اس ضمن میں مولانا گوہر ر حمٰن صاحب نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ امت کی تشکیل کا مقصد چونکہ ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ ہے، اس وجہ سے امتِ مسلمہ کی نمائندہ حکومت کا مقصد بھی ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ ہی ہونا چاہیے۔ مولانا کی نظر میں، جو حکومت ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ کا فریضہ انجام نہیں دیتی، وہ ’’بالفعل‘‘ حکومت تو ہوتی ہے، مگر ’’بالحق‘‘ حکومت نہیں ہوتی۔ حکومت ’’بالفعل‘‘ کے قوانین کی، عام حالات میں اگرچہ پابندی کی جائے گی، تاہم اسے ’’الجماعتہ‘‘ کہہ کر اس کے التزام کو دین کا تقاضا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے نزدیک، اگر ایسا ہو تو امریکہ اور برطانیہ میں قائم ہونے والی غیر مسلموں کی حکومتیں بھی ’’الجماعتہ‘‘ ہی قرار پائیں گی، جو بالبداہت غلط ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’...ایک حکومت تو وہ ہوتی ہے جو ایک امرِ واقعہ کے طور پر بالفعل قائم ہوتی ہے اور عملاً لوگ اس کو حکومتِ وقت کے طور پر تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کے انتظامی اور نظم و نسق سے متعلق قواعد و ضوابط کی پابندی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً اس کی ریلوے لائینوں اور ایئر لائینوں پر چلتے ہیں اور ٹریفک کے قواعد کی پابندی کرتے ہیں، اس سے اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں اور اس کو ٹیکس اور دوسرے سرکاری واجبات بھی ادا کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے حقوق حاصل کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرانے کے لیے اس کی عدالتوں میں جانے پر بھی اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ ایسی حکومتیں تو آج امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور روس میں بھی عملاً قائم ہیں اور ان ممالک کے مسلمان شہری ان کے ملکی قوانین کی پابندی بھی کرتے اور مباحات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ان حکومتوں کے انتظامی قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا شرعاً ممنوع بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا صرف بالفعل موجود ہونے اور حکومتِ وقت ہونے کی وجہ سے ان غیر مسلم حکومتوں کو ’’الجماعتہ‘‘ کہا جا سکتا ہے، جس کا التزام دین کا تقاضا ہے اور جس سے الگ ہونا جاہلیت ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان بھی ان حکومتوں کو ’’الجماعتہ‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ کیوں نہیں کہہ سکتا ؟ اس لیے کہ یہ حکومتیں بالفعل تو ہیں، مگر بالحق نہیں ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے بالحق حکومت وہ ہوتی ہے جو اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالا دستی کو نہ صرف یہ کہ اعتقاداً تسلیم کرتی ہو بلکہ عملاً حکومت کا پورا نظام قرآن و سنت کے مطابق چلاتی ہو ورنہ وہ ظالم حکومت ہو گی اور ’لا ینال عھدی الظالمین‘ ظالموں کو امامت اور حکومت کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان اور دوسرے بہت سے اسلامی ممالک کے اسمی اور نسلی مسلمانوں کی حکومتیں بالفعل حکومتیں تو ہیں مگر بالحق حکومتیں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کے حکمران اسماً اور نسلاً مسلمان ہونے کے باوجود عملاً قرآن و سنت کی بالا دستی بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ ملک کا نظام سیکولرازم اور لا دین سیاست کے اصولوں کے مطابق چلاتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵، ص ۲۲ )
مولانا محترم کی یہ ساری بات جس مقدمہ پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ جو حکومت عملاً قرآن و سنت کی بالا دستی تسلیم نہ کرتی ہو، اسے ’’الجماعتہ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ مولانا کی اس بات کو صحیح تسلیم کرنے کے لیے درجِ ذیل سوالوں کے جواب تلاش کرنے ضروری ہیں:
