(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۱۶)
عن طلحة بن عبید اللّٰه، قال جاء رجل إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، من أھل نجد، ثائر الرأس. نسمع دوی صوته ولا نفقه ما یقول، حتی دنا من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، فإذا ھو یسئل عن الاسلام. فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: خمس صلوات فی الیوم واللیلة. فقال: ھل علی غیرھن؟ فقال: لا إلا أن تطوع. قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم وصیام شھر رمضان. قال: ھل علی غیرہ؟ لا، إلا أن تطوع. قال وذکر له رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم الزکاة، فقال: ھل علی غیرھا؟ فقال لا، إلا أن تطوع. قال: فأدبر الرجل وھو یقول: واللّٰه لا أزید علی ھذا ولا أنقص منه. فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: أفلح الرجل إن صدق.
رجل: ایک رائے یہ ہے کہ یہ ضِمام بن ثعلبہ ہیں جن کا تعلق بنی سعد بن بکر سے تھا۔
نجد: یہ عرب کا ایک علاقہ ہے جو مکہ سے عراق کی جانب واقع ہے ۔ لفظاً اس سے بلند جگہ مراد ہے۔
ثائر: ثار یثور، سے اسمِ صفت ہے۔ اس سے مراد اڑنا اور بکھر نا ہے۔ یہاں یہ بالوں کے پراگندہ ہونے کے مفہوم کو ادا کر رہا ہے۔
خمس صلوٰت: یہ مبتدائے محذوف یعنی ’الاسلام‘ کی خبر ہے۔
دوی: بھنبھناہٹ، یہاں اس سے آواز کا انتہائی ناقابلِ فہم ہونا مراد ہے۔
تطوع: اصل میں ’تتطوع‘ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ تم یہی عبادت خود اپنی مرضی اور خوشی سے فرض سے زائد کرو۔
لا ازید علی ھذا ولا انقص منه: یعنی میں اس پر بے کم و کاست عمل کروں گا۔
’’حضرت طلحہ بن عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ اہلِ نجد میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس کے بال پراگندہ تھے۔ ہم اس کی دھیمی دھیمی آواز سن رہے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اسی اثنا میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ چنانچہ (اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے) آپ نے فرمایا : دن اور رات میں پانچ نمازیں۔ اس پر اس نے پوچھا: ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں اِلاّ یہ کہ تو خدا کی رضا کے لیے خود سے پڑھے۔ (مزید) فرمایا : ماہِ رمضان کے روزے۔ اس نے سوال کیا: ان کے علاوہ بھی کوئی روزے میرے لیے فرض ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : نہیں، مگر یہ کہ تو اپنے رب کی خوش نودی کے لیے رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے۔ (اور اسی طرح) آپ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا۔ (اس پر بھی) اس نے وضاحت چاہی: کیا اس کے علاوہ بھی کوئی انفاق مجھ پر لازم ہے۔ آپ نے کہا : نہیں، الاّ یہ کہ تو خدا کی رضا کے لیے مزید خرچ کرے۔ (طلحہ) کہتے ہیں : (یہ سن کر) وہ شخص یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا: بخدا، نہ میں اس پر اضافہ کروں گا، نہ میں اس میں کمی کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یہ فلاح پا گیا۔‘‘
اس روایت کو متعدد محدثین نے روایت کیا ہے ۔ متن میں اختلافات دو طرح کے ہیں۔ ایک طرح کے اختلافات کی نوعیت محض لفظی ہے۔ مثلاً ’نسمع‘ کے بجائے ’يسمع‘ کا روایت ہونا یا ’افلح‘ کے بجائے ’دخل الجنة‘ کے الفاظ کاآنا، روایت میں کسی جوہری فرق کا باعث نہیں ہے۔ لیکن دوسرا فرق کافی اہم ہے۔ مندرجہ بالا متن میں سوال اسلام کے بارے میں کیا گیا ہے اور جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکوٰۃ اور روزے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ بخاری، نسائی اور دارمی نے ایک اور متن بھی روایت کیا ہے جس کے مطابق سائل نے سوال براہِ راست نماز، روزے اور زکوٰۃ ہی کے بارے میں پوچھا ہے۔ اس سے نوعیتِ واقعہ میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سوال اسلام کے بارے میں تھا تو جواب میں ایمانیات اور حج کا ذکر کیوں نہیں ہے ؟ بہرحال دونوں متون سامنے رکھیں تو یہ بات حتمی انداز میں کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل صورتِ واقعہ کیا تھی ۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سوال براہِ راست نماز، روزے اور زکوٰۃ کے بارے میں کیا گیا تھا، جسے اس زیرِ بحث روایت کے راوی نے ایک جامع عنوان کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔
اس روایت کے حل کرنے میں ایک مشکل تو وہی ہے، جس کی طرف اشارہ ہم نے متون کی بحث میں ایمانیات اور حج کے عدمِ ذکر کی نشان دہی کی صورت میں کیا ہے۔ اس کا باعث جیسا کہ ہم نے تصریح کی ہے یہی ہو سکتا ہے کہ سوال ہی ان تین امور کے بارے میں کیے گئے تھے۔ چنانچہ آپ نے انہی کا جواب دیا ہے۔
دوسری مشکل آخری جملے (لا ازید علی ھذا ولا انقص منه) کے مفہوم کے تعین میں ہے۔ اس جملے کا ایک مطلب تو یہ لیا گیا ہے کہ میں کسی بدعت کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ دوسرے معنی یہ قرار دیے گئے ہیں کہ میں نفلی عبادت نہیں کروں گا اور اس کی تائید میں بخاری کی ایک روایت کو پیش کیا جاتا ہے، جس میں یہ جملہ (لا اتطوع شیئا ولا انقص مما فرض اللّٰه علی شیئا۔ کتاب الشہادات، باب کیف یستخلف)کے الفاظ میں روایت ہوا ہے اور تیسرے معنی شارحین نے یہ بیان کیے ہیں کہ میں آپ کی اس بات کا ابلاغ کرتے ہوئے کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا۔ یہ تینوں معنی لینے میں تکلف محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک، سائل نے ان الفاظ سے اپنے پوری طرح عمل کرنے کے ارادے کو تعبیر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعریف کی ہے۔
تیسری چیز سوال و جواب کے باہمی تعلق کا تعین ہے۔ روایت کے دروبست میں موجود قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل دین کے بنیادی تصورات اور احکام سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ نماز، روزے اور زکوٰۃ کے معاملے میں دین کا اصل مطالبہ کیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال میں مضمر اسی حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر جواب دیا ہے۔
’بنی الاسلام علی خمس‘(حدیث: ۴) کی وضاحت کرتے ہوئے ہم قرآن مجید کے حوالے سے ان اعمال کی اہمیت تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ اس روایت کا زائد پہلو تطوع سے متعلق ہے۔ قرآنِ مجید نے حج اور روزے کے احکام بیان کرتے ہوے نفلی عبادت کو اسی لفظ سے بیان کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’فمن تطوع خیرا فان اللّٰه شاکر علیم ‘(بقرہ ۲: ۱۵۸)۔ اس آیۂ کریمہ سے نفلی عبادات کے اجر اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آیۂ کریمہ میں ’شاکر علیم‘ کے الفاظ اپنے اندر ایک دل آویز تسلی کا سامان رکھتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے جذبۂ عبادات سے کس طرح خوش ہوتے ہیں۔ ’ شاکر ‘ کا لفظ اللہ کی رضا اور اجر کی فراوانی کے مفہوم پر متضمن ہے۔
بخاری، کتاب الایمان، باب ۲۳، کتاب الصوم، باب ۱، کتاب الشہادات، باب ۲۶، کتاب الحیل، باب ۳۔ مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب ۲۔ نسائی، کتاب الصلوٰۃ، باب ۴، کتاب الصیام، باب ۱، کتاب الایمان و شرائعہ، باب ۲۳، ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ باب ۱، کتاب الایمان و النذور، باب ۵۔ احمد، عن ابی محمد طلحہ بن عبید اللہ۔ دارمی، کتاب الصلوٰۃ، باب ۲۰۸۔ مؤطا، کتاب الندا للصلوٰۃ، باب ۹۹۔
___________