’’الجماعتہ‘‘ اور ’’التزامِ جماعت‘‘ کے مفہوم اور مصداق کے بارے میں ہماری رائے سے بعض اہلِ علم کو اختلاف ہے۔ مولانا گوہر رحمان صاحب نے اپنے مضمون، ’’التزامِ جماعت‘‘ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵) میں اپنی رائے تفصیل سے بیان فرمائی ہے۔ مولانا محترم کی رائے اور استدل کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
۱۔ امتِ مسلمہ کی تشکیل کا مقصد ’’اقامتِ دین‘‘ یا بالفاظِ دیگر ’’اظہارِ دین‘‘ ہے۔
۲۔ امتِ مسلمہ کی نمائندہ حکومت کا مقصد بھی ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ ہی ہونا چاہیے۔ جو حکومت ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ کا فریضہ انجام نہیں دیتی، وہ ’’بالفعل‘‘ تو حکومت ہوتی ہے، مگر ’’بالحق‘‘ حکومت نہیں ہوتی۔ حکومت بالفعل کے قوانین کی عام حالات میں اگرچہ پابندی کی جائے گی اور ایسا کرنا شرعاً ممنوع بھی نہیں ہے، تاہم ہر قائم ہو جانے والی حکومت کو ’’الجماعتہ‘‘ کہہ کر اس کے التزام کو دین کا تقاضا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ ایسا کرنا ’’الجماعتہ‘‘ کی اصطلاح کی توہین ہے۔ اگر ایسا ہو تو امریکہ اور برطانیہ میں قائم ہونے والی غیر مسلموں کی حکومتیں بھی ’’الجماعتہ‘‘ ہی قرار پائیں گی، جو بالبداہت غلط ہے۔
۳۔ قرآن و سنت سے منحرف حکومت کو بالحق حکومت نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ اسے مسلمانوں کی اکثریت کا اعتماد ہی کیوں نہ حاصل ہو۔’امرھم شوریٰ بینھم‘کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مسلمانوں نے اپنی جہالت، نادانی، فریب خوردگی، مفاد پرستی یا خود غرضی کی وجہ سے اگر قرآن و سنت سے منحرف حکومت کو منتخب کر لیا ہو، تو وہ حکومت بالحق ہو جائے گی۔
۴۔ قرآن و سنت سے منحرف حکومت ’الطاغوت‘ہے۔ قرآن نے ’الطاغوت‘سے اجتناب کا حکم دیا ہے نہ کہ اس کے التزام اور اس سے وابستہ رہنے کا۔ ایسی حکومت کو ’’الجماعتہ‘‘ قرار دینا اور اس کے التزام کو لازم ٹھہرانا التزامِ طاغوت کے مترادف ہے۔
۵۔ بعض روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ امیر تمھیں پسند ہو یا نا پسند، اس کا حکم تمھاری رائے یا طبیعت و مزاج کے مطابق ہو یا نہ ہو، وہ تم پر دوسروں کو ترجیح دے رہا ہو یا تمھارے حقوق ادا نہ کر رہا ہو، جیسی بھی صورتِ حال ہو، تمھیں ہر حال میں اس کی اطاعت کرنی اور مسلمانوں کی اجتماعی ہیئت کو نقصان پہنچانے سے باز رہنا ہے، تو اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ ایسے امیر کے خلاف مسلح بغاوت نہ کی جائے، بلکہ دوسرے ذرائع سے اس کی اصلاح یا اس کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے، یہ روایات ایسی حکومت کے بارے میں ہیں، جو ملک کا نظام شریعت کے مطابق چلا رہی ہو اور اس میں قرآن و سنت کی بالادستی عملاً تسلیم کی جاتی ہو۔ تیسرے، اس مضمون کی احادیث کا تعلق ذاتی اور شخصی حقوق سے ہے، گویا ایسی احادیث سے مراد یہ ہے کہ جب ملک میں شریعت نافذ کرنے والا حکمران تم پر ذاتی طور پر ظلم بھی کر رہا ہو، تو تم اس ظلم پر صبر کرو، اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
