HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘: توضیحی مطالعہ: قانون معیشت (۲)

ضرر وغرر پر مبنی صورتیں

’’بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی یہ صورتیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دی ہیں۔ اِن کے بارے میں یہ بات یہاں واضح رہنی چاہیے کہ ضرر و غرر کی جس علت پر یہ مبنی ہیں، وہ اگر شرائط و احوال کی تبدیلی سے کسی وقت اِن میں مفقود ہو جائے تو جس طرح اِن کی ممانعت ختم ہو جائے گی، اِسی طرح تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں یہ علت اگر کسی حادث معاشی معاملے میں ثابت ہو جائے تو اُس کی اباحت بھی باقی نہ رہے گی۔‘‘ (میزان ۵۰۴)

مصنف نے خرید وفروخت اور تجارت سے متعلق دو درجن کے قریب ایسی صورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے احادیث میں منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعتیں قرآن مجید کے اس اصول پر مبنی ہیں کہ انسان ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائیں۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال حاصل کرنے کی بعض صورتیں، مثلاً سود اور جوا، ایسی ہیں جن سے یہ پہلو الگ نہیں ہو سکتا اور وہ فی نفسہٖ ممنوع ہیں، جب کہ بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں فی نفسہٖ تو کوئی قباحت نہیں پائی جاتی، البتہ وہ کسی اضافی پہلو سے دوسروں کونقصان پہنچانے اور ان کی حق تلفی کو مستلزم ہوجاتی ہیں۔

دوسری نوعیت کی صورتوں میں ممانعت مطلق نہیں، بلکہ اس وجہ کے پائے جانے کے ساتھ مشروط ہوتی ہے جس کے باعث ایک فی نفسہٖ جائز امر کو ممنوع قرار دیا گیا۔ چنانچہ فقہا کے نزدیک یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ جن احکام کا مدار علت پر ہوتا ہے، ان میں حکم کی ظاہری شکل کی نہیں، بلکہ علت کی پیروی مطلوب ہوتی ہے اور علت کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر بعض صورتوں میں بہ ظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حدیث کی مخالفت ہو رہی ہے، لیکن غور کیا جائے تو یہ مخالفت خود متکلم کا منشا اور اس کے کلام کا مخفی تقاضا ہوتی ہے۔

ابن دقیق العید نے فقہاکے اس اصول کو یوں واضح کیا ہے:

والمعنی إذا کان معلومًا کالنص قطعًا أو ظنًا مقاربًا للقطع فاتباعه وتعلیق الحکم به أولی من اتباع مجرد اللفظ. (احکام الاحکام ۱/ ۳۱۷)
”حکم کی علت اگر اس کے الفاظ کی طرح قطعیت کے ساتھ یا قطعیت کے قریب ظن غالب سے معلوم ہو تو اس کی پیروی کرنا اور حکم کو اس کے ساتھ وابستہ کرنا محض الفاظ پر حکم کا مدار رکھنے سے بہتر ہے۔“

مثال کے طور پر  احادیث میں تجارتی قافلے کے، شہر میں پہنچنے سے پہلے شہر سے باہر جا کر اس سے سامان خریدنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے (بخاری، رقم ۲۱۶۵) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بازار میں پہنچنے سے پہلے قافلے والوں سے مال نہ خریدو۔ اگر کسی نے خرید لیا تو مال کے مالک کو بازار میں آنے کے بعد (اگر معلوم ہو کہ اس کا مال بازار سے کم قیمت پر خریدا گیا ہے تواسے اپنا مال واپس لینے کا) اختیار ہے“ (مسلم، رقم ۲۷۹۶)۔

