HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان اور عمل

 (مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث : ۱۷)


وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنھما قال: ان وفد عبد القیس لما اتوا النبی صلی اللّٰه علیه وسلم، قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من القوم؟ او من الوفد؟ قالوا: ربیعة. قال: مرحبا بالقوم او بالوفد، غیر خزایا ولا ندامی. قالوا: یا رسول اللّٰه، انا لا نستطع ان ناتیک الا فی الشھر الحرام، وبیننا و بینک ھذا الحی من کفار مضر. فمرنا بامر فصل نخبر به من وراء نا و ندخل به الجنة. وسالوہ عن الاشریة. فامرھم باربع ونھاھم عن اربع. امرھم بالایمان باللّٰه وحدہ. قال: اتدرون ما الایمان باللّٰه وحدہ؟ قالوا، اللّٰه و رسوله اعلم. قال: شھادة ان لا اله الا اللّٰه و ان محمد رسول اللّٰه، واقام الصلاة وایتا الزکاة وصیام رمضان. وان تعطوا من المغنم الخمس. ونھاھم عن اربع: عن الحنتم والدبا والنقیر والمزفت. وقال: احفظو ھن واخبروا بہن من وراءکم.

 اللغہ 

وفد: ’وافد‘ کی جمع ہے، جس کے معنی وہ فرد ہے جو کسی خاص مقصدسے کسی ذمہ دار کے پاس آیا ہو۔ 

عبد القیس: عدنانی قبائل میں سے ایک قبیلہ جو بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔ ان کے آگے حجاز کے راستے میں مضر کے قبائل آباد تھے۔  

ریعة: یہ بھی عبد القیس کی طرح ان کے کسی جد کا نام ہے، جس کی نسبت سے یہ ربیعہ بھی کہلاتے تھے۔

مرحبا بالقوم: یہ استقبال کا جملہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ کشادگی اور سہولت کی جگہ پر آئے ہیں۔ نحوی لحاظ سے یہ مفعول بہ ہے، جس کا عامل حذف ہو گیا ہے۔ 

غیر خزایا: یہ ’خزیان‘ کی جمع ہے، جو ’خزی‘سے اسمِ صفت ہے۔ ’خزی‘رسوائی اور ذلت کے معنی میں آتا ہے۔

ولا ندامی: ’ندمان‘ کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے سخت شرمندہ۔

مضر: یہ بھی عدنانی قبیلہ ہے۔ مضر اور ربیعہ اگرچہ بھائی تھے، لیکن بعد کے زمانوں میں ان کی نسلوں میں دشمنی پیدا ہو گئی تھی۔

الاشربة: شراب کی جمع ہے۔

اللّٰه ورسوله اعلم: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب صحابہ بالعموم اسی جملے سے دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا کس قدر شعور رکھتے تھے اور حضور کی زبان سے دین کے حقائق سننے کے کیسے شائق تھے۔

حنتم: ایک سبز برتن جس میں شراب بنائی جاتی تھی۔

دباء: خشک کدو سے بنا ہوا برتن، اس میں بھی شراب بناتے تھے۔

نقیر: ایک جڑ جسے کھوکھلا کرکے اس میں شراب تیار کی جاتی تھی۔

مزفت: کالے تیل سے چپڑا ہوا برتن یہ بھی شراب بنانے کے کام آتا تھا۔ 

ترجمہ 

’’حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبد القیس کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئے تو آپ نے پوچھا: کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ربیعہ۔ آپ نے فرمایا: خوش آمدید، نہ رسوا ہو نہ شرمندہ (ہم مہمانوں کی عزت اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہیں)۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم آپ کے پاس حرام مہینے ہی میں آ سکتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے بیچ یہ کفار کا قبیلہ مضر حائل ہے۔ چنانچہ آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتا دیں، جس سے ہم اپنے پیچھے والوں کو بھی آگاہ کریں اور جو ہمارے جنت میں جانے کا ذریعہ بنے۔ انھوں نے شرابوں کے بارے میں بھی سوال کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے انھیں چار کام کرنے کو کہا اور چار سے روکا۔ آپ نے انھیں اللہ واحد پر ایمان کا کہا اور پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ واحد پر ایمان کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے بتایا: اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپ نے انھیں نماز کے اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے رکھنے اور مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپ نے انھیں حنتم، دبا، نقیر اور مزفت شرابوں سے روک دیا۔ آپ نے انھیں تلقین کی: ان باتوں کو یاد کر لو اور ان سے اپنے پیچھے والوں کو باخبر کرو۔‘‘

