HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۱۰)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین  کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حضرت رقیہ بنت رسول الله رضی الله عنہا

نسب عالی

عالی نسب حضرت رقیہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی صاحب زادی تھیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد ان كی والدہ تھیں۔ عبدالله دادا،عبدالمطلب پردادا اور ہاشم سكڑدادا تھے۔ ۶۰۳ء(یا ۶۰۵ء) میں آپ كی عمر تینتیس برس تھی جب حضرت رقیہ كی پیدایش ہوئی (مستدرك حاكم، رقم ۶۸۴۸)۔ اس طرح آپ كی بعثت كے وقت ان كی عمرسات سال ہوئی۔حضرت رقیہ حضرت زینب سے تین برس چھوٹی تھیں۔حضرت ام كلثوم ان سے چھوٹی اور حضرت فاطمہ سب سے چھوٹی تھیں۔ ام عبدالله ان كی كنیت تھی، انھیں ذات الہجرتین بھی كہا جاتا ہے۔ہاشمی، قرشی ان كی نسبت ہے۔مصعب زبیری اور جرجانی نے حضرت رقیہ كورسالت مآب صلی الله علیہ وسلم كی سب سے چھوٹی بیٹی قرار دیا ہے، حالاں كہ حقائق و واقعات اس سے موافقت نہیں كرتے۔ ابن اسحاق اور ان كی متابعت میں ابن ہشام نے قاسم،طیب اور طاہر كو علیحدہ علیحدہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم كے تین بیٹے بتایا ہے اور عبدالله كا نام نہیں لیا، جب كہ ابن سعد كہتے ہیں كہ آپ كے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ قاسم سب سے بڑے تھے۔آپ كی بعثت سے پہلے انھوں نے وفات پائی۔ عبدالله چھوٹے تھے،ان كا انتقال ہجرت مدینہ سے پہلے ہوا۔طیب و طاہر انھی كے ا لقاب ہیں، كیونكہ وه نبوت ملنے كے بعد پیدا ہوئے۔ حضرت ام كلثوم نے ۹ھ میں،حضرت زینب نے ۸ھ میں ، حضرت فاطمۃ الزهراء نے ۱۱ھ میں وفات پائی۔

قبول اسلام

اسلام كی پہلی مومنہ حضرت خدیجہ ایمان لائیں تو حضرت رقیہ اور تمام دختران رسول مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔

كٹر مشرك چچا سے ناتاجڑنا 

اگست ۶۱۰ء:حضرت رقیہ كی عمر دس سال سے كم تھی كہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم كے چچا ابولہب (عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب) نے آپ كے دوسرے چچا ابوطالب كی وساطت سے اپنےبڑے بیٹے عتبہ كے لیے حضرت رقیہ كا رشتہ مانگا۔ آپ نے حضر ت خدیجہ اور بیٹیوں سے مشوره كیا۔ حضرت خدیجہ خاموش رہیں، كیونكہ وہ جانتی تھیں كہ ابو لہب كی بیوی ام جمیل سنگ دل اور زبان دراز عورت ہے۔ایك سمجھ دار خاتون ہونے كے ناتے وه چچاؤں اور بھتیجوں سے تعلق توڑنا بھی نہ چاہتی تھیں، اس لیے ان كی خاموشی پر رشتہ استوار ہو گیا۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ سے چھوٹی تیسری بیٹی حضرت ام كلثوم بھی اسی گھرانے میں،ابولہب كے چھوٹے بیٹے عتیبہ سے بیاہ دی۔

ناتا ٹوٹنا

فجر اسلام كے بعد قریش كے لیڈروں نے ابولہب سے كہا:تم نے محمد( صلی الله علیہ وسلم)كو فكر سے آزاد كردیا ہے۔ بیٹیوں كے رشتے توڑكر اسے ان كی پریشانی میں مبتلا كر دو۔ انھوں نے حضرت رقیہ كے بہنوئی ابوالعاص بن ربیع پر بھی دباؤ ڈالا كہ وہ اپنی ز وجہ حضرت زینب بنت رسول اللہ كو چھوڑ دےتو قریش كی جس عورت سے چاہے،اس كا بیاه كر دیا جائے گا۔ اس نےكہا: میں اپنی بیوی كو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔پھر وه عتبہ بن ابولہب كے پاس گئے اور كہا:تم محمد(صلی الله علیہ وسلم)كی بیٹی كو طلاق دے دو،ہم قریش كی من چاہی لڑكی سے تمھاری شادی كردیں گے۔اس نے مطالبہ كیا كہ ابان بن سعید یا سعید بن العاص كی بیٹی اس سے بیاه دی جائے۔ سعید بن العاص كی بیٹی سے اس كی نسبت طے ہو گئی (السیرة النبویۃ،ابن ہشام۲/ ۲۲۲۔ المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۱۸۴۸۳)۔ ابولہب اور ام جمیل كا كفر و عناد بڑھتا گیا تو سورۂ لہب نازل ہوئی۔ تب ابولہب نے اپنے بیٹوں كو دھمكی دی : تمھارا باپ ہونے كا تعلق مجھ پر حرام ہے اگر تم نے محمد(صلی الله علیہ وسلم) كی بیٹیوں كوطلاق نہ دی۔ آخركار رسول كی بیٹیوں او ر مشرك چچا كے بیٹوں میں رخصتی سے پہلے ہی مفارقت ہو گئی۔ عتبہ اصل میں اسلام دشمن نہ تھا، لیكن متمردین قریش كے پھسلانے پر بہك گیا، چنانچہ فتح مكہ پرایمان لے آیا۔ عتیبہ نے اپنے باپ كے اكسانے پرحضور صلی الله علیہ وسلم كی شان میں گستاخی كی اور آپ كی قمیص پھاڑ دی۔آپ نے اسے بددعا دی۔ چنانچہ جب وه شام كے سفر پر گیا تو راستے میں اسے شیر نے پھاڑ كھایا(المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۸۴۹۲)۔

