HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: السجدہ ۳۲: ۱-۱۴ (۱)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓمّٓ ١ﶔ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٢ﶠ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُﵐ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا٘ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ ٣

 ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

یہ سورۂ ’الٓمّٓ[63]ہے۔اِس میں کچھ شک نہیں کہ اِس کتاب کی تنزیل جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔کیایہ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟[64] ہرگز نہیں، بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے،[65] اِس لیے کہ تم اُن لوگوں کو[66] خبردار کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا، اِس لیے کہ وہ راہ پر آجائیں۔۱ -۳

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِﵧ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍﵧ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ٤

(یہ اُس کے شریک بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی ہے جس نے زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں[67] پیدا کیا، پھر اپنے عرش پر متمکن ہوگیا۔[68] اُس کے سوا نہ تمھارے لیے کوئی کارساز ہے، نہ اُس کے مقابل میں سفارش کرنے والا، پھر کیا دھیان نہیں کرتے ہو؟ ۴

يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَي الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ٘ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ٥ ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ٦ﶫ

آسمان سے زمین تک وہی تمام معاملات کی تدبیر فرماتا ہے،[69] پھر وہ اوپر اُس کی طرف لوٹتے ہیں،[70] ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھاری گنتی سے ہزار سال کے برابر ہے۔[71] وہ غائب و حاضر کا جاننے والا ، زبردست اور رحیم ہے۔[72]۵ -۶

الَّذِيْ٘ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ٧ﶔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ ٨ﶔ ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ٩

(وہی کہ) جس نے جو چیز بھی بنائی ہے، خوب ہی بنائی ہے۔[73] انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے مٹی سے کیا،[74] پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی،[75]پھراُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا[76] اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے)آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے)دل بنا دیے[77]ــــ تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو![78] ۷- ۹

 وَقَالُوْ٘ا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍﵾ بَلْ هُمْ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ ١٠ قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰي رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ ١١ وَلَوْ تَرٰ٘ي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْﵧ رَبَّنَا٘ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ١٢ وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ١٣ فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِيْتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَاﵐ اِنَّا نَسِيْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٤

(یہ اُس خدا کی شانیں ہیں جس نے اِنھیں پیدا کیا ہے۔اِس کے باوجود)کہتے ہیں[79] کہ جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے تو کیا پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟ نہیں، یہ اِس کو بعید نہیں سمجھتے،[80] بلکہ یہ اپنے پروردگار کے حضور پیشی کے منکر ہیں۔[81]اِن سے کہو، تمھاری جان وہی موت کا فرشتہ قبض کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔[82]اگر تم دیکھتے، (اے پیغمبر، تو اِن کی بے بسی کا کچھ اندازہ کر پاتے)، جب یہ مجرم اپنے رب کے حضور سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور اعتراف کریں گے کہ اے ہمارے رب، ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، اب تو ہمیں واپس بھیج دے کہ ہم نیک کام کریں، ہمیں پورا یقین آگیا ہے۔ (جواب میں ارشاد ہو گا: پھر امتحان کی کیا ضرورت تھی)؟اگر ہم چاہتے تو ہر ایک کو اُس کی ہدایت خود ہی دے دیتے،[83] لیکن(ہم نے تمھیں امتحان میں ڈالا اور تم نے ہدایت پر گم راہی کو ترجیح دی، سو) میں نے جو بات کہی تھی، پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے بھر کر چھوڑوں گا۔[84] اِس لیے اب چکھو اِس کا مزہ کہ تم نے اپنے اِس دن کی پیشی کو بھلائے رکھا۔ ہم نے بھی تمھیں بھلا دیا ہے۔[85] اب چکھو اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ہمیشہ کا عذاب۔۱۰- ۱۴

[63]۔یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

[64]۔یہ استفہام حیرت و استعجاب کی نوعیت کا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا ایسے اندھے بہرے ہو گئے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب کو تمھارا افترا قرار دے رہے ہیں۔

[65]۔یعنی اِس لحاظ سے بھی حق کہ فی الواقع خدا کی طرف سے ہے اور اِس لحاظ سے بھی کہ جو کچھ اُس میں بیان کیا گیا ہے، اُس میں کسی باطل کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

[66]۔یعنی قریش مکہ کو، جن کے اندر اسمٰعیل علیہ السلام کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا، دراں حالیکہ وہ زمین پر خدا کے اولین معبد کے متولی بنائے گئے تھے۔

