یہ ایک منفرد سورہ ہے جس پر قرآن کے اِس چوتھے باب کا خاتمہ ہورہا ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اِس باب کا موضوع اثبات رسالت اور اِس کے حوالے سے قریش کو انذار و بشارت ہے۔ چنانچہ اِسی تعلق سے یہ سورہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق و فرائض بیان کرتی اور آپ اور آپ کی ازواج مطہرات کے بارے میں جو رویہ اُس زمانے کے منافقین و منافقات نے اختیار کر رکھا تھا، اُس پر اُنھیں شدید تنبیہ کرتی ہے۔ نیز مسلمانوں کو ہدایت کرتی ہے کہ اِن کے مقابلے میں وہ اپنے رب ہی پربھروسا رکھیں، اُس کی مدد شامل حال رہی تو یہ اُن کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے، جیسا کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ و اختیار کے ساتھ عہد اطاعت کی جو عظیم امانت انسان کو دے رکھی ہے، اُس کے حقوق کی یاددہانی بھی اِسی مناسبت سے کی گئی ہے۔ اِس لحاظ سے یہ سورہ بالکل اُسی طرح اِس باب کی تمام سورتوں کا تکملہ و تتمہ ہے، جس طر ح سورۂ نور پچھلے باب کا تکملہ و تتمہ ہے۔
اِس کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور اہل ایمان بھی، اور اِس کے مضمون سے واضح ہے کہ ہجرت کے بعد یہ مدینۂ طیبہ میں اُس وقت نازل ہوئی ہے، جب مسلمانوں کی ایک باقاعدہ حکومت وہاں قائم ہو چکی تھی اور منکرین کے خلاف آخری اقدام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماننے والوں کا تزکیہ و تطہیر کر رہے تھے۔
__________
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ١ﶫ وَّاتَّبِعْ مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ٢ وَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا ٣
اللہ کے نام سے جو سرا سر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
اے نبی، اللہ سے ڈرو اور اِن منکروں اور منافقوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔۱؎ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔۲؎ تم اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اُن سب چیزوں سے با خبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔۳؎ اور اللہ پر بھروسا رکھو اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے۔۱ -۳
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖﵐ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔيْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْﵐ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْﵧ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُ مْبِاَفْوَاهِكُمْﵧ وَاللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ ٤ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ٘ا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْﵧ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَا٘ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ﶫ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٥
اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں( کہ ایک ہی وقت میں وہ دو متضاد باتوں کو مانتا رہے) ۔۴؎ چنانچہ نہ اُس نے تمھاری اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار۵؎ کر بیٹھتے ہو، تمھاری مائیں بنایا ہے ۶؎ اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنادیا ہے۔۷؎ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں،۸؎ مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔۹؎ پھر اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔۱۰؎ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے،۱۱؎ اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، ۱۲؎ اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۴ -۵
اَلنَّبِيُّ اَوْلٰي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗ٘ اُمَّهٰتُهُمْﵧ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰي بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّا٘ اَنْ تَفْعَلُوْ٘ا اِلٰ٘ي اَوْلِيٰٓـِٕكُمْ مَّعْرُوْفًاﵧ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ٦
