HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: السجدہ ۳۲: ۱۵- ۳۰ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)


اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ١٥ﷳ تَتَجَافٰي جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْخَوْفًا وَّطَمَعًاﵟ وَّمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ١٦ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا٘ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍﵐ جَزَآءًۣ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٧

ہماری آیتوں پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں، (اے پیغمبر) کہ اُنھیں جب اِن کے ذریعے سے یاددہانی کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں۸۶ اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے ہیں۸۷ اور وہ ہرگز تکبر نہیں کرتے۔۸۸ اُن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۸۹ اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سو کسی کو پتا نہیں کہ اُن کے اعمال کے صلے میں اُن کے لیے آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۹۰۔ ۱۵ - ۱۷


اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًاﵫ لَا يَسْتَوٗنَ ١٨ﶻ اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰيﵟ نُزُلًاۣ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٩ وَاَمَّاالَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُﵧ كُلَّمَا٘ اَرَادُوْ٘ا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا٘ اُعِيْدُوْا فِيْهَا وَقِيْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ ٢٠

(یہ اِس کو نہیں مانتے) تو (اِن سے پوچھو کہ) کیا جو مومن ہے ، وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے گا جو نافرمان ہے؟۹۱ دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔۹۲ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے راحت کے باغ ہیں،۹۳ پہلی ضیافت کے طور پر، اُن کے اعمال کے صلے میں۔ اورجو نافرمانی کرتے رہے، اُن کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اُس سے نکلنا چاہیں گے، اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ اب چکھو آگ کے اُس عذاب کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔۱۸ - ۲۰


وَلَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰي دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ٢١ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَاﵧ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ ٢٢

اِس بڑے عذاب سے پہلے ہم کسی قریب کے عذاب کا مزہ۹۴ بھی اُن کو ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔ اُن سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جنھیں اُن کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعے سے یاددہانی کی جائے،پھر وہ اُن سے اعراض کریں؟ ایسے مجرموں سے۹۵ توہم ضرور انتقام لیں گے۔ ۲۱ - ۲۲


وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَآئِهٖ وَجَعَلْنٰهُ هُدًي لِّبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ٢٣ﶔ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْاﵶ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ ٢٤ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ٢٥

ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی (اور اُس کے جھٹلانے والوں سے بھی اِسی طرح انتقام لیا تھا)،۹۶ اِس لیے، (اے پیغمبر)، تم اِس کے متعلق کسی شک میں نہ رہوکہ اُس دن سے دوچار ہونا ہے۔۹۷ اور بنی اسرائیل کے لیے ہم نے اُسی کتاب کو ہدایت بنایا تھا اور جب اُنھوں نے ثابت قدمی دکھائی اور وہ ہماری آیتوں پر یقین بھی رکھتے تھے تو اُن کے اندر ایسے پیشوا اٹھائے تھے جو ہمارے حکم سے اُن کی رہنمائی کرتے تھے۔۹۸ (پھر وہ اختلافات میں پڑ گئے تو) اِس میں کچھ شک نہیں کہ (اب) تیرا پروردگار ہی قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ۲۳ - ۲۵


اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْمَسٰكِنِهِمْﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍﵧ اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ ٢٦

کیا یہ چیز بھی اِن کے لیے ہدایت کا ذریعہ نہیں بنی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟اُنھی کے (اجڑے ہوئے) گھروں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں۔۹۹ اِس میں، یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ پھر کیا یہ سنتے نہیں ہیں۱۰۱! ۲۶


اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَي الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَاَنْفُسُهُمْﵧ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ ٢٧

(اِنھیں تعجب ہے کہ قیامت کس طرح ہو گی! اِن سے پوچھو)، کیا اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم پانی (کے بادلوں) کو چٹیل میدان کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں، پھر اُس سے کھیتی اگاتے ہیں جس سے اِن کے چوپایے بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی۔ پھر کیا دیکھتے نہیں ہیں۱۰۲! ۲۷


وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰي هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٨ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَايَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِيْمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ ٢٩ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ ٣٠

پوچھتے ہیں۱۰۳ کہ یہ فیصلہ کب ہو گا، اگر تم سچے ہو؟ ۱۰۴(کیا یہ اُس کو دیکھ کر ماننا چاہتے ہیں)؟  اِن سے کہو، فیصلے کے دن انکار کرنے والوں کا ایمان اُنھیں کچھ بھی نفع نہ دے گا اور نہ (اُس کے بعد) اُنھیں مہلت دی جائے گی ۔ سو اِن کا خیال چھوڑو، (اے پیغمبر)، اور انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہی ہیں۔۲۸ – ۳۰

۸۶ ۔یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ اپنی برتری کے زعم میں تمھارے ساتھ جھگڑ رہے ہیں، اُن سے کسی خیر کی امید نہ رکھو، ہماری آیتوں پر تو ایسی خشیت و انابت کے حاملین ہی ایمان لائیں گے جو اُنھیں سن کر اپنا سر خدا کے سامنے جھکا دیتے ہیں۔

۸۷ ۔یعنی اُس کے لیے تمام اعلیٰ صفات کا اقرار کرتے اور اُسے ہر عیب اور نقص سے پاک قرار دیتے ہیں۔