۶۔ حضرت حذیفہ بن یمان کی مشہور حدیث (جس میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’ان لم یکن لھم جماعة ولا امام‘)کے معنی یہ ہیں کہ جب بدعت و ضلالت کے غلبے کا دور آ جائے اور ہر فرقہ، گروہ اور جماعت لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو تم ائمہ بدعت و ضلالت میں سے کسی کی دعوت قبول نہ کرنا، کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بدعت و ضلالت کی دعوت ہو گی۔ اس کے برعکس، مسلمانوں کی اس جماعت کا التزام کرنا جو قرآن و سنت کا التزام کرنے والے امیر کی امارت پر مجتمع ہوں، چاہے وہ صالحیت اور صلاحیت کے اعتبار سے اپنے وقت کا معیاری مسلمان ہو یا اس کے اندر کچھ خرابیاں بھی موجود ہوں۔ مگر جب تک اس حکمران نے ’الطاغوت‘کی شکل اختیار نہ کی ہو اور قرآن و سنت سے منحرف نہ ہوا ہو، اس وقت تک اسی کا التزام کرنا دین کا تقاضا ہے۔ لیکن اگر تم ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو جاؤ کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظم درہم برہم ہو گیا ہو اور قرآن و سنت کی بالادستی قبول کرنے والی کوئی حکومت موجود نہ ہو، اور اس نظام کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ایسی دینی جماعت بھی موجود نہ ہو جو قرآن و سنت کا التزام کرتی ہو اور تم اپنے اندر حالات کا تنہا مقابلہ کرنے یا اس مقصد کے لیے کوئی جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو، بلکہ تمھارے اپنے دین و ایمان کو خطرہ درپیش ہو، تو ایسے حالات میں اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے لوگوں سے الگ ہو کر، کسی محفوظ جگہ میں بیٹھ کر زندگی کے باقی دن پورے کرنا زیادہ بہتر ہے۔
۷۔ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد وہ حکومت ہے جو ’’اقامتِ دین‘‘ کا فرض انجام دینی ہو۔ اس طرح ’’التزامِ جماعت‘‘ کا صحیح مفہوم اسلامی حکومت کی اطاعت کرنا ہے۔ ’’جماعتہ المسلمین‘‘ سے مراد امتِ مسلمہ ہے۔ احادیث میں ’’الجماعتہ‘‘ کا اطلاق ان تمام مسلمانوں پر بھی ہوا ہے، جو فکر و عمل کے اعتبار سے سنتِ رسول اور سنتِ اصحابِ رسول کا التزام کرتے ہیں۔
۸۔ اگر اسلامی حکومت موجود ہی نہ ہو، تو پھر اس کے لیے منظم اور اجتماعی جدوجہد کرنا ایک دینی فریضہ ہے۔ جو جماعتیں ’’اسلامی حکومت براے اقامتِ دین‘‘ کے لیے دین و شریعت اور سنتِ رسول اور سنتِ اصحابِ رسول کے اصول و ہدایات کے مطابق کام کر رہی ہوں، ان میں سے جس پر زیادہ اعتماد ہو، اس میں شمولیت اختیار کرنا اور اس کے نظم کا التزام کرنا، جدوجہد براے غلبۂ دین اور اقامتِ دین کا لازمی تقاضا ہے ۔
یہاں ہم مولانا محترم کی ان آرا کا جائزہ لیں گے۔
مولانا محترم نے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ امتِ مسلمہ کی تشکیل کا مقصد ’’اقامتِ دین‘‘ اور ’’اظہارِ دین‘‘ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’امتِ مسلمہ خود اللہ نے بنائی ہے اور اس کی فکری قیادت و امامت رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی جماعت کا بے مقصد ہونا نا قابلِ تصور ہے۔ کسی جماعت کا مقصد وہی ہو سکتا ہے، جو اس کو وجود میں لانے والے نے متعین کیا ہو۔ اور اس جماعت کے ارکان کو اس مقصد کے حصول کے لیے کام کرنے کا حکم دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو حکم دیا ہے، وہ یہ ہے... ۔‘‘ (ص ۲۲ )
اس کے بعد مولانا محترم نے سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۳ نقل کی ہے۔ پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں ’لکم‘ کے مخاطب مسلمان ہیں، اور پوری امتِ مسلمہ ہے۔ ان کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا ہے کہ تمھاری اس جماعت کا مقصدِ وجود وہی ہے جو انبیا علیہم السلام کا مقصدِ بعثت رہا ہے اور وہ ہے اقامتِ دین اور پھر حکم دیا ہے کہ اقامتِ دین کا فرض ادا کرتے رہو اور اس دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے میں ایک دوسرے سے الگ الگ نہ رہو، اختلاف نہ کرو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو بلکہ سب مل کر دین کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لو اس لیے کہ یہ اقامتِ دین تمھاری جماعت کے وجود کا مقصد ہے اور اپنے وجود کے مقصد میں افتراق و اختلاف کرنا ایک غیر معقول رویہ ہے ...۔‘‘ (ص ۲۲)