خواہش عثمانی كا پورا ہونا

 حضرت عثمان كے پر پوتے عبدالله بن عمر و دیباج كی روایت ہے :حضرت عثمان كعبہ كے صحن میں تھے كہ انھیں پتا چلا كہ محمد (صلی الله علیہ وسلم )نے اپنی بیٹی رقیہ كا نكاح عتبہ بن ابو لہب سےكر دیا ہے۔حضرت عثمان خود خوب صورت، روشن رو تھے،انھیں حسرت ہوئی كہ كاش، میں نے یہ رشتہ مانگ لیا ہوتا۔گھر گئے تو ان كی كاہنہ خالہ حضرت سعدی بنت كرز نے انھیں بتایا كہ الله كے فرشتے جبریل محمد (صلی الله علیہ وسلم )كے پاس آتے ہیں۔كچھ روز كے بعد ان كی ملاقات حضر ت ابوبكر سے ہوئی تو انھوں نے بتوں كی بندگی چھوڑ كر الله واحد پر ایمان لانے كی ترغیب دی۔اسی اثنا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان كے پاس سے گزرے اور اسلام قبول كر كے جنت كا مستحق ہونے كی دعوت دی۔ حضرت عثمان نے سبقت كرتے ہوئے كلمۂ شہادت پڑھا اورپہلے پانچ مومنین میں شامل ہو گئے۔كچھ ہی دنوں كے بعد عتبہ نے حضرت رقیہ كو طلاق دی اور حضرت عثمان كی حسرت پوری ہوگئی(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:۳۵۳۳ - ۳۵۳۴)۔تب حضرت سعدی بنت كرز نے كچھ اشعار كہے،ان میں سے ایك یہ ہے:

و أنكحه المبعوث بالحق بنته 
فكانا كبدر مازج الشمس في الأفق
’’حق دے كر بھیجے ہوئے نبی نے اپنی بیٹی عثمان كے نكاح میں دے دی، میاں بیوی كی مثال یہ ہو گئی جیسے چودھویں كا چاند افق میں سورج سے مل رہا ہے۔‘‘

نعم البدل ملنا

۶۱۵ء میں حضرت رقیہ كی شادی حضرت عثمان سے ہو گئی اورانھیں بہترین بدل مل گیا۔ مشیت الٰہی میں تھا كہ ان كا نكاح اعلیٰ نسب، خوب رو، صاحب ثروت اور اخلاق حمیدہ كے مالك حضرت عثمان سے ہو، جن كا شمار ’السابقون الأولون‘ ،عشرۂ مبشره اور خلفاے راشدین میں ہو۔ دوسری طرف عرب میں،نہ حبشہ میں حضرت رقیہ سے زیادہ كوئی حسین و جمیل تھا(مستدرك حاكم، رقم ۴۲۴۶)۔ حبشہ كےلوگ میاں بیوی كے حسن سے بہت متاثر ہوتے(مستدرك حاكم، رقم ۶۸۵۰)۔نبی اكرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان اور رقیہ بہترین میاں بیوی ہیں۔عرب عورتیں اپنے بچوں كو لوری سناتی تھیں: میں تمھیں اتنا ہی پیار كرتی ہوں جتناقریش عثمان كو چاہتے ہیں۔حضرت رقیہ سے ان كی شادی كے بعد لوری یوں بدل گئی۔دو بہترین مرد و عورت جو ایك دوسرے سے ملے،رقیہ اور عثمان ہیں۔

حبشہ كی طرف پہلی ہجرت

حضرت عثمان كو علم تھا كہ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان كی مصاہرت كو ناپسند كریں گے اور انھیں اپنے غیظ و غضب كا نشانہ بنائیں گے۔ مسلمانوں كی تعداد بڑھ گئی اور مكہ میں ان كے ایمان كا چرچا ہونے لگاتو قریش كے ہر قبیلے نے اپنے نو مسلموں كو سزاؤں اور ایذاؤں كا نشانہ بنانا شروع كر دیا۔تب رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:زمین میں بكھر جاؤ۔صحابہ نے پوچھا :كہاں جائیں،یا رسو ل الله ؟ آپ نے حبشہ كی طرف اشارہ فرمایا۔ حضرت عثمان نے بھی حبشہ ہجرت كرنے كا ارده كر لیا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ رقیہ كو بھی ساتھ لے جاؤ، میرا خیال ہے کہ تم دونو ں ایك دوسرے كا سہارا بنو گے۔ حضرت رقیہ نے كہا : الله ہمارے ساتھ ہے اور ان كے بھی ساتھ ہے جن كو ہم اپنے گھروں كے پاس چھوڑے جا رہے ہیں۔ان كے جانے كے بعدرسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابوبكر كو ان كی خبر لینے بھیجا۔ حضرت اسماء نے واپس آكر بتایا كہ عثمان نے گدھے پر پالان ڈال كر رقیہ كواس پر بٹھایا اور ساحل سمندر كی طرف چل پڑے۔آ پ نے حضرت ابوبكر كو مخاطب كر كے فرمایا :ان دونوں نے لوط اور ابراہیم علیہما السلام كے بعد سب سے پہلے ہجرت كی(مستدرك حاكم، رقم ۶۸۴۹)۔ 

