HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۱۱)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں،ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حبیبہ بنت ا م حبیبہ رضی الله عنہا

ددھیال او ر ننھیال

۶۱۰ء: حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر نزول وحی كا سلسلہ شروع ہوا اور آپ منصب نبوت سے سرفراز ہوئے۔ ساتویں صدی عیسوی كی دوسری دہائی میں بنو امیہ كی حضرت رملہ بنت ابوسفیان كا بیاہ اپنے حلیف قبیلے بنواسد كے عبیدالله بن جحش سے ہوا۔ اسی دہائی میں دونوں میاں بیوی دارارقم میں آپ كی خدمت میں حاضر ہوئے اورنعمت ایمان سے مالا مال ہوئے۔ زیاده تر مورخین كا خیال ہے كہ ان كے ہاں حضرت حبیبہ كی پیدایش اسی وقت ہوئی۔ بیٹی كی پیدایش كے بعد حضرت رملہ نے ام حبیبہ كنیت اختیار كی اور اسی سے مشہور ہو گئیں۔ حضرت ابوسفیان صخربن حرب حضرت حبیبہ كے نانا تھے۔ حضرت حبیبہ كے والد عبیدالله بن جحش ام المومنین حضرت زینب بنت جحش،حضرت عبدالله بن جحش اور حضرت ابو احمد بن جحش كےسگے بھائی تھے۔ عبدالله حضرت حبیبہ كے چھوٹے بھائی تھے۔ 

ہجرت حبشہ

مكہ كے نیك فطرت نوجوان اسلام كی دعوت حق كی طرف لپكنے لگے تو قریش كے نام نہاد لیڈروں كو اپنی لیڈری ماند ہوتی نظر آئی۔ انھوں نے ان كم زوروں اور ناداروں پر ظلم وستم كے پہاڑ توڑنے شروع كر دیے۔ حالات كی سنگینی دیكھ كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اصحاب كو امن كی سرزمین حبشہ كی طرف ہجرت كرنے كا مشوره دیا۔ چنانچہ رجب ۵ ؍ نبوی میں گیاره مرد اورچار عورتیں دو كشتیوں پر سوار ہو كر حبشہ پہنچے۔ اسی سال شوال میں حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں دوسرا بڑا قافلہ حبشہ روانہ ہوا۔ حضرت ام حبیبہ، عبیدالله بن جحش اور حضرت حبیبہ اسی قافلے كا حصہ تھے۔ عبیدالله بن جحش كے خادم حضرت قیس بن عبداللہ، ان كی اہلیہ اورحضرت حبیبہ كی خادمہ حضرت بركہ بنت یسار اور ان كی بیٹی حضرت آمنہ بنت قیس اس كنبے كے ساتھ حبشہ گئے۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیر، دونوں نےایك جگہ لكھا كہ حضرت حبیبہ كی ولادت حبشہ میں ہوئی اور دوسرے مقام پر بتایا كہ وه والدین كے ساتھ مكہ سے سفر ہجرت پر روانہ ہوئیں۔ 

والدین میں علیحدگی

حبشہ پہنچنے كے بعد عبیدالله بن جحش كو شیطان نے بہكا دیا۔ اس نے ترك اسلام كر كے نصرانی مذہب اختیار كرلیا۔ حضرت ام حبیبہ شوہر كے اصرار كے علی الرغم دین اسلام پر قائم رہیں تو میاں بیوی میں مفارقت ہوگئی۔ پھر عبیدالله كا انتقال ہو گیا، لیكن حضرت حبیبہ اپنی والده كے ساتھ كم وبیش تیره برس حبشہ میں مقیم رہیں۔ باپ كے ارتداد كے بعد حضرت حبیبہ كو حبیبہ بنت ام حبیبہ كہا جانے لگا۔ 

حبشہ سے واپسی

۷ھ میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے نكاح كے بعدحضرت ام حبیہ مدینہ لوٹیں تو حضرت حبیبہ ان كے ساتھ تھیں۔ وه اپنی والده كے ساتھ آپ كے گھر میں مقیم رہیں۔ ان كے بھائی عبدالله كی مدینہ آمد كے بارے میں كچھ نہیں بتایا گیا۔ حبشہ میں وفات پانے والوں میں بھی ان كا ذكر نہیں۔ 

