ہمیں دوسروں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ کبھی لفظوں کے تیر و نشتر ہمیں مجروح کرتے، کبھی کسی کا رویہ دیکھ کر ہم دکھی ہو جاتے اور کبھی کسی کا اقدام ہمیں مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
ہم انسان ہیں۔ ہم لطیف احساسات رکھتے ہیں۔ چنانچہ معاملہ صرف اس طرح کی انتہائی صورتوں ہی کا نہیں ہے بلکہ بعض اوقات کسی کی معمولی سی بے اعتنائی، بے رخی اور بے توجہی بھی ہمیں دکھی کر دیتی ہے۔ اس معاملے میں اس وقت صورتِ حال اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے، جب ہم کسی سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور ہماری وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ انسان امیدوں کے سہارے جیتا ہے۔ جب امیدیں بر نہ آئیں تو سینے بھنچ جاتے اور آنکھیں بہہ نکلتی ہیں۔
ہم اگر اپنے دفتر، خاندان اور دائرۂ احباب میں موجودتلخیوں کا تجزیہ کریں تو ان کے اسباب میں اسی طرح کی باتیں اور عوامل کارفرما نظر آئیں گے۔ اس تلخی کا سب سے زیادہ اظہار بیوی اور شوہر کے تعلق میں ہوتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی صورت جوان اولاد اور والدین، ماتحت اور افسر اور اسی طرح لیڈر اور اس کے پیرووں میں موجود رہتی ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بچے، بیوی، ماتحت اور پیرو عام طور پر شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ جہاں دیکھیے اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔ اپنی نیکی، محبت اور خیر خواہی کا راگ الاپتے ہیں۔ اپنے ہر ہر ایثار کی داستان سناتے ہیں۔ ’’ اُس ‘‘ کے مظالم بیان کرتے ہوئے گلو گیر ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ فلمی کہانی کے ولن کی طرح، شوہر، افسر یا لیڈرظلم کا پتلا ہے ۔ نہ اسے دوسرے کی ضروریات کا احساس ہے، نہ وہ خیرخواہی پر ممنون ہے اور نہ وہ جذبات ہی کا قدر شناس ہے۔
ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خطاب فرمایا۔ آپ نے کہا : میں نے جہنم میں عورتیں زیادہ دیکھی ہیں۔ خواتین نے اس کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے بتایا کہ تم اپنے شوہروں کو بہت زیادہ ملامت کرتی رہتی ہو۔ تمھارا یہی رویہ اس انجام کا باعث ہے۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ صدقہ کیا کرو۔
اس خطاب میں مخاطب عورت تھی۔ لہٰذا اسی کی ایک کمزوری کے حوالے سے اسے تنبیہ کی گئی۔ لیکن آپ کے اس ارشاد سے اگر اصولی بات اخذ کی جائے تو وہ ہر اس فرد پر منطبق ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی صورت میں دوسرے کے ماتحت یا تابع ہے۔ اگر معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام روش ہے۔ ’نیکی برباد گناہ لازم‘ ہماری زبان میں ایک ضرب المثل کی حیثیت سے رائج ہے۔ زبان میں کوئی جملہ اسی صورت میں یہ حیثیت اختیار کرتا ہے جب اس میں ایک مانی ہوئی بات بیان کی گئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جب بھی کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم اس کی نیکیوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔
غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس رویے کا باعث ان خوبیوں، احسانات اور عنایات کی ناشکری ہے، جن کا تناسب بالعموم بے توجہی، ناانصافی اور زیادتی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ یہی بتایا ہے کہ زیادہ عورتوں کے جہنم میں جانے کا باعث ناشکری ہے۔ لیکن کیا وہ ماتحت اس وعید کے مخاطب نہیں جو جا و بے جا شاکی رہتے ہیں۔ وہ پیرو نہیں جو اپنے لیڈروں کو کوستے رہتے ہیں۔ وہ بچے نہیں جو اپنے والدین کی زندگی بھر کی عنایتوں کو بھول جاتے ہیں۔ وہ دوست نہیں جو اپنے احباب کے ساتھ گزرے ہوئے اچھے وقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ہم میں سے ہر فرد ماتحت بھی ہے، بالا بھی اور رفیق بھی۔ ہمیں دوسرے کی اصلاح کرنی ہے، مگر شکر گزاری کے ساتھ۔ ہم شکایت کر سکتے ہیں، مگر جذبۂ خیر خواہی کے تحت ۔
____________