اس کے بعد مولانا محترم نے ’’اقامتِ دین‘‘ کے معنی کی وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پورے دین کو زندگی کا دستور العمل بناؤ۔ انفرادی زندگی سے تعلق رکھنے والے احکام کو بھی بالکل ٹھیک اور درست حالت میں برقرار ر کھو اور اجتماعی اور سیاسی شعبوں سے تعلق رکھنے والے احکام کو بھی اپنی اصلی حالت میں برقرار ر کھو اور دفاعی و جہادی یا عدالتی و معاشرتی شعبوں سے متعلق احکام و قوانین کو بھی بالکل ٹھیک اور درست حالت میں برقرار ر کھو اور ان پر کما حقہٗ عمل درآمد کرو۔‘‘ (ص ۲۳)
مولانا محترم کے اس نقطۂ نظر کا ہم نے تفصیل کے ساتھ اپنے ایک مضمون[1] میں جائزہ لیا ہے۔ اس میں ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قرآنِ مجید میں ’اقیموا الدین‘کے الفاظ جن معنوں میں آئے ہیں، ان میں انھیں امتِ مسلمہ کی تشکیل کا مقصد کسی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سورۂ شوریٰ کی محولہ آیت کا موقع و محل اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اسے امتِ مسلمہ یا اس کی نمائندہ حکومت کا مقصد قرار دیا جا سکے۔ ’’اقامتِ دین‘‘ کے ایک دینی فریضہ ہونے کے بارے میں ہم نے لکھا ہے:
’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ فرائضِ دین یا دینی فریضے کا اطلاق دین کے ایسے مشمولات ہی پر ہوتا ہے جن کا اہلِ ایمان کو اس طرح مکلف ٹھہرایا گیا ہو کہ انھیں بجا لانے والوں کو اجر اور بغیر کسی عذر کے ترک کرنے والوں کو سزا ملے۔
...اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ فرائضِ زکوٰۃ کیا ہیں، تو اس کے جواب میں وہی چیزیں پیش کی جائیں گی، جو زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ہیں اور جنھیں بجا لانا ہر زکوٰۃ دینے والے کے لیے لازم ہے۔ اب کوئی شخص اگر یہ کہے کہ قرآنِ مجید نے ہمیں ایتاے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، اس وجہ سے زکوٰۃ ادا کرنا بھی فرائضِ زکوٰۃ میں سے ہے، تو ظاہر ہے، اس کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ ایتاے زکوٰۃ، زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ہے ہی نہیں، اس وجہ سے اسے فرائضِ زکوٰۃ میں سے قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تو دراصل زکوٰۃ کے بارے میں ایک اصولی ہدایت ہے۔
...اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ جب مشمولاتِ دین کی حیثیت سے نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہو گا تو اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ فرائضِ دین ہی قرار پائیں گے، لیکن جب فرائضِ صلوٰۃ یا فرائضِ زکوٰۃ کا ذکر کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ ان میں نماز اور زکوٰۃ کے مشمولات ہی کا ذکر ہو گا۔ لہٰذا جو شخص اقامتِ صلوٰۃ کو فرائضِ صلوٰۃ میں اور ایتاے زکوٰۃ کو فرائضِ زکوٰۃ میں شامل کرے، اسے یہ کہنا پڑے گا کہ صلوٰۃ کے مشمولات میں سے ایک چیز صلوٰۃ بھی ہے، جس کی اقامت، صلوٰۃ میں فرض ہے۔ اور زکوٰۃ کے مشمولات میں سے ایک چیز زکوٰۃ بھی ہے، جس کا ایتا، زکوٰۃ میں فرض ہے۔ اسی طرح، جو شخص ’’اقامتِ دین‘‘ کو دینی فریضہ قرار دے، اسے یہ بتانا پڑے گا کہ ’الدین‘ کے مشمولات میں سے ایک چیز، خود ’الدین‘ بھی ہے، جس کی اقامت ’الدین‘ میں فرض ہے۔