رجب ۵/ نبوی (۶۱۳ء)میں گیاره صحابہ اورچار صحابیات نے حضرت عثمان بن مظعون (حضرت عثمان بن عفان:محمد بن عبدالوہاب)كی قیادت میں سفر ہجرت میں حصہ لیا۔اس قافلے كے شركا یہ تھے: حضرت عثمان بن عفان، ان كی اہلیہ حضرت رقیہ بنت محمد رسول الله، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ،ان كی ز وجہ حضرت سہلہ بنت سہیل،حضرت زبیر بن عوام،حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف،حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد، ان كی اہلیہ حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہ ،حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، ان كی اہلیہ حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ،حضرت ا بو سبره بن ابو رہم،حضرت ابو حاطب بن عمرو،حضرت سہیل بن بیضاء (والد كا نام:وہب) اور حضرت عبدالله بن مسعود۔ابن ہشام نے حضرت عبد الله بن مسعودكا نام شامل نہیں كیا۔ 

صحابہ میں سے كچھ سوار تھے،كچھ پیدل۔سب بحر احمر كی بندرگاہ شیعبہ پر پہنچے۔وہاں تاجروں كو لے جانے والی دو كشتیاں كھڑی تھیں جو انھیں نصف دینارفی كس كے عوض حبشہ پہنچانے كے لیے تیار ہو گئیں۔ قریش ان كا پیچھا كرتے ہوئے سمندر تك پہنچے، لیكن كشتیاں روانہ ہوچكی تھیں۔كڑی دھوپ میں گہرے سمندر كے طویل سفر كے دوران میں كئی لوگ بیمار پڑ گئے۔ حبشہ كی پہلی ہجرت میں حضرت رقیہ كابچہ ضائع ہو گیا۔

  الله كا فرمان ہے : ’وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۣ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةًﵧ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ‘، ’’اور جنھوں نے ظلم سہنے كے بعد الله كی راه میں ہجرت كی، ہم انھیں دنیا میں اچھا گھر دیں گے اور آخرت كا اجر تو بہت ہی بڑا ہو گا، كاش یہ جاننے والے ہوں‘‘ (النحل۱۶ :۴۱)۔

شفقت پدری

حضرت رقیہ كے حبشہ جانے كے بعدكچھ عرصہ تك ان كی خبر نہ آئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم فكرمند ہو گئے۔آپ باہر نكل جاتے اور حضرت رقیہ اور حضرت عثمان كے بارے میں لوگوں سے پوچھتے۔ تبھی حبشہ سے آنے والی ایك عورت آپ سے ملی اور اس نے بتایا كہ میں نے آپ كے داماداو ر ان كی اہلیہ كو حبشہ میں دیكھا ہے۔آپ نے پوچھا: وه كس حال میں ہیں؟اس نے بتایا:عثمان نے اپنی بیوی كو گدھے پر بٹھایا ہوا تھا اور اسے ہانك رہے تھے۔ دعا فرمائی: الله كی رحمت ان كے شامل حال رہے،لوط علیہ السلام كے بعد عثمان پہلے مومن ہیں جنھوں نے اپنی زوجہ كے ساتھ ہجرت كی ہے(المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۱۴۱)۔

حبشہ سے مراجعت

حبشہ میں شعبان اور رمضان كے دو ماه گزرے تھے كہ مہاجرین تك یہ افواه پہنچی كہ مشركین مكہ نے اسلام قبول كر لیا ہے اور وه نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے شانہ بہ شانہ سجده ر یز ہوتے ہیں۔ انھوں نے كہا: ہمارے كنبے ہمیں زیاده عزیز ہیں، اس لیے فوراً مكہ چلنا ہو گا۔چنانچہ ماه شوال میں كچھ مہاجرین نے مكہ كو مراجعت كی، جب كہ دیگر اصحاب رسول نے حبشہ ٹھیرنے كو ترجیح دی۔ مكہ كے قریب آئے تو انھیں پتا چلا كہ یہ خبر جھوٹی تھی، تب وہی اصحاب شہر میں داخل ہوئے جنھیں كسی كی پناه حاصل ہوئی یا انھوں نے چھپ چھپا كر رہنے كا فیصلہ كر لیا۔ ابن ہشام نے مكہ لوٹنے والوں كی تعداد تینتیس بتائی ہے، حالاں كہ انھی كی فہرست شمار كرنے پریہ انتالیس بنتی ہے۔ حضرت عثمان اور حضرت رقیہ ان میں شامل تھے۔حضرت عثمان نے اپنے چچاسعید بن العاص (ابواحیحہ) كی پناه لی۔

حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ

 شوال ۵ ؍ نبوی (۶۱۳ء): اہل ایمان پر قریش كا ظلم و تشدد جاری تھا، تاہم حبشہ سے لوٹنے والے مہاجرین پراس كی شدت كچھ زیاده ہی تھی۔ نجاشی كے حسن سلوك كی داستانیں سن كر مشركین كا جنون بڑھ چكا تھا۔حضرت عثمان كے اقربا انھیں پریشان كرنے لگےتو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انھیں باردگر حبشہ جانے كی اجازت دے دی۔اس بارتراسی اصحاب،اٹھارہ صحابیات اور آٹھ بچوں پر مشتمل قافلے كے سالار حضرت جعفر بن ابوطالب تھے۔حضرت عثمان نے كہا:یا رسول الله،ہم پہلی بار نجاشی كےپاس گئے اور اب دوسری بار جا رہے ہیں اورآپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔فرمایا: تم نجاشی كے لیے نہیں، بلكہ الله كی راه میں اور میری خاطر ہجرت كر رہے ہو اور تمھیں دونوں ہجرتوں كا اجر ملے گا(الطبقات الكبریٰ۱/ ۱۴۱)۔ 

