HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون سیاست (۱)

نظم اجتماعی کی ضرورت

’’ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے،اُس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ وہ تمدن کو چاہتا ہے اور پھر اِس تمدن کو اپنے ارادہ و اختیار کے سوء استعمال سے بچانے کے لیے جلد یا بدیر اپنے اندر ایک نظم اجتماعی پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں سیاست و حکومت، انسان کی اِس خواہش اور اِس مجبوری ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور انسان جب تک انسان ہے، وہ اگر چاہے بھی تو اِس سے نجات حاصل کر لینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اِس دنیا میں حکومت کے بغیر کسی معاشرے اور تمدن کا خواب دیکھنے کے بجاے وہ اپنے اِس نظم اجتماعی کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بنانے کی کوشش کرے۔ “(میزان ۴۸۵)

مصنف نے اس تمہیدی اقتباس میں  انسانی معاشرے کے لیے سیاست وحکومت کی  ضرورت واہمیت کے چند بنیادی پہلوؤں سے متعلق اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔

پہلا نکتہ حکومت وریاست کی ضرورت اور جواز سے تعلق رکھتا ہے۔ علم سیاسیات میں ایک مکتب فکر کا نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ  حکومت اور  ریاست کا ادارہ اخلاقی جواز نہیں رکھتا۔ ان میں سے بعض مفکرین کے نزدیک فرد کی آزادی اور اختیار اتنا اہم اور بنیادی اصول ہے کہ خود اپنے ضمیر اور حاسۂ اخلاقی کے علاوہ کسی خارجی اتھارٹی کو اس پر کوئی اختیار دینا ناروا جبر کی حیثیت رکھتا ہے۔  بعض دیگر مفکرین  ریاست کے عدم جواز کے لیے انسانی تاریخ کے عمومی تجربات سے استدلال کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہےکہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت اور اقتدار  آ جاتاہے، وہ اسے طاقت ور طبقوں کے ہی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور انسانوں کے عمومی مفادات کا تحفظ ان کی بنیادی ترجیح نہیں ہوتا۔ ان کے خیال میں معاشرے کی بقا اور استحکام کے لیے یا تو حکومت کی کوئی ضرورت نہیں اور معاشرہ اس کے بغیر بھی  تعاون باہمی کے اصول پر خود کو قائم رکھ سکتا ہے اور یا یہ کہ حکومت اور ریاست کے وجود میں آنے سے جس قسم کا جبر اور استحصال پیدا ہوتا ہے، اس کے مقابلےمیں اس صورت حال کی سنگینی کہیں کم ہے جو کسی ایسے معاشرے کو پیش آ سکتی ہے جہاں حکومت نہ ہو۔  ۱؎

مسلم مفکرین بھی اس امکانی موقف کا ذکر کرتے ہیں جس کی رو سے نظم حکومت کو غیر ضروری قرار دیا جاسکتا ہے۔ آمدی نے اس ضمن میں مختلف ممکنہ استدلالات کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً‌ یہ کہ انسان فطری اور طبعی طور پر معاشرتی زندگی میں  باہمی تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں اور  شہری زندگی سے دور دیہات اور صحراؤں میں رہنے والے گروہ کسی حکومت کے زیر اثر نہ ہوتے ہوئے بھی پرامن زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف حکومت کے قیام سے حصول اقتدار کی کشمکش پیدا ہوتی ہے جو عموماً‌ خون خرابے اور قتال پر منتج ہوتی ہے (ابکار الافکار ۵/ ۱۲۶- ۱۲۷)۔

