HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

’’اپرکلاس‘‘ کی باتیں

رپورتاژ

محمد بلال


پچھلے دنوں میرا گیارہ ماہ کا پہلا اور اکلوتا برخودار، اسد اللہ ایک حادثے کا شکارہو گیا۔ وہ واکر (walker) سمیت  ۱۶ زینوں کی سیڑھی سے گر گیا تھا۔

میں دفتر میں تھا۔ ٹیلی فون پر اس حادثے کی اطلاع ملی۔ خبر سنتے ہی میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ فوراً دفتر سے نکلا۔ پریشانی کے عالم میں تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر پہنچا۔ اسد کو دیکھا۔ وہ گم سم لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھ کے قریب چوٹ لگی ہوئی تھی، جسے دیکھتے ہی میرے دل کو چوٹ لگی۔ اس کا سہما ہوا چہرہ مجھے طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا کر رہا تھا۔ میں نے اسے گود میں لے کر اس کا دل لبھانے کی کوشش کی۔ جس چیز کو حاصل کرکے وہ خوش ہوتا تھا وہ چیز اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ جن باتوں سے وہ محظوظ ہوتا تھا وہ باتیں کرنا شروع کردیں۔

تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، لیکن اس کا چہرہ اپنی روایتی بشاشت سے ابھی تک عاری تھا اور اس کی  زبان اپنی روایتی چہچہاہٹ سے تاحال محروم تھی۔ یکایک میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسد کو اپنے نانا (اسحاق ناگی صاحب) سے اور ناگی صاحب کو اپنے اس اکلوتے نواسے سے بڑی محبت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی صحبت سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ ناگی صاحب کی داڑھی اسد کے ننھے ننھے ہاتھوں کے لحاظ سے شہ مشت برابر ہے۔ اور اس کے نزدیک ان کی داڑھی کی حیثیت ایک کھلونے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ بڑی مہارت سے ان کی گھنی داڑھی کا ایک بال پکڑ کر ایک جھٹکے کے ساتھ اکھیڑ دیتا ہے اور ناگی صاحب جیسے مردآزما کو چیخ مارنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور نانا جی بھی ایسے ہیں جو اس تکلیف سے لذت اٹھاتے ہیں اور ایک مزے دار حکایت کی طرح یہ بات دوسروں کو سناتے ہیں۔ناگی صاحب کا گھر ہمارے گھر سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔ میں فوراً اسد اور اس کی پریشان ماں کو لے کر ان کے گھر چلا گیا۔

ناگی صاحب نے اسد کی آنکھ کے قریب چوٹ کا نشان دیکھا۔ وجہ پوچھی۔ وجہ بتائی گئی۔ انھوں نے کہا: اللہ کا شکر ہے۔ اتنے زینوں والی سیڑھی سے گرنے کے بعد یہ (معمولی) چوٹ آئی ہے۔ اللہ کا بڑا احسان ہے۔ صدقہ خیرات کر یں۔ شکرانے کے نوافل ادا کریں۔ اللہ نے اسے دوسری زندگی دی ہے۔

ناگی صاحب کی بات سن کر میری اندرونی کیفیت فوراً بدل گئی۔ یکایک میرے اندر شکر خداوندی کا جذبہ بیدار ہو گیا۔ خدا کی طرف دھیان گیا تو ڈوبتے ہوئے دل کی دھڑکنیں پھر سے بحال ہو گئیں۔

تھوڑی دیر کے بعد اسد کی بشاشت اور چہچہاہٹ لوٹ آئی اور وہ اپنے روایتی اور معصومانہ ’’شر و فساد‘‘ میں مصروف ہو گیا۔

علمی اعتبار سے ناگی صاحب کی بات میرے لیے نئی نہیں تھی۔ اللہ کے فضل سے میں رجائی نقطۂ نظر کا حامل آدمی ہوں اور ہر زحمت میں رحمت کا پہلو دیکھنے کی شعوری کوشش کرتا ہوں۔ موسیٰ و خضر کا واقعہ بالعموم پیش نظر رکھتا ہوں اور عیب دار کشتی میں ایک محفوظ کشتی دیکھتا ہوں۔ لیکن اُس موقع پر میرے اوپر ایک خاص جذباتی کیفیت طاری تھی جس نے مجھے اپنا ہی ایک زاویۂ نگاہ بھلا دیا تھا۔