بیٹے كی ولادت

۶۱۹ء :ہجرت ثانیہ كے بعد حبشہ میں حضرت عثمان كےہاں بیٹا پیدا ہوا تو انھوں نے اس كا نام عبدالله ركھا اور ابوعبدالله كنیت اختیار كی، زمانۂ جاہلیت میں ان كی كنیت ابو عمروتھی۔ حضرت رقیہ كی كنیت ام عبدالله ہوگئی۔ شاذروایت كے مطابق عبدالله كی ولادت مدینہ میں ہوئی۔یہ روایت درست نہیں كہ حضرت رقیہ كا ایك اور بیٹا ہوا، جس كا نام عمرو تھا۔ 

مكہ كو واپسی

۱۰؍ نبوی (۶۱۹ء): بیٹے كی ولادت كے بعد حضرت عثمان اور حضرت رقیہ مكہ لوٹ آئے۔ حضرت جعفر بن ابوطالب اور زیاده تر اصحاب نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی طرف سے حكم آنے تك حبشہ میں ركنے كا فیصلہ كیا۔ حضرت عثمان اور حضرت رقیہ وطن واپس آنے پر خوش تھے، تاہم حضرت رقیہ اپنی والده سیده خدیجہ كو نہ پا کر رنجیدہ ہو گئیں۔

مدینہ كی طرف ہجرت

۱۴ ؍ نبوی (۶۲۲ء): یثرب كے اوس و خزرج قبائل نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی نصرت كا وعده كیا تو آپ نے صحابہ كو ہجرت كا اذن دے دیا۔حضرت عثمان اور حضرت رقیہ نےبھی اپنے نومولود بیٹے كو لے كر شہر ہجرت كارخ كیا۔تب حضرت رقیہ كی عمر بیس برس تھی۔ام المومنین حضرت سوده، حضرت فاطمہ اور حضرت ام كلثوم كو لانے كے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ كو مكہ بھیجا۔ حضرت زینب بنت رسول الله كو ان كے شوہر ابوالعاص بن ربیع نے مكہ میں روك لیا۔

جنگ بدر 

۲ھ:مدینہ میں جنگ بدر كی تیاریاں ہو رہی تھیں كہ حضرت رقیہ خسره(rubella) كا شكار ہو كر شدید بیمار پڑ گئیں۔حضرت عثمان كی شدید خواہش تھی كہ بدر كے معركہ میں حصہ لیں، لیكن آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے انھیں اہلیہ كی تیمار داری كے لیے مدینہ میں ركنے كا حكم دیا۔ آپ نے حضرت عثمان كی مدد كے لیےحضرت اسامہ بن زید كوبھی مدینہ میں ركنے كا حكم ارشاد كیا۔اختتام غزوه پر آپ نے حضرت عثمان كو جنگ بدر كے غازیوں میں شمار كیا اور انھیں مال غنیمت كا پورا حصہ عطا كیا۔حضرت عثمان كے استفساركرنے پر فرمایا:تمھیں اجر بھی پورا ملےگا (بخاری، رقم ۳۶۹۸۔ احمد، رقم ۵۷۷۲۔ترمذی، رقم ۳۷۰۶۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۸۴۹۰)۔ ان كے علاوه بھی سات صحابہ تھے جنھیں آپ نے جنگ بدر میں شریك نہ ہوتے ہوئے غنیمت عطا كی۔ان میں سے پانچ مختلف ذمہ داریوں پر تھے، جب كہ دو كی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا:تمھیں غزوۂ بدر میں حصہ لینے والوں جتنا اجر اور مال غنیمت میں بھی اتنا ہی حصہ ملے گا(بخاری، رقم ۳۶۹۸۔ احمد، رقم ۵۷۷۲۔ ترمذی، رقم ۳۷۰۶)۔

 حضرت رقیہ كی وفات

حضرت رقیہ خسرہ سے جان بر نہ ہو سكیں۔ان كی وفات۱۷ ؍رمضان ۲ھ (۱۳مارچ ۶۲۴ء) میں ہوئی۔ حضرت عثمان نے انھیں جنت البقیع میں سپرد خاك كر دیا۔ حضرت رقیہ وفات پانے والی رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی پہلی بیٹی تھیں، ان كی عمر بائیس یا تئیس برس ہوئی۔ آپ ابھی بدر سے نہ لوٹے تھے، اس لیے تدفین میں شریك نہ ہو سكے۔حضرت عثمان قبر پر مٹی ڈال رہے تھے كہ الله اكبر كا نعره گونجا۔انھوں نے حضرت اسامہ سے پوچھا: تكبیر كی آواز كیسے آئی ؟تبھی حضرت زید بن حارثہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كی اونٹنی جدعا (یا عضبا) پر سوار پہنچے اور مدینہ كے شہریوں كو غزوۂ بدر میں مسلمانوں كی فتح مبین كی خوش خبری سنائی(مستدرك حاكم، رقم ۶۸۵۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۸۴۰)۔ حضرت عبدالله بن رواحہ نےكفار كی ہزیمت كی بشارت دینے كے لیے بالائی مدینہ (قبا، بنو قریظہ،بنو نظیر) كا رخ كیا۔ 

بیٹی كی قبرپر نبی صلی الله علیہ وسلم كی آمد  

چند دنوں كے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم بدر سے مدینہ پہنچے اور حضرت رقیہ كی قبر پر آئے۔ حضرت فاطمہ آپ كے ساتھ تھیں۔ آپ نے دعافرمائی:میں رقیہ كی جسمانی كم زوریوں كو جانتا ہوں،اے الله، اسے قبر كی سختیوں سے محفوظ ركھ۔ مدینہ كی عورتیں بھی جمع ہوچكی تھیں اور گریہ كناں تھیں۔حضرت عمر انھیں كوڑے مارنے لگے تو آپ نے منع كیا اورفرمایا: انھیں رو لینے دو۔پھر عورتوں كو مخاطب كر كے فرمایا:تم بھی شیطانی چیخ و پكار سے بچو۔آنكھوں سے جو آنسو بہتے ہیں اور دل میں جو رنج ہوتا ہے،الله كی طرف سے رحمت ہوتی ہے۔جب كہ ہاتھوں سے پیٹنا او ر زبان سے بین كرنا شیطان كی طرف سے ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ سے صبرنہ ہو ا،رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر كے كنارے پر بیٹھے تو آپ كے پہلو میں بیٹھ كر رونے لگ گئیں۔ آپ نے دست مبارك یا اپنے كپڑوں سے ان كے آنسو پونچھے اور صبر كی تلقین كی (احمد، رقم ۳۱۰۳۔السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم ۷۱۶۰)۔

