اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَةِ مِنْ غَضَبِه وَ عِقَابِهٖ، وَ شَرِّ عِبَادِهٖ وَ ھَمَزَاتِ الشَیَاطِیْنَ وَ اَنْ یَحْضُرُوْن.
میں اللہ تعالیٰ کے کلماتِ کاملہ کی پناہ میں آتا ہوں اس کے عتاب اور اس کے عذاب سے، اس کے بندوں کے شر اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ یہ شیاطین میرے پاس آئیں۔
’کلمات‘سے یہاں مراد اللہ کے احکام ہیں، جن کے صادر ہوتے ہی کلمۂ کن کی طرح ان کے نتائج کا ظہور ہو جاتا ہے۔ یہ کلمات ظاہر ہے صفاتِ الہٰی کا مظہر ہوتے ہیں۔ کلمات سے جس صفت کو قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے وہ اس کی صفتِ قدرت ہے۔ یعنی اس کی قدرت ایسی کامل ہے کہ بس کہہ دینے سے کام ہو جاتے ہیں۔
مراد یہ ہے کہ میں اللہ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اس کی مخلوقات اور شیاطین کے شر سے تیری صفتِ قدرت کے مظہر تیرے کلمات کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں۔
کلمات کی پناہ اور مدد، دراصل، سب سے زیادہ سریع ہے۔ جس ذات کو خود اٹھ کر مدد کے لیے آنا پڑے۔ اور اس مدد کے لیے سب اینٹ روڑہ پتھر اسے خود اکٹھا کرنا پڑے۔ تو جتنی دیر میں وہ ذات مدد کو پہنچے گی اتنی دیر میں شیاطین اپنا کام کر چکے ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر کسی ذات کو بس حکم کے دو بول بولنا پڑیں اور دنیا کے سارے اسباب اس کے بجا لانے کو اٹھ کھڑے ہوں، تو ظاہر ہے اس کی پناہ بروقت ہو گی اور زیادہ قوی اور محکم بھی ہو گی۔ اسی پہلو سے اللہ کے کلمات کی پناہ مانگی گئی ہے۔
یہاں جن چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔ ان میں سب سے بڑی چیز اللہ کی ناراضی اور اس کا عذاب ہے۔ مراد یہ ہے کہ رات کا یہ ڈراؤنا خواب کہیں اللہ کی ناراضی کا اظہار نہ ہو۔ اس لیے اے اللہ میں اس موقع پر تیری پناہ چاہتا ہوں۔ جس طرح کے کلمات سے تو نے یہ خواب کا حکم جاری کیا ہے اسی طرح کے کلمات سے اب مجھے اس کے شر سے بچانے کے لیے بھی حکم جاری فرما، تاکہ خواب کے لیے جاری ہونے والے پہلے الفاظ کی اثر پذیری سے پہلے پہلے مجھے تیری پناہ حاصل ہو جائے۔
اللہ کی طرف سے کسی مشکل اور خوف و جوع کی آزمایش آتے دیکھ کر اسی سے پناہ طلب کرنا اور اس کے سواکسی اور کے پاس نہ جانا یہی اللہ کو حقیقی معنی میں الٰہ ماننا ہے۔ یہی ایمان کی معراج ہے۔
صفاتِ الہٰی کا ناقص علم آدمی کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ مشکل آئی ہے تو یقیناً اللہ مجھ سے ناراض ہے ۔ اسے راضی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی سے سفارش کرائی جائے۔ چنانچہ وہ دوسروں کے دروازوں پر جا کر ماتھا ٹیک دیتا ہے ۔ اس دعا میں اس کے برعکس ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کو ناراض پا کر اسی کی پناہ ڈھونڈو تاکہ وہ راضی ہو اور اپنی آزمایش کو ٹال دے۔
دعا کے آخر میں شیطان کے ہمزات سے پناہ مانگی گئی ہے۔ ہمزات سے مراد شیطانی اشارے اور وسوے ہیں۔ اور اس سے عام ہو کر یہ شیطان کی طرف سے آنے والے ہر خطرے کے معنی میں استعمال ہو جاتا ہے۔ دعا کا یہ آخری جملہ بعینہٖ قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ وہاں یہ دعا حصولِ صبر اور کفار کے برے سلوک کے جواب میں درگزر کرنے کی تلقین کے لیے اتری ہے۔ شیاطین سے جیسے کہ ہم ان دعاؤں میں مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں، جن و انس کے شیاطین مراد ہیں۔ ہمزات کے طرز کے وسوسے اگرچہ انسان بھی دلوں میں ڈال دیتے ہیں مگر یہ عمل زیادہ تر شیاطینِ جن ہی کا حربہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ شیاطین مجھے ایسے خوابوں سے ڈرا کرکہیں شرک کی طرف نہ لے جائیں۔
’وان یحضرون‘سے مراد انسان ہیں۔ جو آدمی کے پاس آ کر اسے شرو فساد پر ابھارتے، حق کے بارے میں اس سے حجت کرتے اور اس کو فساد کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ خواب میں جس شخص سے بیان کروں وہ کہیں مجھے سمجھا بجھا کر غلط راہوں پر نہ ڈال دے کہ اس خواب کے شر سے بچنے کے لیے یوں اور یوں کر لو، تو وہ بلا ٹل جائے گی جو خواب میں آ کر تنگ کرتی ہے یعنی اے اللہ، ایسے لوگوں کو میرے پاس نہ بھیج جو مجھے راہِ مستقیم سے ہٹا دیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