مصنف نے اس نقطۂ نظر کی نفی کی ہے اور ریاست وحکومت کو معاشرے کی ایک جائز اور فطری ضرورت قرار دیا ہے۔ یہ ضرورت انسانوں کے ارادہ واختیار کے سوء استعمال سے پیدا ہوتی ہے جس پر قابو پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  طاقت اور اختیار رکھنے والا ایک نظم وجود میں لایا جائے جو  انسانوں کو ایک دوسرے پر ظلم وتعدی سے روکنے کی ذمہ داری انجام دے۔  مصنف کو اس سے اتفاق ہے کہ نظم اجتماعی کا وجود میں لایا جانا بذات خود کوئی مستحسن یا مطلوب چیز نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک ’’مجبوری “ کی ہے، تاہم انسانی معاشرے کی ساخت کے لحاظ سے اس سے نجات پانا ممکن نہیں اور انسانی سعی وجہد کا ہدف کسی مثالیت پسندانہ  صورت حال کو وجود میں لانا نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ نظم اجتماعی  کی خرابیوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔

دوسرا نکتہ جو مذکورہ اقتباس سے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ حکومت واقتدار کی ضرورت  بنیادی طور پر ایک عقلی معاملہ ہے اور انسانوں نے عقل وتجربہ کی روشنی میں اپنی ایک بنیادی تمدنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نظم اجتماعی کے قیام کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مغربی سیاسی فکر میں  قرون وسطیٰ میں  ارباب اختیار کی اطاعت کو ایک مذہبی حکم کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اس کے لیے بائیبل سے استناد حاصل کیا جاتا تھا جس میں حکمرانوں کی اطاعت اور فرماں برداری کی تلقین کی گئی ہے۔  نشاۃ ثانیہ کے عہد میں  جان ہابس  نے اس انداز فکر میں ایک اہم تبدیلی پیدا کی اور  ریاست کے قیام کو عقلی بنیادوں پر معاشرے کی ایک عملی اور اجتماعی ضرورت کی حیثیت سے واضح کیا۔۲؎ مسلم سیاسی فکر میں بھی اس حوالے سے یہ بحث موجود ہے کہ خلافت یا امامت کا قیام آیا عقلاً‌ ضروری ہے یا اس کی ضرورت شریعت کے حکم سے پیدا ہوئی ہے؟ معتزلی اہل فکر کا غالب رجحان یہ رہا ہے کہ حکومت کا قیام ایک عقلی ضرورت ہے، جب کہ اشاعرہ کے نزدیک چونکہ عقل سے انسان پر کوئی بھی چیز واجب نہیں ہوتی، اس لیے مسلمان اگر  نظم اجتماعی کے قیام کے مکلف ہیں تو اس کی بنیاد شریعت کے حکم پر ہے (آمدی، ابکار الافکار ۵/ ۱۲۱- ۱۲۲) ۔

‌مصنف نے اس نکتے کے حوالے سے  عقلیت پسند نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے نظم اجتماعی کی ضرورت کو عقل وتجربہ کی بنیاد پر واضح کیا ہے۔

تیسرا نکتہ سیاست وحکومت کے، ایک مستقل  یا عارضی ضرورت ہونے سے متعلق ہے۔  فریڈرک اینجلز اور بعض دیگر سوشلسٹ مفکرین کا رجحان یہ ہے کہ ریاست کا وجود انسانی معاشرے کا ایک عارضی مرحلہ ہے اور تاریخی ارتقا کے آیندہ مراحل میں یہ ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اس فلسفے کی رو سے ریاست بنیادی طور پر محنت کشوں کو دبا کر رکھنے کا ایک منظم ادارہ ہے جو سرمایہ دار طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جیسے جیسے ذرائع پیداوار انفرادی ملکیت سے اجتماعی ملکیت کی طرف منتقل ہوتے چلے جائیں گے، طبقاتی معاشرہ ختم ہوتا چلا جائے گا اور اس عمل کے مکمل ہونے پر ایک اشتراکی معاشرہ وجود میں آئے گا جو طبقاتی کشمکش سے پاک ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ریاست کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور ریاست کا ادارہ ختم ہو جائے گا۔ ۳؎

مصنف کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ ریاست کو تمدن کی کوئی عارضی ضرورت نہیں سمجھتے، بلکہ اس کی بنیاد انسان کی فطرت میں ہونے کی وجہ سے  انسانی معاشرہ کبھی ریاست وحکومت کے ادارے سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

