يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْ٘ا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّا٘ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ.(النساء ۴: ۲۹)
’’ایمان والو، تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ وہ رضا مندی کی تجارت سے کسی کو حاصل ہو جائے۔‘‘
اس آیت میں دوسروں کا مال ان طریقوں سے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہیں۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ چوری، غصب، غلط بیانی، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا، یہ سب اسی کے تحت داخل ہیں۔ ان چیزوں پر مفصل بحث کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ ان کا گناہ ہونا تمام دنیا کے معروفات اور ہر دین و شریعت میں ہمیشہ مسلم رہا ہے۔ وہ معاملات جو دوسروں کے لیے ضرر و غرر، یعنی نقصان یا دھوکے کا باعث بنتے ہیں، وہ بھی اسی کی ایک فرع ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جو صورتیں، اپنے زمانے میں ممنوع قرار دیں، وہ یہ ہیں:
مچھلی کو پانی ہی میں بیچ دینا۔[13]
جانوروں کے بچے، وضعِ حمل سے پہلے، ان کے پیٹ ہی میں فروخت کر دینا۔[14]
دودھ بیچنا، جب وہ تھنوں میں ہو، الا یہ کہ اس کی مقدار متعین کر لی جائے۔[15]
مالِ غنیمت بیچنا، اس سے پہلے کہ وہ تقسیم ہو جائے۔[16]
کوئی چیز بیچنا، اس سے پہلے کہ وہ قبضہ میں آئے۔[17]
غلام بیچنا، دراں حالیکہ وہ اپنے مالک سے بھاگا ہوا ہو۔[18]
ڈھیر کے حساب سے غلہ خرید کر، اسے اپنے ٹھکانوں پر لانے سے پہلے بیچ دینا۔[19]
دیہاتی کے لیے کسی شہری کی خریدو فروخت۔[20]
محض دھوکا دینے کے لیے، ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی دینا۔[21]
کسی شخص کے سودے پر اپنا سودا بنانے کی کوشش کرنا۔[22]
ضربتہ الغائص، یعنی غوطہ لگانے والے سے اس طرح کا معاملہ کیا جائے کہ اس کی ایک بڑکی میں جو کچھ اس کے ہاتھ لگے گا، وہ اتنی رقم میں اس سے خرید لیا جائے گا۔[23]
خرید و فروخت میں دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا۔[24]
محاقلہ، یعنی کوئی شخص اپنی کھیتی خوشہ ہی میں بیچ دے۔[25]
مزابنہ، یعنی کھجور کے درخت پر اس کا پھل درخت سے اتری ہوئی کھجور کے عوض بیچنا۔[26]
معاومہ، یعنی درختوں کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دینا۔[27]
ثنیا، یعنی بیع میں کوئی مجہول استثنا باقی رکھا جائے۔ اس کی صورت یہ تھی کہ غلہ بیچنے والا، مثال کے طور پر یہ کہہ دیتا کہ میں نے یہ غلہ تیرے ہاتھ بیچ دیا، مگر اس میں سے تھوڑا نکال لوں گا۔[28]
ملامسہ، یعنی ہر ایک دوسرے کا کپڑا بے سوچے سمجھے چھو لے اور طرح اس کی بیع منعقد ہو جائے۔[29]
منابذہ، یعنی ہر ایک اپنی کوئی چیز دوسرے کی طرف پھینک دے اور اس طرح اس کی بیع منعقد ہو جائے۔[30]
بیعِ عربان، یعنی پیشگی دی ہوئی رقم اگر سودا نہ ہو سکے تو بائع کا حق قرار پائے۔[31]
بیع الی حبل الحبلہ، یعنی اونٹ اس طرح بیچے جائیں کہ اونٹنی جو کچھ جنے، پھر اس کا بچہ حاملہ ہو اور جنے تو اس کا سودا طے ہوا۔[32]
بیع الحصاۃ، یعنی کنکری کی بیع۔ اس کی دو صورتیں بالعموم رائج تھیں: ایک یہ کہ اہلِ جاہلیت زمین کا سودا طے کر لیتے، پھر کنکری پھینکتے اور جہاں تک وہ جاتی، اسے زمین کی مساحت قرار دے کر مبیع کی حیثیت سے خریدار کے حوالے کر دیتے، دوسری یہ کہ کنکری پھینکتے اور کہتے کہ یہ جس چیز پر پڑے گی، وہی مبیع قرار پائے گی۔[33]
درختوں کے پھل بیچ دینا، اس سے پہلے کہ ان کی صلاحیت واضح ہو۔[34]
بالی بیچ دینا، اس سے پہلے کہ وہ سفید ہو کر آفتوں سے محفوظ ہو جائے۔[35]
اون بیچ دینا، دراں حالیکہ وہ جانور کے جسم پر ہو۔[36]
گھی بیچ دینا اس سے پہلے کہ وہ دودھ سے نکال لیا جائے۔[37]
اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچنا جس میں عیب ہو، الا یہ کہ اسے واضح کر دیا جائے۔[38]
اونٹ یا بکری کا دودھ، انھیں بیچنے سے پہلے ان کے تھنوں میں روک کر رکھنا۔[39]
بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر تاجروں سے ملنا اور ان کا مال خریدنے کی کوشش کرنا۔[40]
کسی چیز کی پیشگی قیمت دے کر اس طرح بیع کرنا کہ تیار ہونے پر وہ چیز لے لی جائے گی، الا یہ کہ معاملہ ایک معین ماپ اور ایک معین تول کے ساتھ اور ایک معین مدت کے لیے کیا جائے۔[41]
مخابرہ، یعنی بٹائی کی وہ صورتیں اختیار کی جائیں جن میں کھیتی والے کا منافع معین قرار پائے۔[42]
زمین اس طرح بٹائی پر دینا کہ زمین کے ایک معین حصے کی پیداوار زمین کے مالک کا حق قرار پائے۔[43]