۸۸ ۔یعنی کسی حق کے مقابلے میں ، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی اکڑتے نہیں ہیں۔

۸۹ ۔اِس لیے کہ اُنھیں خدا کے حضور پیشی اور آخرت کی باز پرس کا خوف بھی رہتا ہے اور وہ امید بھی اپنے پروردگار ہی سے رکھتے ہیں۔چنانچہ آرام کو تج کر اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اِسی خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب سے دعا و مناجات کرتے اور اُس کی نمازیں پڑھتے ہیں۔

۹۰ ۔یہ اُس ابدی بادشاہی کی طرف اشارہ ہے جو نیکوکاروں کو اُن کی چند روزہ مساعی کے صلے میں ملنے والی ہے۔

۹۱ ۔یعنی اپنے انجام کے لحاظ سے۔

۹۲ ۔اِس لیے کہ اگر ایسا نہ ہو تو اِس کے معنی تو پھر یہ ہوئے کہ یہ کارخانۂ کائنات بالکل عبث بنایا گیا ہے، اِس کی حیثیت ایک لیلا اور تماشا گاہ سے زیادہ نہیں ہے اور اِس کا خالق رحمت و حکمت اور عدل و انصاف جیسی اعلیٰ صفات سے بالکل تہی ہے۔

۹۳ ۔یہ اُن باغوں کا ذکر ہے، جہاں اصل جنت میں داخل ہونے سے پہلے اولین ضیافت کے لیے ایمان والوں کو ٹھیرایا جائے گا۔ اِن کے لیے ’جَنّٰت‘ کا لفظ جمع استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ تمام اہل جنت کے لیے الگ الگ ہوں گے۔ قرآن نے دوسری جگہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ ’سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰي‘ کے پاس ہیں جو عالم ناسوت اور عالم لاہوت کے درمیان آخری نقطۂ اتصال ہے۔

۹۴ ۔یعنی جو اِسی دنیا میں آ کر اِنھیں جھنجھوڑے گا۔ قریش کے لیے اِس قریب کے عذاب کا سلسلہ غزوۂ بدر سے شروع ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جن قوموں کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں، اُن کے لیے یہی سنت الٰہی ہے کہ بڑے عذاب سے پہلے اُنھیں اِسی طرح قریب کے عذابوں سے تنبیہ کی جائے۔

۹۵ ۔یعنی جن کی طرف خدا کے رسول کی بعثت ہوئی اور اُس نے اُنھیں خدا کی آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اُن پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کر دیا، لیکن پھر بھی نہیں مانے۔

۹۶ ۔یعنی فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر سے۔

۹۷ ۔یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اِس میں جو تنبیہ ہے، اُس کا رخ اُنھی مکذبین کی طرف ہے جو سورہ کے مخاطب ہیں۔ گویا بات اُن سے منہ پھیر کر کہی گئی ہے۔

۹۸ ۔یعنی اِس وقت کے ائمۂ ضلالت کی طرح شیطان کے پیرو نہیں بن گئے تھے۔ یہ مسلمانوں کو بشارت دی ہے کہ وہ بھی اگر خدا کی کتاب کو قبول کریں گے اور پورے یقین کے ساتھ اُس پر ثابت قدم رہیں گے تو اُن کے اندر بھی ایسے ہی ائمۂ ہدایت پیدا ہوں گے جو دنیا اور آخرت، دونوں میں اُن کے لیے سرفرازی کا باعث بنیں گے۔

۹۹ ۔قوم فرعون کے بعد اب یہ عاد و ثمود اور قوم لوط وغیرہ کے انجام کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔

۱۰۰ ۔یعنی اُس سنت کے ظہور کی نشانیاں ہیں جو رسولوں کے باب میں اِنھیں بتائی جا رہی ہے۔

۱۰۱ ۔مطلب یہ ہے کہ اِن قوموں کی سرگذشتیں جب قرآن میں اِنھیں سنائی جاتی ہیں تو سنتے نہیں ہیں؟ ’سننا‘ یہاں اپنے حقیقی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ سمجھنے اور عبرت حاصل کرنے کے مفہوم میں ہے۔

۱۰۲ ۔یعنی ہماری قدرت اور ربوبیت کی اِس غیر معمولی نشانی کو دیکھنے کے بعد بھی اِنھیں تعجب ہے؟ کیا اندھے ہو چکے ہیں کہ آئے دن مردہ زمین کو زندہ ہوتے دیکھتے ہیں، پھر بھی اِس شک میں مبتلا ہیں کہ خدا اِن کو دوبارہ کس طرح اٹھائے گا؟

۱۰۳ ۔یعنی تاریخ اور آفاق کے اِن سارے شواہد کو دیکھنے کے باوجود پوچھتے ہیں۔

۱۰۴ ۔یہ سوال طنز و استہزا کے انداز میں کیا جاتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں جس فیصلے کی وعید سنا رہے ہو،آخر وہ کب صادر ہو گا؟ اُس کے لیے اگر کوئی دن مقرر ہے تووہ آ کیوں نہیں جاتا؟ اگر تم سچے ہو تو اُسے لا کر دکھاؤ یا کم سے کم اُس کے آنے کا وقت ہی بتا دو، ہم اُس کے بعد ہی مانیں گے۔

کوالالمپور 

 ۲۱ / مارچ۲۰۱۴ء

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B