نظم اجتماعی کی اساس

’’چونکہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی اساس ’اَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ‘ہے، اِس لیے اُن کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی راے کو رد کر دیں۔‘‘ (میزان ۴۹۶)

یہاں قرآن مجید کی آیت کا جو ٹکڑا نقل کیا گیا ہے، وہ سورۂ شوریٰ میں آئی ہے اور اس میں اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو باہمی مشورے سے انجام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَﵣ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْﵣ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ.(۴۲: ۳۸)
’’اورجنھوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا اور نماز قائم کی اور جن کے معاملات آپس کے مشورے سے انجام دیے جاتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“

آیت میں بہ ظاہر اگرچہ حکم کا اسلوب نہیں ہے، بلکہ مدح کے انداز میں اس وصف کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس سے نتیجے میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور آیت کا مدعا واضح طور پر یہی بنتا ہے کہ مسلمانوں سے اپنے اجتماعی معاملات کو  مشاورت کے اصول پر  انجام دینا مطلوب ہے۔  چنانچہ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت صیغۂ امر کے ساتھ دی گئی ہے کہ آپ معاملات کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو مشورے میں شریک کیا کریں۔  مفسرین بھی شوریٰ کے حوالے سے صحابہ اور خلفاے راشدین کے طرز عمل کو واضح کرتے ہوئے سورۂ شوریٰ کی اسی آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثلاً‌ امام قرطبی لکھتے ہیں:

فَأَمَّا الصَّحَابَةُ بَعْدَ اسْتِئْثَارِ اللّٰهِ تَعَالَى بِهِ عَلَيْنَا فَكَانُوا يَتَشَاوَرُونَ فِي الْأَحْكَامِ وَيَسْتَنْبِطُونَهَا مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ. وَأَوَّلُ مَا تَشَاوَرَ فِيهِ الصَّحَابَةُ الْخِلَافَةُ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَيْهَا حَتَّى كَانَ فِيهَا بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَالْأَنْصَارِ مَا سَبَقَ بَيَانُهُ وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ: نَرْضَى لِدُنْيَانَا مَنْ رَضِيَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِدِينِنَا وَتَشَاوَرُوا فِي أَهْلِ الرِّدَّةِ فَاسْتَقَرَّ رَأْيُ أَبِي بَكْرٍ عَلَى الْقِتَالِ. وَتَشَاوَرُوا فِي الْجَدِّ وَمِيرَاثِهِ، وَفِي حَدِّ الْخَمْرِ وَعَدَدِهِ. وَتَشَاوَرُوا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحُرُوبِ.(الجامع لاحکام القرآن ۱۸/ ۴۸۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہو جانے کے بعد صحابہ بھی احکام سے متعلق باہم مشورہ کرتے اور انھیں کتاب وسنت سے مستنبط کرتے تھے۔ صحابہ نے سب سے پہلے جس معاملے میں مشاورت کی، وہ خلافت کا مسئلہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا تھا، چنانچہ اس کے متعلق سیدنا ابوبکر اور انصار کے مابین بحث ومباحثہ ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا، ہم اس کو اپنی دنیا کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ نے اہل ارتداد کے متعلق بھی مشاورت کی اور سیدنا ابوبکر کی راے یہی قرار پائی کہ ان کے خلاف قتال کیا جائے۔ صحابہ نے دادا کی میراث اور شراب نوشی پر کوڑوں کی تعداد کا فیصلہ بھی باہمی مشاورت سے کیا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگوں کے معاملات میں بھی وہ مشاورت کرتے رہے۔“

سورۂ مائدہ کی آیت ۲۰ کی تفسیر میں مصنف نے ایک لطیف استنباط سے واضح کیا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو  ایک قوم کے طور پر منظم کیا گیا اور حکومت واقتدار کی ذمہ داریاں ان پر ڈالی گئیں تو اس کی نوعیت بھی   استبدادی یا موروثی حکومت کی نہیں تھی، بلکہ وہ بھی اپنے معاملات کو قومی اتفاق راے اور مشاورت سے ہی طے کرنے کے پابند تھے۔  مذکورہ آیت کے الفاظ یہ ہیں:

