HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوے رہبانی

سادگی اختیار کرنا، دین کا حکم ہے ، نہ مقصود اور نہ مطلوب۔ اس کے برعکس دنیا کی زینتیں اختیار کرنا بندوں کا حق اور خدا کے نزدیک مطلوب رویہ ہے۔ 

دین داری میں دنیا بے زاری کے اس قدیمی رویے کی مذمت کرتے ہوئے خدا نے قرآن میں تنبیہی لہجے میں فرمایا کہ ’’کس نے خدا کی پیدا کردہ زینتوں اور پاکیزہ رزق کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیے ہیں۔ اے نبی، آپ انھیں بتائیں کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہیں۔ دنیا میں تو یہ کافروں کو بھی مل جاتے ہیں، مگر قیامت کے دن یہ صرف مومنین کے لیے خاص ہوں گی‘‘ (الاعراف۷: ۳۲)۔

انسان نے جب بھی دین داری اور خدا پرستی کا اپنا ضابطہ بنانا چاہا تو اس نے دنیا اور اس کی زینتوں کو ہمیشہ خدا پرستی کے رقیب کے طور پر لیا۔ ترک دنیا اور ترک لذائذ کو قابل تحسین سمجھا کہ یہ خدا کی یاد سے غافل کرتی ہیں۔ یوں اس نے خود کو شکر گزاری کی آزمایش سے بچایا اور اختیاری صبر کی آزمایش اپنائی جو خدا نے اس پر لاگو نہیں کی تھی۔

اسلام میں اس رویے کی گنجایش نہ تھی، مگر دین داری کی اس قدیم روایت نے یہاں بھی گھر بنا لیا۔ یہاں بھی سادگی اور غربت کو گلیمرائز کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو پیش آنے والی مالی مشکلات کے دور کو اختیاری فقر باور کرا کر اسلام میں بھی رہبانیت کو بڑی حد تک رائج کرا لیا گیا۔ مال و دولت ہونا ایک کم تر حیثیت کے مسلمان کی علامت ٹھیرا۔ چنانچہ صاحب وسائل کے لیے بھی غربت نما سادگی اختیار کرنا قابل تحسین قرار پایا۔ 

امرا سے حسد ہمیشہ سے رہا ہے۔ انسان کسی بھی لحاظ سے اپنے سے برتر سے حسد کرتا ہے، چاہے وہ برتری حسن میں ہو، طاقت میں یا مال و دولت میں۔ دین داری میں غربت کو گلوریفائی کرنے سے امرا سے نفرت یا کم از کم ان کی تحقیر کو دینی جواز حاصل ہوگیا۔ اُن صوفیا کے واقعات کو قابل تحسین گردانا گیا جو امرا کو دھتکارتے تھے۔ چنانچہ دین دار امرا بھی معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور رہے کہ دولت رکھنے کے جرم کے مرتکب ہیں۔ اپنی دولت تج کر غربت اختیار کر لینے والے چند افراد کی مثالوں کو بھی مثالی بنا کر پیش کیا گیا، حالاں کہ یہ ان چند افراد کی افتاد طبع تھی، کوئی ایسا کام نہ تھا جو دین داری کے لیے مطلوب ہو ۔ 

دولت مندی کے خلاف حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے رویے اور فتویٰ کی بھی اسی لیے تحسین کی گئی۔ ضرورت سے زائد سب مال و دولت دوسروں میں تقسیم کر دینا، کسی فرد کا ذوق ہو سکتا ہے، مگر پورے سماج اور حکومت سے یہ مطالبہ غیر حقیقی اور ناقابل عمل تھا، حالاں کہ یہ ان کا انفرادی نظریہ اور رویہ تھا، نہ کہ دین کا حکم۔ ان کی باتوں سے شہ پا کر غربا اور عام لوگوں نے اہل ثروت کے ناک میں دم کر دیا تھا۔ان کا موقف اپنا لیاجائے تو کوئی سماج اور حکومت دو قدم نہیں چل سکتے ۔  

روزہ رکھنا چونکہ ایک لحاظ سے رہبانیت کی ایک شکل تھی، اس لیے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ افطار اور سحری میں سادہ کھانا کھایا جائے۔ ایسے بھی ہیں جو بھوک کی سیرابی کو بھی خلاف تقویٰ سمجھتے ہیں۔ ان سے خدا ہی کے الفاظ میں پوچھا جاتا ہے کہ کس نے خدا کے پاکیزہ رزق کو حرام قرار دیا ہے ؟ 

سادگی کو دین کا مطلوب سمجھنے سے خواتین پر الگ سے ظلم ہوا۔سجنا سنورنا ان کی جبلت ہے، مگر دین داری کا تقاضا ان کے لیے یہ ٹھیرا کہ وہ میک اپ اور جمال آرائی سے دور رہیں۔ جمالیات سے اجتناب خشکی اور کھردرا پن پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ان خواتین کے ساتھ یہی ہوا۔ نسائیت کے تقاضے تشنہ رہ گئے اور مزاج خشک ہو گئے۔ وہ جہاں بھی ہوتی ہیں، اپنے ماحول کو بے رنگ اور پھیکا بنانے میں لگی رہتی ہیں۔

اسراف کا معیار بھی افراد کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ غربا کے معیار سے امرا کی تقریبات یا طرز زندگی کو ناپا نہیں جا سکتا۔ ایک متوسط طبقے کے لیے اشرافیہ کے اخراجات اگر اسراف ہیں تو ایک غریب کے لیے متوسط طبقے کے اخراجات بھی اسراف ہی ہیں۔ مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے حسد نہیں کرنا چاہیے۔ مذمت صرف استحصال اور اجارہ داریوں کی کرنی چاہیے۔ انفاق اور اخوت کی تعلیم دینی چاہیے۔ ورنہ دولت مندی از خود قابل مذمت نہیں ہے۔ 

غربا کو صبر کی درپیش آزمایش میں ان کی تسلی کے لیے جو کچھ روایات میں کہا گیا ہے کہ ان کا حساب نسبتاً آسان ہوگا وغیرہ، اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ مفلسی اختیار کرنا کوئی مقصود رویہ ہے۔

قرآن مجید میں جہاں ایوب اور یعقوب علیہما السلام کو صبر جمیل کا نمونہ بتایا گیا ہے، وہاں داؤد و سلیمان علیہما السلام کو شکر کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B