوتا: ایک، رات کے اندھیرے میں، جب تاریکی کے ساتھ نیند کی بے ہوشی انسان کو ہر طرح کے خطرات، چاہے کیڑا کانٹا ہو یا چور ڈاکو، کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہے۔ دوسرا، جادو ٹونا کرنے والوں کے شر سے جو بے خبری میں انسان پر وار کرتے ہیں اور تیسرے، اس حاسد کے حسد سے جس کے دل کا حال انسان نہیں جان سکتا۔
یہ انسان کے جسمانی وجود کی حفاظت کا انتظام تھا۔ دوسری سورت، یعنی سورۂ ناس انسان کے نفسیاتی وجود کا تحفظ کرتی ہے۔ اس تحفظ کی ضرورت دراصل ان وسوسہ انگیزی کے خلاف پڑتی ہے جو شیاطین جن و انس انسان کے دل و دماغ میں کرتے ہیں۔ انسان اس وسوسہ انگیزی، پروپیگنڈے، خیالات اور توہمات سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ وسوسہ ڈالنے والے شیاطین، لیڈر اور ساتھی تو عام طور پر اپنا کام کر کے پیچھے ہوجاتے ہیں اور انسان ان کے اثر سے ایسے کام کرنے لگتا ہے جو اس کی دنیا اور آخرت، دونوں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
وسوسہ انگیزی کا یہ فتنہ جسمانی ضرر سے اتنا زیادہ سنگین ہوتا ہے کہ ’’رب الفلق‘‘ کی ایک صفت کے برعکس یہاں اللہ کی تین صفات، یعنی انسانوں کے رب، بادشاہ اور معبود کی پناہ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ انسان زمانۂ قدیم سے تین طاقت ور ہستیوں کی انھی تین قسموں سے واقف رہا ہے جو اسے تحفظ دیتی رہی ہیں۔ وہ اگر غلام ہے تو اس کا مالک یا رب معاشرے کے دوسرے لوگوں سے، وہ رعایا ہے تو اس کا بادشاہ دوسرے ملکوں، قوموں اور باشاہوں سے اور بہ حیثیت ایک بندے کے اس کا معبود اسے ساری مخلوقات کے شر سے بچاتا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی انسانوں کے اصل مالک، بادشاہ اور معبود ہیں۔ چنانچہ جب ان کی پناہ مانگی گئی تو ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے غلام، اپنی رعایا اور اپنے بندے کو بچانے نہ آئیں۔ اور جب وہ بچانے آجائیں تو کسی کی کیا مجال کہ وہ اپنے شر سے ایسے غلام کو نقصان پہنچا سکے۔
___________