خیال و خامہ
میری نوا کا ثبات، اشہد ان لا الٰہ
قلب و نظر کی حیات، اشہد ان لا الٰہ
عالمِ نو ہے مگر آج بھی ہوں نغمہ زن
توڑ کر لات و منات، اشہد ان لا الٰہ
عقل و خرد کا جہاں، یہ زمین و آسماں
موت ہے اس کی برات، اشہد ان لا الٰہ
تو ہے مسلماں تو ہیں ایک ہی دریا کی موج
دجلہ و نیل و فرات، اشہد ان لا الٰہ
پھر وہ اذاں کہ جسے ڈھونڈ رہی ہے یہاں
تیرے شبستاں کی رات، اشہد ان لا الٰہ
علم و فن کی ساحری، شیوہ ہاے آذری
بندۂ حق کی نجات، اشہد ان لا الٰہ
درد کا درماں بھی یہ، عشرتِ دوراں بھی یہ
تلخیِ غم میں نبات، اشہد ان لا الٰہ
____________