HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

ایک وہ عراق تھا!

خلیفہ ولید بن عبد الملک کا دورِ حکومت تھا۔ کچھ مسلمان تاجر سراندیپ (لنکا) میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک تاجر کا انتقال ہو گیا تو وہاں کے راجہ نے ولید کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس تاجر کے پسماندگان کو جہاز میں سوار کر کے واپس بھیج دیا اور ساتھ خلیفہ کے لیے تحائف بھی تھے۔ جب یہ جہاز دیبل (کراچی) کی بندرگاہ کے قریب پہنچا تو سندھ کے بحری قزاقوں نے اسے لوٹ لیا۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ ان مسلمانوں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے قید کر لیا۔ 

اس وقت کی اسلامی سلطنت کے ایک صوبے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بے قرار ہو گیا۔ پہلے اس نے سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ مگر سندھ کے حکمران راجہ داہر نے اس معاملے میں اس سے تعاون نہیں کیا۔ پھر حجاج نے ولید کی اجازت سے سندھ کی جانب دو مہمیں روانہ کیں، لیکن وہ ناکام رہیں۔ اس کے بعد حجاج نے اس کے لیے باقاعدہ فوج منظم کی اور اس کی کمان اپنے ایک ذہین جرنیل محمد بن قاسم کے سپرد کی۔ 

ابنِ قاسم اپنی فوج کے ہمراہ دیبل پہنچا اور فاتحانہ پیش قدمی کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ داہر دیبل سے فرار ہونے کے بعد دریاے سندھ کے کنارے معرکہ آرائی کے لیے خیمہ زن تھا۔ ابنِ قاسم وہاں بھی پہنچ گیا۔ داہر مادی لحاظ سے زیادہ طاقت ور فوج رکھتا تھا لیکن وہ اس ایمانی قوت سے محروم تھا جو ابنِ قاسم اور اس کے ساتھیوں کو حاصل تھی۔ چنانچہ نتیجہ نکل آیا داہر کو شکست ہوئی۔ وہ مارا گیا۔ اس کی فوج میدانِ جنگ سے بھاگ نکلی اور اس طرح ابنِ قاسم نے اس مظلوم خاندان کو رہا کرا لیا جس کی بنا پر فتح سندھ کی مہم روانہ کی گئی تھی۔

ایک وہ عراق تھا۔ ایک آج کا عراق ہے۔ ایک وہ عراق تھا جو میلوں کا فاصلہ طے کر کے ایک خاندان کو برباد کرنے والوں کی شہ رگ تک پہنچ گیا تھا۔ ایک آج کا عراق ہے جو تباہ و برباد کیا جا رہا تھا اور جوابی حملہ تو ایک طرف وہ اپنے دفاع کی طاقت بھی نہیں رکھتا تھا ۔

رمضان المبارک میں ہمارے ہاں ’’یومِ باب الاسلام‘‘ منایا گیا۔ اس لیے کہ ان دنوں ابنِ قاسم نے سرزمینِ سندھ پر اپنے قدم رکھے تھے۔ اور یہ بھی رمضان ہی کا مہینا تھا جس میں آج کے عراق پر دنیا کی دو طاقتیں امریکہ اور برطانیہ بارود کی بارش برسا رہی تھیں۔ لیکن یہ عراق صرف تباہ و برباد ہونے پر مجبور تھا اورمسلم ممالک کے اہلِ اقتدار میں بھی کوئی ’’حجاج بن یوسف‘‘ موجود نہ تھا۔ ہاں، جگہ جگہ احتجاجی نعرے ضرور لگے، کچھ گالیاں بھی دی گئیں، کچھ پتلے اور ٹائر بھی جلائے گئے مگر کوئی تعمیری کام ہوا اور نہ کسی مثبت کام کا جذبہ ہی ابھارا گیا۔

ایسا کیوں ہوا ؟ سیاسی پہلو سے دیکھیں تو ایسا اس لیے ہوا کہ اُس عراق کے دور میں مسلمانوں کی ایک سلطنت تھی۔ ان کا ایک امیر تھا۔ وہ ایک تھے اس لیے بھی طاقت ور تھے۔ آج ہم ایک نہیں ہیں۔ ہم ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے کئی ایک امیرہیں۔ اس تقسیم نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ بزدل کر دیا ہے۔ دینی پہلو سے دیکھیں تو اُس عراق کے دور کے مسلمانوں کی ایمانی و اخلاقی حالت ہماری ایمانی و اخلاقی حالت سے بہتر تھی۔ وہ قوت اور وسائل کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے۔ ان کے خواص اللہ کے ساتھ باندھے ہوئے عہد میں مخلص اور ان کے عوام محنتی تھے۔ ان میں اپنی اجتماعیت کی فلاح کے لیے انفرادی نفع کو قربان کر دینے کا جذبہ موجود تھا۔ غرض کہ اس دور میں مسلمانوں نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے اللہ کے انعام کا مستحق ثابت کر دیا تھا۔ آج کے عراق کی بربادی اور اس پر تمام مسلم ممالک کی خاموشی کے ذمہ دار درحقیقت مسلمان خود ہی ہیں۔ یہ انھی کا ’’جرمِ ضعیفی‘‘ ہے جس کی سزا وہ آج پا رہے ہیں۔ اور اس وقت تک یہ سزا پاتے رہیں گے جب تک اس ’’ضعیفی‘‘ میں مبتلا رہیں گے ۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ اس کے لیے یہ کرنا چاہیے کہ اہلِ علم لوگوں کے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کریں۔ لوگوں میں وہ اوصاف پیدا کریں، جن کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر پروردگارِ عالم کے انعامات کے مستحق بن جائیں، وہ اپنے قلبی ایمان اور اپنے ہاتھوں کی محنت کے ذریعے سے ایک مرتبہ پھر ایک ایسی قوت بن جائیں جو انصاف کی بھیک مانگنے کے بجائے دنیا کو انصاف دے سکے۔ اہلِ سیاست دورِ حاضر میں جس حد تک ممکن ہو مسلمان ممالک کو ایک اکائی کی شکل دینے کی کوشش کریں۔ عام مسلمان دنیوی علوم و فنون میں اپنے سفر کی رفتار تیز کریں۔ تاکہ ایک مرتبہ پھر وہ ’’عراق‘‘ ظہور میں آ سکے جس سے ابنِ قاسم جیسے جرنیل اٹھتے تھے۔

ـــــــــ محمد بلال  

___________

B