HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

قربانی: ملت ابراہیمی کی یادگار

قربانی جان کی نذر ہے۔ اِس دنیا میں خدا کو ایک انسان سے جو رویہ مطلوب ہے، وہ اسلام[1] ہے، یعنی اپنے قول و فعل ہر اعتبار سے اپنے آپ کو مکمل طورپر خدا کے حوالے کردینا۔قربانی اِسی ’اسلام‘ کا ایک علامتی اظہار اور اُس پر قائم رہنے کا ایک سالانہ عہد (covenant) ہے۔ قرآن کے الفاظ میں، قربانی کااصل مقصد اپنے اندر تقویٰ[2] اور خدا پرستانہ زندگی کی تعمیر ہے۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک محض گوشت کا ڈھیر لگانے اور خون کا دریا بہا دینے سے اصل مطلوب(خدا پرستی)حاصل نہیں ہوتا، جس کا ظاہرہ زوال یافتہ اہل کتاب اور موجودہ زمانے کے بیش تر مسلمانوں کے یہاں نظر آتا ہے۔اِس کے برعکس، قربانی سے خدا کواصلاً جو چیز مطلوب ہے، وہ اِس کو پیش کرنے والے اہل ایمان کے اندر تقویٰ اور خدا پرستی کی وہ روح ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی جان ومال اور اپنا سب کچھ خدا کے لیے قربان کرسکیں۔

اِس اعتبار سے دیکھیے تو قربانی کوئی سالانہ رسم نہیں، بلکہ وہ خود آدمی کے اپنے جان اور مال کی نذر کی علامت ہے۔امت مسلمہ میں جاری ہونے والی قربانی کی یہی وہ عظیم روایت ہے جسے قرآن میں ’ذبح عظیم‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے: ’وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ‘۔[3]

حج اور عید الاضحیٰ کے موقع پرایک شخص جب قربانی پیش کرتا ہےتو وہ اِس کی صورت میں اپنے جان اور مال کو خدا کے لیے وقف کرنے کا یہی عہد کرتا ہے۔اِس عمل کے ذریعے سے وہ اپنی بقیہ زندگی کو تقویٰ اور خداپرستی کے رنگ (صِبْغَةَ اللّٰهِ)[4]میں رنگ دینے کا فیصلہ کرتاہے۔قربانی اور حج کا عمل انجام دے کر وہ اپنی نسبت سے اُس ’ملت ابراہیمی‘کی تجدید کرتا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اِس طرح کیا گیا ہے: ’مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا‘ ۔[5]

خدا نے اپنے پیغمبر کے واسطے سے تمام اہل ایمان کو اِسی ’ملت ابراہیمی‘ کے اتباع[6] کا حکم دیا ہے۔ ’ملت ابراہیمی‘ کسی گروہی ڈھانچے یا زوال یافتہ ’مذہب‘ کا نام نہیں۔ اِس سے مراد ’احسان‘کے درجے میں ایمان اور عمل صالح کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کوپوری طرح خدا کے حوالے کردینا ہے۔ قرآن میں اِس ’ملت ابراہیمی‘ کی نمایاں صفات درج ذیل الفاظ میں بیان کی گئی ہیں:

۱۔ تسلیم و رضا (البقرہ ۲: ۱۳۱)

۲۔ حنیفیت (آل عمران ۳: ۶۷)

۳۔ صدق (مریم ۱۹: ۴۱)

۴۔ اِنابت (ہود ۱۱: ۷۵)

۵۔ شکر (النحل ۱۶: ۱۲۱)

۶۔ دعا اور قنوت (البقرہ ۲: ۱۲۸- ۱۲۹۔ الشعراء ۲۶: ۸۳- ۸۹۔ النحل ۱۶: ۱۲۰)

۷۔ قلب سلیم (الصافات ۳۷: ۸۴)

۸۔ حلم و بردباری (ہود ۱۱: ۷۵)

۹۔ دل سوزی و درد مندی (التوبہ ۹: ۱۱۴)

۱۰۔ جود و سخا (ہود ۱۱: ۶۹۔ الذاریات ۵۱: ۲۴- ۲۷)

۱۱۔ کامل وفاداری (النجم ۵۳: ۳۷)

حج اور عید الاضحیٰ جیسے موقعوں پر قربانی کا عمل انجام دے کر ایک مومن اِنھی ابراہیمی صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کا عہد لیتا اور اِسی ابراہیمی سنت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ جس شخص کی قربانی اُس کے اندر سچی خدا پرستی کی روح پیدا کرے، اُسی کی قربانی مقبول قربانی ہے۔

قربانی کا مقصد نہ گوشت خوری ہے اور نہ محض کسی سالانہ ’مذہبی‘ رسم کی ادائیگی۔ قربانی کا مقصد تقویٰ اور خدا پرستانہ زندگی کی تعمیر ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: ’لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ‘۔[7] 

اِس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قربانی سے اصلاً جو چیز مطلوب ہے، وہ تقویٰ اور خدا پرستی ہے۔ سچی خدا پرستی اور ”اللہ کے لیے جینے اور مرنے“ (الانعام ۶: ۱۶۲) کی یہی صفت ہے جو خدا کو مطلوب ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ قربانی کے اِس عمل کے ذریعے سے آدمی کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔

___________

[1]۔ آل عمران۳: ۱۹۔

[2]۔ الحج ۲۲ :۳۷۔

[3]۔ یعنی ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا (الصافات ۳۷: ۱۰۷)۔

[4]۔ البقرہ۲ :۱۳۸۔

[5]۔ یعنی ابراہیم نہ ’یہودی‘تھا اور نہ ’نصرانی‘،بلکہ وہ ہردوسری چیزسے الگ ہوکر خدا کے لیے پوری طرح یک سو اور اُس کا حکم بردار تھا (آل عمران۳: ۶۷)۔

[6]۔ النحل ۱۶: ۱۲۳۔

[7]۔ یعنی اللہ کو ہرگز نہ تمھاری اِن قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ یہ صرف تمھارا تقویٰ ہے جسے خدا کے یہاں قبولیت حاصل ہوتی ہے (الحج ۲۲ :۳۷)۔

B