حدیث سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل منشا قافلے والوں کو دھوکے سے بچاناہے، جس کے لیے آپ نے انھیں اپنا مال واپس لینے کا حق دے دیا، جب کہ اسی پہلو سے پہلی روایت میں قافلے سے خریدے گئے مال کو آگے بیچنے سے منع فرما دیا تاکہ بائع اگر اپنا مال واپس لینا چاہے تو ایسا کرنا ممکن ہو اور آگے بیچ دیے جانے کے باعث کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔ گویا یہ حکم ”اضرار“ کی علت پر مبنی ہے جو اس صورت میں دو پہلوؤں سے پائی جاسکتی ہے : ایک یہ کہ شہر سے باہر قافلے والوں سے مال خریدنے والا ان کو بازار کی صحیح قیمت سے آگاہ نہ کرے اور کم قیمت پر ان سے مال خرید لے۔ دوسرے یہ کہ ان سے مال خریدنے کے بعد بازار میں آکر اپنی مرضی کے نرخ پر اسے فروخت کرے۔ گویا ایک پہلو سے قافلے والوں کا نقصان ہے اور دوسرے پہلو سے شہر والوں کا، لیکن اگر کسی جگہ ’’اضرار‘‘ کے ان دونوں پہلوؤں میں سے کوئی پہلو موجود نہ ہو تو جمہور فقہا کے نزدیک قافلے والوں سے شہر سے باہر مال خرید لینے میں کوئی حرج نہیں (طحاوی، شرح معانی الآثار ۴/ ۸۔ ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح ۶/ ۶۹) ۔

اسی طرح روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھلوں کی بیع ان کی ”صلاح“ظاہر ہوجانے سے پہلے نہ کی جائے، یعنی اس وقت کی جائے جب پھل متوقع  آفات اور بیماریوں سے دور ہوجائیں اور خالص تندرست پھل رہ جائے (بخاری، رقم ۲۱۹۳) ۔

روایات میں اس ممانعت کا پس منظر یہ بیان ہوا ہے کہ لوگ کچے پھلوں کی بیع کیا کرتے تھے۔ جب پھل اتارنے کا وقت آتا اور خریدار پھل وصول کرنے آتے تو کہتے کہ پھل تو خراب ہوگیاہے یا اس کو فلاں اور فلاں بیماری لگ گئی ہے۔ جب لوگ اس طرح کے جھگڑے کثرت سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم جھگڑوں سے باز نہیں آتے تو جب تک پھلوں کی ”صلاح “ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک ان کی بیع نہ کیاکرو(بخاری، رقم ۲۱۹۳)۔ آپ نے فرمایا کہ بتاؤ،اگر اللہ پھل(کے پکنے )کو روک دے (اور وہ خراب ہوجائے )تو کس چیز کے بدلے میں تم اپنے بھائی (خریدار )کا مال لیتے ہو؟  (بخاری، رقم ۲۱۹۸)۔

گویا ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ کچے پھلوں کی بیع کرنے کی صورت میں خطرہ موجود رہتاہے کہ پکنے سے پہلے پھلوں کو کوئی خرابی لاحق ہو جائے اور وہ برباد ہوجائیں۔اس صورت میں خریدار کی رقم،جو وہ ادا کرچکا ہے، ضائع چلی جائے گی اور بائع اور خریدار میں جھگڑا پیدا ہوجائے گا۔ چنانچہ جمہور فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ کچے پھلوں کی بیع مطلقاً‌ منع نہیں ہے،بلکہ جہاں یہ علت نہیں پائی جاتی،وہاں کچے پھلوں کی بیع جائز ہوگی۔ اگر بیع میں یہ طے کر لیا جائے کہ پھل،سودے کے فوراً بعد اتار لیا  جائے گا  تو ظاہر ہے کہ نہ بعد میں ان کے درختوں پر خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا اور نہ اس کی وجہ سے بائع اور خریدار میں جھگڑے  کی نوبت آئے گی۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال بازار میں فروخت کروائے (بخاری، رقم ۲۱۶۵) ۔

جمہور فقہانے اس روایت پر اس کی ظاہری شکل میں عمل کرنے کے بجاے حکم کا مدار علت پر رکھا ہے اور کہا ہے کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اگر دیہاتی کسی دلال کے واسطے سے اپنا مال فروخت کرے گا تو ظاہر ہے، وہ اصل قیمت میں اپنا کمیشن شامل کر لے گا جس سے بازار میں اس چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کے برعکس  اگر کوئی دیہاتی اپنا مال خود فروخت کرے گا تو اپنی اصل لاگت پر جو منافع وہ وصول کرے گا، وہ مناسب ہوگا اور اس میں شہر والوں کے لیے آسانی ہوگی۔  اس علت کی وضاحت خود حدیث کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لا یبع حاضر لباد دعوا الناس یرزق اللہ بعضهم من بعض‘، ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرائے۔ لوگوں کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے رزق دیتارہے“  (مسلم، رقم ۲۷۹۹)، یعنی شہر کے  لوگ، دیہاتی کے براہ راست فروخت کرنے سے ملنے والی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

