HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون معیشت (۳)

قومی املاک

’’زمانۂ ر سالت میں جب لوگوں نے اُن اموال ،زمینوں اور جایدادوں کے بارے میں جو دشمن سے بغیر کسی جنگ کے حاصل ہوئی تھیں ، یہ مطالبہ کیا کہ وہ اُن میں تقسیم کر دی جائیں تو قرآن نے اِسے ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اِنھیں نجی ملکیت میں دینے کے بجاے دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کی مدد اور کفالت کے لیے وقف رہنا چاہیے تاکہ یہ دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتی رہیں ۔ 
یہ اموال چونکہ مسلمانوں کی کسی مدد کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ سے حاصل ہوئے تھے، اِس وجہ سے سب کے سب اِس مقصد کے لیے خاص کیے گئے ۔جزیرہ نماے عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہادو قتال کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اُس زمانے کے عام غنائم بھی اللہ و رسول ہی کی ملکیت تھے، لیکن اُن کے حصول میں چونکہ لوگوں نے آپ کی مدد کی تھی اور اُنھیں اُس زمانے میں ذاتی اسلحہ، گھوڑے اور اونٹ وغیرہ جنگ میں استعمال کرنا پڑتے تھے ،یہاں تک کہ اپنے زاد راہ کا بندوبست بھی خود ہی کرنا ہوتا تھا، اِس لیے ضروری تھا کہ وہ مجاہدین میں تقسیم کر دیے جائیں ۔تاہم قرآن نے حکم دیا کہ اُن میں سے بھی پانچواں حصہ اِس مقصد کے لیے نکال لیا جائے ‘‘ (میزان ۵۱۱)

یہاں تین نکتے قابل توجہ ہیں:

۱۔ مصنف نے مال غنیمت اور مال فے سے متعلق قرآن مجید کی ہدایات سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے ایک بنیادی رہنمائی یہ اخذ کی ہے کہ ’’ دولت غریب و امیر، جس کی بھی نجی ملکیت میں دی جائے گی، بالآخر دولت مندوں ہی میں گردش کرنا شروع کر دے گی، اِس لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اموال و املاک جو کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے، جیسے زمین اور اُس کے خزائن ، اُنھیں قوم کی ملکیت میں رکھا جائے اور نظم اجتماعی سے متعلق بعض دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ اُن لوگوں کی ضرورتیں بھی اُن سے پوری کی جائیں جو اپنی خلقی کم زوریوں یا اسباب و وسائل سے محرومی کے باعث دوسروں کی مدد کے محتاج ہو جاتے ہیں‘‘ (البیان، تفسیر سورۂ حشر، آیت ۷، ص ۱۶۵)۔

مصنف کا نقطۂ نظر یہاں  دور جدید کے  ان اہل علم سے قدرے مختلف ہے جو اس آیت سے ، ارتکاز دولت کو روکنے کو اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی اصول قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی نے اس ہدایت کی تعبیر یوں کی ہے کہ ’’ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمد وخرچ کا نظام، اور بحیثیت مجموعی ملک کے تمام مالی اور معاشی معاملات کا انتظام اس طرح کرنا چاہیے کہ دولت کے ذرائع پر مال دار اور بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پائے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے‘‘ (تفہیم القرآن ۵/ ۳۹۳)۔ مصنف کی راے کے مطابق، دولت کو نجی ملکیت میں دینے کا یہ نتیجہ  نکلنا تو لازم ہے کہ وہ دولت مندوں ہی میں گردش کرنے لگے، اس لیے قرآن نے  اس کو روکنے کی نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں دولت سے محروم رہ جانے والے طبقات کی دست گیری کے لیے  ریاست کو ایک متبادل انتظام کی ہدایت کی ہے، یعنی یہ کہ قومی املاک کے شعبے کو مضبوط اور وسیع کیا جائے تاکہ ان سے محروم طبقات کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ 

