میزان
۱۔يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي فَاكْتُبُوْهُﵧ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۣ بِالْعَدْلِﵣ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْيَكْتُبْﵐ وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْـًٔاﵧ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بِالْعَدْلِﵧ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْﵐ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰيﵧ وَلَا يَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْاﵧ وَلَا تَسْـَٔمُوْ٘ا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰ٘ي اَجَلِهٖﵧ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَاَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدْنٰ٘ي اَلَّا تَرْتَابُوْ٘ا اِلَّا٘ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيْرُوْنَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَاﵧ وَاَشْهِدُوْ٘ا اِذَا تَبَايَعْتُمْﵣ وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌﵾ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۣ بِكُمْﵧ وَاتَّقُوا اللّٰهَﵧ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُﵧ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ.(البقرہ ۲: ۲۸۲)
’’اے ایمان والو، جب تم کسی مقررہ وقت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور اس کو تمھارے مابین کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔ اور جسے لکھنا آتا ہو، وہ لکھنے سے انکار نہ کرے، بلکہ جس طرح اللہ نے اسے سکھایا، وہ بھی دوسروں کے لیے لکھے اور یہ دستاویز اسے لکھوانی چاہیے جس پر حق عائد ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ اپنے پروردگار سے ڈرے اور اس میں کوئی کمی نہ کرے۔ پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کے ولی کو چاہیے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور تم اس پر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی، تمھارے پسندیدہ لوگوں میں سے۔ دو عورتیں اس لیے کہ اگر ایک الجھے تو دوسری یاد دلا دے۔ اور یہ گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی مدت تک کے لیے اس کی دستاویز لکھنے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مبنی بر انصاف، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا اور اس کے زیادہ قرین ہے کہ تم شبہوں میں نہ پڑو۔ ہاں اگر معاملہ روبرو اور دست گرداں نوعیت کا ہو تب اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور تم کوئی خرید و فروخت کا معاملہ کرو تو اس میں بھی گواہ بنا لو۔ اور لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ نافرمانی ہو گی جو تم سے چمٹ رہے گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے، اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔‘‘
اس آیت میں مسلمانوں کو نزاعات سے بچنے کے لیے لین دین، قرض اور اس طرح کے دوسرے مالی معاملات میں تحریر و شہادت کے اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کے احکام کا جو خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں بیان فرمایا ہے، تفہیمِ مدعا کے لیے وہ ہم انھی کے الفاظ میں یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۱۔ جب کوئی قرض کا لین دین ایک خاص مدت تک کے لیے ہو تو اس کی دستاویز لکھ لی جائے ۔
۲۔ یہ دستاویز دونوں پارٹیوں کی موجودگی میں کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے، اس میں کوئی دغل فشل نہ کرے اور جس کو لکھنے کا سلیقہ ہو، اس کو چاہیے کہ وہ اس خدمت سے انکار نہ کرے۔ لکھنے کا سلیقہ اللہ کی ایک نعمت ہے، اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ آدمی ضرورت پڑنے پر لوگوں کے کام آئے۔ اس نصیحت کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اُس زمانے میں لکھے پڑھے لوگ کم تھے۔ دستاویزوں کی تحریر اور ان کی رجسٹری کا سرکاری اہتمام اس وقت تک نہ عمل میں آیا تھا اور نہ اس کا عمل میں آنا ایسا آسان تھا۔
۳۔ دستاویز کے لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ہو گی۔ وہ دستاویز میں اعتراف کرے گا کہ فلاں بن فلاں کا اتنے کا قرض دار ہوں اور لکھنے والے کی طرح اس پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس اعتراف میں تقویٰ کو ملحوظ رکھے اور ہرگز صاحبِ حق کے حق میں کسی قسم کی کمی کرنے کی کوشش نہ کرے۔
