HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ


استمداد

سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے مدد یا شفاعت طلب کی جا سکتی ہے ؟

جواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اب اس دنیا سے کوئی جسمانی یا روحانی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اب آپ سے کسی بھی نوعیت کا استمداد یا استشفاع جائز نہیں۔ البتہ آپ کی تعلیمات قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہیں، ان کی تعمیل ہم پر لازم ہے ۔ 


سماع موتیٰ

سوال: کیا قبر والے یا مرنے والے ہماری بات سن سکتے ہیں؟

جواب: سماعِ موتیٰ نہ قرآن کا موضوع ہے نہ احادیث کا۔ یہ محض تاویلات کا گورکھ دھندا ہے جس سے یہ بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی بحثوں میں پڑنے کے بجائے، اپنے دین کو قرآن و سنت کے محکمات تک محدود رکھنا چاہیے۔


حضور پر ایمان

(۱)

سوال: میرے خیال میں اخروی نجات کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہر غیر مسلم کے لیے لازمی ہے۔ ’’اشراق‘‘ کے بعض مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے نزدیک اس کے بغیر بھی نجات ممکن ہے۔ اس کی وضاحت کر دیں ؟

جواب: آپ کی رائے بالکل درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی پیروی کرنا ہر اس شخص کے لیے لازمی ہے جس تک آپ کی دعوت پہنچی اور اس پر واضح ہو گیا کہ آپ سچے پیغمبر اور آپ کی تعلیمات خدا کے صحیح دین کی تعلیمات ہیں۔ اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے آپ پر ایمان نہیں لاتا تو وہ آخرت میں کامیاب نہیں ہو گا ۔ لیکن ان افراد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جن تک آپ کی دعوت نہیں پہنچی یا اگر پہنچی تو ہے لیکن ان پر کما حقہٗ یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ محمدِ عربی خدا کے پیغمبر ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے، جبکہ وہ اپنے کردار اور حق پرستی کے اعتبار سے بڑے اعلیٰ کردار کے حامل ہیں اور اگر ان پر حق واضح ہو جاتا تو قبول کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرتے ؟  

بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم مسلمان دوسروں کو جہنم میں پہنچانے سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارا ہر فرقہ دوسرے فرقوں کو جہنمی سمجھتا ہے ۔ درآنحالیکہ ہماری دل چسپیوں کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو جہنم سے کیسے بچا سکتے ہیں۔

(۲)

سوال: آپ کا (اوپر والا) جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ حق کے منکر اور حق پر عمل نہ کرنے والے بھی حق پرست ہو سکتے ہیں۔ اس طرح تو کفارِ مکہ بھی حق پرست قرار دیے جا سکتے ہیں؟

جواب: میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ مکہ کے کفارحق پرست کیسے بن جائیں گے۔ کفارِ مکہ کے بارے میں خدا کی شہادت موجود ہے کہ وہ حق پرست نہیں تھے اسی وجہ سے وہ حق سے محروم رہے۔ باقی رہے بعد کے ادوار کے اہلِ کفر تو وہ اگر تعصب اور دنیا پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں تو یقیناً حق پرست نہیں ہیں۔  

ہماری بات : ’’جن پر حق واضح نہیں ہوا وہ حق پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ’’حق واضح نہیں ہوا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی الجھن یا اشکال موجود ہے اور اس الجھن یا اشکال کا سبب دنیا کی محبت نہیں ہے۔ اس کا تجربہ ہم خود اپنی ذات میں بھی کرتے ہیں۔ ہم سے اختلافِ رائے رکھنے والا کئی اسالیب میں اپنا اختلاف واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم بھی خلوص سے اس کی رائے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری سمجھ میں اس کی بات نہیں آتی اور ہم اپنی رائے پر قائم رہتے ہیں۔ لیکن بعدازاں کوئی دوسرا شخص اس مسئلے پر اس طرح گفتگو کرتا ہے کہ صحیح بات واضح ہو جاتی ہے۔ اس میں ہمیں اپنی خامی سمجھ میں آ جاتی ہے اور ہم اپنی رائے تبدیل کر لیتے ہیں۔


صدقۂ جاریہ

سوال: صدقۂ جاریہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: صدقۂ جاریہ وہ تمام خیر کے امور ہیں جن کے اثرات یا جن سے فائدہ اٹھانے کا عمل طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ادارے، مثلاً اسکول، کالج اور دینی مدارس وغیرہ خدمتِ خلق کے ادارے، مثلاً ہسپتال، یتیم خانے اور راہ گیروں کی ضروریات کا بندوبست، اولاد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و دعوت کی غرض سے کتب و رسائل کی اشاعت اور افراد کی تربیت کا اہتمام یہ اور اس نوعیت کے دوسرے کام صدقۂ جاریہ ہی کی ذیل میں آتے ہیں۔


سائل کے بارے میں صحیح رویہ

سوال: بعض سائل مستحق معلوم نہیں ہوتے چنانچہ ان کی مدد کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ان کے بارے میں صحیح رویہ کیا ہے ؟

جواب: سائل کو دینا بالکل درست ہے۔ جس نے آپ کے آگے دستِ سوال دراز کر دیا اس کے معاملے میں موزوں رویہ یہی ہے کہ آپ اسے اپنی استطاعت کے مطابق دے دیں یا اس سے سلیقے سے معذرت کرلیں۔ یہ بات کہ وہ بعض اوقات مستحق نہیں لگتا، دل میں کھٹک ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس کا بھی اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ ہم سلیقے سے معذرت کر لیں یا کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کر دیں۔ ہمارا امتحان یہ ہے کہ ہم ہر حال میں اعلیٰ اخلاقی رویے پر قائم رہنے کی کوشش کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ برے اخلاق والا اپنی نیکیاں بھی گنوا بیٹھتا ہے۔