[67]۔اِس سے خدائی ایام مراد ہیں جو ہمارے ہزاروں لاکھوں سال کے برابر بھی ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں یہ بات اِس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے بتائی جاتی ہے کہ خدا نے یہ دنیا نہایت تدریج و اہتمام کے ساتھ بنائی ہے، لہٰذا اِسے کھیل تماشا خیال نہ کرو، اِس کا ایک مقصد ہے اور یہ اُسی کے پیش نظر وجود میں آئی ہے۔

[68]۔یعنی پیدا کرکے اُس سے بے تعلق نہیں ہو بیٹھا ہے، بلکہ اپنے عرش حکومت پر متمکن ہو کر بالفعل اُس کا انتظام بھی فرما رہا ہے۔

[69]۔یعنی ایسا نہیں ہے کہ اُس کی حکومت صرف آسمان تک محدود ہے اور زمین کا انتظام اُس نے کچھ دوسرے لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے، جیسا کہ بعض احمق سمجھتے ہیں۔

[70]۔یعنی اُس کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور وہ براہ راست دیکھتا ہے کہ کارکنان قضا و قدر نے کیا فرائض انجام دیے اور کس طرح انجام دیے ہیں۔

[71]۔یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ خدا کے معاملات کو سمجھنے میں انسان بعض اوقات جلد بازی کرنے لگتا ہے، دراں حالیکہ وہ ہزار ہزار سال کے لیے ایک ہی مرتبہ طے کرکے کارکنان قضا و قدرکے سپرد کر دیے جاتے ہیں اور خدا کی متعین کردہ حکمت کے مطابق سامنے آتے رہتے ہیں، لوگوں کی خواہش کے مطابق اُن میں ہر روز ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

[72]۔اِس وجہ سے بندوں کو چاہیے کہ وہ پورے حسن ظن کے ساتھ اُسی پر بھروسا رکھیں، تھڑدلے ہو کر دوسروں کے دروازے پر نہ چلے جائیں۔

[73]۔یعنی ایسی متناسب، موزوں اور اپنے اوصاف و خصائص کے لحاظ سے ایسی کامل بنائی ہے کہ اُس میں نہ کسی نقص کی نشان دہی کی جا سکتی ہے، نہ کوئی ترمیم پیش کی جا سکتی ہے۔

[74]۔یہ پہلے مرحلے کا بیان ہے، جب انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا۔ اِس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو انسان کی پیدایش کے لیے اب اختیار کیا جاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اب جو عمل ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اُس وقت زمین کے پیٹ میں ہوا ۔ چنانچہ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے۔ یہاں تک کہ جب خلقت پوری ہوگئی تو اوپر سے وہی گارا انڈے کے خول کی طرح خشک ہو گیا جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسری تمام مخلوقات بھی پہلی مرتبہ اِسی طریقے سے وجود میں آئیں۔

[75]۔یہ دوسرا مرحلہ ہے جس میں اِس طرح بنائی جانے والی مخلوق نے اپنی نسل آپ پیدا کرنی شروع کر دی۔ چنانچہ وہی عمل جو زمین کے پیٹ میں ہوا تھا، اب وہ ماں کے پیٹ میں ہونے لگا۔ یہ انسان کا وہ دور ہے ، جب وہ علم و ادراک سے محروم محض ایک ناتراشیدہ حیوان تھا۔

[76]۔یہ تیسرا مرحلہ ہے جس میں غالباً کئی نسلوں کے اختلاط سے انسان کے حیوانی وجود کو نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ اِس مخلوق کے جو افراد اُس وقت موجود تھے، اُن میں سے دو کا انتخاب کرکے خدا کی طرف سے ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے جسے قرآن میں روح کہا گیا ہے، یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی۔ یہی آدم و حوا تھے۔ اِس کے بعد جو انسان پیدا ہوئے، وہ سب اِنھی کی اولاد ہیں۔

قرآن کے اِس بیان سے، اگر غور کیجیے تو اُن تمام آثار کی نہایت معقول توجیہ ہو جاتی ہے جو سائنسی علوم کے ماہرین نے اب تک دریافت کیے ہیں اور جنھیں ڈاروینیت کے علم بردار اپنی تائید میں پیش کرتے اور اِس طرح اُن گتھیوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کے نظریے میں نہ پہلے حل ہوئی ہیں ، نہ آیندہ کبھی ہوں گی۔

[77]۔یہ نفخ روح کا نتیجہ ہے جس نے بصیرت و ادراک سے محروم ایک حیوان کے اندر سمع و بصراور دل و دماغ کی وہ صلاحیتیں پیدا کر دیں جو تمام حیوانات کے مقابل میں اُس کے لیے وجہ امتیاز ہیں۔ چنانچہ اب وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے مخاطب کرکے یہ کہا جا سکے کہ ہم نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے۔ قرآن نے اِسی بنا پر صیغۂ غائب کو یہاں پہنچ کر صیغۂ خطاب میں تبدیل کر دیا ہے۔