۲۔ قرآن میں مال فے میں اللہ اور اس کا رسول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربیٰ، یتامیٰ، مساکین اور مسافر کے حصوں کا ذکر آیا ہے۔ مال غنیمت  سے بیت المال کے لیے نکالے جانے والے پانچویں حصے کے مصارف بھی سورۂ انفال میں یہی بیان ہوئے ہیں۔  آیت فے میں مذکور مصارف کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے ’’قانون جہاد‘‘ میں لکھا ہے :

’’سب سے پہلے اللہ کا حق بیان ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ، ظاہر ہے کہ ہر چیز سے غنی اور بے نیاز ہے ۔ اُس کے نام کا حصہ اُس کے دین ہی کی طرف لوٹتا ہے ۔ لہٰذا اِس کا اصلی مصرف وہ کام ہوں گے جو دین کی نصرت اور حفاظت و مدافعت کے لیے مسلمانوں کا نظم اجتماعی اپنی دینی ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتا ہے ۔
دوسرا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا گیا ہے ۔ آپ کی شخصیت میں اُس وقت نبوت و رسالت کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری بھی جمع ہو گئی تھی اور آپ کے اوقات کا لمحہ لمحہ اپنے یہ منصبی فرائض انجام دینے میں صرف ہو رہا تھا ۔ اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ تھا ۔ اِس صورت حال میں ضروری ہوا کہ اِس مال میں آپ کا حق بھی رکھا جائے ۔ اِس کی نوعیت کسی ذاتی ملکیت کی نہیں تھی کہ اِسے آپ کے وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ آپ سے آپ اُن کاموں کی طرف منتقل ہو گیا جو آپ کی نیابت میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے انجام دینا ضروری تھے ۔
تیسرا حق ’ذي القربٰي‘  کا بیان کیا گیا ہے ۔ اِس سے ، ظاہر ہے کہ آپ کے وہ قرابت دار مراد ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی اور جن کی ضرورتیں پوری کرنا اخلاقی لحاظ سے آپ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ آپ کی حیثیت تمام مسلمانوں کے باپ کی تھی ۔ چنانچہ آپ کے بعد یہ ذمہ داری عرفاً و شرعاً مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو منتقل ہوئی اور ذی القربیٰ کا یہ حق بھی جب تک وہ دنیا میں رہے ، اِسی طرح قائم رہا ۔
چوتھا حق یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا ہے ۔ ...یہ حق کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو اِن طبقات کی ضرورتوں کے لیے حساس نہیں ہے ،جس میں یتیم دھکے کھاتے ، مسکین بھوکے سوتے اور مسافر اپنے لیے کوئی پرسان حال نہیں پاتے ، اُسے اسلامی معاشرے کا پاکیزہ نام نہیں دیا جا سکتا ۔‘‘ (میزان  ۶۰۹- ۶۱۰)

مصنف نے ان مصارف کی جامع تعبیر یوں کی ہے کہ ’’ اِنھیں نجی ملکیت میں دینے کے بجاے دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کی مدد اور کفالت کے لیے وقف رہنا چاہیے۔‘‘ گویا پہلی تین مدات’’دین وملت کی اجتماعی ضرورتوں‘‘ سے عبارت ہیں، جب کہ آخری مد، یعنی ’’غربا ومساکین کی کفالت‘‘ ازخود اپنے مقصد کو واضح کر رہی ہے۔ یوں مسلمان معاشرے اور ریاست کے ہر قسم کے اخراجات اس کے تحت آجاتے ہیں۔ یہاں مصنف کا نقطۂ نظر  نتیجے کے اعتبار سے جمہور اہل علم سے ہم آہنگ ہے، البتہ طریق استدلال مختلف ہے۔ جمہور فقہا بھی مال فے کا مصرف ہر قسم کی اجتماعی ضروریات  کو قرار دیتے ہیں، تاہم ان کا بنیادی استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے طرز عمل سے ہے اور وہ روایات میں منقول مختلف فیصلوں اور اقدامات سے یہ مجموعی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مال فے  مسلمانوں کی ہر قسم کی ضروریات پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔  مصنف نے، جیسا کہ واضح کیا گیا، یہ وسعت  قرآن کے بیان کردہ مصارف کی نوعیت سے اخذ کی ہے۔  