(اِسی اصول کے مطابق)،نبی کا حق تو اُس کے ماننے والوں پرخود اُن کی ذات سے بھی مقدم ہے اور اُس کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں،۱۳؎ مگر رحمی رشتے رکھنے والے خدا کے قانون میں دوسرے تمام مومنین اور مہاجرین کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں،۱۴؎ الاّ یہ کہ اپنے تعلق کے لوگوں سے تم کوئی حسن سلوک کرنا چاہو۔ یہ اِسی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔۱۵؎ ۶
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسَي ابْنِ مَرْيَمَﵣ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ٧ﶫ لِّيَسْـَٔلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْﵐ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِيْمًا ٨
(تم اِس کی پیروی کرو، اے پیغمبر) ،اور یاد رکھو، جب ہم نے سب نبیوں سے اُن کا عہد لیا۱۶؎ اور تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا ( کہ ہمارا پیغام بے کم و کاست پہنچا دو۱۷؎ ) تاکہ اللہ راست بازوں سے اُن کی راست بازی کے بارے میں سوال کرے اور منکروں اور منافقوں سے اُن کے کفر و نفاق کے بارے میں، ۱۸؎ اور منکروں کے لیے تو اُس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔۷ -۸
۱؎ یہ اُن باتوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آئے گا اور جنھیں کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ اِس میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کی تنبیہ کا رخ درحقیقت اُنھی کی جانب ہے۔
۲؎ یعنی اُس نے اگر کوئی حکم دیا ہے تو وہی علم و حکمت کا تقاضا ہے۔ اُس کے خلاف کسی کی کوئی چیز بھی لائق التفات نہیں ہے۔
۳؎ اِن آیتوں میں خطاب تمام تر واحد کے صیغے میں ہے، لیکن یہاں جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دین کے معاملے میں وہی رویہ ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے، جس کی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی جا رہی ہے۔
۴؎ یعنی ایک ہی وقت میں مومن بھی ہو اور منافق بھی، خدا پر ایمان کا دعویٰ بھی کرے اور اُس کے شریک بھی ٹھیرائے، خدا کے پیغمبر سے اطاعت و وفاداری کا عہد بھی باندھے اور اُس کے خلاف سازشوں میں بھی شامل ہو۔ ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے، اِس لیے کہ اُس کے سینے میں ایک ہی دل دھڑکتا ہے، خدا نے اُسے دو دلوں کے ساتھ پیدا نہیں کیا ہے۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کوئی غیر فطری چیز کبھی خدا کے دین میں جائز نہیں ہو سکتی، وہ اُسے ہر حال میں ممنوع ٹھیرائے گا۔ چنانچہ اِسی اصول پر متفرع کرکے آگے جاہلیت کی بعض رسوم کی لغویت واضح فرمائی ہے۔
۵؎ یہ عرب جاہلیت کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ شوہر نے بیوی کے لیے ’أنت علی کظھر أمی‘(تجھے ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا) کے الفاظ زبان سے نکال دیے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بیوی کو اِس طرح کی بات کہہ دینے سے ایسی طلاق پڑ جاتی تھی جس کے بعد بیوی لازماً شوہرسے الگ ہو جاتی تھی۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ یہ الفاظ کہہ کر شوہرنہ صرف یہ کہ بیوی سے اپنا رشتہ توڑ رہا ہے، بلکہ اُسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ لہٰذااُن کے نزدیک طلاق کے بعدتو رجوع کی گنجایش ہو سکتی تھی، لیکن ظہار کے بعد اِس کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
۶؎ یعنی اگرکوئی شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے یا اُس کے کسی عضو کو ماں کے کسی عضو سے تشبیہ دیتا ہے تو اِس سے بیوی ماں نہیں ہو جاتی اور نہ اُس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا ایک امر واقعی ہے، اِس لیے کہ اُس نے آدمی کو جنا ہے۔ اُس کو جو حرمت حاصل ہوتی ہے،وہ اِسی جننے کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک ابدی اور فطری حرمت ہے جو کسی عورت کو محض منہ سے ماں کہہ دینے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
۷؎ مطلب یہ ہے کہ اُنھیں بالکل صلبی بیٹوں کا درجہ نہیں دیا ہے کہ اُن کے لیے میراث کا حق قائم ہو جائے یا اُن کی بیویوں کے ساتھ اُن کی وفات یا طلاق کے بعد نکاح کرنا ممنوع سمجھا جائے۔
۸؎ یعنی اِن کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ اِن پر شریعت کے کسی حکم کی بنیاد رکھی جائے۔ خدا کی شریعت انسان کی فطرت پر مبنی ہے، اُس میں اِس طرح کے رسوم کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی۔