 متون 

اس روایت کو محدثین نے معمولی لفظی فرق کے ساتھ روایت کیا ہے۔ مثلاً بعض روایات میں ’ناتیک‘ کے بجائے ’نخلص الیک یا نصل الیک‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ابنِ عباس بعض دفعہ یہی واقعہ بیان کرتے ہوئے ’مزفت‘ کی جگہ ’مقیر‘ کا لفظ بھی اختیار کرتے ہیں ۔ ایک روایت میں ’ندامی‘ کے بدلے ’نادمین‘ روایت کیا ہے ۔ اسی طرح ’فمرنا بامر فصل‘ کے مقام پر ایک دوسری روایت میں ’حدثنا بجمل من الامر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ 

البتہ بعض روایات میں اہم اضافے روایت ہوئے ہیں۔ مثلاً مسلم کی ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کی دو اخلاقی خصوصیات بیان کی ہیں۔ آپ کی وہ بات ان الفاظ میں روایت ہوئی ہے: ’ان فیک خصلتین یحبھما اللّٰه الحلم والاناة‘۔

 تیرے اندر دو خوبیاں ہیں، جنھیں اللہ پسند کرتا ہے ایک بردباری اور دوسری وقار۔

 بعض روایات میں ’احفظوھن‘..... والا جملہ نہیں ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں وفد کے ارکان کی یہ بات کہ وہ دور سے آئے ہیں ’انا ناتیک من شقة بعیدة‘کے الفاظ میں روایت ہوئی ہے۔

معنی 

اس روایت سے سب سے پہلے یہ بات نمایاں ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس آنے والے مہمانوں کا کس انداز سے استقبال کرتے تھے۔ روایت میں اس ضمن میں جو جملے آئے ہیں ان کا تعلق اگرچہ اس زمانے کے عرب کلچر سے ہے لیکن ان میں موجود گرم جوشی کا ہم بھی بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ 

معنوی پہلو سے اس روایت میں دو نکات قابلِ توجہ ہیں۔ ایک نکتے کا تعلق حصولِ جنت کے اعمال سے ہے۔ ہم یہ بات پچھلی روایات میں بھی بیان کر چکے ہیں کہ اس معاملے میں اصولی بات قرآنِ مجید کی سورۂ عصر میں بیان ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح کے ارشادات کو اسی کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ اور اجزا کی کمی بیشی کو مخاطب کی رعایت کی حکمت پر مبنی سمجھنا چاہیے۔ مثلاً، دیکھیے اسی روایت میں نماز روزے کے ساتھ مالِ غنیمت کے خمس کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک دور دراز کے قبیلے کو اس معاملے میں سرکاری حصے کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ 

دوسری بات کا تعلق برتنوں کے ناموں سے ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نام درحقیقت مختلف شرابوں کے بنانے کے عمل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ چنانچہ اصل مقصود ان شرابوں ہی سے روکنا ہے۔  

قرآن سے تعلق 

ایمانیات اور ارکانِ اسلام کے ضمن میں ہم حدیث: ۴ میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ لہٰذا یہاں اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خمس کا حکم سورۂ انفال میں ان الفاظ میں آیا ہے:

وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ .(۸: ۴۱)
’’اور جان رکھو کہ جو کچھ تم غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے ہے۔‘‘

اسی طرح شراب کی حرمت بھی قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:

اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.(۵: ۹۰)
’’اے ایمان والو، شراب، جوا، تھان اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

کتابیات 

بخاری، کتاب ایمان باب ۳۷، کتاب العلم، باب ۲۵، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب ۲، کتاب الزکوٰۃ، باب ۱، کتاب فرض الخمس، باب ۲، کتاب المناقب، باب ۴، کتاب المغازی، باب ۶۶، کتاب الادب، باب ۹۸، کتاب اخبار الاحاد، باب ۵، کتاب التوحید، باب ۵۶، مسلم، کتاب الایمان، باب ۶، کتاب الاشربہ، باب ۶۔ ترمذی، کتاب السیر، باب ۳۷، کتاب الایمان، باب ۵۔ نسائی، کتاب الایمان و شرائعہ، باب ۲۵، کتاب الاشربہ، باب ۲۳، سنن ابی داؤد، کتاب الاشربۃ، باب ۷ ،اور مسندِ احمد عن عباس بن عبد المطلب اور عن زید بن علی ابو القموص۔

___________

B