نبی صلی الله علیہ وسلم سے خاص تعلق 

ربیع الاول ۷ ھ:نبی صلی الله علیہ وسلم سے حضرت ام حبیبہ كا نكاح ہوا تو حضرت حبیبہ آپ كی بیٹی بن كر براه راست آپ كی پرورش میں آ گئیں۔ آپ سے ان كی ایك اور نسبت تھی،ام المومنین حضرت ز ینب بنت جحش كے واسطے سے آپ حضرت حبیبہ كےپھوپھا تھے۔ 

ازدواجی زندگی

 حضرت حبیبہ بنت ام حبیبہ كی شادی اپنے خالہ زاد بھائی داؤدبن عروه ثقفی سے ہوئی۔ طبری نے داؤد كی والده كا نام حضرت آمنہ بنت ابوسفیان (تاریخ الطبری۲/ ۱۷۲) اور ابن سعد نے حضرت میمونہ بنت ابو سفیان (الطبقات الكبریٰ۶/ ۱۷۸) بتایا ہے۔ دونوں حضرت ام حبیبہ كی سوتیلی بہنیں تھیں اورحضرت ابوسفیان كی بیوی لبابہ بنت ابوالعاص ان كی والده تھیں۔ غالب امكان ہے كہ یہ بیاہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی وفات كے بعد ہوا، كیونكہ داؤد كے والد حضرت عروہ بن مسعود ۸ ھ میں ایمان لانے كے فوراً بعد شہید ہو گئے۔ ابن اثیر كا بیان ہے كہ حضرت عروه كی شہادت كے بعد ان كے ایك بیٹے حضرت ابو الملیح بن عروه اپنے چچا زاد حضرت قارب بن اسود آپ كی خدمت میں حاضر ہو كر مسلمان ہو گئے۔ داؤد بن عروہ كا نام سیر صحابہ كی كتب میں شامل نہیں۔ وه چھوٹے ہوں گے،اس لیے بارگاه نبوی میں حاضر نہیں ہو سكے۔ ابن عبدالبر نےداؤد بن عروه اور حضرت ابوالملیح، دونوں كا اصحاب رسول میں شمار نہیں كیا۔ ابن حجر نے داؤد بن عروه كے بجاے داؤد بن عاصم بن عروه ثقفی كا ترجمہ لكھا اور كہا:نہ وه صحابی تھے اور نہ كوئی حدیث ان سے روایت ہوئی(الاصابہ۱/ ۵۴۵)۔ انھوں نے حضرت ابوالملیح كی صحبت كااثبات كیا۔ امام بخاری،مزی اور ابن حجر نے ایك نام داؤد بن ابو عاصم بن عروه بن مسعود ثقفی،رجال حدیث میں شامل كیا ہے (التاریخ الكبیر۳/ ۲۰۱۔ تہذیب الكمال۸/ ۴۰۵۔ تہذیب التہذیب ۳ / ۱۱)۔ 

حضرت حبیبہ بنت ام حبیبہ كی اولاد كے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔ 

كچھ بیان سسرال كا

حضرت حبیبہ كے سسر حضرت عروه بن مسعود عرب قبیلہ بنو ثقیف كے سردار تھے۔ صلح حدیبیہ میں انھوں نے مشركوں كی طرف سے مذاكرات میں حصہ لیا۔ ۸ھ میں جنگ حنین میں شكست كھانے كے بعد بنوثقیف اور بنو ہوازن نے طائف كے قلعہ میں پناه لی تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان كا محاصره كر لیا۔ حضرت عروه ان دونوں معركوں میں اپنی قوم میں موجودنہ تھے۔ چالیس(پچیس:ابن اسحاق) روز كا محاصره ختم كر کے آپ نے واپسی كا سفر شروع كیا تو وه آپ كے مدینہ پہنچنے سے پہلے آپ سے آن ملے اور اسلام قبول كیا۔ حضرت عروه اپنی قوم میں بہت مقبول تھے،ان كا خیال تھا كہ قوم ان سے بہت محبت كرتی ہے،ان كی دعوت پر فوراً مسلمان ہو جائے گی،لیكن ایسا نہ ہوا۔ طائف پہنچنے كے بعد انھوں نے فجر كی اذان دی اور قوم كواسلام كی طرف پكارا۔ ان كی اپنی قوم نے ان پر تیروں كی بوچھاڑ كر دی اور وه شہید ہوگئے۔ قرآن مجیدمیں مشركین كے مطالبے كا ذكر ہے ’لَوْلَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ‘،’’یہ قرآن دونوں بستیوں كے كسی بڑے آدمی پر نازل كیوں نہیں كیا گیا‘‘ (الزخرف۴۳: ۳۱)۔ ’قَرْيَتَيْنِ‘ سے مكہ اور طائف مراد لینے پر مفسرین كا اتفاق ہے۔ البتہ ’رجل عظيم‘ كے باب میں ان كی آرا مختلف ہیں۔ قتادہ كہتے ہیں كہ مشركین كا اشاره ولید بن مغیره اور عروه بن مسعود ثقفی كی طرف تھا۔ 

