پچھلے کچھ عرصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے عالم و فاضل اس روایت کو اپنے خطبوں اور وعظوں میں لوگوں کو سنا کر ’’جہادِ کشمیر‘‘ کے بارے میں ان کے جذبات کو ابھارتے اور انھیں اس کے لیے جانی اور مالی امداد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ہم ’’جہاد کشمیر‘‘ کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا بہت احترام کرتے ہیں۔ مگر ہمارا یہ احترام ہو یا مسلمانوں کے یہ جذبات و احساسات، ان میں سے کوئی چیز بھی یہ اہمیت نہیں رکھتی کہ اسے ٹھیس پہنچانے سے بچنے کی خاطر ہم خدا کی شریعت سے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کی پسند اور نا پسند کو پس پشت ڈال دیں اور اس کے پیغمبر کی طرف ایسی غلط باتیں منسوب کرنے لگ جائیں جو ہمارے ’’نیک‘‘ مقاصد کے حصول میں، کسی پہلو سے مددگار ہو سکتی ہوں۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں سے اپنی پسند اور ناپسند اور اپنے جذبات و احساسات کی تسکین کا مواد تلاش کر کے اسے لوگوں سے منوا لیں۔ ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہر قسم کے جذبات اور تعصبات سے بالا ہو کر خدا کے دین کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ جو بات، خدا کی بات کی حیثیت سے ہماری سمجھ میں آئے، وہ خواہ ہماری پسند اور نقطۂ نظر کے مطابق ہو یا نہ ہو، وہ خواہ ہمارے جذبات کی تسکین کرتی ہو یا نہ کرتی ہو، اس سے خواہ ہماری کہی ہوئی بات صحیح ثابت ہوتی ہو یا غلط، ہم اس کے مطابق عمل کریں۔ اس کو دوسروں کے سامنے بیان کریں اور اس پر اپنی جان اور اپنا مال نچھاور کر دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
ان صفحات میں ہم قارئین کی خدمت میں اس روایت کا تجزیہ پیش کریں گے جسے ’’غزوۂ ہند‘‘ کے حوالے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پیش نظر اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی غلط بات کی نسبت کی نشان دہی کر دیں، تاکہ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان روایتوں کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے...‘‘، تو وہ علی وجہ البصیرت ایسا کرے۔
یہ روایت دو طرح سے نقل ہوئی ہے۔ایک روایت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
عصابتان من أمتي أخرزھما اللّٰه من النار عصابة تغزو الھند وعصابة تکون مع عیسی بن مریم علیھما السلام.
’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ جہنم کی آگ سے بچائے گا: ایک وہ جو ہند میں لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسی بن مریم کے ساتھ ہو گا۔‘‘
دوسری روایت الفاظ کے بہت تھوڑے فرق کے ساتھ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور اس کے الفاظ یوں ہیں:
وعدنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم غزوة الھند فان ادرکھا انفذ فیھا نفسي ومالي فان اقتل کنت من افضل الشھداءِ وان ارجع فانا ابو ھریرة المحرر.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا تھا۔ چنانچہ میں اگر اسے پالوں تو اس میں اپنی اور اپنا مال لوٹا دوں۔ پھر اگر میں اس میں مارا گیا تو میں بہترین شہید ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں (گناہوں سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔‘‘
یہ روایتیں حدیث کی اہم کتابوں میں سے سنن نسائی اور مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوئی ہیں۔ پہلی روایت دو طریقوں سے اور دوسری تین طریقوں سے آئی ہے۔ اس طرح گویا، یہ روایت راویوں کے پانچ سلسلوں سے حدیث کی کتابوں میں درج کی گئی ہے۔
پہلی روایت جن دو سلسلوں سے آئی ہے، ان میں سے ایک اس طرح ہے:
انبانا محمد بن عبد اللّٰه بن عبد الرحیم قال: حدثنا اسد بن موسی قال: حدثنا بقیة قال: حدثنی ابوبکر الزبیدی عن اخیه محمد بن الولید عن لقمان بن عامر عن عبد الاعلی بن عدي البھراني عن ثوبان، مولی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم….