مصنف کا جمہور اہل علم سے دوسرا اختلاف اس حوالے سے ہے کہ فقہا ہر قسم کے مصارف پر خرچ کرنے کی وسعت کو خاص طور پر مال فے سے متعلق کرتے ہیں، جب کہ دیگر اموال، مثلاً‌ زکوٰۃ وصدقات اور مال غنیمت کا حکم اس سے مختلف قرار دیتے ہیں۔ یہ انداز فکر سیدنا عمر کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ سواد عراق کی زمینوں کی تقسیم کے خلاف استدلال کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ وصدقات کے کچھ مخصوص مصارف بیان کیے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم انھی پر خرچ کی جائے گی۔ اسی طرح مال غنیمت میں سے خمس نکالنے کے بعد اللہ نے اسے مجاہدین کا حق قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مال غنیمت پر انھی کا حق ہے۔ اس کے برعکس بطور فے حاصل ہونے والی زمینوں کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ نے  فقرا مہاجرین کے ساتھ انصار مدینہ اور ان دونوں گروہوں کے بعد اسلام میں داخل ہونے والوں کا بھی ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان زمینوں میں مسلمانوں کی بعد میں آنے والی نسلوں کا بھی حق ہے۔ سیدنا عمر نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سواد عراق کی مفتوحہ زمینوں کو  مجاہدین میں تقسیم نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس سے آنے والی نسلوں کے حوالے سے بیت المال کی ذمہ داریاں  ادا نہیں کی جا سکیں گی (ابوعبید، الاموال ۸۳، ۸۴، ۱۳۸)۔

مصنف کے نقطۂ نظر کی رو سے زکوٰۃ وصدقات، مال غنیمت اور  علاقوں اور زمینوں کی صورت میں قومی املاک سمیت بیت المال میں جمع ہونے والے تمام محاصل کو ہر قسم کی اجتماعی ضروریات پر صرف کیا جا سکتا ہے، یعنی اس حوالے سے زکوٰۃ، غنیمت اور فے میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔  اس موقف کے استدلال کی نسبتاً‌ تفصیلی وضاحت قانون عبادات میں ’’زکوٰۃ‘‘ کے تحت اور قانون جہاد میں ’’اموال غنیمت‘‘ کے تحت کی جائے گی ، البتہ آیندہ نکتے کے تحت مصنف کے زاویۂ نظر کو مختصراً‌ واضح کیا جائے گا۔

۳۔ قرآن مجید نے مال فے اور مال غنیمت میں فرق کیا ہے اور دونوں کے احکام الگ الگ بیان کیے ہیں۔ چنانچہ سورۂ انفال میں غنائم کی تقسیم کا، جب کہ سورۂ حشر میں اموال فے کے بندوبست کا ضابطہ واضح کیا گیا ہے۔

ان دونوں اصطلاحات کے مفہوم اور مصداق کے حوالے سے فقہا کے مابین بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔  فقہا کے ایک گروہ کی تشریح کے مطابق غنیمت کا مصداق جنگ میں دشمن سے چھینا گیا منقولہ مال واسباب ہے، جب کہ مقبوضہ علاقے اور زمینیں فے کے تحت آتی ہیں۔  دوسرے گروہ کے نزدیک غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو دشمن کے ساتھ باقاعدہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہوا ہو، چاہے وہ مال واسباب کی صورت میں ہو یا زمینوں کی صورت میں، جب کہ فے سے مراد وہ اموال اور زمینیں ہیں جو دشمن سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آئی ہوں  (ابن العربی، احکام القرآن ۲/ ۴۰۰)۔ تیسرے گروہ کے نزدیک ’غنیمت‘ کی اصطلاح تو جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مال کے لیے خاص ہے، جب کہ ’فے‘ کا اطلاق  مجموعی طور پر ان تمام اموال پر ہوتا ہے جو جنگ کے ساتھ یا جنگ کے بغیر مسلمانوں کے بیت المال میں جمع ہوئے ہوں۔  یوں مال غنیمت، مفتوحہ علاقے، جنگ یا صلح سے مفتوح ہونے والی زمینوں پر عائد کیا گیا خراج، غیر مسلموں سے وصول کیا جانے والا جزیہ یا تجارتی محاصل، یہ سب اس وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے فے کا مصداق ہیں (ابو عبید، الاموال ۸۶) ۔

