بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًاﵐ فَلَمَّا٘ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ ١٧ صُمٌّۣ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ١٨ﶫ اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌﵐ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِيْ٘ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِﵧ وَاللّٰهُ مُحِيْطٌۣ بِالْكٰفِرِيْنَ ١٩ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْﵧ كُلَّمَا٘ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِﵱ وَاِذَا٘ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْاﵧ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٢٠
اِن ۳۰کی اور اُن جھٹلانے والوں کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے ۳۱(اندھیری رات میں) کسی شخص نے الاؤ جلایا، پھر جب آگ نے اُس کے ماحول کو روشن کر دیا تو (جن کے لیے آگ جلائی گئی تھی )، اللہ نے اُن کی روشنی سلب کر لی اور اُنھیں ایسے اندھیروں میں چھوڑ دیا جہاں وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے؛ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، سو اب وہ کبھی نہ لوٹیں گے۔۳۲ یا بالکل ایسی ہے جیسے آسمان ۳۳ سے بارش ہو رہی ہے۔ اِس میں اندھیری گھٹائیں بھی ہیں اور کڑک اور چمک بھی۔ یہ کڑک کے مارے اپنی موت کے ڈر سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لے رہے ہیں،۳۴ دراں حالیکہ اِس طرح کے منکروں کو اللہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔۳۵ بجلی کی چمک اِن کی آنکھیں خیرہ کیے دے رہی ہے؛ جب چمکتی ہے ، یہ اُس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب اِن پراندھیرا چھا جاتا ہے توکھڑے ہو جاتے ہیں۔ ۳۶اِن کے کان۳۷ اور آنکھیں بھی اگر اللہ چاہتا تو سلب کر لیتا۔ ۳۸بے شک، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۱۷ - ۲۰
۳۰ ۔ یہ دو تمثلیں ہیں۔ اُن میں سے پہلی تمثیل اُن لوگوں کی ہے جن کا ذکر اوپر ’ان الذین کفروا‘ کے الفاظ میں ہوا ہے اور دوسری اُن کی جو ان کے بعد ’ومن الناس من یقول‘ کے الفاظ میں مذکور ہیں۔ تمثیل کے بارے میں یہ بات یہاں پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اِس میں اور تشبیہ میں بڑا فرق ہے۔ تشبیہ میں اصل اہمیت مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان مطابقت کی ہوتی ہے اور تمثیل میں صورتِ واقعہ کو صورتِ واقعہ کے مقابل میں رکھ دیا جاتا ہے، اس میں تمثیل کے اجزا کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
۳۱ ۔ یہ تمثیل ایک قافلہ کی ہے جو اندھیری رات میں اپنے لیے راستہ تلاش کر رہا ہے۔ اِس میں آگ جلانے والے سے اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے جنھوں نے آگ جلا کر گویا راستہ بالکل روشن کر دیا ہے، لیکن قافلے کے تمام افراد چونکہ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں، اس لیے نہ پکارنے والے کی پکار سن سکتے ہیں، نہ اُسے جواب دے سکتے ہیں اور نہ اِس آگ کی روشنی میں اپنے لیے کوئی راہ تلاش کر سکتے ہیں۔
۳۲ ۔ یہ دوسری تمثیل ایک ایسے قافلے کی ہے جو رات کی تاریکی میں کسی جگہ بارش میں گھر گیا ہے۔ اس میں بارش سے اشارہ قرآنِ مجید کی طرف ہے؛ اندھیری گھٹاؤں سے اُن مشکلات راہ کا تصور دلانا مقصود ہے جو قرآن کی دعوت قبول کرنے والوں کو اُس زمانے میں لازماً پیش آتی تھیں: کڑک اور چمک سے قرآن کی وہ وعیدیں مراد ہیں جو قرآن اپنے جھٹلانے والوں کو سنا رہا تھا اور جن کی زد اُس وقت بطورِ خاص یہود پر پڑ رہی تھی۔
۳۳ ۔ بارش کے ساتھ آسمان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ اس سے ایک تو تمثیل کے تقاضے سے بارش کی تصویر نگاہوں کے سامنے آ جائے، دوسرے اس سے جب قرآن کو مراد لیا گیا ہے تو اس کے آسمانی ہونے کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہو جائے۔
۳۴ ۔ یہود کے اس موخر الذکر گروہ کو چونکہ قرآن کی حقانیت کا پورا احساس تھا، اس وجہ سے قرآن کی وعیدیں اسے بہت شاق گزرتی تھیں۔ ان کا علاج اُس نے یہ سوچا کہ سرے سے قرآن کی بات سنی ہی نہ جائے۔ تمثیل میں یہ اسی صورتِ حال کی تصویر ہے۔
۳۵ ۔ یعنی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو یقیناً مبتلا کر سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچے رہیں گے، لیکن فی الواقع وہ بچ نہیں سکتے، اس لیے کہ اللہ ہر طرف سے اپنی سب قوتوں کے ساتھ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
۳۶ ۔ یہ اُس پریشانی کی تصویر ہے جس میں نزولِ قرآن کے بعد وہ مبتلا ہو گئے تھے۔ قرآن کی چمک اور دمک نگاہوں کو خیرہ کیے دے رہی تھی اور اس کی بجلیوں سے بچنے کی کوئی راہ وہ تلاش نہیں کر پا رہے تھے۔ اس چیز نے انھیں بالکل حیران و درماندہ کر دیا تھا کہ کریں تو کیا کریں۔ اس حیرانی و درماندگی میں کوئی بات بنتی نظر آتی تو بنانے کی کوشش کرتے تھے اور جب بگڑ جاتی تھی تو حیران و درماندہ ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ قرآن نے یہ اسی صورتِ حال کی تصویر کھینچی ہے۔
۳۷ ۔ اصل الفاظ ہیں: ’ لذهب بسمعهم وابصارهم‘ان میں ’ابصار‘جمع ہے اور ’سمع‘ واحد۔ قرآن میں یہ کئی جگہ آیا ہے اور ’قلوب..افئدة‘ اور ’ابصار‘جیسے الفاظ کے ساتھ اس طرح واحد ہی آیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس چیز کا تعلق اہلِ زبان کے استعمالات سے ہے۔ وہ اس طرح کے مواقع پر اس لفظ کو اسی طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
۳۸ ۔ یہ وعید ہے کہ انھوں نے اگر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور دوسروں کو فریب دینے کا طریقہ چھوڑ کر حق کو، جس طرح کہ وہ ہے، پوری سچائی کے ساتھ قبول نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ پہلے گروہ کی طرح اُن کی روشنی بھی سلب کر لی جائے اور وہ حق کو پانے کی صلاحیت ہی سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جائیں۔ ’’اللہ چاہتا تو ان کی روشنی سلب کر لیتا‘‘ــــــ ان الفاظ کا مدعا یہ ہے کہ ابھی اُنھیں مہلت ملی ہوئی ہے، لیکن اس مہلت سے وہ بے خوف اور بے پروا نہ ہوں۔ وہ نہیں جانتے کہ کب یہ مہلت ختم ہو جائے گی اور کب وہ عذابِ الٰہی کی زد میں آ جائیں گے۔
[باقی]
___________