۱۔ مولانا نے حکومتِ بالفعل اور حکومتِ بالحق کی جو تفریق کی ہے، قرآنِ مجید اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ سے مروی ارشادات میں اس کی کیا بنیاد ہے ؟
۲۔ مولانا نے اس ضمن میں قرآنِ مجید کے الفاظ ’لا ینال عھدی الظالمین‘ کا حوالہ دیا ہے۔ مگر قرآنِ مجید میں یہ الفاظ اس سیاق و سباق میں آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جب یہ وعدہ فرمایا کہ ’إنی جاعلک للناس إماما‘ (میں تجھے ان لوگوں کا سردار بناؤں گا) تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا: ’ومن ذریتی‘؟ (کیا یہ شرف میری اولاد کو بھی حاصل ہو گا)؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’لا ینال عھدی الظالمین‘ (میرا یہ عہد ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو ظالم ہوں گے)۔ اس سیاق و سباق میں ظاہر ہے کہ ’لا ینال عھدی الظالمین‘ میں جس عہد کا ذکر ہے وہ ریاست کی سربراہی کا نہیں بلکہ دینی پیشوائی یا امامت کا ہے۔ مولانا سے ہم اس ضمن میں یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ’إنی جاعلک للناس إماما‘ کے الفاظ میں جو عہد کیا تھا، اس کے معنی کیا تھے۔ اس کے معنی کیا ریاست کی امامت کے تھے یا دینی و مذہبی پیشوائی کے؟
۳۔ اگر عملاً قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کر لینے ہی پر کوئی حکومت ’’الجماعتہ‘‘ کہلانے کی مستحق ہوتی ہے تو پھر ان روایتوں کے کیا معنی ہیں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ حکمران فاجر و فاسق ہی کیوں نہ ہوں، وہ ظلم و عدوان ہی پر کیوں نہ اتر آئیں اور اپنی رعایا کے حقوق ادا کرنے سے انکار ہی کیوں نہ کر دیں، تب بھی ان کی اطاعت پر قائم رہنا ضروری اور ’’الجماعتہ‘‘ کے ساتھ وابستہ رہنے کا تقاضا ہے۔ مولانا کے نزدیک، کیا ایسے حکمران قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوتے ؟ کیا حکمرانوں کے معاملے میں قرآنِ مجید کا یہ حکم نہیں ہے کہ ’إذا حکمتم بین الناس فاحکموا بالعدل‘ اور کیا حکمران قرآنِ مجید کے اس عمومی حکم کے مخاطب نہیں ہیں کہ ’لا تأکلوز أموالکم بینکم بالباطل‘ ؟ مولانا کے نزدیک اگر ظلم، غیر عادلانہ رویہ، فسق و فجور اور اپنی رعایا میں سے بعض کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر سلوک کرنا، قرآنِ مجید کے احکام کی ’’عملاً‘‘ خلاف ورزی ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حکمرانوں کی اطاعت پر قائم رہنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الجماعتہ‘‘ سے جڑے رہنے کا تقاضا کیوں قرار دیا ہے۔ مزید برآں، اگر عدل و انصاف جیسی بنیادی چیز سے گریز حکمران کو اطاعت کے حق سے محروم کرنے کا باعث نہیں بنتا تو پھر قرآن و سنت کی وہ کون سی ’’عملاً‘‘ خلاف ورزی ہے، جو قرآنِ مجید یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ، اسے اس حق سے محروم کر دیتی ہے؟
ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد کوئی حکومت نہیں بلکہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی ہے۔ یہ نظمِ اجتماعی جب قائم ہو جائے تو اس سے وابستہ رہنا ہی دین کا تقاضا ہے۔ اس میں اگر کوئی بگاڑ پیدا ہو جائے، اس کی باگ اگر کسی ’’اسمی‘‘ اور ’’نسلی‘‘ مسلمان کے ہاتھ میں آجائے، اس کو چلانے والے ظلم و عدوان اور اپنی رعایا کے حقوق کو غصب کرنے پر اتر آئیں، جب تک یہ قائم ہے، ہر حال میں اس کے ساتھ وابستہ رہنا ہی دین و شریعت کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں اگر کوئی استثنا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ حکمران کی ایسی کوئی بات نہ مانی جائے، جسے مان لینے سے پروردگارِ عالم کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ حکمران کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لینا، قرآنِ مجید کے اشاروں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے صرف اس صورت میں جائز ہے جب حکمران ’’کفرِ بواح‘‘ یعنی کھلے کفر کا مرتکب ہو۔ اس صورت میں بھی ترکِ اطاعتِ حکمران کی اجازت ہی ہے، اب بھی یہ دین کا کوئی حکم یا اس کا تقاضا نہیں ہے۔