آپ نےحضرت رقیہ (دوسری روایت:حضرت زینب )كی وفات پر فرمایا:ہم سے آگے جانے والے نیك ساتھی عثمان بن مظعون اور ان كے ساتھیوں سے جا ملو(احمد، رقم ۲۱۲۷۔المعجم الاوسط،طبرانی، رقم ۵۷۳۶)۔ حضرت عثمان بن مظعون بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ وہ پہلے مہاجر تھے جنھوں نے مدینہ میں وفات پائی۔ السابقون الاولون میں ان كا شمار تیرھوں تھا۔ حضرت رقیہ كی قبر حضرت عثمان بن مظعون كی قبر كے پاس ہے۔ شیعہ ائمہ كی قبریں بھی قریب ہیں۔

راوی كا وہم  

حضرت انس كی روایت ہے: حضرت رقیہ كی وفات ہو ئی تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اعلان كیاكہ قبر میں كوئی ایسا شخص داخل نہ ہو جس نے آج اپنی بیوی سےجماع كیا ہو تو حضرت عثمان قبر میں نہ اترے(احمد، رقم ۱۳۳۹۸۔مستدرك حاكم، رقم ۶۸۵۲۔مسند البزار، رقم ۶۹۷۲)۔ اس روایت میں راوی كو وہم ہوا ہے اور انھوں نے حضرت ام كلثوم كے بجاے حضرت رقیہ كا نام لے لیا، كیونكہ یہ واقعہ حضرت ام كلثوم كی تدفین كے وقت پیش آیا۔ حضرت رقیہ كی وفات اور تدفین كے وقت آپ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر كے میدان میں مشركین مكہ سے برسر پیكار تھے اور فتح مبین كے بعد تین روز میدان كارزار میں قیام فرما كر مدینہ كی طرف رجوع كیا۔ 

ذو النورین

ربیع الاول۳ھ:حضرت رقیہ كی وفات كے بعد حضرت عثمان مغموم رہنے لگے۔مسجد نبوی كے دروازے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان كی ملاقات ہوئی۔آپ نے مزاج پرسی كی تو كہا:آپ كی بیٹی فوت ہوئی تو میری آپ سے قرابت ختم ہو گئی اور میں كم زور پڑ گیا۔ آپ نے فرمایا: عثمان، ابھی مجھے جبریل نے بتایا ہے كہ الله نے ام كلثوم سے تمھاری شادی طے كر دی ہے۔تم رقیہ جتنا مہر دو گے اور اس جیسااچھا ساتھ نبھاؤ گے( ابن ماجہ، رقم ۱۱۰۔المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۸۴۹۵)۔ ایك اور موقع پر فرمایا:اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو تم سے بیاه دیتا،میں نے وحی آسمانی اترنے پرہی عثمان سے اپنی بیٹی كا نكاح كیا (المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۱۸۴۹۵)۔

دوسری طرف حضرت عمر نے بھی حضرت عثمان كو اپنی بیٹی حضرت حفصہ كا رشتہ پیش كیا جو انھی دنوں بیوه ہوئی تھیں۔ حضرت عثمان كے علم میں تھا كہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان سے نكاح كرنا چاہتے ہیں، اس لیے مثبت جواب نہ دیا۔حضرت عمر نے رنجیدہ ہو كر آپ سے شكوہ كیا۔آپ نے فرمایا:میں تم دونوں كے لیے بہتر رشتے تجویز كرتا ہوں۔میں حفصہ سے نكاح كر لیتا ہو ں اور عثمان كو اپنی بیٹی ام كلثوم سے بیاه دیتا ہوں(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۷۵۲۔مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۲۰۰۶۔مستدرك حاكم، رقم ۶۷۵۱)۔ 

حضرت ام كلثوم اور حضرت رقیہ كی عمروں میں تھوڑا فرق تھا۔دونوں ایك دوسرے كے بہت قریب تھیں۔ جب بڑی بہن حضرت زینب كی شادی ہو گئی تو ان كی قربت بڑھ گئی۔ حضرت رقیہ كے حبشہ ہجرت كرنے كے بعد حضرت ام كلثوم اپنی والده سیده خدیجہ كے پاس رہیں اور ان كی بیماری میں ان كی تیمار داری كی۔ والده كی وفات كے بعد گھر كی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔  

بیٹے كی وفات 

جمادی الاولیٰ ۴ھ :حضرت رقیہ كی وفات كے بعدجب عبدالله چھ برس كے تھے،سوئے پڑے تھے كہ مرغ نے ان كی آنكھ میں ٹھونگا مارا،ان كا منہ سوج گیا اورزخم اتنا خراب ہوا كہ اسی سبب سے ان كی وفات ہوگئی۔ نواسے كی وفات پر رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم بہت غم زدہ ہوئے، اسے گود میں اٹھایا،آپ كے آنسو بہ رہے تھے، فرمایا :الله اپنے رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے۔آپ نے جنازه پڑھایا اور حضرت عثمان لحد میں اترے۔

