HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اس شمارے میں

یہ دنیا آزمایش کے اصول پر چل رہی ہے۔ یہاں صحیح اور غلط، ہر قسم کے خیالات پھیلانے کی آزادی ہے۔ شیاطینِ جن و انس اس آزادی کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے مسلسل باطل نظریات پھیلا رہے ہیں۔ اور بسا اوقات باطل کے ساتھ کچھ حق کی آمیزش کر دیتے ہیں جس سے حق و باطل میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح معاملہ سنگین تر ہو جاتا ہے۔ 

عالم کے پروردگار کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں قرآنِ مجید عطا کیا ہے۔ یہ قرآنِ مجید ’’الفرقان‘‘ ہے۔ وہ فرقان جو حق و باطل میں ٹھیک ٹھیک فرق کرتا ہے۔ اور ہمیں شکوک و شبہات سے نجات دلا دیتا ہے۔  

قرآنِ مجید زمین و آسمان کے بادشاہ کی کتاب ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسری کتاب یہ حیثیت نہیں ر کھتی کہ وہ اس کے لفظ ومعنی میں ادنیٰ درجے میں بھی ترمیم و تغیر کر سکے۔ لیکن ہمارے ہاں بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید کے احکام کو منسوخ کر سکتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے کسی حکم میں تغیر و تبدل ایک انتہائی غیر معمولی معاملہ ہے۔ اس سے قرآنِ مجید کی حیثیتِ فرقان متاثر ہوتی ہے۔ اور یہ بڑی سنگین بات ہے۔ 

اس شمارے میں ’’دین و دانش‘‘ کے تحت جاوید احمد صاحب غامدی کے مضمون ’’اصول و مبادی‘‘ کی نویں قسط شائع کی گئی ہے۔ اس مضمون میں جاوید صاحب نے مثبت انداز سے یہ واضح کیا ہے کہ احادیث دراصل قرآنِ مجید کی شرح یا فرع ہی کرتی ہیں۔ انھوں نے ان احادیث کا مفہوم واضح کیا ہے جن کے باعث لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ احادیث قرآن کے کسی حکم میں نسخ وترمیم کرسکتی ہیں۔ 

’’دین ودانش‘‘ ہی کے ذیل میں مدیرِ ’’اشراق‘‘ کا ایک مضمون ’’غزوۂ ہند‘‘ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات کی طرف کسی بات کی نسبت کے بارے میں ہمارے اسلاف کس قدر حساس تھے۔ اور انھوں نے حضور کی طرف کوئی بات منسوب کرنے والوں کے بارے میں کتنی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ افسوس ہے کہ آج لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ جہاں انھیں آپ سے منسوب کوئی بات ملتی ہے اس کی نسبت کو پرکھے بغیر اسے اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس معاملے میں اسلاف کی محنتوں اور کاوشوں سے استفادہ نہیں کرتے۔ ان کے اس غیرمحتاط رویے کے باعث ہمارے ہاں علم وعمل میں گوناگوں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں ایک انشائیہ طبع کیا گیا ہے۔ اردو نثری ادب کی اس صنف کی جامع تعریف بیان کرنا تو مشکل ہے البتہ اس کے جن اوصاف پر اہلِ فن میں قریب قریب اتفاق پایا جاتا ہے انھیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے ہم مضمون اور انشائیہ میں فرق واضح کرتے ہیں۔ اس تقابلی اسلوب سے انشائیہ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے گا۔ 

اگرچہ مضمون بھی ایک ادبی صنف ہے لیکن اس کا مزاج علمی ہے۔ اس میں مسئلہ منطقی ترتیب اور سائنسی اسلوب میں بیان کیا جاتا ہے۔ طوالت یا اختصار کے پہلو سے اس میں کوئی قید نہیں۔ البتہ طویل مضمون کو مقالہ کہا جاتا ہے۔ اس میں مکمل مسئلہ بیان کیا جاتا ہے۔ اگر مسئلے کا کوئی پہلو تشنہ رہ جائے تو اس کاباقاعدہ ذکر کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی بات کو حوالوں، حاشیوں اور دوسرے لوگوں کی آرا سے صحیح یا غلط ثابت کیا جاتا ہے اور قاری کو ہم خیال بنا لینا اور اس پرچھا جانا پیشِ نظر ہوتا ہے۔ 

جبکہ انشائیہ میں احساسات، تجربات اور خیالات کا اظہار نسبتہ ً آزادی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا انداز غیررسمی ہوتا ہے۔ اس میں اختصار ضروری ہوتا ہے۔ حوالوں اور حاشیوں سے کام نہیں لیا جاتا۔ اس کے لیے نادر موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ موضوع پرانا ہو تو اسلوب منفرد اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کے خیالات میں انوکھا پن پایا جاتا ہے۔ سادگی اس کا اہم وصف ہوتا ہے۔ ثقیل الفاظ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ دوراز کار تشبیہوں سے دور ہی رہا جاتا ہے۔ اس میں طنزو مزاح کا عنصر بھی آ سکتا ہے۔ کہانی یا شعریت کا رنگ بھی بھرا جا سکتا ہے۔ اور ایسا فکری نکتہ جو اس کی لطافت کو زائل نہ کرے، اسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ 

اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’یسئلون‘‘، ’’تبصرۂ کتب اور ’’مدیر کے نام‘‘ کے سلسلے بھی موجود ہیں۔ 

ـــــــــ محمد بلال

___________

B