’أقیموا الدین‘بے شک ’الدین‘ کے بارے میں ایک اصولی اور لازمی ہدایت ہے، مگر یہ ہدایت چونکہ ’الدین‘ کے مشمولات میں سے نہیں ہے، بلکہ خود ’الدین‘ کے بارے میں ہے، اس وجہ سے اسے فرائضِ دین میں سے ایک فریضہ کسی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ (ص ۲۶- ۲۷ )
’’اقامتِ دین‘‘کے مفہوم کے بارے میں ہم نے لکھا تھا:
’أن أقیموا لدین ولا تتفرقوا فیه‘ کے معنی، ’’اس دین پر پوری طرح قائم رہنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا‘‘کے ہیں۔ ان الفاظ میں نفاذِ دین یا اس کے لیے جدوجہد کا ہرگز کوئی مفہوم نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ بھی’الدین‘میں شامل ہے، اس پر بغیر کسی تفریق کے عمل کیا جائے، جو ماننے کی چیزیں ہیں انھیں مانا جائے، جو کرنے کی چیزیں ہیں انھیں کیا جائے، جن چیزوں سے روکا گیا ہے، ان سے باز رہا جائے۔ دین نے اگر عبادات کو کوئی حیثیت دی ہے تو اپنے عمل میں انھیں وہی حیثیت دی جائے۔ دین اگر کسی موقع پر جہاد کا تقاضا کرتا ہے تو اس تقاضے کو دل و جان کے ساتھ پورا کیا جائے۔ دین اگر سیاست، معیشت، معاشرت، حدود و تعزیرات، تبلیغ، خورونوش اور آداب و شعائر کے بارے میں کچھ ہدایات دیتا ہے، تو ان ہدایات پر پوری طرح سے عمل پیرا رہا جائے۔ ’أقیموا الدین‘کے یہی معنی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ’الدین‘ اگرمحض چند عقائد ہی کا مجموعہ ہوتا، تو اس صورت میں ’أقیموا الدین‘کے معنی صرف ان عقائد کو ماننے تک محدود رہتے۔ ’الدین‘اگرمحض عبادات کا نام ہوتا، تو ’أقیموا الدین‘کے معنی صرف ان عبادات کی پابندی کے ہوتے۔ ’الدین‘اگرمحض حلال و حرام کی ایک فہرست کا نام ہوتا تو ’أقیموا الدین‘کا مفہوم ان حلتوں اور حرمتوں کی فہرست کی پابندی تک محدود رہتا۔ غرض کہ جو کچھ ’الدین‘ہے ’أقیموا الدین‘اس پورے ’الدین‘پر ٹھیک ٹھیک عمل پیرا ہونے کی ہدایت ہے۔
’أقیموا الدین‘کے صحیح معنی کی وضاحت کے بعد اب اس منطق پر بھی غور کر لیجیے کہ کسی موقع پر اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی دین کے عملی نفاذ سے گریزاں ہو، تو ’أقیموا الدین‘کے حکم کے تحت تمام مسلمان نفاذِ دین کی جدوجہد کے مکلف ہو جاتے ہیں۔
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ ’الدین‘میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہر شخص سے یکساں طور پر مطلوب ہیں۔ دوسری طرف ’الدین‘کے کچھ تقاضے ایسے بھی ہیں، جو مثال کے طور پر وہ ایک مرد سے اس وقت کرتا ہے جب اسے شوہر کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں جو خاندان کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ کچھ تقاضے ایسے ہیں، جو دین کے ایک داعی کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں اس سے کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح ایک غیر شادی شدہ آدمی کے لیے ’أقیموا الدین‘کے تقاضوں میں، ایک شوہر اور خاندان کے سربراہ سے کیے جانے والے مطالبات شامل نہیں ہوں گے اور نہ شادی کرنے کی جدوجہد ہی ’أقیموا الدین‘کا تقاضا قرار پائے گی، اسی طرح ایک عام آدمی سے ’أقیموا الدین‘کا نعرہ لگا کر وہ تقاضے نہیں کیے جا سکتے جو ’الدین‘میں اصلاً ایک ریاست کے سربراہ سے مطلوب ہیں۔ نفاذِ دین سربراہانِ کار کی ذمہ داری ہے۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ چیز بھی ’أقیموا الدین‘کے تقاضوں میں شامل ہے۔ ہم یہاں اس بات سے تو تعرض نہیں کریں گے کہ اگر ریاست کے اہلِ اقتدار اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کریں تو عام آدمی سے دین کیا مطالبہ کرتا ہے، البتہ اتنی بات بالکل واضح ہے کہ ’أقیموا الدین‘میں ’أقیموا‘کا فعل ہرگز یہ تقاضا نہیں کرتا کہ امت کا ہر فرد نفاذِ دین کی جدوجہد شروع کر دے۔ ’أقیموا الدین‘کے معنی بس یہی ہیں کہ ہر شخص وہ تمام تقاضے پورے کرے جو ’الدین‘اس سے کرتا ہے اور ان میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کرے۔ اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ معاشرے کا کوئی فرد یا گروہ، اگر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی کر رہا ہے اور اس طرح ’أقیموا الدین‘ کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہا ہے، تو پوری امت کے ایک ایک فرد سے، اس مخصوص گروہ کی ذمہ داریاں ادا کرنا یا اس کی جدوجہد کرنا بھی ’أقیموا الدین‘میں فعل ’أقیموا‘کے استعمال سے ایک مطالبہ بن جائے گا۔‘‘ (ص ۱۷ - ۱۹)
اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’أقیموا الدین‘ کے معنی، اصل میں یہ ہیں کہ جو کچھ ’الدین‘ ہے، اس پر پوری طرح سے عمل درآمد کیا جائے۔ اس کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جائے۔ اس کے تمام اوامر کو بجا لایا جائے اور اس کی تمام نواہی سے گریز کیا جائے۔ یہ دراصل وہی ہدایت ہے، جو تورات میں ان الفاظ میں مذکور ہوئی ہے:
’’سو تم احتیاط کر کے ان سب آئین اور احکام پر عمل کرو، جن کو میں آج تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جب تک تم دنیا میں زندہ رہو، تم احتیاط کر کے انھی آئین اور احکام پر اس ملک میں عمل کرنا، جسے خداوند تیرے باپ دادا کے خدا نے تجھ کو دیا ہے۔‘‘ (استثنا، باب ۱۲، آیت ۱ )
ظاہر ہے کہ اللہ کا سارا دین یہ تقاضا لے کر آتا ہے کہ اس کے تمام احکام و قوانین پر عمل پیرا رہا جائے۔ دین کے تمام احکام میں یہ بات آپ سے آپ مضمر ہوتی ہے کہ لوگ ان کو مانیں، ان کے آگے سرِ تسلیم خم کریں اور ان کے مطابق اپنے علم و عمل کی اصلاح کریں۔ اس وجہ سے کسی حکم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’اس حکم کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس پر عمل کریں‘‘۔مثال کے طور پر، یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ نماز کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے دلوں میں اپنے پروردگار کی یاد قائم ر کھیں، مگر یہ کہنا ایک بے معنی بات ہو گی کہ نماز پڑھنے کا حکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھیں۔ اسی سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دین دینے کا ’’مقصد‘‘یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ دین پر عمل کریں۔ یہ بات تو خود دین دینے کے عمل ہی میں مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت دی ہے تو ہدایت دینے کے اس عمل ہی کا تقاضا ہے کہ اس ہدایت کے مطابق اپنے علم و عمل کی اصلاح کی جائے۔ گویا ’’اقامتِ دین‘‘یا دین پر بے کم و کاست عمل کرنا، دراصل پروردگارِ عالم کی بندگی کا ایک بدیہی تقاضا ہے۔ یہ دین دینے کا مقصد ہے اور نہ انبیاعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا۔ چنانچہ ہم نے اپنے مضمون میں اسی بات کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ’أقیموا الدین‘ کے وہ معنی ہی نہیں ہیں، جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں۔ اس ساری تفصیل کے بعد مولانا گوہر رحمٰن صاحب نے انبیاعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اور امتِ مسلمہ کے وجود کا جو مقصد بیان فرمایا ہے، اس کی تردید کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ’أقیموا الدین‘ کے صحیح معنی سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی اسے بعثتِ انبیاعلیہم الصلوٰۃ و السلام اور وجودِ امتِ مسلمہ کا مقصد قرار نہیں دے سکتا۔‘‘ (’’اشراق‘‘ نومبر ۱۹۹۶، ص ۲۵)