اُس وقت ناگی صاحب نے دراصل میرے لیے ایک مذکر کا کام کیا۔ یعنی ایک مانی ہوئی لیکن بھولی ہوئی بات کی یاددہانی کا کام۔

دین سے متعلق مناسب معلومات رکھنے والے بعض لوگ دینی مجالس میں شریک نہیں ہوتے۔وہ کہتے ہیں کہ وہاں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ حالانکہ دینی مجالس کا بنیادی کام دین سے متعلق معلومات فراہم کرنا نہیں، بلکہ بھولے ہوئے اور مانے ہوئے حقائق کو یاد دلانا ہوتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس یاددہانی کا انسان بڑا محتاج ہے۔

اُس وقت مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ جب انسان پر جذباتی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اس موقع پر بالعموم مذہبی اعتبار سے علم و عقل کو بروے کار نہیں لاتا۔ حالانکہ آزمایش کے پہلو سے یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب اس صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیے۔

اُس موقع پر زاویۂ نگاہ کے ایک خاص پہلو کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا۔ اگر میں دینی مزاج کا حامل شخص نہ ہوتا تو اس حادثے کے باعث بہت دیر تک اعصابی تناؤ کا شکار رہتا۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہی تھا جس نے فوراً مجھے اس تناؤ کے عذاب سے نجات دلا دی۔

مادی سوچ کے غلبے کے باعث آج دنیا میں انسانوں کو ان کی مالی پوزیشن کے لحاظ سے مختلف طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اپر کلاس، مڈل کلاس، لوئر کلاس جیسے الفاظ اسی پہلو سے زبان زد عام ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ انسانوں کو مالی لحاظ سے اپر (upper) یا لوئر (lower) قرار نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے کہ مال و دولت اور اسباب و وسائل اکثر و بیشتر انسان کو ورثے یا قسمت سے ملتے ہیں۔ اس معاملے میں صلاحیت اور محنت کا دخل کم دیکھنے میں آتا ہے، بلکہ اگر صلاحیت اور محنت سے بھی یہ چیزیں حاصل ہوں تب بھی ان کی حقیقت میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔میرے نزدیک جوشخص حیات و کائنات کے اعلیٰ حقائق کا جتنا زیادہ سمجھا ہوا ہے اور اپنے آپ کو ان کے مطابق جتنا زیادہ ڈھالا ہوا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اپر (upper) ہے۔ اور جو شخص اس معاملے میں جتنا زیادہ کم فہم اور بے عمل ہے وہ اتنا ہی زیادہ لوئر (lower)ہے۔ اس لیے کہ یہ فہم اور عملUpper C ــــــ جو ایک دن مادی پہلو سے بھی بے پناہ نفع بخش ثابت ہو گا ــــــ انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے میں پہلا قدم انسان ہی اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد خدا اس کا ہاتھ پکڑتا ہے۔ میں چونکہ اس نقطۂ نظر کا حامل ہوں اس لیے جب اُس وقت ناگی صاحب کا خیال آیا تو سوچا کہ ’’اپرکلاس‘‘ کے لوگوں سے تعلق کتنا سود مند ہے۔ اگر اس صورت حال میں ’’لوئر کلاس‘‘ سے متعلق کسی آدمی سے سابقہ پیش آتا تو عین ممکن تھا کہ وہ اس انسانی اور زمینی واقعے کو انسان اور زمین تک ہی محدود رکھتا اور اس کا خدا اور آسمان کے ساتھ کوئی تعلق قائم نہ کرتا۔ چنانچہ اس وقت مجھے ’’اپرکلاس‘‘ کے ساتھ اپنے نسبت ناتے پر فخر محسوس ہونے لگا۔

 اس واقعہ کے بعد جب ناگی صاحب کی میرے والد صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے علیک سلیک کے بعد انھیں کہا: مبارک ہو!  اللہ نے اسد کو دوسری زندگی دی ہے۔

’’اپر کلاس‘‘ کی باتیں، اپر کلاس ہی ہوتی ہیں۔ ’’لوئر کلاس‘‘ سے متعلق لوگ ایسے موقعوں پر مبارک باد نہیں دیا کرتے۔ وہ عیب دار کشتی کے عیب ہی پر نگاہ رکھتے ہیں اورشکوے، شکایتیں اور افسوس ہی کرتے رہتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B