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۣبِيَآءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًاﵯ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ.
’اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، اللہ کے احسانات کو یاد رکھنا جو اس نے تم پر کیے ہیں،  جب اس نے تمھارے اندر انبیا بھیجے اور تمھیں  بادشاہت عطا کی اور تمھیں وہ کچھ دیا جو اہل جہان میں سے کسی کو نہیں دیا۔“

مصنف اس سے مذکورہ نکتے اخذ کرتے ہوئے لکھتےہیں:

’’آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بادشاہی کا منصب ایک اجتماعی منصب ہے جو پوری قوم کو دیا جاتا ہے۔ اِس میں کسی شخص یا خاندان کے استبداد اور مطلق العنانی کے لیے ہرگز کوئی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ نبیوں کے لیے تو فرمایا ہے کہ ’جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۣبِيَآءَ‘، لیکن بادشاہی کے لیے ’جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔‘‘ (البیان۱ / ۶۱۲)

سورۂ شوریٰ کی محولہ بالا آیت کے مفہوم ومضمرات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے عہد میں اس اصول کی عملی پاس داری کے حوالے سے مصنف کی ایک تفصیلی تحریر ان کی کتاب ’’برہان‘‘ میں  ’’امرہم شوریٰ بینہم“ کے عنوان سے شامل ہے۔ مصنف کی ان توضیحات کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ یہاں ’امر‘ کے مفہوم میں اجتماعی زندگی کے تمام معاملات شامل ہیں، یعنی اس کا اطلاق حکمران کے عزل و نصب سمیت اجتماعی امور کے دائرے میں آنے والے ہر معاملے پر ہوگا۔ یوں ’’ بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط، اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر، غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے۔ “

۲۔ جن لوگوں کو مسلمانوں کا  حکمران منتخب کیا جائے، وہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کی اجماع یا اکثریت کی راےکے پابند ہوں گے اور انھیں اس کے مقابلے میں اپنی انفرادی راے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

۳۔ نظم اجتماعی میں عام مسلمانوں کی شرکت کا طریقہ  تمدنی حالات کے لحاظ سے طے کیا جائے گا۔ عہد نبوی و عہد صحابہ میں اس کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے معتمد رہنما ان کی نمایندگی کریں گے اور عام لوگ ان کی وساطت سے اجتماعی امور  میں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوں گے۔

۴۔ مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں سے اقتدار کا حق اس گروہ کے لیے تسلیم کیا جائے گا جسے مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد اور تائید حاصل ہو۔ اسی اصول پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ قرار دیا کہ آپ کے بعد مرکزی اقتدار قبیلۂ قریش کے لیے خاص ہوگا اور  مسلمانوں کے دوسرے گروہ، مثلاً‌ انصار مدینہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے بے پناہ خدمات کے باوجود اقتدار میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔ 

۵ ۔ خلافت راشدہ کے عہد میں اسی اصول کے تحت اقتدار مہاجرین قریش کے پاس رہا اور اُن کے معتمد رہنما باہمی مشورے سے خلافت کے لیے مختلف اشخاص کاانتخاب کرتے رہے۔ چاروں خلفاے راشدین کے انتخاب کے لیے اگرچہ بہ ظاہر الگ الگ طریقے اختیار کیے گئے، لیکن ان سب میں بنیادی اصول یہی کارفرما تھا کہ خلیفہ کا انتخاب اکثریتی گروہ، یعنی قریش کے اکابر میں سے کیا جائے گا اور یہ انتخاب قریش کے اکابر کے مشورے سے کیا جائے گا (برہان ۱۴۸)۔