’’نسائی کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن عبد اللہ بن عبد الرحیم نے بتایا کہ اسد بن موسیٰ نے ہم سے بیان کیا کہ بقیہ نے ہم سے بیان کیا کہ ابوبکر زبیدی نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کے بھائی محمد بن ولید نے کہا کہ لقمان بن عامر نے کہا کہ عبد الاعلی بن عدی نے کہا کہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...۔‘‘
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں درج ذیل سلسلے میں آئی ہے:
حدثنا عبد اللّٰه حدثني ابي حدثنا ابو النضر حدثنا بقیة حدثنا عبد اللّٰه بن سالم و ابو بکر بن الولید الزبیدی عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلی بن عدي البھراني عن ثوبان….
’’عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ہم سے بیان کیا کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ ابونضر نے ہم سے بیان کیا کہ بقیہ نے ہم سے بیان کیا کہ عبداللہ بن سالم اور ابوبکر بن ولید نے ہم سے بیان کیا کہ محمد بن ولید زبیدی نے کہا کہ لقمان بن عامر نے کہا کہ عبدالاعلی بن عدی نے کہا کہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...۔‘‘
دوسری روایت ہمیں راویوں کے تین سلسلوں سے ملتی ہے۔ ان میں سے ایک سلسلہ یہ ہے:
انبانا احمد بن عثمان بن حکیم قال: حدثنا ذکر یا بن عدي قال: انبانا عبید اللّٰه بن عمرو عن زید بن ابي انیسة عن سیار عن جیبر بن عبیدة عن ابی ھریرة….
’’نسائی کہتے ہیں کہ احمد بن عثمان نے ہمیں بتایا کہ زکریا بن عدی نے ہم سے بیان کیا کہ عبید اللہ بن عمرو نے ہمیں بتایا کہ زید بن ابی انیسہ نے کہا کہ سیار نے کہا کہ جبیر بن عبیدہ نے کہا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...۔‘‘
دوسرا سلسلہ اس طرح ہے:
انبانا احمد بن عثمان بن حکیم قال: حدثنا زکر یا بن عدي قال: انبا به ھشیم عن سیار عن جبیر بن عبیدة عن ابي ھریرة….
’’نسائی کہتے ہیں کہ احمد بن عثمان نے ہمیں بتایا کہ زکریا بن عدی نے ہم سے بیان کیا کہ ہشیم نے یہ بتایا کہ سیار نے کہا کہ جبیر بن عبیدہ نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...۔‘‘
اس روایت کا تیسرا سلسلہ اس طرح سے ہے:
اخبرني محمد بن اسماعیل بن ابراھیم قال: حدثنا یزید قال: انبانا ھشیم قال: حدثنا سیار ابو الحکم عن جبیر بن عبیدة عن ابي ھریرة….
’’نسائی کہتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم نے مجھے بتایا کہ یزید نے ہم سے بیان کیا کہ ہشیم نے ہمیں بتایا کہ سیار نے ہم سے بیان کیا کہ جبیر بن عبیدہ نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...۔‘‘
ا۔ اسد بن موسیٰ
اسد بن موسیٰ کے بارے میں ابن حجر ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’سچا تھا مگر عجیب و غریب باتیں بیان کرتا تھا۔‘‘ ابن حجر ہی نے ’’تقریب التہذیب‘‘ میں اسد بن موسیٰ کے حوالے سے ابن حزم کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’منکر الحدیث ضعیف‘‘ (یہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ ضعیف ہے)۔ اسد بن موسیٰ کے بارے میں ابن یونس کہتے ہیں: ’’حدث باحادیث منکرة، وأحسب الآفة من غیرہ ۔ ‘‘(اس نے منکر احادیث روایت کی ہیں، اگرچہ میرا گمان ہے کہ غلطی ان روایتوں کے کسی دوسرے راوی کی ہو گی)۔ اس کے علاوہ ابن حجر نے ’’احکام الوسطیٰ‘‘ کے حوالے سے عبد الحق کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: ’’لا یحتج به عندھم ۔ ‘‘(ان کے نزدیک اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔
ب۔ بقیہ
بقیہ پہلی روایت کے دونوں سلسلوں میں موجود ہیں۔ بقیہ کے بارے میں ذہبی، اپنی کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ میں لکھتے ہیں:
وقال غیر واحد: کان مدلسا، فإذا قال عن، فلیس بحجة.