خیرات

سوال: زکوٰۃ کے نصاب میں چاندی اصل ہے یا سونا۔ اسی طرح یہ بھی بتائیے کہ اگر ضرورت کی رقم رکھی ہو تو اس پر زکوٰۃ دی جائے گی یا نہیں۔ ’’ضرورت سے زائد‘‘ سے کیا مراد ہے۔ اس کی بھی وضاحت کر دیجیے؟

جواب: زکوٰۃ کا نصاب اصلاً چاندی ہے۔ سونے کا روایات میں ذکر ہے۔ لیکن اس کی وجہ اس کا نصاب ہونا نہیں، بلکہ ۵۲ تولے چاندی کے مقابلے میں اس زمانے میں اس کی قیمت ہے۔ یہ تناسب زمانے کے حساب سے بدل بھی سکتا ہے۔ یہ بات روایات سے واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاب کی حیثیت سے چاندی ہی کو معیار قرار دیا تھا۔  

جوبھی رقم پس انداز کی گئی ہو خواہ اس کا باعث حج ہو، بیٹی کی شادی ہو یا مکان۔ اگر وہ نصاب سے زائد ہے تو اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔

 غالباً آپ کنز پر وعید کے پیشِ نظر ’’ضرورت سے زائد‘‘ کی وضاحت چاہتے ہیں۔ ضرورت سے زائد رقم میں ضرورت کا لفظ توضیح طلب ہے۔ اس سے صرف حال کی ضرورتیں مراد نہیں، بلکہ مستقبل کی ضرورتیں بھی مراد ہیں۔ اسی طرح اس سے کپڑا لتا یا روزمرہ کے گھر کے اخراجات ہی مراد نہیں، بلکہ کاروبار کی ضرورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ اگر آپ کا اشارہ ’قل العفو‘۱ والی آیت کی طرف ہے تو اپنے سیاق و سباق میں وہ اصلاً جنگ کی ہنگامی حالت سے متعلق ہے۔ اس حکم کا اطلاق روزمرہ کی زندگی پرنہیں ہوگا۔


عترت ِرسول

سوال: خطبۂ حجتہ الوداع میں قرآنِ مجید کے ساتھ ’’عترتِ رسول‘‘ کے ذکر والی روایت کی کیا حیثیت ہے ؟

جواب: آپ نے خطبۂ حجتہ الوداع کے حوالے سے وضاحت چاہی ہے۔ صحیح روایات میں صرف کتاب اللہ کا ذکر ہے اور عترتِ رسول والی روایات میں اختلاف ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں اگر صرف قرآنِ مجید کا ذکر کیا ہے تو اس سے سنت کے ماخذ ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی تائید نہ صرف ان روایات سے ہو جاتی ہے جن میں آپ نے دونوں کے یکساں ماخذ ہونے کو واضح کیا ہے۔ بلکہ قرآنِ مجید سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ کو مطاع قرار دیا گیا ہے۔


التزامِ جماعت

سوال: التزامِ جماعت کے تقاضے کے تحت آپ لوگ اولوالامر کی اطاعت پر بہت زور دیتے ہیں۔ اگر کسی اولوالامر کی بات سے ہم اختلاف کریں تو وہ کون ہے جو اس معاملے کو اللہ و رسول کی طرف لوٹا کر فیصلہ کرے گا ؟

جواب: التزامِ جماعت کے ضمن میں آپ کا یہ اشکال کافی اہم ہے کہ اختلاف کی صورت میں فیصلہ کیسے ہوگا۔ ہمارے موجودہ نظام میں اس کا فیصلہ عدالتوں اور پارلیمنٹ کے اداروں سے لیا جا سکتا ہے۔ یہی طریقہ اسلامی ریاست میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔


جبری اقتدار

سوال: زبردستی اقتدار میں آنے والے کے ساتھ کیسے نمٹا جائے ؟

جواب: اس معاملے میں دین کا منشا یہی ہے کہ یہ جدوجہد قانون کے دائرے میں کی جائے۔ البتہ بغاوت کی صورت میں باغیوں سے نمٹنے کا طریقہ حکومت اختیار کرتی ہے اور وہ اسلام کی رو سے سزاے موت بھی دے سکتی ہے۔ عامۃ الناس کسی حکمران کو ناجائز حکمران قرار دے کر اس کو سزا نہیں دے سکتے۔ ان کے لیے اب حکمران کی تبدیلی ایک پرامن جدوجہد کی متقاضی ہے۔


دینی تنظیموں سے افتراق

سوال: کیا نئی نئی دینی تنظیمیں مسلمانوں میں افتراق و انتشار میں اضافے کا باعث نہیں ؟

جواب: نئی دینی تنظیموں کا بننا کوئی قابلِ اعتراض مسئلہ نہیں ہے۔ اصل میں فرقہ دارانہ ذہنیت صورتِ حال کو سنگین بناتی ہے۔ ہر وہ شخص جو اپنے افکار یا طریقِ کار کے اختلاف کے باعث نئی تنظیم بنانا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کے لیے اپنے آپ کو ابلاغ تک محدود رکھے۔ نہ کفر کی سندیں جاری کرے اور نہ خدائی فوج دار بن کر لوگوں کو زبردستی اپنا ہم نوا بنائے۔ یہ چیز نئی تنظیموں کے باوجود امت میں انتشار و افتراق کا دروازہ کھلنے نہیں دے گی۔

___________

۱ ۔  البقر ۲ : ۲۱۹۔ ’’اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (اس مقصد کے لیے) کتنا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو :وہ سب جو ضرورت سے بچ رہے۔‘‘

B