HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

اصول و مبادی (۹)

میزان

مبادیِ تدبر ِ قرآن


o حدیث اور قرآن

چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ محض سوءِ فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔ قرآن کے بعض اسالیب اور بعض آیات کا موقع و محل جب لوگ نہیں سمجھ پائے تو ان آیات سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صحیح نوعیت بھی ان پر واضح نہیں ہو سکی۔ اس طرح کی جتنی مثالیں بالعموم پیش کی جاتی ہیں، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ذیل میں ہم ان میں سے ایک ایک کو لے کر ان کے بارے میں اپنا یہ نقطۂ نظر وضاحت کے ساتھ بیان کیے دیتے ہیں:

۱۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیا کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا ؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا حکم کیا ہونا چاہیے ؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال و طبیب قرار دیا جائے گا ؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کر دیے جائیں تو کیا پھر بھی حل ہی رہیں گے ؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور۲۳ بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا اجد فيما اوحي الي‘ اور بعض جگہ ’انما‘کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت و حرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں:

 بقرہ میں ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ. اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَا٘ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ. (۲: ۱۷۲ - ۱۷۳)
’’ایمان والو، کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور اللہ ہی کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی بندگی کرنے والے ہو۔ اُس نے تو بس تمھارے لیے مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا ہے ۔‘‘

انعام میں فرمایا ہے:

قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ.(۶: ۱۴۵)
’’ کہہ دو، میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے، حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سؤر کا گوشت، اس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں یااللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ۔‘‘

بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۲۴ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اسی علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیانِ فطرت کے بجائے بیانِ شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے۔

۲۔ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے، اس کا عام اسلوب ہے کہ الفاظ و قرائن کی دلالت اور حکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاتا۔ مقسم علیہ جوابِ شرط، جملہ معللہ کے معطوف علیہ اور تقابل کے اسلوب میں جملے کے بعض اجزا کا حذف اس کی عام مثالیں ہیں۔ سورۂ نساء کی آیتِ میراث۲۵ میں، مثال کے طور پر ’فوق الثنتین‘ سے پہلے ’اثنتین‘’فلامه الثلث‘کے بعد ’ولابیه الثلثان‘اور ’فلامه السدس‘کے بعد ’ولابیه‘یا اس کے ہم معنی الفاظ اور سورۂ نساء کی آیت ۱۲۷ میں ’وان تقوموا للیتامی بالقسط‘ کا معطوف علیہ اسی اسلوب پر حذف کیا گیا ہے۔ سورۂ انعام میں ایک آیت اس طرح آئی ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا٘ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ.(۶: ۳۸)
’اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر اپنے پاؤں سے چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتا ہو مگر یہ سب تمھاری ہی طرح امتیں ہیں۔ ‘‘

اس میں دیکھ لیجیے، مقابل کے بعض الفاظ حذف ہو گئے ہیں۔ مثلاً،جملے کے پہلے حصے میں ’فی الارض‘ہے تو دوسرے حصے میں ’فی السماء‘ کا لفظ نہیں آیا۔ اسی طرح دوسرے حصے میں ’یطیر بجناحیه‘کے الفاظ ہیں توپہلے حصے میں ’تدب علی رجلیھا‘یا ’ارجلھا‘کے الفاظ حذف ہو گئے ہیں۔ ہماری زبان میں یہ اسلوب، بے شک نہیں ہے، لیکن قرآن کی عربی معلیٰ میں اس کی مثالیں جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ سورۂ نساء میں جہاں قرآن نے ان عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے نکاح جائز نہیں ہے، وہاں دومقامات پر یہی اسلوب ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْ٘ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ.(۴: ۲۳)
’’اور تمھاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اس تعلق سے تمھاری بہنیں بھی۔‘‘
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ.(۴: ۲۳)
’’اور یہ بھی کہ تم دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرو، مگر جو ہو گیا سو ہو گیا۔‘‘

پہلے حکم میں قرآن نے رضاعی ماں کے ساتھ رضاعی بہن کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہو جاتی تو اس میں بے شک کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے، تو بالبداہت واضح ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو جائے گی۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ، اس کے شوہر کو باپ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی؟ لہٰذا بالکل قطعی ہے کہ یہ سب رشتے بھی حرام ہیں۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’اخواتکم من الرضاعة‘ کے الفاظ اس پر اس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبرکرنے والے کسی صاحبِ علم سے اس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا۔ 

یہی معاملہ دوسرے حکم کا ہے۔ زن و شو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا، اگر اسے فحش بنا دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مدعا، لاریب یہی ہے کہ ’ان تجمعوا بین الاختین وبین المرأة وعمتھا وبین المراة وخالتھا‘ وہ یہی کہنا چاہتا ہے۔ لیکن ’بین الاختین‘ کے بعد یہ الفاظ اس نے اس لیے حذف کر دیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کر سکتا۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

یحرم من الرضاعة ما یحرم من الولادة.(موطا کتاب الرضاع)
’’ہر وہ رشتہ جو ودت کی بنا پر حرام ہے رضاعت کے تعلق سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔‘‘
لا یجمع بین المراة و عمتھا ولا بین المراة وخالتھا.(موطا کتاب النکاح)
’’عورت اور اس کی پھوپھی ایک نکاح میں جمع ہو سکتی، نہ عورت اور اس کی خالہ۔‘‘

آپ کے یہ ارشادات قرآن کے اسی مدعا کا بیان ہیں، ان میں شرح و بیان کے حدود سے ہرگز کوئی تجاوز نہیں ہوا۔

 (باقی)

ـــــــــــــــــــــــــ

۲۳ ۔ خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت کاباعث چونکہ قرآن کی اصطلاح میں خود جانور کا ’رجس‘نہیں بلکہ ذبح کرنے والے کا ’فسق‘ہے۔ اس لیے یہی فسق اگر کسی دوسری صورت میں لاحق ہو تو عقل کا تقاضا ہے کہ اس کا حکم بھی اس سے مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ قرآن نے بتایا ہے کہ خدا کا نام لیے بغیر یا کسی تھان پر ذبح کیا گیا جانور اور جوئے سے جیتا ہوا گوشت بھی اسی کے تحت داخل ہے۔  

۲۴ ۔ مسلم، کتاب الصید، باب ۳، بخاری، کتاب الذبائح، باب ۲۸۔

۲۵ ۔ ۴: ۱۱۔


B