’’ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا ہے کہ بقیہ مدلس تھا، یہ جب ’عن‘ کہہ کر روایت کرے، تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
وہ لکھتے ہیں کہ بقیہ کے بارے میں ابن حبان نے کہا ہے:
سمع من شعبة و مالک و غیرھما أحادیث مستقیمة ثم سمع من أقوام کذابین عن شعبة و مالک، فروی عن الثقات بالتدلیس ما أخذ عن الضعفاء.
’’بقیہ نے شعبہ اور مالک وغیرہ سے کچھ صحیح احادیث سنیں، اس کے بعد اس نے کچھ جھوٹے لوگوں سے شعبہ اور مالک کے حوالے سے کچھ حدیثیں سنیں، پھر اس نے جو کچھ ان ضعیف راویوں سے سنا تھا وہ ثقہ لوگوں کے حوالے سے بیان کر دیا۔‘‘
ابوحاتم کے حوالے سے ذہبی لکھتے ہیں کہ انھوں نے بقیہ کے بارے میں کہا ہے: ’’لا یحتج به‘‘ (اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔ اسی طرح بقیہ کے بارے میں انھوں نے ابومسہر کا یہ تبصرہ بھی نقل کیا ہے: ’’أحادیث بقیة لیست نقیة ، فکن منھا علی تقبة۔‘‘ (بقیہ کی احادیث صاف نہیں ہوتیں، اس لیے ان بچ کر رہو)۔ ابواسحاق جوزجانی نے بقیہ کے بارے میں کہا ہے: ’’رحمه اللّٰه بقیة یدلس بقیة ما کان یبالی اذا وجد خرافة عمن یاخذہ‘‘(اللہ بقیہ پر رحم فرمائے، انھیں جب کوئی فضول قسم کی بات بھی مل جاتی تو وہ یہ پروا نہیں کرتے تھے کہ وہ کس سے نقل کر رہے ہیں)۔ ابن خزیمہ کہتے ہیں: ’’لا أحتج ببقیة‘‘(میں بقیہ کی روایت سے استدلال نہیں کرتا)۔ ابوحسن بن قطان کہتے ہیں: ’’بقیة یدلس عن الضعفاء، ویستبیح ذلک، وھذا ان صح مفسد لعدالته۔ ‘‘ (بقیہ ضعیف راویوں کے معاملے میں تدلیس کرتے تھے اور ایسا کرنے کو صحیح سمجھتے تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ ان کی عدالت کو مجروح کرتی ہے)۔ ذہبی، حسن بن قطان کی اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نعم واللّٰه صح ھذا عنه، انه یفعله۔‘‘(ہاں، خدا گواہ ہے یہ ان کے بارے میں بالکل صحیح کہا گیا ہے۔ وہ ایسا ہی کرتے تھے)۔
عقیلی نے اپنی ’’ کتاب الضعفاء‘‘ میں بقیہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ ان کے بارے میں، وکیع کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ما سمعت احد اجرا علی ان یقول قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم للحدیث من بقیة۔‘‘(میں نے بقیہ سے زیادہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں جری نہیں پایا)۔
ابن حجر ’’طبقات المدلسین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وکان کثیر التدلیس عن الضعفاء والجھولین۔‘‘ (وہ ضعیف اور مجہول راویوں کی بہت سی روایتیں تدلیس کر کے نقل کرتا تھا)۔
حافظ مزی ’’تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ میں ابن مبارک کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’کان یکتب عمّن أقبلَ وأدبر۔‘‘ (وہ ہر چلتے پھرتے آدمی کی روایت لکھ لیتا تھا)۔