۴۔ اگر یہ شخص کم عقل ہو یا ضعیف ہو یا دستاویز وغیرہ لکھنے لکھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو یا وکیل ہو، وہ اس کا قائم مقام ہو کر انصاف اور سچائی کے ساتھ دستاویز لکھوائے۔
۵۔ اس پر دومردوں کی گواہی ثبت ہو گی جن کے متعلق ایک ہدایت یہ ہے کہ وہ ’من رجالكم‘یعنی اپنے مردوں میں سے ہوں، جس سے بیک وقت دو باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ وہ مسلمان ہوں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنے میل جول اور تعلق کے لوگوں میں سے ہوں کہ فریقین ان کو جانتے پہچانتے ہوں۔ دوسری (ہدایت) یہ کہ وہ ’ممن ترضون‘یعنی پسندیدہ اخلاق و عمل کے، ثقہ، معتبر اور ایمان دار ہوں۔
۶۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد میسر نہ آ سکیں تو اس کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ دو عورتوں کی شرط اس لیے ہے کہ اگر ایک سے کسی لغزش کا صدور ہو گا تو دوسری کی تذکیر و تنبیہ سے اس کا سدِ باب ہو سکے گا۔ یہ فرق عورت کی تحقیر کے پہلو سے نہیں ہے، بلکہ اس کی مزاجی خصوصیات اور اس کے حالات و مشاغل کے لحاظ سے یہ ذمہ داری اس کے لیے ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اس وجہ سے شریعت نے اس کے اٹھانے میں اس کے لیے سہارے کا بھی انتظام فرما دیا ہے۔ یہ موضوع اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ سورۂ نساء میں زیرِ بحث آئے گا۔
۷۔ جو لوگ کسی دستاویز کے گواہوں میں شامل ہو چکے ہوں، عند الطلب ان کو گواہی سے گریز کی اجازت نہیں ہے اس لیے کہ حق کی شہادت ایک عظیم معاشرتی خدمت بھی ہے اور شہداء اللہ ہونے کے پہلو سے اس امت کے فریضۂ منصبی کا ایک جزو بھی ہے۔
۸۔ قرض کے لین دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اگر وہ کسی مدت کے لیے ہے، دست گرداں نوعیت کا نہیں ہے تو اس کو قیدِ تحریر میں لانے سے گرانی نہیں محسوس کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس کو زحمت سمجھ کر ٹال جاتے ہیں، وہ سہل انگاری کی وجہ سے بسا اوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن کے نتائج بڑے دوررس نکلتے ہیں۔
۹۔ مذکورہ بالا ہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین، گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں۔ اس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے ان کا اہتمام ضروری ہے۔
۱۰۔ دست گرداں لین دین کے لیے تحریر و کتابت کی پابندی نہیں ہے۔
۱۱۔ ہاں، اگر کوئی اہمیت رکھنے والی خرید و فروخت ہوئی ہے تو اس پر گواہ بنا لینا چاہیے تاکہ کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کا تصفیہ ہو سکے۔
۱۲۔ نزاع پیدا ہو جانے کی صورت میں کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کسی فریق کے لیے جائز نہیں ہے۔ کاتب اور گواہ ایک اہم اجتماعی و تمدنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو بلاوجہ نقصان پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ثقہ اور محتاط لوگ گواہی اور تحریر وغیرہ کی ذمہ داریوں سے گریز کرنے لگیں گے اور لوگوں کو پیشہ ور گواہوں کے سوا کوئی معقول گواہ ملنا مشکل ہو جائے گا۔ اس زمانے میں ثقہ اور سنجیدہ لوگ گواہی وغیرہ کی ذمہ داریوں سے جو بھاگتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی معاملہ نزاعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اس کے گواہوں کی شامت آ جاتی ہے۔ یہ بے چارے ہتک، اغوا اور نقصان مال و جائداد، بلکہ قتل تک کی تعدیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ قرآن نے اس قسم کی شرارتوں سے روکا کہ جو لوگ اس قسم کی حرکتیں کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی نافرمانی نہیں ہے جو آسانی سے معاف ہو جائے گی، بلکہ یہ ایک ایسا فسق ہے جو ان کے ساتھ چمٹ کے رہ جائے گا اور اس کے برے نتائج سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ اس شہادت کی بنیاد کو ڈھانے کی کوشش ہے جو اس امت کی بعثت کی اصل غایت ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن، ج ۱ ص ۶۴۰- ۶۴۲)