غنیمت اور فے کے مفہوم اور مصداق میں اختلاف کے نتیجے میں دونوں حکموں کے باہمی تعلق کے حوالے سے بھی فقہا کے زاویہ ہاے نظر باہم مختلف ہیں۔ چنانچہ پہلے گروہ کے نزدیک چونکہ ’غنیمت‘ کی اصطلاح منقولہ مال واسباب کے لیے، جب کہ ’فے‘ کی اصطلاح غیر منقولہ اموال، یعنی زمینوں کے لیے خاص ہے، اس لیے دونوں حکموں کا الگ الگ دائرۂ کار بالکل واضح ہے اور ان کی رو سے  جس مال کی تقسیم مجاہدین کا حق ہے، وہ صرف مال غنیمت، یعنی منقولہ مال واسباب ہے۔ یوں زمینوں کی تقسیم اس آیت  کا مدعا نہیں۔ دوسرے گروہ کے نزدیک جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمینیں بھی غنیمت کا مصداق ہیں، اس لیے منقولہ مال واسباب کی طرح ان زمینوں کو بھی مجاہدین میں تقسیم  کر دینا لازم ہے۔ البتہ جنگ کے بغیر حاصل ہونے والی زمینوں پر آیت فے کی رو سے صرف مجاہدین کا نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک آیت فے میں عمومی طور پر تمام اموال کا حکم بیان کیا گیا ہے، لیکن تقسیم غنیمت کے حکم کے ذریعے سے ان اموال کو جو جنگ میں دشمن سے چھینے گئے ہوں، اس عمومی حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے انھیں مجاہدین کا حق قرار دیا گیا ہے اور اس لحاظ سے آیت غنیمت، جزوی طور پر آیت فے کی ناسخ ہے (ابن العربی، احکام القرآن ۴ / ۲۱۴)۔ فقہا کے ایک اور گروہ کی راے میں ، جو جنگ سے حاصل ہونے والی اراضی کو آیت غنیمت اور آیت فے دونوں کے تحت داخل قرار دیتا ہے، ان دونوں حکموں میں یوں تطبیق دیتا ہے کہ حکمران کو  دونوں اختیار حاصل ہیں، یعنی وہ چاہے تو آیت غنیمت کے تحت ان اراضی کو مجاہدین میں تقسیم کر دے اور چاہے تو انھیں مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت قرار دے دے (ابو عبید، الاموال ۱۳۷- ۱۳۸)۔

مصنف کا نقطۂ نظر اس بحث میں یہ ہے کہ غنیمت اور فے میں بنیادی فرق منقولہ یا غیر منقولہ ہونے کے پہلو سے نہیں، بلکہ  جنگ کے نتیجے میں یا جنگ کے بغیر حاصل ہونے کے اعتبار سے ہے۔ البتہ مصنف کا نقطۂ نظر  اس پہلو سے جمہور فقہا سے مختلف ہے کہ فقہا  دشمن سے حاصل ہونے والے اموال کی ان دونوں  قسموں کو مستقل اور  ابدی قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک جیسے اموال فے  کے متعلق دیے گئے احکام مستقل نوعیت رکھتے ہیں، اسی طرح جنگ کے نتیجے میں غنیمت کے طور پر حاصل ہونے والے اموال کے احکام بھی مستقل نوعیت کے ہیں، یعنی ان پر اصلاً مجاہدین کا حق ہے اور ان کا صرف پانچواں حصہ بیت المال کے اجتماعی مصارف کے لیے وصول کیا جا سکتا ہے۔ مصنف نے اس کے برخلاف یہ موقف پیش کیا ہے کہ جہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اموال، چاہے وہ غنیمت کی صورت میں ہوں یا مال فے کی صورت میں، اصلاً مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں اور ان کے انتظام وانصرام کا اختیار مسلمانوں کی نیابت میں ان کے اہل حل وعقد کو حاصل ہے۔ 

