انشائیہ
محمد بلال
ایک صاحب کی عمر اتنی ہے کہ ایسے لوگوں کو جوان ہی کہا جاتا ہے۔ اور ان کی صحت بھی ایسی ہے کہ ایسے لوگوں کو صحت مند ہی کہا جاتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ نہ ان کے حواسِ خمسہ میں کوئی کمی ہوئی ہے، نہ ان کی جلد نے گیلے چمڑے کی شکل اختیار کی ہے، نہ ان کی ہڈیوں کی نوکوں نے جلد سے باہر جھانکنے کی کوشش کی ہے، نہ ان کے پٹھوں اور ہڈیوں کے تعلقات خراب ہوئے ہیں، نہ ان کے ہاتھوں کی پشت پر نیلی رگوں کا جال ابھرا ہے، نہ ان کے پھیپھڑے اتنے کمزور ہوئے ہیں کہ محض گفتگو کرنے ہی سے سانس پھول جائے اور نہ وہ کبھی سونف، جوین اور ہرہڑ کھاتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ صاحب اکثر و بیشتر اپنے آپ کو بوڑھا کہتے رہتے ہیں اور بوڑھا لکھتے رہتے ہیں۔ میری ان کے ساتھ خاصی بے تکلفی ہے۔ میں نے ان کے اس عجیب رویے پر ’’احتجاج‘‘ کیا۔ انھوں نے میری بات سنی۔ میری طرف دیکھا۔ لیکن چپ رہے۔ اور ہنس دیے۔
کچھ دنوں کے بعد ان صاحب کا احساسِ بزرگی بلکہ اظہارِ بزرگی ان کے ایک دوست تک پہنچا۔ اس دوست نے بھی اس بات کو اچھا نہیں سمجھا اور ’’جوان بزرگ‘‘ سے کہا: ’’آپ اپنے آپ کو ابھی سے بوڑھا کیوں کہتے ہیں۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ پھر وہ دوست مسئلے کی گہرائی میں اترے اور بولے: ’’زندگی اور اس کی ساری رعنائیاں امید سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جنت کی امید لگا دی ہے۔ اگر یہ امید قائم ہے، تو بندہ جوان ہے خواہ وہ بظاہر بوڑھا ہی ہو۔ اگر یہ امید قائم نہیں ہے تو انسان بوڑھا ہے خواہ وہ بظاہر جوان ہی ہو۔ اس پہلو سے تو انسان کی عمر جوں جوں گزرتی ہے تو وہ جوان ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امید کے بر آنے کا وقت قریب آ رہا ہوتا ہے۔‘‘ ’’جوان بزرگ‘‘ کے دوست کی اس بات نے مجھے بھی اس مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھنے کی ترغیب دے دی ۔
دوسرے دن ’’جوان بزرگ‘‘ سے میری پھر اسی موضوع پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اس مرتبہ انھوں نے اپنے اظہارِ بزرگی کا محرک واضح کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل بڑھاپے میں انسان کا دنیا سے جی اٹھ جاتا ہے۔ میں اپنے آپ کو اس لیے بوڑھا کہتا ہوں تاکہ میرا بھی دنیا میں جی لگنا کم ہو جائے ۔‘‘ ’’جوان بزرگ‘‘ کا محرک سنا تو میرے اندر اعلیٰ حقائق کے چراغوں کی لو تیز ہو گئی اور ان کی بات کی اجنبیت ختم ہو گئی۔
بعض لوگوں کے نزدیک جوانی میں بڑھاپا طاری کر لینا شایدمعیوب ہو کہ اس میں موت سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ اُس دنیا کا حسن اِس دنیا کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس دنیا کا تصور کرتے ہی اسے پانے کی طلب پیدا ہو جاتی ہے۔
اس پہلو سے سوچیں تو ’’جوان بزرگ‘‘ کی بات بڑی ’’رومانٹک‘‘ تھی۔ چنانچہ میں بھی ’’رومانٹک‘‘ ہوگیا۔ مجھے اس وقت ایک ٹی وی پروڈیوسر کی بات یاد آ گئی۔ میں نے ان سے کہا: ’’ایک ٹی وی پروڈیوسر سے کسی نے پوچھا: ’’آپ اپنے ڈراموں میں کردار کی موت کا منظر بڑا خوب صورت اور بڑا ’’رومانٹک‘‘ کر کے دکھاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘ پروڈیوسر نے کہا: ’’موت چیز ہی بڑی ’’رومانٹک‘‘ ہے ۔‘‘
انسان کودوسرے انسان سے محبت حسن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کبھی یہ حسن ظاہر میں پایا جاتا ہے اور کبھی باطن میں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ظاہری حسن عارضی ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد گلاب کی طرح کملا جاتا ہے۔ اور باطنی حسن کے آئینے میں بھی اکثروبیشتر کوئی بال آ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ محبت اپنی بنیادکھو دیتی ہے اوربخار کی طرح اترجاتی ہے۔
لیکن وہ ہستی، وہ سب سے بڑی ہستی، اس کا ’’حسن‘‘ لازوال ہے۔ جسے اُس لازوال حسن سے محبت ہوتی ہے اس کی محبت پھرختم نہیں ہوتی۔ محبت کیا ہے ؟ ایک پہلو سے دیکھیں تومحبت کچھ آرزوؤں کا نام ہے : محبوب کے قرب کی آرزو۔ اس کے دیدار کی آرزو۔ وہ لازوال حسن بصیرت کی آنکھ سے اِس دنیا میں نظر آ جاتا ہے۔ تمنا یہ ہوتی ہے کہ بصارت بھی اس سے محروم نہ رہے۔ لیکن اس دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ موت ایسا عمل ہے جو اس آرزو کی تکمیل کا مرحلہ قریب تر کر دیتا ہے۔..... واقعی موت بڑی ’’رومانٹک‘‘ چیز ہے ۔
انسان کی موجودہ زندگی عارضی ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ کے لیے جینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے خاتمے سے خوف زدہ رہتا ہے۔ ایک زاویے سے سوچیں تو موت دوام کی خبر ہے۔ وہ اس کا یہ خوف دور کر دیتی ہے اور اسے اُس زندگی سے ہم کنار کر دیتی ہے جو موت سے نا آشنا ہے ۔.....واقعی موت صبحِ دوامِ زندگی ہے۔
بلاشبہ موت کی ایک خاص کشش ہے۔
____________