مصنف نے اپنی متعدد دیگر تحریروں میں اس اصول کا انطباق خلافت راشدہ کے بعد کی اسلامی تاریخ اور دورجدید کے  جمہوری نظام پر کرتے ہوئے اہم نتائج اخذ کیے ہیں۔ چنانچہ ’’مقامات‘‘ میں ’’نفاذ شریعت“ کے زیر عنوان مصنف نے اس اصول کی روشنی میں  اسلامی تاریخ میں حکومت و اقتدار سے متعلق پیش کیے گئے مختلف سیاسی نظریات اور دور جدید میں جمہوریت کے سیاسی فلسفے سے متعلق بھی اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ خاندانی بادشاہت، تغلب، یعنی بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے اور اسی طرح  مذہبی سند کی بنیاد پر  حق اقتدار کو کسی کے لیے مخصوص ماننے کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:

’’نظم ریاست کو چلانے کا جو طریقہ اُس نے بتایا ہے، وہ جمہوریت ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: ’اَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ‘(مسلمانوں کے معاملات اُن کے باہمی مشورے سے چلائے جاتے ہیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اِسی کی وضاحت میں فرمایا ہے: ”جس نے مسلمانوں کی راے کے بغیر کسی کی بیعت کی، وہ اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کرے گا۔“ ہماری تاریخ میں اِس مقصد سے بادشاہت کا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے اور آمریت کا بھی اور ہمارے بعض گروہ اِس بات کے بھی قائل رہے ہیں کہ حکومت کے سربراہ کو خدا کا مامور ہونا چاہیے، لیکن نظم ریاست کو چلانے کے لیے قرآن کا مقرر کردہ قاعدہ یہی ہے۔‘‘ (۲۴۰)

مصنف کی راے میں اسی اصول کا یہ تقاضا ہے کہ دین کی تعبیر وتشریح کے باب میں فقہا کے اجتہادات کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل نہ ہو ، بلکہ مختلف آرا میں سے کسی ایک راے کو قبول کرنے یا نہ کرنے اور قانون کا درجہ دینے کا حق بھی جمہوری بنیادوں پر عوام کے منتخب نمایندوں کو ہی حاصل ہو۔ طبقۂ علما  کی راے کو  خصوصی اہمیت دیے جانے کا طریقہ بھی مصنف کی راے میں اسی بنیاد پر درست نہیں۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’ریاست سے متعلق دین نے بھی کوئی حکم اگر دیا ہے تو اُس کی تعبیر و تشریح کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ دینی علوم کے ماہرین اپنی اپنی تشریحات پیش کر سکتے ہیں۔ اُن کا حق ہے کہ اپنے موقف کا اظہار کریں، مگر اُن کے اِس موقف کو لوگوں کے لیے واجب الاطاعت قانون کی حیثیت اُسی وقت حاصل ہو گی، جب اُن کے منتخب نمایندوں کی اکثریت اُسے قبول کر لے گی۔ جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اِسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اُسی کا ہے اور اُسی کا ہونا چاہیے۔ لوگوں کا حق ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں پر تنقید کریں اور اُن کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن اُن کی خلاف ورزی اوراُن سے بغاوت کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔علما ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ہر ادارہ پابند ہے کہ اُس کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود عملاً اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔‘‘ (مقامات۲۴۲)

مصنف کا یہ نقطۂ نظر علامہ اقبال کے موقف کے قریب تر ہے جنھوں نے یہ تجویز کیا تھا کہ جدید دور میں اجتہاد کا حق پارلیمان کو تفویض ہونا چاہیے، تاہم پارلیمان کی رہنمائی کے لیے مذہبی علما کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ ۴؎