مصنف نے اس نکتے کے لیے سورۂ انفال کی پہلی آیت ’قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ‘ کو ماخذ قرار دیا ہے، جس کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ یہ اموال خدا اور رسول کی ملکیت ہیں اور مجاہدین کا ان میں اصلاً کوئی حق نہیں۔  مصنف کی راے میں اس کی وجہ یہ تھی کہ ’’زمانۂ رسالت کی یہ جنگیں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کے تحت لڑی گئی تھیں اور ان میں لڑنے والوں کی حیثیت اصلاً‌ آلات وجوارح کی تھی۔ لہٰذا ان جنگوں کے مال غنیمت پر ان کا کوئی حق تو اللہ تعالیٰ نے تسلیم نہیں کیا‘‘ (میزان ۶۰۸)۔ جہاں تک سورۂ انفال کی ہدایت کا تعلق ہے ، جس میں غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی مال مجاہدین میں تقسیم کرنے  کی اجازت دی گئی ہے تو اس کا محل مصنف کی راے میں یہ ہے کہ اس میں اموال غنیمت کے حوالے سے کوئی ابدی شرعی قاعدہ بیان نہیں کیا گیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں معروضی صورت حال کے تناظر میں یہ ہدایت دی گئی تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس جنگ میں مادی سطح پر آلات وجوارح کا کام بہرحال انھی مجاہدین نے انجام دیا تھا اور جنگ کے لیے درکار اسلحہ اور دیگر سامان جنگ کی فراہمی کا بندوبست بھی انھوں نے ازخود کیا تھا۔ 

مصنف کے نزدیک مال فے کو مجاہدین میں تقسیم نہ کرنے کی ہدایت بھی اسی اصول کی وضاحت کرتی ہے، کیونکہ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کو جنگ کیے بغیر یہ زمینیں حاصل ہوئی ہیں، ان میں مجاہدین کا کوئی حق نہیں اور یہ اجتماعی ضروریات کے لیے نظم اجتماعی کی تحویل میں رہیں گی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مال غنیمت کے ۸۰ فی صد حصے کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کی ہدایت اسی بنیاد پر دی گئی تھی کہ اس کے اخراجات ووسائل کا بندوبست انھوں نے خود کیا تھا۔ اس بحث سے مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’ اموال غنیمت سے متعلق اِس بحث سے واضح ہے کہ یہ اصلاً اجتماعی مقاصد کے لیے خاص ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاہدین کا کوئی ابدی حق اِن میں قائم نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کی حکومت اُسے ہر حال میں ادا کرنے کی پابند ہو ۔ وہ اپنی تمدنی ضرورتوں اور اپنے حالات کے لحاظ سے جو طریقہ چاہے ، اِس معاملے میں اختیار کر سکتی ہے‘‘ (میزان ۶۱۰)۔

قومی املاک کا بندوبست  

’’رہا اِن املاک کے بندوبست کا معاملہ تو اِسے شریعت نے حالات و مصالح پر چھوڑ دیا ہے ، لہٰذا مسلمانوں کے اولی الامر اُن کے ارباب حل و عقد کے مشورے سے اِس کے لیے جو طریقہ چاہیں اختیار کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ یہ معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے میں خیبر کی زمینیں اِسی مقصد سے بٹائی پر دیں۔ بعض رقبے جن افراد کے لیے خاص کیے ، اُنھی کے تصرف میں رہنے دیے، بعض کو حمیٰ  قرار دیا، بعض چیزوں میں سب مسلمان یکساں شریک ٹھیرائے، بعض چشموں اور نہروں سے انتفاع کے لیے ’الأقرب فالأقرب‘ کا قاعدہ مقرر کیا  اور سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینیں اپنے عہد خلافت میں اُن کے پرانے مالکوں ہی کے تصرف میں چھوڑ کر اُن کی پیداوار کے لحاظ سے ایک متعین رقم اُن پر بطورخراج عائد کردی ۔‘‘(میزان ۵۱۱)