حضرت عروه كے دادا مسعود بن معتب بھی قبیلے كے سردار رہے،انھوں نے جنگ فجار میں بنوثقیف كی فوج كی كمان كی،تب حضرت عروه بھی ان كے ساتھ تھے۔ 

روایت حدیث

حضرت حبیبہ نےاپنی والدہ سے حدیث روایت كی۔ 

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوك (طبری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الكمال فی اسماء الرجال(مزی)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔ 


ــــــــــــــــــــ


حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ

نسب اور كنبہ

حضرت عمرو بن سعید مكہ میں پیدا ہوئے۔ ان كے دادا كا نام عاص بن امیہ تھا۔ عبد شمس بن عبد مناف ان كے سكڑدادا تھے۔ عبد مناف پر ان كا نسب نامہ نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرے سے جاملتا ہے۔ عبد مناف بن قصی آپ كے چوتھے، جب كہ حضرت عمرو بن سعید كے پانچویں جد تھے۔ ان كی والده صفیہ بنت مغیره بنومخزوم سے تعلق ركھتی تھیں،وه حضرت خالد بن ولید كی پھوپھی تھیں۔ حضرت فاطمہ بنت صفوان كنانیہ حضرت عمرو كی اہلیہ تھیں۔ 

 حضرت عمرو كے سات بھائی تھے۔ احیحہ جن سے ان كے والد كنیت كرتے تھے،زمانہ ٔ جاہلیت میں ہونے والی جنگ فجار میں مارے گئے۔ حضرت خالد بن سعید ابتداے اسلام میں نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔ عاص (عاصی:ابن عبدالبر)بن سعید اور عبیده بن سعد نے دین شرك نہ چھوڑا اور اسی پر جان دی۔ حضرت ابان بن سعیدنے ۶ھ میں دین حق قبول كیا۔ حضرت سعید بن سعید فتح مكہ پر ایمان لائے اور حصار طائف میں شہادت پائی۔ حضرت حكم بن ابوالعاص ساتویں بھائی تھے۔ فتح مكہ پر مسلمان ہوئے،رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان كا نام بدل كر عبدالله كر دیا۔ ایك موقع آیا كہ آپ نےناراض ہو كر انھیں مكہ سے نكال كر طائف بھیج دیا،انھوں نے عہد عثمانی میں وفات پائی۔ مروان ان كا بیٹا تھا،علماے حدیث نے ان كی مذمت میں وارد ہونے والی روایات كو ضعیف قرار دیا ہے۔ كچھ مورخین نےحضرت حكم كو حضرت عمرو بن سعید كا چچازادبتایا ہے۔ حضرت عمرو كے جنگ بدر میں مارے جانے والے بھائی عاص(یا عاصی) بن سعید كے پوتے عمرو بن سعید اشدق (خطیب بلیغ) كے لقب سے مشہور ہوئے اور اموی دور حكومت میں مكہ و مدینہ كے گورنر رہے۔ اقتدار كی كشمكش میں انھیں ان كے ماموں زاد اموی حكمران عبدالملك بن مروان نے خود اپنے ہاتھوں سے قتل كیا۔ 

ابو عقبہ (ابوعتبہ: بلاذری) حضرت عمرو بن سعید كی كنیت تھی۔ قرشی اور اموی ان كی نسبتیں ہیں۔ كچھ لوگوں نے ابو ا میہ كو حضرت عمرو بن سعید كی كنیت بتایا ہے، حالاں كہ یہ ان كے بھتیجے سعیدبن عاص كے بیٹے عمروبن سعید كی كنیت ہے۔ نام كی یكسانیت كی وجہ سے تاریخی كتب كا اشاریہ ترتیب دینے والوں نے ان كے حالات زندگی خلط ملط كر دیے ہیں، حالاں كہ ان دونوں كے سن وفات میں چھپن سالوں كا فرق ہے۔ 