۲۔ يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِيْنَ الْوَصِيَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةُ الْمَوْتِﵧ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۣ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِيْ بِهٖ ثَمَنًا وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰيﶈ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَﶈ اللّٰهِ اِنَّا٘ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ. فَاِنْ عُثِرَ عَلٰ٘ي اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا٘ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْاَوْلَيٰنِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَا٘ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا٘ﵠ اِنَّا٘ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ. ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰي وَجْهِهَا٘ اَوْ يَخَافُوْ٘ا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۣ بَعْدَ اَيْمَانِهِمْﵧ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاسْمَعُوْاﵧ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۶ - ۱۰۸)
’’اے ایمان والو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے گواہی اس طرح ہو گی کہ تم میں سے دو ثقہ آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں یہ موت کی مصیبت تمھیں آ پہنچے تو تمھارے غیروں میں سے دو دوسرے یہ ذمہ داری اٹھائیں۔ تم انھیں نماز کے بعد روک لو گے، پھر اگرتمھیں شک ہو تو وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اس گواہی کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہ کریں گے، اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی اس گواہی کو چھپائیں گے۔ ہم نے ایسا کیا تو بے شک ہم گناہ گار ٹھیریں گے۔ پھر اگر پتا چل جائے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو آدمی ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی ان پہلے گواہوں نے حق تلفی کی ہے پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ ہم نے ایسا کیا ہے تو بے شک ہم ظالم ٹھیریں۔ اس طریقے سے زیادہ توقع ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا کم سے کم اس بات سے ڈریں کہ ان کی گواہی دوسروں کی گواہی کے بعد رد ہو جائے گی۔ (یہ کرو) اور اللہ سے ڈرو اورسنو، اور (یاد رکھو کہ) اللہ نافرمانوں کوکبھی راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘
ان آیات میں وصیت سے متعلق اسی اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے جو اوپر لین دین اور قرض کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ان کے احکام کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
۱۔ کسی شخص کی موت آ جائے اور اسے اپنے مال سے متعلق کوئی وصیت کرنی ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لے۔
۲۔ موت کا یہ مرحلہ اگر کسی شخص کو سفر میں پیش آئے اور گواہ بنانے کے لیے وہاں دومسلمان میسر نہ ہوں تو مجبوری کی حالت میں وہ دو غیر مسلموں کو بھی گواہ بنا سکتا ہے۔
۳۔ مسلمانوں میں سے جن دو آدمیوں کو گواہی کے لیے منتخب کیا جائے، ان کے بارے میں اگر یہ اندیشہ ہو کہ کسی شخص کی جانب داری میں وہ اپنی گواہی میں کوئی ردو بدل کر دیں گے تو اس کے سدِباب کی غرض سے یہ تدبیر کی جا سکتی ہے کہ کسی نماز کے بعد انھیں مسجد میں روک لیا جائے اور ان سے اللہ کے نام پرقسم لی جائے کہ اپنے کسی دنیوی فائدے کے لیے یا کسی کی جانب داری میں، خواہ وہ ان کا کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی گواہی میں کوئی تبدیلی نہ کریں گے اور اگر کریں گے تو گناہ گار ٹھیریں گے۔
۴۔ گواہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ گواہی ’شهادة اللّٰه‘یعنی اللہ کی گواہی ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی ادنیٰ خیانت بھی اگر ان سے صادر ہوئی تو وہ نہ صرف بندوں کے، بلکہ خدا کے بھی خائن قرار پائیں گے۔
۵۔ اس کے باوجود اگر یہ بات علم میں آ جائے کہ ان گواہوں نے وصیت کرنے والے کی وصیت کے خلاف کسی کے ساتھ جانب داری برتی ہے یا کسی کی حق تلفی کی ہے تو جن کی حق تلفی ہوئی ہے، ان میں سے دو آدمی اٹھ کر قسم کھائیں کہ ہم ان اولیٰ بالشہادت گواہوں سے زیادہ سچے ہیں۔ ہم نے اس معاملے میں حق سے کوئی تجاوز نہیں کیا اور ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو خدا کے حضور میں ہم ظالم قرار پائیں۔
۶۔ گواہوں پر اس مزید احتساب کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے خیال سے توقع ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے، ورنہ انھیں ڈر ہو گا کہ انھوں نے اگر کسی بدعنوانی کا ارتکاب کیا تو ان کی قسمیں دوسروں کی قسموں سے باطل قرار پائیں گی اور اولیٰ بالشہادت ہونے کے باوجود ان کی گواہی رد ہو جائے گی۔
(باقی)
ـــــــــــــــــــــــــ