خیال و خامہ
O
جب دیکھتا ہوں شوخیِ رنگِ چمن کو میں
ہر گل میں دیکھتا ہوں ترے بانکپن کو میں
ہوتا ہے روز راہ کے کانٹوں سے تار تار
سیتا ہو ں اُن کی نوک سے پھر پیرہن کو میں
عالم کو اپنے ذوق سے بے گانہ دیکھ کر
خلوت میں لے گیا ہوں تری انجمن کو میں
قلب و نظر ہیں ذوقِ تمنا سے بے نصیب
لاؤں کہاں سے اب ترے عہدِ کہن کو میں
دختِ فرنگ ، تیری اداؤں میں بے حجاب
اے کاش ، دیکھتا نہ ترے مکر و فن کو میں
ہر شخص کو ہے بزم میں ظاہر سے التفات
باہم کروں کہاں ترے روح و بدن کو میں؟
رخشِ حیات ، دیکھیے جا کر تھمے کہاں
یزداں کو دیکھتا ہوں ، کبھی اہرمن کو میں
اس دشت ِبے چراغ میں کرتا ہوں روز و شب
پیدا ہر اک ببول سے سرو و سمن کو میں
اپنی خوشی سے بارِ امانت اُٹھا لیا
اب کیا کہوں کہ بار ہیں ، رنج و محن کو میں
ــــــــــــــــــــــــ