نعمت ایمان كا ملنا

حضرت عمرو كے بھائی حضرت خالد بن سعید نے ایمان لانے میں سبقت كی تو ان كے والد ابو احیحہ نے سخت ڈانٹ پھٹکار کی اور چھڑی کے ساتھ خوب پیٹا۔ پھر مکہ کے ریگ زار میں بھوکاپیاسا ڈال دیا۔ ان كے بھائیوں نے بھی ترك تعلق كرلیا، لیكن وه اسلام چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تب ابواحیحہ نے مایوس ہو كر كہا:اپنے آبا و اجداد كی برائیاں سننے سے بہتر ہے كہ میں طائف كے مقام ظریبہ میں اپنے مال مویشیوں كے پاس منتقل ہو جاؤں۔ حضرت عمرو بن سعیداپنے باپ سے بہت محبت ركھتے تھے،اسی لیے دین شرك پر كار بند رہے، لیكن وا لد كے مكہ سے چلے جانے كے بعد انھیں الله كی طرف سے ہدایت ملی اوروه ایمان لے آئے۔ بعض روا یات كے مطابق وہ حضرت خالد كےد و سال بعد مسلمان ہوئے،اس لیے ابن اسحاق كی مرتبہ السابقون الاولون كی فہرست میں جسے ابن ہشام نے مكمل كیا،ان كا نام شامل نہیں۔ حضرت عمرو كے تیسرے بھائی حضرت ابان بن سعید اپنے خاندان والوں کی طرح سخت اسلام دشمن تھے۔ ۲ھ میں ظریبہ میں ان كے والدنے نوے برس كی عمرمیں روتے ہوئے جان دی كہ میں عزی ٰ سے جدا ہو رہا ہوں،مجھے اندیشہ ہے كہ میرے بعد ابن ابی كبشہ(حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم)كے الٰہ كی پوجا كی جائے گی۔ حضرت ابان نے باپ كی وفات پر اور بھائیوں كے مسلمان ہونے پر رنجیدہ ہو كر یہ شعر كہا:

ألا لیت میتًا بالظریبة شاهد
لمایفتری في الدین عمرو وخالد 
’’اے کاش،طائف كے مقام ظریبہ میں مرنے والا میرا باپ دیکھ لیتا کہ اس كے بیٹوں عمرو اورخالد نے كیسا دین گھڑ لیا ہے۔ ‘‘

ابن عبدالبر نے ’ظریبہ‘ كے بجاے ’صریمہ‘ لكھا۔ یاقوت الحموی نے ’صریمہ‘ كے شعری شواہد پیش كرنے كے باوجود اس كا حدود اربعہ نہیں بتایا۔ 

سرزمین حبشہ كی طرف ہجرت

رجب ۵/ نبوی:سرزمین مكہ پر اہل ایمان كا جینا دوبھر ہو گیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم كے ارشاد پرحضرت عمرو بن سعید اپنی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت صفوان كو لے كر حبشہ روانہ ہو گئے۔ مشہور روایات (ابن عبدالبر، ابن ہشام، ابن كثیر)كے مطابق حضرت عمرو اور ان كے بھائی حضرت خالد بن سعید نے ہجرت حبشہ كا سفر اكٹھے طے كیا، تاہم حضرت عمرو كی بھتیجی،حضرت خالد بن سعید كی بیٹی حضرت ام خالد بتاتی ہیں كہ میرے چچا حضرت عمرو میرے والد كےہجرت كرنے كے كچھ دنوں(ابن اثیر،مستدرك حاكم،رقم ۵۰۴۸)یادو سال كے بعد (ابن سعد، ابن حجر) حبشہ پہنچے اور ۷ھ میں وہاں سے واپس آنے والے آخری قافلے كے ہم راه مدینہ لوٹے۔ 

حضرت عمرو بن سعید كی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت صفوان نے حبشہ میں وفات پائی۔ 