جب یہ حکم اس علت پر مبنی ہے تو ایسے حکم کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر علت ختم ہوجائے تو اس پر مبنی حکم بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس بنا پر فقہا کے نزدیک  اگر صورت یہ ہو کہ کوئی شہری اپنے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کسی دیہاتی کا مال بازار میں فروخت کراتا ہے کہ اس کو بازار کے نرخ کے مطابق اپنے مال کی صحیح قیمت مل جائے تو یہ جائز ہے، کیونکہ ممانعت کی وجہ ختم ہو گئی ہے (شرح معانی الآثار ۴/ ۱۱)۔

خواتین کی گواہی

’’ دو مردوں اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا جو ضابطہ اِن آیات میں بیان ہوا ہے ، اِس کا موقع اگرچہ متعین ہے ، لیکن ہمارے فقہا نے اِسے جس طرح سمجھا ہے ، اِس کی بنا پر ضروری ہے کہ یہ دو باتیں اِس کے بارے میں بھی واضح کر دی جائیں :
ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اِس ضابطے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ صرف دستاویزی شہادت سے متعلق ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کاموقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے ۔... شہادت کی اِن دونوں صورتوں کا فرق اِس قدر واضح ہے کہ اِن میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جا سکتا ۔
دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اِس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ اِسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے ۔... یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو اُن کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اِس کا اہتمام کرنا چاہیے ، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے۔‘‘ (میزان ۵۱۵ - ۵۱۶)
’’ یہ سد ذریعہ کا حکم ہے۔ چنانچہ عورتو ں کے حالات میں تبدیلی کے باعث اِس کی ضرورت باقی نہ رہے تو اِس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہو گا۔‘‘ (میزان ۵۱۴، حاشیہ ۳۴)

قرآن مجید میں مختلف معاشرتی معاملات میں، مثلاً یتیموں کو ان کا مال سپرد کرتے، وصیت کرتے اور طلاق دیتے وقت گواہ مقرر کرنے کی ہدایت ایک تسلسل کے ساتھ دی گئی ہے۔ ان میں سے کسی مقام پر گواہوں کی جنس زیر بحث نہیں آئی اور سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸۲ وہ واحد مقام ہے جہاں اس تفریق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ادھار لین دین کے معاملات میں اول تو گواہ دو مرد ہونے چاہییں، اور اگر دو مرد نہ ہو سکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ مقررکر لیا جائے۔ ہدایت سے واضح ہے کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ عورتیں گواہی کے معاملات سے اصلاً دور ہی رہیں اور اگر انھیں گواہ بنایا جائے تو ایک مرد کی جگہ دو عورتیں گواہ مقرر کی جائیں۔

جمہور فقہا نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ شارع کا منشا عورتوں کی گواہی کو ناقص قرار دینا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک خواتین کی گواہی صرف مالی معاملات میں قابل قبول ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کی گواہی قبول کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان کے علاوہ باقی معاملات، مثلاً نکاح وطلاق، حدود اور قصاص وغیرہ میں فقہا کے ایک بڑے گروہ کے نزدیک عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں (بدایۃ المجتہد ۲/ ۴۶۵)۔ احناف نے اس حکم کی تعبیر اس کے بالکل برعکس کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب ایک طرح کے معاملے میں عورتوں کی گواہی قبول کی گئی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اصلاً گواہی دینے کی اہلیت رکھتی ہے، اس لیے اصول اور عقل وقیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر طرح کے معاملے میں عورت کی گواہی قبول کی جائے، الّا یہ کہ کسی معاملے میں اس کے برعکس دلیل پائی جائے (ابن الہمام، فتح القدیر  ۷/ ۳۰۲۔ کاسانی، بدائع الصنائع ۶/ ۲۷۹)۔ البتہ احناف اس معاملے میں جمہور کے ہم خیال ہیں کہ حدود وقصاص کے مقدمات میں خواتین کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور یہ کہ ایسے معاملات کے علاوہ جن میں مردوں کا اطلاع پانا عادتاً ممکن نہیں، باقی تمام معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر سمجھی جائے گی۔

امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن القیم نے اس بحث میں عام فقہی راے سے اختلاف کیا ہے۔ جمہور فقہا نے اس ہدایت کی توجیہ خواتین کے ناقص العقل ہونے یا ان کے حفظ وضبط کے کم زور ہونے یا مردوں کے مقابلے میں ان کی کم تر سماجی حیثیت کو واضح کرنے کے حوالے سے کی ہے۔ ابن تیمیہ اور ابن القیم اس کو درست نہیں سمجھتے۔ ابن القیم لکھتے ہیں کہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو گواہ بنانے کی حکمت خود قرآن مجید نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاملے کے فریقین کے لیے محض ایک تدبیری نوعیت کی ہدایت ہے۔ اس کا عدالت اور قضا سے کوئی تعلق نہیں اور قاضی کے سامنے اگر ایک عورت بھی قابل اعتماد طریقے سے گواہی دے تو قاضی اس کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔

ابن تیمیہ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ حکم کی علت کی رو سے دو عورتوں کی گواہی کو مطلقاً ایک مرد کے مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ ایک عورت کی گواہی کو دوسری عورت کی گواہی سے موکد کرنے کا اہتمام انھی معاملات میں مطلوب ہے جن میں تجربہ اور ممارست کی کمی کے باعث خواتین کے بھول چوک یا عدم ضبط کا شکار ہو جانے کا خدشہ ہو۔ ان کے علاوہ باقی امور میں، جہاں وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر پورے اعتماد سے گواہی دے سکتی ہیں، ان کی گواہی مردوں کے برابر ہی سمجھی جائے گی  (ابن القیم، اعلام الموقعین ۸۳۔ الطرق الحکمیۃ ۱۷۷)۔

مولانا  امین احسن اصلاحی کے ہاں بھی اس ہدایت کے حوالے سے یہی رجحان دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس فقہی اختلاف کے تناظر میں کہ  کیا عورت کی گواہی ہر طرح کے معاملات میں مرد کی گواہی کے نصف ہے یا یہ ہدایت صرف مالی معاملات کے ساتھ مخصوص ہے، فرماتے ہیں کہ آیت قرض کے لین دین  کے معاملات میں آئی ہے اور اس ہدایت کو اسی نوعیت کے معاملات کے ساتھ مخصوص سمجھنا قرین قیاس ہے، کیونکہ عورتیں اپنے مزاج اور فطری دائرۂ کار کی وجہ سے خاندان کے اندرونی واقعات اور ان کی تفصیلات کو تو خوب یاد رکھتی ہیں، لیکن مالی معاملات اور ان کی طے شدہ شرائط کو پوری تفصیلات کے ساتھ زیادہ عرصے تک یاد رکھنا اور پھر عدالت کچہری کا سامنا ان کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے ان معاملات میں  شریعت نے دو عورتوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے (تدبر حدیث، صحیح بخاری ۲ / ۴۳۶)۔ مولانا اس ہدایت کی توجیہ کے ضمن میں  بھی ابن القیم سے متفق ہیں کہ اس کا مقصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی کم تر حیثیت واضح کرنا نہیں، بلکہ  ایک ایسی ذمہ داری ادا کرنے میں خواتین کے لیے سہارے کا انتظام کرنا ہے جو ان کی مزاجی خصوصیات اور حالات ومشاغل کے لحاظ سے ان کے لیے ایک بھاری ذمہ داری ہے (تدبر قرآن۱/ ۶۴۱)۔