دوسری روایت كے مطابق وه اپنی والده كی زندگی میں فوت ہوئے اور اسی صدمے سے حضرت رقیہ بیمار پڑیں۔ابن سعد نے عبدالله كی عمر دو سال بتائی ہے جو كسی طور درست نہیں ہو سكتی۔ان كی ولادت حبشہ میں ہوئی،ہجرت مدینہ سے پہلے وه مكہ میں رہے، پھر چند سال مدینہ میں جیے، اس لیے چھ برس والی روایت ہی صحیح ہو سكتی ہے۔ 

حضرت رقیہ كی چند خصوصیات 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی خادمہ ام عیاش آپ كو وضو كرایا كرتی تھی(ابن ماجہ، رقم ۳۹۲۔المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۲۰۷۴۴)۔آپ نے اسے حضرت رقیہ كو ہبہ كر دیا، وه انھی كے ساتھ رخصت ہوئی۔ام عیاش حبشہ نہ گئی۔ 

ایك بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت رقیہ كے گھر تشریف لائے تو دیكھا كہ وہ حضرت عثمان كا سر دھو رہی ہیں۔آپ نے فرمایا: بچی،ابو عبدالله سے اچھا برتاؤ كرتی رہو،یہ اپنے اخلاق میں مجھ سے بہت مشابہت ركھتا ہے(مستدرك حاكم، رقم ۶۸۵۴)۔  

آں حضور صلی الله علیہ وسلم كو اپنی بیٹی حضرت رقیہ سے بہت محبت تھی،دوسرے حضرت عثمان اور حضرت رقیہ میں بھی بہت الفت اور موافقت پائی جاتی تھی۔

حضرت رقیہ مستجاب الدعوات تھیں۔

دختران نبی كی نسبت میں شك ڈالنا

۳۵۲ھ میں وفات پانے والے شیعہ مورخ ابوالقاسم كوفی كا كہنا ہے كہ حضرت رقیہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی سگی بیٹی نہ تھیں، بلكہ آپ كے ہاں پرورش پانے كی وجہ سے آپ كی بیٹی كے طور پر مشہور ہو گئیں۔ شیعہ عالم ابوجعفر محمد طوسی(وفات: ۴۶۰ھ)نے ان كے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر كیا:علی بن احمد كوفی جو ابوالقاسم كی كنیت سے مشہور ہیں،جادۂ مستقیم پر چلنے والے امامی تھے اور انھوں نے مذہب صحیح پر مشتمل كئی كتابیں تصنیف كیں۔لیكن پھر انھوں نے مخمسہ كے مذہب كا پرچار كرنا شروع كر دیا۔اس غالی گروه كا عقیدہ تھا كہ عالم كا كل انتظام پانچ اصحاب رسول حضرت سلمان فارسی،حضرت مقداد بن اسود،حضرت عمار، حضرت ابو ذر اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری كے سپرد كر دیا گیا ہے(رجال الطوسی، ص ۴۳۴، رقم ۶۲۱۱)۔ نجاشی كہتے ہیں: علی بن احمد ابوالقاسم كوفی غالی اور فاسد المذہب تھا۔اس كی اكثر تصانیف بھی فساد پر مشتمل ہیں (رجال النجاشی، ص ۲۶۵، رقم ۶۹۱)۔ابن الغضائری كا كہنا ہے: ابو القاسم كوفی كذاب، غالی اور بدعتی ہے(رجال ابن الغضائری، ص ۸۲، رقم ۱۰۴)۔

باقر مجلسی نے حضرت خدیجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی اولاد اس طرح بیان كی ہے:قاسم،طاہر (یعنی عبدالله )،ام كلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ (بحار الانوار۹/ ۶۵۳)۔پانچ روایتوں میں ام كلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ كوآپ كی حقیقی بیٹیاں بتایا اور پھر كہہ دیا كہ زینب اور رقیہ حضرت خدیجہ كی بہن ہالہ یا جحش كی بیٹیاں تھیں جنھوں نے آپ كے ہاں پرورش پائی(بحار الانوار۹/ ۶۵۴- ۶۶۶)۔ 

 دور حاضر كے لبنانی عالم جعفر مرتضیٰ عاملی(۱۹۴۵ءتا ۲۰۱۹ء) نے اس غرض كے لیے كتاب ’’بنات النبي أم ربائبه‘‘ لكھی اور بتایا كہ حضرت رقیہ اور حضرت زینب حضرت خدیجہ كی بہن حضرت ہالہ كی سوتیلی بیٹیاں تھیں۔جب ان كے والدین كا انتقال ہو گیا اور حضرت خدیجہ كا بیاه آں حضور صلی الله علیہ وسلم سے ہو گیا تووه آپ كی پرورش میں آ گئیں۔ حضرت ام كلثوم كو بھی اس نے لے پالك بتایا ہے (ویكی شیعہ)۔ 

شیعہ دلیل دیتے ہیں كہ مباہلہ میں حضرت فاطمہ كے سوا كوئی خاتون شریك نہ ہوئی۔صرف انھیں اہل بیت میں شمار كیا جاتا ہے۔

شیعہ علما كی طرف سے رد

اس خیال كو شیعہ علما كی اكثریت نے ردكیا ہے۔ان میں حسین بن روح(متوفی ۳۲۶ھ)، محمد بن یعقوب كلینی(متوفی۳۲۹ھ)،ابو عبد الله محمد المعروف بالشیخ المفید (متوفی ۴۱۳ھ)، شریف مرتضىٰ (متوفی۴۳۶ھ)، ابو جعفر طوسی (متوفی۴۶۰ھ)، فضل بن حسن طبرسی (متوفی۵۴۸ھ)،محمد بن علی المعروف بابن شہر آشوب (متوفی۵۸۸ھ)،بہاءالدین عاملی (متوفی۱۰۳۰ھ)، عبد الله مامقانی (متوفی ۱۳۵۱ھ)، ابو القاسم خوئی (متوفی ۱۴۱۳ھ) اور صادق شیرازی(پیدایش۱۳۶۰ھ) شامل ہیں۔ان سب كی راے ہے كہ حضرت ام كلثوم، حضرت زینب اور حضرت رقیہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی حقیقی بیٹیاں ہیں۔

