HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

ایک اداریے پر اعتراض

اس خط کے جواب میں کوئی صاحب اگر کوئی تحریر لکھنا چاہیں تو اشاعت کے لیے ’’اشراق‘‘ کے یہ صفحات ان کے لیے حاضر ہیں۔ مدیر

 

جناب مدیرِ ’’اشراق‘‘

السلام علیکم

’’اشراق‘‘ نومبر ۱۹۹۸ کے اداریے ’’آہ! محمد حکیم سعید‘‘ میں حکیم سعید کو دین و مذہب کی روشن علامت اور محمد صلاح الدین کو اہل عزیمت قرار دینے پر مجھے اعتراض ہے۔

حکیم محمد سعید کے مظلومانہ اور افسوس ناک قتل پر ملکی اور غیرملکی جرائد میں بہت لکھا جا چکا اور بہت لکھا جائے گا۔ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘، جس کا نعرہ یہ ہے کہ وہ ’’امتِ مسلمہ میں فکری انقلاب کا داعی‘‘ ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہ کی جائے جو نہ صرف خلافِ واقعہ ہو  بلکہ اس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہ ہو۔ مذکورہ دونوں باتیں اس فکر پر بدنما داغ ہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ حکیم محمد سعید صاحب کے معاملے میں آپ نے تمام اصول بالاے طاق رکھ دیے اور جذبات کی روہ میں بہ گئے۔ والٹیر نے کیا خوب صورت بات کہی ہے کہ:We owe respect to the living to the dead‘ ’we owe only the truth. (ہم پر زندوں کی توقیر فرض ہے مگر مردوں کے معاملے میں صرف صداقت)۔

مرحوم حکیم صاحب کے بارے میں صداقت یہ ہے کہ وہ دین و مذہب کی علامت نہیں تھے۔ دو وقت کے کھانے کی بات ہو یا قربانی کا مسئلہ، گائے کے گوشت کا مسئلہ ہو یا دودھ کا مسئلہ، ان تمام مسائل کے بارے میں ان کے بیانات سب پر واضح ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان کا کوئی علمی کام دین کےحوالے سے ہو تو نہ صرف مجھے بتا دیجیے بلکہ ’’اشراق‘‘ میں اس کی قسط وار اشاعت کا بھی اہتمام کیجیے۔

محمد صلاح الدین ایک سیاسی اور مذہبی جماعت کے اخبار ’’جسارت‘‘ کے مدیرکے طور پر متعارف ہوئے۔ ’’جسارت‘‘ سے اختلاف کی صورت میں علیحدہ ہوئے اور ۱۹۸۴ میں ’’تکبیر‘‘ کا اجرا کیا۔ اور دسمبر ۱۹۹۶ میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں ناگہانی طور پر بلاک کر دیے گئے۔ ان کے جانشیں اور وہ خود جو چراغ جلائے ہوئے تھے اس کو عزیمت قرار دینا ایک انتہائی افسوس ناک غلطی ہے۔ محمد صلاح الدین اور ان کے جانشیں افراد کے رسالے اٹھا لیں اور خود تجزیہ کر لیں کہ وہ ان تمام نکات کی کس طرح تذلیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؟

ہمارے جریدے کے اداریے میں ’’تکبیر‘‘ کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ ’’تکبیر‘‘بنیادی طور پر غیر معتبر، غیر ذمہ دار اور زرد صحافت کا شاہکار ہے۔ ’’تکبیر‘‘کے نزدیک اعتبار صحافت اہم نہیں ہے۔ اسے صرف سنسنی خیزی اور بے سروپا کہانیوں سے دلچسپی ہے تاکہ قارئین کی توجہ برقرار رہے۔ جہاد، التزام جماعت اور اس طرح کے بہت سے دوسرے معاملات میں ان کی رائے بالکل غلط اور بے بنیاد تھی۔ وہ اور ان کے جانشین ’’تکبیر‘‘کے ذریعے سے اس رائے کے فروغ کا مشن انجام دے رہے ہیں۔ کراچی میں مقیم سیکڑوں افراد اس زرد صحافت کا ہدف بنے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے دسیوں لوگوں کو جانتا ہوں جن کی زندگیاں صلاح الدین صاحب کی سنسنی خیز خبروں کی نذر ہو گئیں۔ انھوں نے اپنے رسالے میں ان گنت لوگوں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے۔ مجھے بتائیے کہ کیا یہ قرآن مجید کے حکم: ’لا تقف ما لیس لک به علم‘ (جس چیز کا تمھیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہوا کرو۔) بنی اسرائیل ۱۷: ۳۶۔ کی صریح مخالفت نہیں ہے؟ انھوں نے اپنے اسی مشنری رسالے میں ایک سابق وزیراعظم کی نیم عریاں تصاویر کی اشاعت سے ان کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ مجھے بتائیے کہ کیا ایسے ہی رویے کے بارے میں قرآن نے یہ نہیں کہا کہ: ’ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرة‘؟ (بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کا چرچا ہو، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں ایک دردناک عذاب ہے۔) النور ۲۴: ۱۹۔ اگر یہ اسلامی اور بے باک صحافت ہے تو ایسے اسلام اور ایسی بے باکی سے میں براءت کا اعلان کرنے میں فخر محسوس کروں گا۔

اگر ’’اشراق‘‘ زرد صحافت کے ان بتوں کو توڑ نہیں سکتا تو خدا کے واسطے ان کی جھوٹی تعریف سے بہتر ہے کہ اپنی اشاعت بن کر دے۔

والسلام

ڈاکٹر آغا طارق سجاد

ـــــــــــــــــــــــــ

B