اس وضاحت سے آپ سے آپ یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور روس کی حکومتیں ’’الجماعتہ‘‘ کی نمائندہ حکومتیں کیوں نہیں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ’’الجماعتہ‘‘ مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کو کہا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حدیثوں میں اس کے لیے ’’جماعت المسلمین‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ چنانچہ، جو حکومت مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کی نمائندہ حکومت نہ ہو، اسے ’’الجماعتہ‘‘ یا ’’جماعت المسلمین‘‘ کی نمائندہ حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری طرف، جب مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہو، تو اس سے اس کے نظمِ اجتماعی یا ’’الجماعتہ‘‘ ہونے کی نفی نہیں ہو جاتی۔ اس صورت میں، یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ ’’الجماعتہ‘‘ میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے، مگر یہ بہرحال نہیں کہا جا سکتا کہ ’’الجماعتہ‘‘ کا وجود ہی ختم ہو گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ ’’امیر المؤمنین‘‘، یعنی مسلمانوں کے حکمران میں فلاں فلاں اوصاف ہونے چاہییں۔ ظاہر ہے، اگر کوئی ایسا شخص مسلمانوں کا امیر منتخب ہو جائے، جس میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں، تو اس سے اس کے ’’امیر المؤمنین‘‘ ہونے کی نفی نہیں ہو جائے گی۔ بالکل اسی طرح ’’الجماعتہ‘‘ کے مطلوبہ اوصاف کی غیر موجودگی میں ’’الجماعتہ‘‘ کے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کو دین و شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے حالات کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر کسی اصلاحی جدوجہد کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے ’’الجماعتہ‘‘ کے وجود کی نفی کسی حال میں بھی ضروری نہیں ہے۔
اس ضمن میں مولانا گوہر ر حمٰن صاحب نے تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ قرآن و سنت سے منحرف حکومت کو اگرچہ عوام کی اکثریت کا اعتماد ہی کیوں نہ حاصل ہو، اسے ’’الجماعتہ‘‘ کہنا اور اس کے التزام کو لازم قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
مولانا لکھتے ہیں:
’’قرآن و سنت کی بالا دستی اور التزام سے عملاً منحرف ہو جانے والی حکومت کو بالحق حکومت نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ اس کو مسلمانوں نے منتخب کیا ہو اور اس کو عامتہ الناس کا اعتماد حاصل ہو۔ ’أمرھم شوریٰ بینھم‘ کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے یا فریب خوردگی کی وجہ سے یا مفادپرستی اور خود غرضی کی وجہ سے اگر قرآن و سنت سے منحرف حکومت کو منتخب کر لیا ہو تو وہ بھی حکومت بالحق ہو گی۔‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵، ص ۲۲)
اسی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’...باقی رہی یہ بات کہ اسے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے تو مسلمانوں نے اگر دھوکے اور فریب میں آ کر یا مفاد پرستی اور خود غرضی کی وجہ سے یا اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو منتخب کر لیا ہو جو اقامتِ دین کا فریضہ انجام دینے کی بجائے طاغوتی اور غیر اسلامی نظام چلا رہے ہوں تو صرف اکثریت کا ووٹ حاصل کر لینے سے ’’الطاغوت‘‘ کو ’’الجماعتہ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں اسلامی حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کی معتمد ہو اور مسلمانوں کی رائے سے بنی ہو اور یہ بھی لازمی شرط ہے کہ وہ اسلام کے معیارِ اہلیت کی کم از کم شرائط پر تو پوری اترتی ہو اور ریاست کا نظام قرآن و سنت کے مطابق چلاتی ہو۔ اصل معیاری صورت تو یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ بھی علم و عمل کے اعتبار سے اپنے دور میں ایک ممتاز مسلمان ہو، لیکن اگر شخصی کردار اور عمل کے لحاظ سے اس کے اندر کچھ خرابیاں اور کمزوریاں موجود بھی ہوں مگر جب تک وہ ریاست کا نظام شریعت کے مطابق چلا رہا ہو تو شخصی خرابیوں کے باوجود اس کی حکومت اسلامی حکومت ہو گی اور اس کی اطاعت فی المعروف شرعاً ضروری ہو گی۔ البتہ حکمران کی شخصی خرابیوں کے ازالے اور اصلاح کے لیے نقد و احتساب اور نصیحت کا فرض ادا کرنا بھی ضروری ہو گا۔‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵، ص ۲۷)
