HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

’خاتم النبیین‘ میں ’ختم نبوت‘ کا قطعی مفہوم

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


’خاتِم ‘ بکسر ’ت ‘ کا مطلب ختم کرنے والا ہے، لیکن ’خاتِم الشعرا‘ اور ’خاتِم الحکما‘ کا مطلب عظیم شاعر اور اعلیٰ درجے کا حکیم ہے۔ یہ زبان کا محاوراتی استعمال ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ ’خاتِم ‘ کا مطلب ختم کرنے والا ہے اس لیے ’خاتِم الشعرا‘ اور ’خاتِم الحکما‘ کا مطلب شاعروں کو ختم کرنے والا اور حکیموں کو ختم کرنے والا یا آخری شاعر یا آخری حکیم ہونا چاہیے۔ اگر زبان کے اس محاوراتی استعمال سے واقفیت نہ ہو اورلفظی طور رپر غلط مفہوم لے لیاجائے، جیسے بعض نو آموز طلبہ کے ہاں کبھی ایسے ہو جاتا ہے تو اس کے لیے زبان کو بدلا نہیں جاتا، نہ معیار زبان کو پست کرتے ہوئے سپاٹ الفاظ اختیار کر لیے جاتے ہیں ، بلکہ زبان و محاورہ سے آشنائی کی تلقین کی جاتی ہے۔

یہی معاملہ ’خاتَم ‘ بفتح ’ت‘ کا ہے۔ ’خاتَم ‘ کا مطلب مہر ہے یا انگوٹھی۔ انگوٹھی کا مفہوم بھی درحقیقت مہر پر مبنی ہے، اس لیے کہ مہر کو انگوٹھی بنا کر پہنا جاتا تھا اور اسی سے مہر لگائی جاتی تھی۔ پھر یہ انگوٹھی کے لیے مجرد بھی ہوگیا۔ تاہم جب اس کا مطلب مہر ہوگا تو اس کا مفہوم ’ seal‘، یعنی مہر بندی ہی ہوگا۔ اس کا ایک استعمال اشٹام ’stamp ‘ لگا کر تصدیق کرنا بھی ہے، لیکن یہ اس کا استعمال ہے، اس کا مفہوم نہیں۔ اس کا مفہوم مہر بند کرنا ہی ہے۔ ایک مہر بند خط یا اشٹام پیپر کسی بات کے لیے سند تصدیق بھی ہو سکتا ہے، مگر یہاں بھی مہر کا مطلب مہر بندی ہی ہوگا کہ خط یا اشٹام پیپر میں جو لکھا گیا ہے، اس میں رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ سند تصدیق ہے تو اس میں جو اور جتنا لکھا ہے، بس وہی مراد ہے۔ لیکن یہ واضح رہنا چاہیےکہ کسی چیز کا استعمال اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہوتا۔

’خاتَم النبیین‘ کا مطلب نبیوں کی مہر ہے۔ اس کا مطلب نبیوں کی انگوٹھی بھی ہو سکتا تھا، مگر جس جملے میں یہ استعمال ہوا ہے، وہاں اس کے سیاق و سباق میں اس کی کوئی گنجایش نہیں، اسی لیے کسی نے بھی اس کا ترجمہ ’نبیوں کی انگوٹھی‘ نہیں کیا، بلکہ ’نبیوں کی مہر‘ ہی کیا ہے۔ مہر کے معنی میں اس کا مفہوم نبیوں پر مہر بندی ہے، یعنی ان کے سلسلے پر مہر بندی ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مفہوم نہیں ہو سکتا۔اگر اس مہر بندی کا استعمال نبیوں کی تصدیق کرنے کی سند کے طور پر ہوا ہو تو یہ اس کے استعمال کا بیان ہوگا۔ اس کا یہ استعمال اگر ہوا ہے تو یہ الگ سے مذکور ہونا بھی ضروری ہے، اگر نہیں ہوا تو زبان اور محاورہ میں یہ مفہوم لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔ چنانچہ اس کا مفہوم مہر بندی سے آگے نہیں بڑھے گا۔

احمدی حضرات نے بھی زبان کی اسی پابندی کی وجہ سے ’خاتم النبیین‘ کا ترجمہ ’نبیوں کی مہر‘ ہی کیا ہے، مگر اس کے بعد وہ اس میں منطق داخل کرتے ہیں کہ چونکہ مہر تصدیق کے لیے بھی ’’استعمال ‘‘ہوتی ہے، اس لیے ’خاتم النبیین‘ کا مطلب ’نبیوں کی تصدیق کرنے والا‘ ہے۔ یہ مغالطہ ہے۔ کسی چیز کا استعمال الگ چیز ہے اور اس کا مفہوم الگ۔ جیسے اللہ کی کرسی جو زمین اور آسمانوں کو محیط ہے۔ اس کا مطلب خدا کی بادشاہت اور اختیار کا بیان ہے۔ یہ اس کا قطعی مفہوم ہے، لیکن کرسی کے مختلف استعمالات لے کر اس کے مفہوم میں داخل کرنا نامعقول منطق ہوگی کہ مثلاً کرسی بیٹھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، چنانچہ خدا اپنی کرسی پر بیٹھتا ہوگا وغیرہ۔ یہ زبان میں منطق ڈال کر اس کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔

’خاتم النبیین ‘ نبیوں کی مہر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مفہوم، محاورے کی زبان میں پوری قطعیت سے بیان کرتا ہے۔ اس بات کو سپاٹ لفظوں میں کہا جا سکتا تھا، مگر یہ قرآن کے ادبی معیار کے خلاف ہوتا۔ یہ امکان کہ محاورے سے کسی کو اشتباہ لگ سکتا ہے یا کوئی شرارت کر سکتا ہے  توقرآن اس کم ذوقی کی خاطر اپنی زبان کا معیار پست نہیں کرتا۔

’خاتم النبیین‘ کا مفہوم، نبیوں کے سلسلے پر مہر بندی کا معنی طے ہو جانے کے بعد، اب سوال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ اس سے تشریعی نبیوں کے سلسلے کا خاتمہ مراد ہے یا غیر تشریعی؟ اس سے قطع نظر کہ آیت میں ’’النبیین‘‘ میں تمام انبیا شامل ہیں، اور اس سے بھی قطع نظر کہ تشریعی اور غیر تشریعی انبیا کی خود ساختہ تقسیم کوئی حقیقت نہیں رکھتی، اس لیے کہ نبوت کا مطلب خدا سے خبر پانا ہے اور ہر نبی خواہ اس پر شریعت نازل ہو یا پہلے سے موجود ہو، شریعت کا تابع ہی ہوتا ہے، نہ کہ صاحب شریعت نبی کا تابع۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو شریعت نازل کی گئی، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے بعد مزید کسی شریعت اور اس کے لیے کسی صاحب شریعت نبی کی آمد کا سوال ہی نہیں رہا تھا۔ اس کے باوجود اگر ختم نبوت کا اعلان کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس سے لازمی طور پر مراد بغیر نئی شریعت کے انبیا کے سلسلے کے اختتام کا اعلان ہے، کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ روایت موجود تھی کہ وہاں شریعت کے ہوتے ہوئے بھی انبیا کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ ختم نبوت کے اعلان سے اس امکان کا خاتمہ مقصود ہے کہ شریعت کی موجودگی میں اب مزید انبیا نہیں آئیں گے، جیساکہ بنی اسرائیل میں آتے رہے تھے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B