HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال و خامہ

 

O

 

جب دیکھتا ہوں شوخیِ رنگِ چمن کو میں

ہر گل میں دیکھتا ہوں ترے بانکپن کو میں

ہوتا ہے روز راہ کے کانٹوں سے تار تار

سیتا ہو ں اُن کی نوک سے پھر پیرہن کو میں

عالم کو اپنے ذوق سے بے گانہ دیکھ کر

خلوت میں لے گیا ہوں تری انجمن کو میں

قلب و نظر ہیں ذوقِ تمنا سے بے نصیب

لاؤں کہاں سے اب ترے عہدِ کہن کو میں

دختِ فرنگ ، تیری اداؤں میں بے حجاب

اے کاش ، دیکھتا نہ ترے مکر و فن کو میں

ہر شخص کو ہے بزم میں ظاہر سے التفات

باہم کروں کہاں ترے روح و بدن کو میں؟

رخشِ حیات ، دیکھیے جا کر تھمے کہاں

یزداں کو دیکھتا ہوں ، کبھی اہرمن کو میں

اس دشت ِبے چراغ میں کرتا ہوں روز و شب

پیدا ہر اک ببول سے سرو و سمن کو میں

اپنی خوشی سے بارِ امانت اُٹھا لیا

اب کیا کہوں کہ بار ہیں ، رنج و محن کو میں

ــــــــــــــــــــــــ

B