مولانا گوہر ر حمٰن صاحب سے اس ضمن میں ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت کسی حکمران کو منتخب کرتی ہے، تو اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ مسلمانوں کا یہ انتخاب ’’دھوکے اور فریب میں آ کر یا مفادپرستی اور خود غرضی کی وجہ سے یا اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے‘‘ غلط ہے ؟ یہ بات اگر مان لی جائے کہ ’أمرھم شوریٰ بینھم‘ کے معنی وہی ہیں جو مولانا بیان فرما رہے ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس حوالے سے آخری فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہو گا ؟ مزید یہ کہ یہ آخری فیصلہ اگر ’أمرھم شوریٰ بینھم‘ میں ضمیرِ مجرور کو چھوڑ کر کسی اور کے ہاتھوں میں ہو گا، تو کیا قرآنِ مجید کی نصِ صریح کی خلاف ورزی نہیں ہو گی ؟ اسی طرح، عوام اگر، فی الواقع دھوکہ، فریب، مفاد پرستی، خود غرضی، جہالت یا نادانی کا شکار ہوں تو کیا ’أمرھم شوریٰ بینھم‘ کا قرآنی اصول معطل قرار پا جائے گا ؟ اگر ایسا ہے، تو اس اصول کو معطل کرنے کا اختیار کس کے پاس ہو گا ؟ اسی ضمن میں مولانا محترم سے ہم یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ عوام اگر اپنی جہالت و نادانی یا مفادپرستی و خود غرضی کے باعث کسی غلط حکمران کا انتخاب کر لیں تو قوم کے علماے دین کا اصل کام کیا یہ نہیں ہے کہ وہ عوام کی تعلیم و تربیت کا کام کریں ؟ مولانا محترم جیسے اہلِ علم جو اس بات کو پوری طرح سمجھتے ہیں کہ اسلام کے شورائی نظام میں حکومت کی تبدیلی کا راستہ عوام الناس کی تربیت اور انھیں اپنے نقطۂ نظر کا قائل کر لینا ہے، وہ حکمرانوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے کے بجائے عوام میں دین کی دعوت اور انھیں اللہ کی پکڑ سے خبردار کرنے کا وہ کام کرنے تک اپنے آپ کو کیوں محدود نہیں رکھتے جس کی ذمہ داری ان پر اللہ کی کتاب نے عائد کی ہے ؟ کیا مولانا یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے ان کی ذمہ داری بھی ادا ہو جائے گی اور اللہ نے چاہا تو اس زمین پر ایک مرتبہ پھر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر اس کی پسند کا نظام بھی قائم ہو جائے گا ؟ مولانا دین کے عالم کی حیثیت سے، اس سے بڑھ کر اگر کسی جدوجہد کو ضروری سمجھتے ہیں، تو ان سے ہماری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنت میں اس جدوجہد کے ماخذ کی طرف ہماری رہنمائی فرمائیں۔
ہمارے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسلمان اپنا نظمِ اجتماعی جب قائم کر لیں، تو اس کے ساتھ وابستہ رہنا ہی ’’التزامِ جماعتہ‘‘ ہے یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی غفلت و نادانی، اپنی گمراہی و بے راہ روی، اپنی مفاد پرستی اور اپنی فریب خوردگی کے باعث کسی ایسی حکومت کو منتخب کر لے جو دین کے نفاذ اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے معاملے میں کسی درجے میں بے اعتنائی کا شکار ہو، تب بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس وقت تک ایسے حکمرانوں کی اطاعت پر قائم رہیں، جب تک وہ کفرِ بواح یا کھلے کفر کے مرتکب نہیں ہوتے۔ بعض روایتوں میں ’ما اقاموا الدین‘ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں۔ یعنی، جب تک یہ حکمران دین پر قائم رہیں یا جب تک یہ مسلمان رہیں، اس وقت تک ان کی اطاعت نہ چھوڑی جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اپنی صلاحیت، حالات اور معاشرتی پوزیشن کے لحاظ سے ہر باشعور مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حکمرانوں کی اصلاح کی جدوجہد کرتا رہے۔ مگر جب تک یہ حکمران کفرِ بواح کے مرتکب نہیں ہوتے، اس وقت تک یہ جدوجہد، کسی حال میں بھی حکمرانوں سے ٹکر لینے یا ان کے ساتھ عدمِ تعاون کی تحریک چلانے کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔ اس جدوجہد کا دائرۂ عمل ہرگز دعوت و انذار کی حدود سے متجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے، جس قوم کی اکثریت ’’دھوکہ میں آ کر‘‘، ’’فریب خوردگی کی وجہ سے‘‘، ’’مفاد پرستی اور خود غرضی کے باعث‘‘ یا ’’اپنی جہالت اور نادانی کے سبب‘‘ دین و شریعت کی رو سے کوئی غلط فیصلہ کرتی ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس قوم کے علما کو اپنا اصل میدانِ عمل دعوت و انذار ہی تک محدود رکھنا چاہیے۔ اس صورتِ حال کا اگر کوئی حقیقی علاج ہے، تو یہی ہے کہ دین کے یہ علما اپنی اصل ذمہ داری ادا کریں اور قوم کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر دین کی روشن شاہراہ پر واپس لانے کی جدوجہد کریں۔ یہ ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے، اگر دین کے اہلِ علم بھی حکمرانوں کو تبدیل کرنے کے لیے ان کے خلاف احتجاجی کارروائیاں اور عدم تعاون کی تحریکیں چلانے میں مصروف رہے تو اس سے ایوانِ اقتدار میں براجمان ہونے والے چہروں کی تبدیلی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حکمرانوں کے بارے اللہ کی سنت یہ ہے کہ قوم اگر مجموعی طور پر اللہ کی فرماں برداری پر قائم رہے، تو اس پر اللہ کی رحمت سے رحم دل اور عادل حکمران حکومت کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور اگر لوگ اللہ کے معاملے میں بے پروائی کا شکار ہو جائیں تو اللہ ان پر ایسے حکمران مسلط کر دیتا ہے جو ان پر ظلم و جور کے دروازے کھول دیتے اور ان کے لیے اسی دنیا میں اللہ کے عذاب کی ایک نشانی بن جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ان اللّٰه تعالیٰ یقول: انا اللّٰه لا اله الا انا، مالک الملوک و ملک الملوک. قلوب الملوک فی یدی. وان العباد اذا الطاعونی حولت قلوب ملوکھم علیھم بالرحمة والرأفة. وان العباد اذا عصونی حولت قلوبھم بالسخطة والنقمة. فساموھم سوء العذاب. فلا تشغلوا أنفسکم بالدعاء علی الملوک. ولکن اشغلوا انفسکم بالذکر والتضرع. اکفیکم ملوککم. (مشکوٰۃ، کتاب الامارۃ واقضاء، الفصل الثالث)
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور ان کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میری مٹھی میں ہیں۔ لوگ جب میری اطاعت پر قائم ہوں تو میں بادشاہوں کے دل ان کے حق میں اس طرح پھیر دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ نرمی اور رحمت سے پیش آتے ہیں۔ اور لوگ اگر میری نافرمانی کریں تو میں ان کے (بادشاہوں کے) دل ان کی طرف سے اس طرح پھیر دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ سختی اور نقمت سے پیش آتے ہیں۔ پھر وہ انھیں بڑے برے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ اپنے ظالم حکمرانوں کے لیے بری دعا نہ کیا کرو بلکہ اپنے آپ کو میرے ذکر اور مجھ سے دعا کرنے میں مصروف رکھو۔ میں حکمرانوں کے مقابلے میں تمھارے لیے کافی ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دین کے علما پر قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے اصل ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے، وہ دعوت اور صرف دعوت کی ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر قسم کی جدوجہد کا عزم کرنے سے پہلے اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ جو اقدام ہم کرنے جا رہے ہیں، وہ کہیں ہماری اصل ذمہ داری کو ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں پیدا کر دے گا۔ ہمیں خوب اچھی طرح سے جانچ لینا چاہیے کہ جو اقدام ہمارے پیشِ نظر ہے، دین ہمیں اس کا مکلف بھی ٹھہراتا ہے یا نہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس بات کا شدید اندیشہ پیدا ہو جائے گا کہ آخرت میں ہم جن اقدامات کو نیک اعمال کی حیثیت سے پادشاہِ ارض و سما کے حضور پیش کریں، وہی ہمارے لیے وبالِ جان بن جائیں۔
مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں سے کسی ایسی چیز کی نشان دہی کر دیں جس کے مطابق حکمرانوں کے خلاف احتجاج اور ان کے خلاف عدمِ تعاون کی تحریک چلانا یا اس میں حصہ لینا لازم ٹھہرایا گیا ہو۔
(جاری)
ـــــــــــــــــــــــــ