غزوۂ بدر 


غزوۂ بدر كے موقع پر حضرت عمرو بن سعید اورحضرت خالد بن سعید حبشہ میں تھے، تاہم ان كے تین مشرك بھائی ابان،عبیدہ اور عاص قریش كی فوج میں شامل ہو كر جیش اسلامی سے برسر پیكار ہوئے۔ عبیدہ اور عاص مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے،لیکن ابان بچ کر نکل گئے۔ دوسری روایت میں ہے كہ احیحہ اورعاص نے جنگ بدر میں حصہ لیا اور حضرت علی كے ہاتھوں مارے گئے (مستدرك حاكم،رقم ۵۰۴۹)۔ 


صلح حدیبیہ

۶ھ: صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے گفت و شنید كے لیے حضرت عثمان كو مكہ بھیجا تو وہ اپنے چچا زاد ابان بن سعید کے مہمان ہوئے۔ صلح كا معاہده طے ہونے كے بعدحضرت ابان آپ سے ملے اور اسلام قبول كر لیا۔ اس سے پہلے شام كے سفر كے دوران میں ایك راہب انھیں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كے برحق نبی ہونے كی نشانیاں بتا چكا تھا۔ بلاذری كہتے ہیں : حضرت خالد بن سعید اورحضرت عمرو بن سعید نے حبشہ سے آکر مکہ میں مقیم اپنے مشرک بھائی ابان بن سعید کوخط لكھ كر اسلام كی دعوت دی۔ اس طرح ان كے ایمان لانے كی تاریخ ایك سال موخر ہو جاتی ہے۔ 

حبشہ سے مدینہ كو ہجرت 

ہجرت حبشہ كے بعدحضرت عمرو بن سعید كو مدینۃ النبی كی طرف ہجرت كرنے كا شرف حاصل ہوا۔ ایك روایت میں ہے :ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو حضرت جعفر اور باقی مہاجرین نے یہ کہہ کر مدینہ جانے کی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے نبی غالب آ گئے ہیں اور دشمن مارے جا چکے ہیں، چنانچہ نجاشی نے زاد راہ اور سواریاں دے کر ان کو رخصت کیا(المعجم الكبیر،طبرانی،رقم ۱۴۷۸)۔ تاہم مشہور یہی ہے كہ ۷ھ میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود حضرت عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ بھیجا۔ ان كے ذمہ دو اہم كام تھے :حبشہ میں موجود حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان سے آپ كا نكاح كروانا،وہاں ره جانے و الے باقی مہاجرین کو مدینہ منتقل كرنا۔ چنانچہ حضرت عمرو بن سعید،ان كے بھائی حضرت خالد بن سعید،بھاو ج حضرت امینہ بنت خلف،بھتیجے حضرت سعید بن خالد،بھتیجی حضرت امہ بنت خالد اور دیگر مہاجرین دو کشتیوں پر سوار حجاز كے ساحل بولا (موجوده الرایس)پر اترے،پھر اونٹوں كے ذریعے سے مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوئے تھے۔ حضرت عمرو بن سعید كی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت صفوان شریك سفر نہ تھیں۔ حبشہ میں ان كا انتقال ہو چكا تھا۔ 

حضرت خالد بن سعید کی بیٹی حضرت ام خالد بیان کرتی ہیں کہ میرے والد چودہ برس حبشہ میں مقیم رہے۔ میں وہیں پیدا ہوئی۔ ۷ھ میں ہم حبشہ سے لوٹے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خیبرمیں ملاقات کی۔ آپ نے لوٹنے والے مہاجرین كو خوش آمدید كہا اور خیبر کے غنائم میں سے حصہ دیا۔ ہم آپ ہی کے ساتھ مدینہ واپس آئے(الطبقات الكبریٰ۳/ ۶۸)۔ 

 دیگر غزوات میں شركت

حضرت عمرو بن سعید جنگ خیبر كے بعد مدینہ پہنچے تھے،اس لیے بدر،احد،خندق اور خیبر كے غزوات میں حصہ نہ لے سكے۔ انھوں نے فتح مكہ،جنگ حنین،حصار طائف اور غزوۂ تبوك میں بھرپور حصہ لیا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے انھیں جزیره نماے عرب كے مشہور مقامات تبوك،گلستان خیبر،تیما،وادی القریٰ اور فدك كا عامل مقررفرمایا۔ 