مصنف نے   مولانا اصلاحی کی اس راے سے تو اتفاق کیا ہے، البتہ  خواتین کے لیے اس سہارے کے انتظام کی ضرورت کو ایک دوسرے سماجی پہلو سے بھی واضح کیا ہے۔ ان کی راے میں ”ہدایت کی گئی ہے کہ یہ بھاری ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے جو اس کا تحمل کر سکتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دو فریقوں میں سے ایک فریق کی ناراضی، بلکہ بعض اوقات دشمنی کا خطرہ مول لے کر وہ بات کہنی پڑتی ہے جو فی الواقع طے ہوئی تھی۔ یہ اس زمانے میں بھی اتنا آسان نہیں ہے، کجا یہ کہ قبائلی اور جاگیردارانہ سماج میں کوئی شخص اس کی ہمت کرے۔ قرآن نے اسی بنا پر فرمایا ہے کہ عورتوں کو گواہ بنانا پڑے تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے تاکہ عورت اگر اس دباؤ کا مقابلہ نہ کر سکے جو اس طرح کے موقعوں پر لازماً پڑتا ہے اور گواہی دیتے وقت گھبرا جائے تو دوسری عورت اس کا سہارا بن سکے“  (ماہنامہ اشراق، جولائی ۲۰۱۷ء، ۲۲)۔

تاہم مصنف کی راے اس ہدایت کی نوعیت کے حوالے سے مولانا اصلاحی سے مختلف ہے اور   وہ اسے مالی معاملات کے خاص دائرے میں بھی کوئی مطلوب شرعی پابندی کے بجاے سد ذریعہ کا حکم قرار دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمدنی حالات کی تبدیلی کے باعث اگر  خواتین ہر طرح کے معاملات میں پر اعتماد طریقے سے گواہی دینے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو ان کو گواہی میں اس طرح سہارا فراہم کرنے کا اہتمام لازم نہیں رہے گا۔

بعض احادیث میں نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر خواتین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے لیے ’ناقصات عقل ودین‘ کی تعبیر استعمال فرمائی۔ اس پر خواتین نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری گواہی کا آدھا ہونا تمھاری عقل کا، جب کہ ماہواری کے ایام میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تمھارے دین کا نقصان ہے۔  فقہا عموماً اس حدیث کو خواتین کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں ناقص قرار  دینے کی بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔  مصنف نے جہاں دو عورتوں کو گواہ مقرر کرنے کی تفہیم معاشرتی و تمدنی حالات کی رعایت سے عورتوں پر مردوں کے مقابلے میں کم تر ذمہ داری عائد کرنے کے تناظر میں کی ہے، اسی طرح  مذکورہ حدیث میں ’ناقصات عقل‘ کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کی خلقی کم زوری کے باعث دنیاوی معاملات میں ان پر کم ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور اسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی گواہی سے تعبیر فرمایا ہے۔

غیر مسلم کی گواہی

’’۱۔ کسی شخص کی موت آ جائے اور اُسے اپنے مال سے متعلق کوئی وصیت کرنی ہو تو اُسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لے ۔
۲ ۔ موت کا یہ مرحلہ اگرکسی شخص کو سفر میں پیش آئے اور گواہ بنانے کے لیے وہاں دومسلمان میسر نہ ہوں تو مجبوری کی حالت میں وہ دو غیر مسلموں کو بھی گواہ بنا سکتا ہے۔ ‘‘ (میزان ۵۱۷)

سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۱۰۶  میں فرمایا گیا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ وصیت کرتے وقت ’ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ‘، یعنی اپنے اندر سے دوافراد کو اس پر گواہ مقرر کرے، البتہ اگر دوران سفر میں موت آ جائے اور اپنے اندر سے گواہ میسر نہ ہوں تو ’اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ‘، یعنی اپنے علاوہ دوسروں میں سے بھی دو گواہ مقرر کیے جاسکتے ہیں۔

قرآن مجید میں عمومی طور پر بھی  مختلف معاملات میں گواہ مقرر کر دینے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ گواہ ”تم میں سے“ ہونے چاہییں، چنانچہ پیشہ ور بدکار عورتوں کی شناخت کے ضمن  میں ’فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ‘، قرض سے متعلق احکام و ہدایات میں ’مِّنْ رِّجَالِكُمْ‘ ، مرنے والے کو وصیت کی ہدایت دیتے ہوئے ’ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ‘ اور طلاق کے بعد علیحدگی اختیار کرنے کے موقع پر ’وَاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