جعفر مرتضیٰ عاملی كے جواب میں حسین علی مصطفیٰ نے اپنا مقالہ ’’بنات النبي لا ربائبه‘‘ لكھا۔ كہتے ہیں:الله تعالی ٰنے نبی صلی الله علیہ وسلم كی بیٹیوں كو ’يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ‘، ’’اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے كہہ دیجیے‘‘(الاحزاب۳۳: ۵۹) كہہ كر پكارا ہے۔ اگر آپ كی ایك ہی بیٹی ہوتی تو ’بنتك‘ فرمایا جاتا۔لے پالك بیٹیوں كی صورت میں بھی ’بناتك‘ نہ كہا جاتا، كیونكہ الله تعالیٰ نے خود متبنی ٰ كو اس كے اصل باپ كی طرف منسوب كرنے كا حكم دیا ہے۔

محاصرے كے دنوں میں حضرت علی نے حضرت عثمان سے مخاطب ہو كر كہا:آپ نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی دامادی میں وه پایا ہے جو ابوبكر و عمر كو حاصل نہیں ہو سكا۔ان كی مراد تھی كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی دو حقیقی بیٹیاں حضرت عثمان كے عقد میں آئیں۔

’ ’الكافی‘‘ میں ہے : نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے شادی كی، جب آپ كی عمر پچیس سال تھی۔ منصب نبوت عطا ہونےسے پہلے حضرت خدیجہ سے آپ كی یہ اولاد ہوئی :قاسم،رقیہ،زینب، ام كلثوم۔بعثت كے بعد حضرت خدیجہ نے طیب،طاہر اور فاطمہ كو جنم دیا (۱/ ۴۳۹-۴۴۰)۔

حسین بن روح سےپوچھا گیا:رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم كی كتنی بیٹیاں تھیں؟ جواب دیا:چار۔پھر سوال ہوا: ان میں افضل كون سی تھیں؟انھوں نے كہا:فاطمہ،كیونكہ وه آپ كی وارث بنیں اور انھی سےآپ كی نسل چلی (كتاب الغیبۃ،شیخ طوسی، ص ۳۸۸، رقم۳۵۳۔ مناقب آل ابی طالب،ابن شہر آشوب ۳ / ۱۰۵۔ بحار الانوار ۴۳ / ۳۷)۔

 الشیخ المفید نے آپ كی بیٹیوں حضرت زینب اور حضرت ام كلثوم كی شادیوں كے وہی احوال بتائے جو علماے اہل سنت بیان كرتے ہیں (المسائل السرویۃ ۹۲-۹۴)۔

شیخ طوسی نے یہ ارشاد رسول نقل كیا: جب حضرت رقیہ كے بعد حضرت عثمان كے عقد میں آنے والی دوسری دختر رسول حضرت ام كلثوم كا انتقال ہوا تو آپ نے فرمایا :اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو وه بھی تم سے بیاه دیتا(المبسوط۴ / ۱۵۹)۔

طبرسی نےرسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چار بیٹے ہونے كی روایت كا انكار كیا اور كہا:آپ كے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔انھوں نے بیٹیوں كے نام زینب، رقیہ،ام كلثوم اورفاطمہ گنوائے(اعلام الورى باعلام الہدى ۱ / ۲۷۵-۲۷۶)۔

 ابن شہر آشوب نے رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم كی اولاد اس طرح بتائی:دو بیٹےقاسم اورعبد الله۔انھی كو طاہر اور طیب كے القاب ملے۔چار بیٹیاں زینب،رقیہ،ام كلثوم،جنھیں آمنہ بھی كہا جاتا ہے اورفاطمہ (مناقب آل ابی طالب۱/ ۱۴۰)۔

شیخ بہائی عاملی كہتے ہیں: سید المرسلین اور حبیب رب العٰلمین كی اولاد كو الله تعالیٰ نے آپ كی زندگی ہی میں اٹھا لیا۔یہ آٹھ ستارے قاسم،عبد الله،طیب،طاہر،ابراہیم،زینب،رقیہ،ام كلثوم تھے۔آپ كی وفات كے بعد آپ كی اولاد میں صرف فاطمۃ الزہرا ہی زنده رہیں (المخلاة ۱۷)۔

محمد تقی تستری نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی بیٹیوں كا ذكر كرتے ہوئے حضرت رقیہ،حضرت ام كلثوم اور حضرت زینب كے لے پالك ہونے كے بارے میں كوئی روایت بیان نہیں كی (تواریخ النبی والآل ۷۶)۔ ابوالقاسم خوئی كہتے ہیں كہ معروف بات یہی ہے كہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی ان چاروں بیٹیوں كو حضرت خدیجہ نے جنم دیا۔ 

محمدشیرازی لكھتے ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم كی كل اولاد سیدہ خدیجہ سے تھی، ما سواے ابراہیم كے جنھیں سیدہ ماریہ قبطیہ نے جنم دیا (كتاب امہات المعصومین )۔