[78]۔یعنی اِس کے باوجود کہ اِن سب مراحل سے گزر کر اُس مقام تک پہنچے ہو، جہاں اب اپنے آپ کو دیکھ رہے ہو، لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ چنانچہ کبھی خدا کا انکار کرتے اور کبھی اُس کے شریک ٹھیرانے لگتے ہو۔

[79]۔یعنی طنز و استہزا کے ساتھ سوال کرتے ہیں۔

[80]۔یعنی ایسے غبی نہیں ہیں کہ خدا کی یہ شانیں دیکھتے ہوئے اپنے دوبارہ پیدا کیے جانے کو اُس کی قدرت سے بعید سمجھیں۔

[81]۔یعنی اِس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ایک دن خدا کے آگے پیش ہو کر اعمال کی جواب دہی کرناہو گی ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بسا اوقات انسان انکار تو کسی اور چیز کا کرنا چاہتا ہے، لیکن اُس کے انکار کے لیے بہانہ کسی اور چیز کو بناتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ براہ راست اُس حقیقت کے انکار کی کچھ زیادہ گنجایش وہ نہیں پاتا۔ مشرکین عرب کا حال بھی یہی تھا۔ وہ خدا کے قائل تھے، اِس وجہ سے خدا کے آگے پیشی کا صریح انکار اُن کے لیے مشکل تھا، لیکن اُس کو ماننے سے جو بھاری ذ مہ داریاں عائد ہوتی تھیں، وہ اُن کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ اِس وجہ سے اُس سے گریز کے لیے اول تو وہ قیامت پر اُس قسم کے شبہات وارد کرتے تھے جس کی ایک مثال اوپر گزری اور بدرجۂ آخر اُس کو مانتے بھی تھے تو اُس کے نتائج سے بچاؤ کے لیے اُنھوں نے شرکا و شفعا ایجاد کر لیے تھے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۶۲)

[82]۔مطلب یہ ہے کہ انکار تو کر سکتے ہیں کہ خدا نے ہر شخص کو دنیا میں اِس کی آزادی دے رکھی ہے، مگر اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا کے حضور میں پیشی سے فرار بھی ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، خدا نے ہر ایک کے لیے موت کا فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ جب اِن کا وقت آئے گا تو کوئی اور نہیں، وہی فرشتہ اِن کی روح قبض کرکے اِنھیں حاضر کر دے گا۔اِس سے کسی کے لیے کوئی مفر نہیں ہے۔

[83]۔مدعا یہ ہے کہ حقائق کو اِس طرح بے نقاب کر دینے کے بعد لوگوں کا ایمان اللہ کو پسند ہوتا تو اُس امتحان کی کوئی ضرورت نہیں تھی جس کے لیے تمھیں دنیا میں بھیجا گیا۔ اِس طرح کا ایمان لانے پر تو اُس وقت بھی تمھیں مجبور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ ہماری اسکیم نہیں تھی۔ ہم تویہ دیکھناچاہتے تھے کہ علم و عقل کی جو نعمت ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس سے کام لے کر تم اِن حقائق کا اعتراف کرتے ہو یا نہیں؟ تم اِس امتحان میں ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اُسی امتحان کے لیے تمھیں دنیا میں بھیج دیا جائے تو اُس کا نتیجہ کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ اِس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہو، اُس کی یاد ذہن سے محو ہوتے ہی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو۔

[84]۔یعنی اُن سب جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا جو شیطان کے بہکانے سے اِس امتحان میں ناکام ہو جائیں گے۔یہ اُس بات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے جواب میں روز ازل کہی تھی، جب اُس نے چیلنج دیا تھاکہ میں اِن سب کو گم راہ کرکے چھوڑوں گا۔ ابلیس کا یہ چیلنج سورۂ ص (۳۸)کی آیات ۸۲ -۸۵ میں نقل ہوا ہے۔ فرمایا کہ وہ بات پوری ہوگئی اور اُسے پورا ہونا ہی تھا، اِس لیے کہ جب لوگوں کو امتحان میں ڈالا گیا تو اُس امتحان کے نتائج بھی لازماً سامنے آنا تھے۔

[85]۔یعنی نظر انداز کر دیا ہے، لہٰذا تمھاری کوئی درخواست اور التجا اب ہمارے نزدیک درخور اعتنا نہیں رہی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B