جمہور فقہا ومفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات میں مسلمانوں ہی کو گواہ بنانا چاہیے اور  اس سے صرف سفر کی حالت مستثنیٰ ہے جب موقع پر مسلمان گواہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلموں کو گواہ بنا نے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔   جمہور فقہا غیر مسلموں کو گواہ بنانے کی اجازت کو سفر کی حالت میں وصیت کے معاملے کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک دستاویزی شہادت کے دائرے میں پیدا ہونے والی ضرورت کی دیگر صورتیں اس اجازت کے تحت نہیں آتیں۔ تاہم ابن تیمیہ کی راے میں ضرورت کی باقی صورتوں کو بھی اس پر قیاس کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں اور سفر وحضر میں ضرورت کے ہر موقع پر غیر مسلم گواہ، مسلمان گواہوں کا بدل بن سکتے ہیں (ابن القیم، الطرق الحکمیۃ ۲۲۳)۔

مفسرین کے دوسرے گروہ کے مطابق اس ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ گواہوں کا تعلق اسی قبیلے سے ہونا چاہیے، کیونکہ ان کے بھول چوک کا شکار ہونے کا امکان کم ہے، البتہ سفر کی حالت میں چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں، اس لیے جو بھی گواہ میسر ہوں، انھی کو گواہ مقرر کر لینا درست ہوگا (طبری، جامع البیان ۷/ ۱۰۱۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۶/ ۳۵۰)۔ اس تفسیر کے مطابق  ’مِنْكُمْ‘ کی تصریح سے اس کا مقصد گواہی کے معاملات سے متعلق اس حکمت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ گواہوں کا تعلق اسی ماحول اور علاقے  سے ہونا چاہیے جہاں معاملے کے فریقین رہتے ہیں اور جس میں کوئی معاملہ انجام پایا ہے تاکہ گواہ صورت حال سے پوری طرح واقف ہوں اور بوقت ضرورت گواہی کے لیے دستیاب بھی ہوں۔  اس تفسیر کی رو سے زیربحث آیت، گواہوں کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے کے سوال سے غیر متعلق ہے۔

مسلم اور غیر مسلم کی گواہی میں فرق کی نظری اور قانونی اساس شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عقیدے کا اختلاف ہے، چنانچہ وہ غیر مسلموں کو سرے سے شہادت اور قضا کا اہل ہی نہیں سمجھتے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود غیر مسلموں پر بھی کسی غیر مسلم کے لیے گواہی یا قضا کا حق تسلیم نہیں کرتے (الشافعی، الام ۴/ ۲۲۵۔ الماوردی، الحاوی الکبیر ۲۱/ ۶۸) ۔ فقہاے احناف نے اس توجیہ سے تو اتفاق نہیں کیا اور کہا ہے  کہ غیر مسلموں میں بھی ایسے عادل اور قابل اعتماد افراد پائے جا سکتے ہیں جن کی گواہی پر بھروسا کیا جا سکے، چنانچہ وہ غیر مسلموں کو اصولاً گواہی کا اہل سمجھتے ہوئے غیر مسلموں کے باہمی معاملات میں ان کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں۔   البتہ وہ مسلمانوں کے خلاف ان کی گواہی کو قبول نہیں کرتے ، جس کی وجہ ان کے نزدیک معروضی تناظر میں شہادت کی اہلیت یا دیانت وامانت پر اعتماد کا فقدان نہیں، بلکہ یہ تصور ہے کہ کسی غیر مسلم کی شہادت پر مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کرنے سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں۔  