جھوٹ کا تانا بانا

اثناعشری عالم باقر مجلسی(۱۶۲۷ء تا ۱۶۹۹ء) نے دعویٰ كیا كہ حضرت عثمان نےاپنی اہلیہ كو ڈنڈے مار كر قتل كیا، كیونكہ انھوں نے اپنے مشرك چچا مغیرہ بن ابوالعاص كی اپنے گھر میں موجودگی كی اطلاع نبی صلی الله علیہ وسلم كو دے دی تھی۔مغیره جنگ احد كے بعد آپ كی جاسوسی كرنے مدینہ آیا تھا اور حضرت عثمان كے ہاں پناه لے لی۔ اس كٹر كافر نے آں حضور صلی الله علیہ وسلم كے دندان مبارك شہید كرنے اور حضرت حمزہ كی جان لینے كا دعویٰ بھی كیا تھا( بحار الانوار۹/ ۶۶۰)۔ مغیرہ كے بیٹے معاویہ اور ابوسفیان كی بیوی ہند نے حضرت حمزه كی نعش كا مثلہ كیا تھا۔

مجلسی نے ’بنت رسول اللّٰه‘ لكھا اور نام كی وضاحت نہ كی۔جس شیعہ محقق نے چاہا حضرت رقیہ كا نام لے لیا اورجب احساس ہوا كہ جنگ احد كے موقع پرحضرت رقیہ اس دنیا ہی میں نہ تھیں تو حضرت زینب كہہ دیا۔

حضرت عثمان نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے درخواست كی كہ مغیرہ کو امان دے دی جائے۔آپ نے اسے تین دن كی مہلت دی، پھر مدینہ سے نكل جانے كا حكم دیا۔آپ حمرا ء الاسد گئے تو وہ اس مہم كے بارے میں معلومات اكٹھی كرتا رہا۔تین دن كی مہلت ختم ہو گئی تو آپ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار كو اس كے پیچھے بھیجا۔انھوں نے مكہ كے راستے میں اسے جا لیا اور قتل كر ڈالا۔

دور حاضر كا bloggerمروان العارف كہتا ہے:حضرت عثمان نے اپنے گھر میں مغیرہ كی موجودگی كے بارے میں نبی صلی الله علیہ وسلم كو مطلع نہ كیا۔وحی الہٰی سے آپ كو اس كی موجودگی كی خبر مل گئی تو اسے امان دینے كی سفارش كر دی۔ حضرت رقیہ نے (جو اس وقت زندہ نہ تھیں) ا س كی موجودگی كی اطلاع آپ تك پہنچائی اور جب نبی صلی الله علیہ وسلم كے حكم پر صحابہ اسے پكڑنے آئے تو اس كے چھپنے كی جگہ بتا دی۔ اس پر حضرت عثمان نے انتقاماً اپنی(مرحومہ) اہلیہ حضرت رقیہ كو ایسی ضرب لگائی كہ ان كی جان چلی گئی۔ الزام لگانے والا blogger ساتھ ہی یہ كہتا ہے كہ جمہورروایات میں اس امر كے كوئی شواہد نہیں كہ حضرت عثمان نے اپنی اہلیہ كو ایسی جان لیوا ضرب لگائی۔ یہ ہمیں سیاق موضوعی یا تسلسل موضوعی سے پتا چلا كہ ایسا ہوا ہو گا۔ جمہور امامیہ كی روایات قبول نہیں كرتے، اس لیے حضرت عثمان كا اپنی اہلیہ كو قتل كرنا نقل نہیں ہوا۔

نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان كو سزا نہ دی، كیونكہ آپ كے پاس كافی قانونی شواہد نہ تھے، حالاں كہ حضرت جبریل نے آپ كو خبر كر دی تھی۔آپ منافقین كے ارادوں او ر نیتوں سے خبر ركھتے ہوئے بھی ان كو سزا نہ دیتے تھے، كیونكہ ان كے خلاف شہادت ہوتی نہ انھوں نےاعتراف جرم كیا ہوتا۔ایك اور شیعی روایت كے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عثمان كے گھر گئے تو ان كی بیٹی(نام كا پتا نہیں) رونےچیخنے لگ گئی۔ آپ اسے اپنے گھر لے گئے،اس نے قمیص ہٹا كر ضربوں كے نشان دكھائے۔چوتھے دن اس كی وفات ہو گئی۔ 

حرف آخر

آخر میں ہم ابوجعفر محمد طوسی كی كتاب’ ’تہذیب الاحكام‘‘(۳ /۱۲۰) سے ایك دعانقل كرتے ہیں جسے امامیہ كی كتب اربعہ میں شمار كیا جاتا ہے: ’اللّٰهم صل على القاسم و الطاهر ابني نبيك، اللّٰهم صل على رقية بنت نبيك و العن من أذى نبيك فيها، اللّٰهم صل على ام كلثوم بنت نبيك و العن من أذى نبيك فيها‘، ’’اے الله: اپنے نبی كے بیٹوں قاسم اور طاہر پر سلامتی نازل كرنا،اے الله اپنے نبی كی بیٹی رقیہ پر سلامتی بھیجنا اور ان پر لعنت نازل كرنا جو اس كے بارے میں تیرے نبی كو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اے الله، اپنے نبی كی بیٹی ام كلثوم پر رحمت نازل كرنا اور اس پر لعنت كرنا جو اس كے باب میں تیرے نبی كو تكلیف پہنچاتے ہیں‘‘۔یہی دعا شیخ عباس قمی نے’ ’مفاتیح الجنان ‘‘ میں نقل كی ہے(۱ /۲۸۵)۔

جوحضرت زینب،حضرت رقیہ اور حضرت ام كلثوم كو نبی صلی الله علیہ وسلم كی حقیقی بیٹیاں ماننے سے انكار كرتا ہے، اصل اذیت رساں ہے اور امامی علما كی بددعا كا حقیقی مستحق ہے۔

مطالعہ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحاق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوك(طبری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوك و الامم (ابن جوزی)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،الكامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن كثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)،Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B