ابن حجر ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں یحییٰ بن معین کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’کان یحدث عن الضعفاء بمائة حدیث، قبل ان یحدث عن الثقات۔‘‘ (لاضهخ ضعیف راویوں کی ایک سو حدیثیں بیان کر کے کسی ثقہ راوی کی ایک حدیث بیان کرتے تھے)۔ اسی طرح انھوں نے احمد بن حسن ترمذی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: ’’سمعت احمد بن حنبل یقول: توھمت ان بقیة لایحدث المناکر الاعن المجاھیل، فاذا ھو یحدث المناکر عن المشاہیر، فعلمت من این اتی۔ قلت: اتی من التدلیس۔‘‘ (میں نے احمد بن حنبل کو یہ کہتے سنا کہ پہلے میرا یہ گمان تھا کہ بقیہ صرف مجہول راویوں سے منکر حدیثیں نقل کرتا ہے۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ یہ حدیثیں کہاں سے آئی ہیں۔ترمذی کہتے ہیں، میں نے کہا یہ تدلیس کا نتیجہ ہیں)۔ خطیب کہتے ہیں: ’’في حدیثه بقیة لیس بحجة۔‘‘ (اس بات پر محدثین کا اجماع ہے کہ بقیہ سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔
ج۔ ابوبکر زبیدی
ابوبکر زبیدی بھی بقیہ کی طرح پہلی روایت کے دونوں سلسلوں میں موجود ہیں۔
ابوبکر زبیدی کے بارے میں صاحبِ ’’تقریب التہذیب‘‘ لکھتے ہیں کہ یہ مجہول الحال ہیں۔ گویا ان کے بارے میں ہمارے پاس اتنی معلومات نہیں ہیں، جن کی بنیاد پر اطمینان کے ساتھ ان کی ثقاہت یا ضعف کے بارے میں کچھ کہا جا سکے۔
’’تہذیب الکمال‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘دونوں کتابوں کے مطابق، ابوبکر زبیدی سے صرف بقیہ ہی نے روایت نقل کی ہے۔
د۔ عبد الاعلیٰ بن عدی البہرانی
عبد الاعلیٰ بن عدی البہرانی بھی بقیہ اور ابوبکرزبیدی کی طرح پہلی روایت کے دونوں سلسلوں میں موجود ہیں۔ ان کے بارے میں صاحبِ ’’تہذیب التہذیب‘‘نے ابنِ قطان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’لا تعرف حاله في الحدیث۔‘‘ (حدیث کے معاملے میں ان کی حیثیت معلوم نہیں ہے)۔
یہ اس روایت کے پہلے سلسلے کا معاملہ ہے۔ اس روایت کے دوسرے سلسلے میں بھی بقیہ جیسے ضعیف اور ناقابل اعتماد، ابوبکرزبیدی جیسے مجہول الحال اور عبد الاعلیٰ بن عدی البہرانی جیسے مجہول فی الحدیث لوگ موجود ہیں، جن کی وجہ سے ان دونوں سلسلوں کی نسبت کوئی محتاط آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں کر سکتا۔
۲۔ دوسری روایت
ا۔ زکریا بن عدی
زکریا بن عدی دوسری روایت کے پہلے دونوں سلسلوں میں موجود ہیں۔ ان کے بارے میں صاحبِ ’’تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ نے ابونعیم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ماله وللحدیث ذاک بالتوراة اعلم۔‘‘ (اس کا حدیث سے کیا تعلق ہے، وہ تو تورات کو زیادہ جانتا تھا)۔ یہی بات ’’تہذیب التہذیب‘‘ اور ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں بھی نقل ہوئی ہے۔
ب۔ عبید اللہ بن عمرو
عبید اللہ بن عمرو کے بارے میں ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں ابنِ سعد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’کان ثقة ربما أخطا۔‘‘ (وہ ثقہ آدمی تھا اگرچہ کبھی کبھی غلطی کر جاتا تھا)۔ ’’تقریب التہذیب‘‘میں ابنِ حجر ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ربما وھم۔‘‘ (اسے کبھی کبھی وہم ہوتا تھا)۔
ج۔ زید بن ابی انیسہ
زید بن ابی انیسہ کے بارے میں ’’تہذیب التہذیب‘‘میں ابنِ حجر نے امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’حدیثه حسن مقارب وان فیھا لبعض النکرة، وھو علی ذلک حسن الحدیث۔‘‘ (ان سے مروی احادیث اچھی ہوتی ہیں، اگرچہ ان میں بعض منکر بھی ہیں۔ اس کے باوجود وہ اچھی حدیثوں والے ہی ہیں)۔
ح۔ جبیر بن عبیدہ