مولانا کے نزدیک ’’اقامتِ دین‘‘کی طرح ’’اظہارِ دین‘‘بھی امتِ مسلمہ کے وجود کا مقصد ہے۔ ’’اظہارِ دین‘‘ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’امتِ مسلمہ کی تشکیل کا مقصد غلبۂ دین کے لیے جہاد کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نبی کی نبوت کا مقصد یا اس کی علت اور حکمت غلبۂ دین ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و رسالت کی علت و حکمت ..... خود اللہ تعالیٰ نے متعین طور پر بتا دی ہے۔‘‘ (ص ۲۴ )
اس معاملے میں مولانا کا استدلال قرآنِ مجید کی درجِ ذیل آیت پر مبنی ہے:
هُوَ الَّذِيْ٘ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖﶈ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ. (التوبہ ۹: ۳۳)
’’وہی ذات ہے، جس نے اپنی ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اپنا رسول بھیجا ہے، تاکہ وہ تمام ادیان پر اسے غالب کر دے۔ اگرچہ ان مشرکوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو ۔‘‘
آیۂ ’’اظہار دین‘‘کے مفہوم اور اس کے بارے میں مولانا محترم کی رائے کا تجزیہ ہم اپنے ایک مضمون میں کر چکے ہیں۔[2] وہاں ہم نے اس آیت کے پس منظر، اس کے موقع و محل، اس کے سیاق و سباق اور اس کے جملوں کے دروبست کے لحاظ سے اس کے صحیح مفہوم کو واضح کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہماری پوری بات کا خلاصہ اس طرح ہے:
’’ آیۂ ’’اظہارِ دین‘‘میں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ بیان ہوا ہے کہ مشرکینِ عرب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، رسولوں کے باب میں پروردگارِ عالم کی غیر متبدل سنت کے مطابق، اللہ کا دین سرزمینِ عرب کے تمام ادیان پر لازماً غالب آئے گا۔ اس لحاظ سے، یہ آیت ہمارے نزدیک، رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی سنت سے متعلق ہے۔ چنانچہ، اللہ کے آخری رسول کے بعد، اب اس کا اطلاق، ہمارے نزدیک، کسی شخص، جماعت، گروہ یا امت کی جدوجہد پر نہیں ہوتا۔‘‘ (ص ۴۸)
یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ قرآنِ مجید میں انبیاعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا کیا مقصد بیان ہوا ہے۔ تاہم اتنی بات ’’اقامتِ دین‘‘اور ’’اظہارِ دین‘‘کے مفہوم ہی سے واضح ہے کہ انھیں انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ مولانا گوہر ر حمٰن صاحب کی بات جس مقدمہ پر مبنی ہے ــــــ یعنی یہ کہ امتِ مسلمہ کی تشکیل کا مقصد ’’اقامتِ دین‘‘اور ’’اظہارِ دین‘‘ ہے ــــــ وہی ہمارے نزدیک محلِ نظر ہے۔
(جاری)
_______
[1]۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ فروری ۱۹۹۶۔ اس مضمون کے بعد مولانا محترم کی طرف سے ہمارے اس مضمون کا جواب ماہنامہ ’’فاران‘‘ ستمبر ۱۹۹۶ میں شائع ہوا تھا۔ ’’الجماعتہ‘‘ پر اپنے اس مضمون کے بعد، ہم مولانا محترم کے اس جواب کا تجزیہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
[2]۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ماہنامہ ’’اشراق‘‘نومبر ۱۹۹۶ ۔