قریش کے ساتھ اقتدار کی تخصیص 

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول پر اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت کے لیے آپ کے جانشین آپ کے بعد انصار کے بجاے قریش ہوں گے۔... یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح کر دی کہ عرب کے مسلمانوں کا اعتماد چونکہ قریش کو حاصل ہے، اِس لیے قرآن مجید کی ہدایت ــــــ اَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ ــــــ کی روشنی میں امامت عامہ کا مستحق پورے عرب میں اُن کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور انتقال اقتدار کا یہ فیصلہ کسی نسبی تفوق یا نسلی ترجیح کی بنا پر نہیں،بلکہ اُن کی اِس حیثیت ہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔‘‘ (میزان ۴۹۷)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد منقول ہے کہ ’إن هذا الأمر في قریش‘،یعنی حکمرانی کا منصب قریش میں رہے گا (بخاری، رقم ۶۶۰۶)۔ ان احادیث کی روشنی میں ایک طویل عرصے تک جمہور فقہا کا موقف یہی رہا ہے کہ اسلام میں خلافت کا منصب قریش سے نسبی تعلق رکھنے والوں کے ساتھ خاص ہے۔یہ مسئلہ اہل سنت اور خوارج ومعتزلہ کے مابین پیدا ہونے والی کلامی بحثوں میں ایک بڑے نزاع کا عنوان رہا ہے۔ خوارج وغیرہ خلافت کو قریش کے ساتھ خاص نہیں مانتے تھے اور غیر قریشی کے بھی خلیفہ بننے کے جواز کے قائل تھے، جب کہ اہل سنت کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بنیاد پر اس مسئلے پر امت کا عملی ’اجماع‘ منعقد ہو چکا ہے۔ احکام سلطانیہ، شروح حدیث اور علم کلام کی کتابوں میں اسے ایک اجماعی مسئلے ہی کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، حتیٰ کہ جب عربوں کے اس منصب کے لیے عملی اعتبار سے نا اہل ہونے کے تناظر میں اہل سنت کے بعض اہل علم، مثلاً قاضی ابوبکر الباقلانی وغیرہ نے ضرورتاً اس شرط کو ساقط کرنے کی راے پیش کی تو اسے بھی خلاف اجماع قرار دے کر اس پر تنقید کی گئی (دیکھیے: مقدمہ ابن خلدون ۲۴۳) ۔

تاہم جب قریش کی خلافت کا عملاً خاتمہ ہو گیا تو متاخرین کو ازسرنو ان احادیث کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ضمن میں اہل علم کے ہاں متعدد رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کے شارح علامہ ابن حجر اور دیگر اہل علم نے روایات کے داخلی قرائن کی روشنی میں یہ راے پیش کی کہ قریش کے لیے بیان کیا جانے والا یہ استحقاق مطلق نہیں، بلکہ اہلیت اور عدل وانصاف کے ساتھ مشروط تھا اور ان کا طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہنا اور پھر اس سے محروم کر دیا جانا اس شرط کے عین مطابق ہے (فتح الباری ۲۰/ ۱۵۵)۔ گویا ان اہل علم نے  اس شرط کے ساقط ہونے کی دلیل بھی خود نصوص میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔

ابن خلدون نے اس ضمن میں ایک دوسرا نقطۂ نظر پیش کیا اور کہا کہ یہ کوئی مذہبی ہدایت نہیں تھی، بلکہ اس کی بنیاد عصبیت کے سیاسی اصول پر تھی۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ قریش کو قبائل مضر میں غالب حیثیت حاصل تھی اور عرب کے سارے قبائل ان کی اس حیثیت کا اعتراف کرتے تھے۔ چنانچہ اگر قریش کے علاوہ اقتدار کسی کے سپرد کیا جاتا تو یقینی طور پر اہل عرب ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتے اور قریش کے علاوہ مضر کا کوئی دوسرا قبیلہ انھیں اپنی اطاعت پر مجبور نہ کر سکتا۔ گویا اقتدار کے لیے قریشی ہونے کی شرط اس بنیاد پر عائد کی گئی کہ وہ مضبوط عصبیت کے مالک تھے اور ان کے ذریعے سے ملت کو مجتمع اور قوت کو متحد رکھا جا سکتا تھا۔ قریش کے متحد ہونے سے مضر کے سارے قبائل متحد ہو جاتے اور ان کے سامنے تمام اہل عرب جھک جاتے اور پھر اہل عجم بھی احکام دین کے تابع ہو جاتے، جیسا کہ اسلامی فتوحات کے زمانے میں ہوا اور اس کے بعد اموی اور عباسی خلافت کے زمانے میں یہ صورت حال برقرار رہی، تا آنکہ رفتہ رفتہ عرب عصبیت کم زور ہوتی گئی اور خلافت کا معاملہ کم زور پڑ گیا۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ شریعت کی نظر میں اصل اصول کی حیثیت ’’عصبیت‘‘ کو حاصل ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے اور اس کی روشنی میں جس زمانے میں جس گروہ کو بھی عصبیت حاصل ہو جائے، وہ حکومت و اقتدار کا حق دار ہوگا (مقدمہ ابن خلدون ۲۴۴- ۲۴۵)۔