دوسری روایت کے تمام سلسلوں میں جبیر بن عبیدہ کی یہ منفرد حیثیت ہے کہ وہ ان تمام سلسلوں میں موجود ہیں۔
جبیر بن عبیدہ کے بارے میں حافظ مزی ’’تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان سے صرف یہ ایک روایت ہی منقول ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اور کوئی روایت بیان نہیں کی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے، ذہبی نے خاص اسی روایت (یعنی غزوۂ ہند والی روایت) کے حوالے سے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں لکھا ہے: ’’عن ابی ھریرہ بخبر منکر۔ لا یعرف من ذا۔‘‘ (ان صاحب نے حضرت ابوہریرہ کی نسبت سے ایک منکر حدیث بیان کی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کون تھے)۔
و۔ ھشیم
ابنِ حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘میں لکھا ہے کہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے تھے:
لم یسمع ھشیم من یزید بن أبي زیادہ، ولا من عاصم بن کلیب، ولا من لیث بن أبي المشرقي، ولا من موسی الجھني، ولا من محمدِ بن جحادة، ولا من الحسن بن عبید اللّٰه، ولا من ۰بي خلدة ، ولا من سیار، ولا من علي بن زید وقد حدث عنھم.
’’ہشیم بن یزید بن ابی زیاد، عاصم بن کلیب، لیث بن ابی المشرقی، موسیٰ جہنی، محمد بن جحادۃ، حسن بن عبید اللہ، ابوخلدۃ، سیار اور علی بن یزید سے کوئی روایت نہیں سنی، اگرچہ وہ ان سے منسوب کر کے روایتیں بیان کرتا ہے۔‘‘
یہ واضح رہے کہ زیربحث راویت کے دو سلسلے ہشیم، سیار کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ امام احمد بن حنبل کے مطابق ہشیم نے سیار سے کبھی کچھ سنا ہی نہیں۔ ’’تہذیب التہذیب‘‘ہی میں ابنِ مبارک کی یہ بات بھی نقل ہوئی ہے کہ: ’’قلت لھشیم: لم تدلس: انت کثیر الحدیث؟ فقال: کبیراک قددلسا الا عمش وسفیان۔‘‘ (تمھارے پاس اتنی احادیث ہیں، پھر تم تدلیس کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا تمھارے دو بزرگ، یعنی اعمش اور سفیان بھی تو تدلیس کرتے تھے)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہشیم نہ صرف ایک معلوم و معروف مدلس تھے، بلکہ وہ اس کام کو جائز بھی سمجھتے تھے۔ ذہبی ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’لا نزاع فے انه کان من الحفاظ الثقات الا انه اکبیر التدلیس فقد مروی عن جماعة لم یسمع منھم۔‘‘ (اس میں اختلاف نہیں ہے کہ ہشیم کا شمار حفاظ اور ثقہ لوگوں میں ہوتا ہے مگر وہ بہت زیادہ تدلیس کرتے تھے۔ انھوں نے ایسے لوگوں کے حوالے سے روایتیں بیان کی ہیں، جن سے انھوں نے کوئی بات نہیں سنی)۔ چنانچہ انھی صفات کی وجہ سے صاحبِ ’’الکامل فی الضعفاء‘‘ نے ہشیم کو بھی ضعیف راویوں میں سے شمار کیا ہے۔
یہ ان روایات کے راویوں کی حیثیت ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس روایت کے درست ہونے کے امکانات کیا ہیں۔ لیکن ہمارے واعظین بغیر کسی جھجک کے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہے ہیں۔ ہماری ان تمام حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان حقائق کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روایت کی نسبت پر نظرثانی کریں اور کسی بات کو پیغمبر سے منسوب کرنے کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
___________