مذکورہ واقعات کے علاوہ ذخیرۂ حدیث میں قومی املاک کے حوالے سے بعض دیگر  فیصلے بھی منقول ہیں۔ مثال کے طور پر بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کر لے، وہ اسی کی ملکیت ہو جائے گی “ (ابو داؤد، رقم ۳۰۷۳)۔

جمہور فقہا اس ہدایت کو ایک عمومی شرعی حکم پر محمول کرتے اور اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کر کے اس پر تصرف قائم کر لے، وہ اس کی ملکیت ہو جائے گی اور اس کے لیے حاکم کی اجازت یا توثیق کی ضرورت نہیں۔ تاہم امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس ملکیت کو حاکم وقت کی اجازت کے ساتھ مشروط قرار دیتے ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر سے مذکورہ ارشاد نبوی سے مقصود غیر آباد زمین کی ملکیت سے متعلق کوئی حکم شرعی بیان کرنا نہیں، بلکہ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ وہ بے آباد زمینوں کو آباد کریں ، تاہم اصولی طور پر اسلامی ریاست کے حدود میں واقع ایسی تمام زمینیں بیت المال کی ملکیت ہیں اور ان سے متعلق حسب مصلحت کوئی بھی فیصلہ کرنا مسلمان حکمرانوں کا اختیار ہے۔

مصنف نے مذکورہ تمام واقعات کو اس اصول کے نظائر کے طو رپر پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کے اہل حل و عقد   قومی املاک کے معاملے میں حسب مصلحت جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف کا نقطۂ نظر بعض پہلوؤں سے فقہا کے عمومی موقف سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر فقہا مفتوحہ زمینوں کے معاملے میں کچھ خاص طریقوں کی پابندی کو شرعاً‌ لازم قرار دیتے ہیں۔   چنانچہ امام شافعی کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی علاقہ صلحاً‌ فتح ہوا ہو تو وہاں کی زمینوں کا حکم معاہدے کے شرائط کے مطابق ہوگا، لیکن جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہونے والے علاقے کی زمینوں پر مجاہدین کا حق ہے اور ان کا پانچواں حصہ نکال کر باقی زمین کو مجاہدین میں تقسیم کرنا شرعاً‌ لازم ہے۔ فقہا کا ایک دوسرا گروہ زمینوں کی تقسیم یا عدم تقسیم کو اہل حل وعقد کی صواب دید قرار دیتا ہے، البتہ ان کے نزدیک اگر مفتوحہ علاقے کے باشندوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو تو ان کی زمینیں بیت المال کی ملکیت قرار پائیں گی اور ان پر خراج کی ایک متعین رقم عائد کرنا ضروری ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حکمران کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ مفتوحہ زمینوں کو مسلمانوں کی ملکیت بنانے کے بجاے سابقہ مالکوں کی ملکیت ہی کو برقرار رکھتے ہوئے ان پر خراج عائد کر دیا جائے۔ حاصل یہ کہ  فقہا کے نزدیک مفتوحہ زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے یا مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت بنا لینے یا سابقہ ملکیت کو قائم رکھتے ہوئے ان زمینوں پر خراج عائد کرنے کی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کرنا شرعاً‌ ضروری ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے، ابوعبید، کتاب الاموال) ۔ فقہا کی تصریحات کی روشنی میں دور جدید کے بعض اہل علم جدید قومی ریاستوں، مثلاً‌ پاکستان کی سرکاری املاک کے احکام بھی عشری اور خراجی کی فقہی اصطلاحات  میں بیان کرتے ہیں (دیکھیے، مولانا مفتی محمد شفیع، اسلام کا نظام اراضی)۔

مصنف نے مذکورہ اقتباس میں واضح کیا ہے کہ ان میں سے کسی طریقے کو ابدی شرعی حکم کی حیثیت حاصل نہیں، کیونکہ یہ شریعت کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا مسئلہ ہے اور  مسلمان حکمران  اپنے دور کے عرف اور   مسلمانوں کے اجتماعی مصالح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ضمن میں کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B