انگوٹھی كا سركاری مہر بننا

حضرت عمرو بن سعید اپنے بھائی حضرت خالد بن سعید كے ساتھ حبشہ سے آئے تو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملنے آئے۔ ان كی انگلی میں لوہے كی انگوٹھی تھی جس پر چاندی كا پانی چڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا: تمھارے ہاتھ میں یہ انگوٹھی كیسی ہے؟ بتایا : یا رسول الله،یہ انگشتری میں نے بنائی ہے۔ اس پر كیا لكھا ہے؟ آپ نے پوچھا۔ بتایا :محمد رسول الله۔ فرمایا :دكھاؤ۔ آپ كو انگوٹھی ایسی پسند آئی كہ اسے سركاری مہر بنا لی اور منع فرمایا كہ كوئی اس جیسا نقش بنائے۔ آپ كی و فات كے وقت وه انگوٹھی آپ كے ہاتھ میں تھی۔ پھر حضرت ابوبكر، حضرت عمر كے ہاتھ میں رہی اور وه اسے سركاری مہر كے طور پر استعمال كرتے رہے۔ حضرت عثمان خلیفہ بنے تو ان كے ہاتھ كی زینت بنی رہی، حتیٰ كہ ان سے بیئر اریس میں گر گئی اور پورا كنواں خالی كرانے كے باوجود نہ ملی (المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۴۰۱۱۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۰۸۹)۔ 

عامل بننے سے معذرت

 نبی صلی الله علیہ وسلم كی وفات كے وقت حضرت خالد بن سعید یمن،حضرت ابان بن سعید بحرین اور حضرت عمرو بن سعیدخیبر سے ملحقہ بستیوں اور تیما كے عمال تھے۔ ان كی تقرری آپ نے خود فرمائی تھی۔ آپ كی وفات كے ایك ماه بعدتینوں بھائیوں نے اپنے عہدے چھوڑے اور مدینہ چلے آئے۔ حضرت ابوبكر نے كہا:رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے مقرره عمال سے بہتر كون كام كر سكتا ہے؟اپنے مناصب پر لوٹ جاؤ۔ تینوں نہ مانے اور شام كے محاذ پر جانے كو ترجیح دی اور وہیں شہادت پائی (مستدرك حاكم، رقم ۵۰۸۵)۔ 

شہادت 

۱۳ھ: حضرت سعید نے حضرت ابو بكر كے عہد خلافت میں شام میں ہونے والی جنگ اجنادین میں شہادت پائی۔ اس معرکہ میں وه نہایت جوش وخروش سے لڑے۔ اسلامی فوج ذرا سست پڑتی تو سپاہیوں كو للکارکرثبات و استقلال پرآمادہ کرتے۔ ایک مرتبہ جوش میں آکر کہا: میں نہیں چاہتا کہ جنگ كی شدت میرے ساتھیوں كو کم زور كر دے،اب میں دشمن فوج میں خود گھستا ہوں۔ یہ کہہ کر رومی لشكر کے قلب میں گھستے چلے گئے۔ رومی ان پر ٹوٹ پڑے اوروه بڑی بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد دیکھا گیا تو سارا بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا،شمار کرنے پر تیس سے زیادہ زخم جسم پر نکلے۔ جیش اسلامی كے كمانڈر حضرت عمرو بن العاص تھے۔ شاذروایت كےمطابق وه مرج الصفر كے معركہ میں شہید ہوئے۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیر كہتے ہیں: ابن اسحاق كی یہ روایت نہیں مانی گئی كہ ان كی شہادت جنگ یرموك میں ہوئی۔ طبری اور ابن كثیر نے اس روایت كودرست ماناہے۔ ابن اثیر اور ابن كثیر نے یرموك اوراجنادین كی دونوں جنگوں كے شہدا میں حضرت عمرو بن سعید كا نام شامل كیا ہے۔ ابن حجر نے جنگ اجنادین میں ان كی شہادت كی تفصیل بیان كی ہے۔ 

اولاد

حضرت عمرو بن سعید كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔ 

روایت حدیث

 حضرت عمرو بن سعید سے كوئی روایت مروی نہیں۔ 

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ(ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف(بلاذری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،سیراعلام النبلاء (ذہبی)،السیرة النبویۃ(ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)۔


ـــــــــــــــــــــــــ

B