HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

لیلۃ القدر پانے پر دعا

اللّٰهُمَّ إنَّكَ عَفُوٌّ ، تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عنَّي.
اے اللہ تو معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، اس لیے مجھے معاف فرما۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر میں لیلتہ القدر کو پالوں تو اللہ سے کیا طلب کروں۔ جس کے جواب میں آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا سکھائی۔ 

یہ مغفرت کی دعا ہے۔ اس اہم رات میں اگر کوئی دعا مانگی جا سکتی تھی تو یہی تھی۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس دعوت کو لے کر آئے اس نے اگر کوئی انقلاب برپا کیا تھا تو یہی تھا کہ خواص سے لے کر عوام تک سب کو ایک ہی فکر لاحق ہو گئی تھی کہ ہم قیامت کے عذاب سے بچ جائیں۔ بدو بھی رسالت مآب کی خدمت میں آتے تو یہی کہتے کہ ہمیں بس اتنا دین بتا دیجیے جو ہمیں دوزخ سے بچا لے اور جنت میں لے جائے ۔

چنانچہ اس رات میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنا کہ حکومتِ مدینہ  مستحکم ہو جائے یا پورا دین نافذ ہو جائے یا فلاں کافر پر عذاب نازل ہو جائے۔ بلکہ آپ نے یہ سکھایا کہ اگر یہ اہم رات پاؤ تو اپنی مغفرت کی دعا کرو ۔

دعا کے الفاظ غایت درجہ التجا اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جو اپنے پہلو میں ایک مؤدبانہ استدلال بھی لیے ہوئے ہے کہ اے اللہ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرما۔ یہ وہی استدلال ہے جس میں ہم دوسرے کے پسندیدہ طریقے یا رویے کا حوالہ دے کر اسے قائل کرتے ہیں۔ 

التجا کا مفہوم، اس میں اللہ کی صفت ’عفو‘ پر ’تحب العفو‘کے عطف سے پیدا ہوا ہے جس سے تکرار سی پیدا ہو گئی ہے۔ تکرار کا اسلوب تاکید و اصرار کے ساتھ ساتھ لجاجت اور التماس کے معنی بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس دعا کے چھوٹے چھوٹے جملوں، عفو کی تکرار اور بالخصوص ’ف‘ اور ’ن‘ جیسے خوش آواز حروف کی مناسب وقفوں کے ساتھ آمد نے اس میں ایک صوتی آہنگ پیدا کر دیا ہے، یہ آہنگ کلام کی تاثیر میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے۔ ایسے کلام اپنی تاثیر کے باعث یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل کے نہاں خانوں سے زبان پر جاری ہو گئے ہیں۔ دعائیہ اسالیب میں اس آہنگ کا ایک خاص محل ہے۔ اس اعتبار سے یہ دعا اپنے اندر بے پناہ ادبی محاسن رکھتی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B