اس زاویے سے دیکھا جائے تو  غیر مسلموں کی گواہی کو قبول نہ کرنے کی بنیاد اصلاً گواہی سے متعلق کسی قانونی نکتے پر نہیں، بلکہ’عقد ذمہ‘ کے مخصوص قانونی تصور پر ہے، جس میں غیر مسلموں کے لیے ریاست کے دوسرے درجے کے شہریوں کی حیثیت متعین کی گئی تھی۔ چنانچہ جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی اسلامی ریاستوں میں عموما ً‌ اس تفریق کو قائم نہیں رکھا گیا۔ مثال کے طور پر  سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام مرتب کیے جانے والے ”مجلۃ الاحکام العدلیہ“میں گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی تھی (مادہ ۱۶۸۶، ۱۷۰۰-۱۷۰۵)۔

مصنف  نے سورۂ مائدہ کی زیربحث آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین کی تشریح سے اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں بیان کیے گئے نصاب شہادت سے متعلق جو دو اصولی نکتے بیان کیے ہیں، وہ یہاں بھی ملحوظ ہیں:

ایک یہ کہ  یہاں عدالت کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں کیا گیا جس کی روشنی میں وہ کسی گواہی کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی، بلکہ ایک عام معاشرتی ہدایت کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مالی معاملات میں  تحریر و شہادت کا حتی الامکان بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ جہاں تک عدالت کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی مقدمے میں  گواہوں کی تعداد یا جنس یا مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ صدق وکذب اور خطا وصواب کے معروف معیارات کی روشنی میں گواہی کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔

دوسرا یہ کہ مصنف کے اصول کے مطابق مسلمانوں کو گواہ مقرر کرنے کے اہتمام کا تقاضا صرف ان صورتوں تک محدود ہونا چاہیے جہاں مطلوبہ اوصاف کے گواہوں کا میسر ہونا ممکن ہو۔ دوسرے لفظوں میں  یہ حکم واقعاتی شہادت کے دائرے میں موثر نہیں ہونا چاہیے، جہاں کسی مخصوص مذہب کے پیروکار یا معیاری اوصاف کے حامل گواہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا اور موقع پر موجود گواہوں کی گواہی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔  

البتہ مصنف کے نقطۂ نظر سے ایک اہم غور طلب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اس ہدایت کی بنیاد مصنف کے نزدیک کیا ہے؟ کیا وہ فقہا کی اس توجیہ سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے غیر مسلموں کی گواہی  کو مسلمانوں کے حق میں موثر  نہ ماننے کا اصول ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس نوعیت کے بعض دیگر احکام کی طرح اس کا تعلق بھی اتمام حجت کے خاص اصول سے ہے   یا یہ معاشرتی معاملات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی اختلاط کو روکنے  اور امتیاز کو قائم رکھنے کے مقصد سے دی گئی ایک عمومی ہدایت ہے؟

بظاہر یہ توجیہ مصنف کے  اصولی زاویۂ نظر سے  ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ شریعت میں غیرمسلموں کے ساتھ سماجی سطح پر اختلاط اور میل جول کی ممانعت نہیں کی گئی، بلکہ اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کرنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے کی مجالس میں شریک ہونے کی اجازت دی گئی ہے (المائدہ ۵:۵)۔ عہدنبوی اور عہد صحابہ میں عملاً بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین انفرادی دوستی، تجارتی تعلقات اور معاشرتی روابط کی فضا موجود رہی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرت کی سطح پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اختلاط اور میل جول کو روکنا شارع کے پیش نظر نہیں۔

ایک اور امکانی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس خصوصی اہتمام کا تعلق عہد رسالت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین معاشرتی تعلقات کی مخصوص نوعیت اور باہمی اعتماد کے فقدان سے مانا جائے۔  یعنی عہد رسالت کے معروضی تناظر میں چونکہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین باہمی اعتماد پر مبنی معاشرتی میل جول موجود نہیں تھا، اس لیے قانون وعدالت کے معاملات میں کسی الجھن سے بچنے کے لیے مسلمانوں ہی کو گواہ مقرر کرنا زیادہ قرین مصلحت تھا۔   اس صورت میں یہ سد ذریعہ کی ایک ہدایت قرار پاتی ہے، نہ کہ کوئی ایسا حکم جس کی پابندی شارع کو اصلاً وبالذات مطلوب ہو۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B