جدید دور میں اہل علم کا عمومی رجحان بھی اسی طرف ہے کہ یہ ہدایت شریعت کے کسی عمومی یا ابدی ضابطے کا بیان نہیں، البتہ مولانا مودودی کے نزدیک اس  کی نوعیت ایک استثنائی حکم کی ہے جس کی بنیاد عملی مصلحت اور ضرورت پر تھی۔ مولانا کی راے میں، شریعت مسلمانوں کے مابین کسی قسم کے نسبی تفوق اور امتیاز کو روا نہیں رکھتی اور اس اصول کی رو سے مسلمانوں میں سے کسی بھی شخص کو خلیفہ کے منصب پر فائز کیا جا سکتا تھا، تاہم  یہ چیز ابتدائی عرب معاشرے میں عملاً قابل قبول نہ ہوتی، کیونکہ قریش کو  تاریخی اسباب سے عرب میں  وہ خاص مقام اور اثر ورسوخ حاصل تھا جس کی وجہ سے ان کے علاوہ کسی اور کو زمام اقتدار سونپا جانا سیاسی لحاظ سے  ایک غیرحکیمانہ فیصلہ  ثابت ہوتا۔ اس خدشے کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ خلیفہ کا انتخاب قریش میں سے ہی کریں (رسائل ومسائل ۱/ ۵۲)۔

مولانا مودودی کی تعبیر کے مطابق یہ ہدایت  بنیادی طور پر اصول کے خلاف تھی اور اس کا جواز عملی مصلحت سے پیدا ہوا تھا۔ تاہم مولانا اصلاحی نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے  اس کی نوعیت کو اس طرح واضح کیا ہے کہ آپ کی ہدایت خلاف اصول نہیں، بلکہ عین اصول کے مطابق تھی،  کیونکہ اسلامی اصول سیاست کی رو سے حکمران اسی کو ہونا چاہیے جسے معاشرے  کا عمومی اعتماد حاصل ہو۔ چونکہ عرب معاشرے میں قریش کو پہلے سے یہ حیثیت حاصل تھی، اس لیے اس شرط پر وہی پورے اترتے تھے۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اصول میں کسی استثنا کا نہیں، بلکہ اصول ہی کا بیان اور اس کا اطلاق تھا (اسلامی ریاست ۵۲)۔

مصنف نے اسی راے کی تائید کی ہے اور، جیسا کہ نقل کردہ اقتباس سے واضح ہے، اس ہدایت کو قرآن مجید کے ایک عمومی اصول ’اَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ‘ کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جزیرۂ عرب میں حق اقتدار سے متعلق قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک خاص صورت حال میں قرآن کے بیان کردہ ایک اصول کا انطباق تھا، اس سے مقصود نہ تو خاندان قریش کے کسی نسبی تفوق یا نسلی ترجیح کا اثبات تھا اور نہ اسے ہمیشہ کے لیے ایک واجب الاتباع سیاسی اصول کے طور پر  بیان کرنا آپ کے پیش نظر تھا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

۱؎ Anarchism (Stanford Encyclopedia of Philosophy)۔

۲؎ David Miller, Political Philosophy: A Very Short Introduction, p. 10, Oxford University Press, 2003۔

۳؎ Frederick Engels, Socialism: Utopian and Scientific, pp. 75-77۔

۴؎ Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.191۔


B