۹؎ اِس لیے کہ اِسی سے نسب کا امتیاز قائم رہتا اور وہ معاشرت وجود میں آتی ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے رحمی رشتوں کے تقدس اور انسان کے فطری جذبات و داعیات پر رکھی ہے۔ اِس سے ہٹ کر جو کام بھی کیا جائے گا، وہ حق و انصاف کے خلاف ہو گا جسے خدا کی شریعت کبھی قبول نہیں کر سکتی۔
۱۰؎ یعنی حلف اور ولا کا جو طریقہ تمھارے ہاں موجود ہے، اُس کے مطابق تم اُنھیں اپنا مولیٰ بنا سکتے ہو۔ اِس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن کسی کو بالکل اُسی حیثیت سے بیٹا یا بیٹی نہیں بنا سکتے جو تمھاری صلبی اولاد کی ہے۔ استاذامام لکھتے ہیں:
’’... دینی اخوت کے رشتے سے تو عربوں کو اول اول اسلام نے آشنا کیا، جاہلیت میں عرب اِس سے بالکل ناآشنا تھے، لیکن خاندانوں اور قبیلوں کے ساتھ وابستہ ہونے کا ایک طریقہ حلف اور ولا کا اِن کے ہاں موجود تھا۔ خاندان یاقبیلے سے باہر کا کوئی شخص اگر کسی خاندان یا قبیلے میں شامل ہونا چاہتا اور اُس خاندان والے اُس کو شامل کر لیتے تو وہ اُس خاندان کا ’مولیٰ‘ سمجھا جاتا اور جملہ حقوق اور ذمہ داریوں میں شریک خاندان و قبیلہ بن جاتا۔ اگر وہ قتل ہوجاتا تو جس خاندان یا قبیلہ کا وہ مولیٰ ہوتا، اُس کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ اُس کے قصاص کا مطالبہ کرے۔ اِسی طرح اگر وہ کوئی اقدام کر بیٹھتا جس کی بنا پر کوئی ذمہ داری عائد ہونے والی ہوتی تو اِس ذمہ داری میں بھی پورے خاندان و قبیلہ کو حصہ لینا پڑتا۔ ’مولي القوم منهم‘ (قوم کا مولیٰ اُنھی کے اندر کا ایک فرد شمار ہوگا) عربوں میں ایک مسلم سماجی اصول تھا اور اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اِس کو برقرار رکھا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۸۹)
۱۱؎ یعنی اب تک ہوتی رہی ہے۔
۱۲؎ یعنی تعلیم و تنبیہ کے بعد بھی اِسی غلط طریقے پر قائم رہنے پر اصرار کیا۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ یہ قصد و ارادہ کے ساتھ خدا کی نافرمانی کا ارتکاب ہو گا، اِسے سہو و نسیان یا غلطی پر محمول نہیں کیا جا سکتا جس پر خدا کی شریعت میں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
۱۳؎ مطلب یہ ہے کہ آدمی کا دل اگر کسی شخص کو خدا کا پیغمبر مان لیتا ہے تو اُس پر وہ کسی رشتے کو، یہاں تک کہ خود اپنی جان کو بھی مقدم نہیں ٹھیرا سکتا۔ پھر اِس تعلق کا قدرتی نتیجہ ہے کہ اُس کے جذبات پیغمبر کی ازواج مطہرات کے معاملے میں بھی وہی ہوں جو شریف بیٹوں کے اپنی ماؤں کے لیے ہوتے ہیں۔ اِس سے الگ ہو کر اگر کوئی سوچتا ہے تو وہ ایمان کے ساتھ نفاق کو جمع کرتا ہے جو ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے اور جیسا کہ اوپر بیان ہوا، خدا نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں۔
۱۴؎ یعنی پیغمبر اور آپ کی ازواج کا معاملہ الگ ہے، مگر اُن کے بعد کسی کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خدا کے بنائے ہوئے رشتوں پر مقدم ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا باقی سب لوگوں کے تعلقات کی بنیاد یہ ہے کہ رحمی رشتے رکھنے والے الاقرب فالاقرب کے اصول پر ایک دوسرے کے حق دار اور دوسرے سب لوگوں سے مقدم ہوں گے، یہاں تک کہ اُن مومنین اور مہاجرین سے بھی جنھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اِس لیے کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔
۱۵؎ یعنی قرآن میں۔ یہ اُن ہدایات کی طرف اشارہ ہے جو سورۂ نساء (۴) کی ابتدا اور سورۂ انفال (۸) کے آخر میں بیان ہوئی ہیں اور جن میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وراثت وغیرہ کے حقوق میں رشتہ داراحق ہیں، اُن پر کسی دوسرے کو مقدم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔
۱۶؎ اِس عہد کا حوالہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے، خاص طور پر سورۂ مائدہ میں، جہاں اِس کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔
۱۷؎ اِس لیے کہ آگے جس سوال کا ذکر ہے، وہ اتمام حجت کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے اور اتمام حجت کے لیے ضروری ہے کہ خدا کی ہدایت لوگوں تک بے کم و کاست پہنچ جائے۔
۱۸؎ یہ فقرہ تقابل کے اسلوب پر اصل میں محذوف ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