ایسی جائدادیں جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہوں، ان کے شریکوں کو خریدنے کا موقع دیے بغیر انھیں بیچ دینا الّا یہ کہ حدود متعین ہو جائیں اور راستے الگ کر دیے جائیں۔[44]
ہمسایے کے ساتھ راستہ ایک ہو تو اپنی جائداد اسے خریدنے کا موقع دیے بغیر بیچ دینا۔[45]
عام ضرورت کی چیزیں منڈی میں ان کی قلت پیدا کرنے اور اس طرح قیمت بڑھانے کے لیے روک رکھنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شدت کے ساتھ اسے ممنوع قرار دیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
من احتکر طعاماً اربعین لیلة فقد بریء من اللّٰه تعالیٰ وبریء اللّٰه تعالیٰ منه. (احمد بن حنبل، ج ۲ ص ۳۳)
’’جس نے کھانے کی کوئی چیز چالیس دن تک روکے رکھی اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ سے دور ہوا اور اللہ اس سے دور ہوا ! ‘‘
من دخل فی اسعار المسلمین لیغلیه علیھم، کان حتاً علی اللہ تبارک تعالیٰ ان یعقدہ من النار یوم القیامة. (احمد بن حنبل، ج ۵ ص ۲۷)
’’ جس نے چیزوں کے بھاؤ چڑھانے کے لیے مسلمانوں کے بازار میں کوئی مداخلت کی تو اللہ تعالیٰ یہ حق رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک بڑی آگ کو اس کا ٹھکانا بنا دیں ! ‘‘
بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی یہ صورتیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بات یہاں واضح رہنی چاہیے کہ ضرر و غرر کی جس علت پر یہ مبنی ہیں، وہ اگر شرائط و احوال کی تبدیلی سے کسی وقت ان میں مفقود ہو جائے تو جس طرح ان کی ممانعت ختم ہو جائے گی، اسی طرح تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں یہ علت اگر کسی حادث معاشی معاملے میں ثابت ہو جائے تو اس کی اباحت بھی لازماً ختم قرار پائے گی۔
رشوت، جوا اور سود بھی اسی اکل الاموال بالباطل میں داخل اور اس سلسلہ کے بدترین جرائم ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن کا نقطۂ نظر ہم یہاں کسی قدر تفصیل سے بیان کریں گے۔
سورۂ بقرہ میں اسی ’لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل‘کے حکم پر عطف کر کے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَتُدْلُوْا بِهَا٘ اِلَي الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . (۲: ۱۸۸)
’’ اور اس (مال) کو حکام تک پہنچنے کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اس طرح دوسروں کے مال کا کچھ حصہ حق تلفی کر کے کھا جاؤ، دراں حالیکہ تم اس حق تلفی کو جانتے ہو ۔ ‘‘
یہ آیت رشوت پر جن پہلوؤں سے روشنی ڈالتی ہے، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں:
’’ایک تو یہ کہ یہ ناجائز طریقہ سے دوسروں کے حقوق ہڑپ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ یہاں دوسروں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے کی ممانعت کے بعد خاص طور پر اسی چیز کا ذکر کیا۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ قانون جو لوگوں کے حقوق کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کی افادیت کا تمام تر انحصار ... حکام کی راست روی اور دیانت پر ہے۔ وہی قانون کے اصلی محافظ ہیں۔ اس وجہ سے اگر ان کو کسی ذریعہ سے بددیانت بنا دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب حقوق بکاؤ مال ہیں۔ جس کے پاس پیسے ہوں، وہ ان کو خریدسکتا ہے۔ رشوت حکام کو بددیانت بنانے کا ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ کارگر حربہ ہے۔
دوسرا یہ کہ رشوت کی گرم بازاری میں سب سے زیادہ مؤثر عامل خود معاشرہ ہے۔ جب لوگوں میں دوسروں کے حقوق ہڑپ کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی غرض پوری کرنے کے لیے رشوت کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس طرح حاکم کے منہ کو خون لگا دیتے ہیں، پھر جب ان کے منہ رشوت کا خون لگ جاتا ہے تو وہ اس کے ایسے رسیا ہو جاتے ہیں کہ وہ رشوت لیے بغیر لوگوں کو خود ان کے واجبی حقوق بھی نہیں دیتے، اس وجہ سے اسلام نے سب سے پہلے خود معاشرے کو یہ راہ اختیار کرنے سے روکا ہے کہ اپنے ہی پہرہ داروں کو خود اپنی ہی بدآموزی سے چور نہ بناؤ اور اس معاملہ میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ حکام کو تحفے اور ہدیے پیش کرنے اور ان کے لیے ان کو قبول کرنے کو بھی، جیسا کہ احادیث سے واضح ہے، پسند نہیں کیا، اس لیے کہ یہ بھی رشوت کا ایک چور دروازہ ہے۔
تیسرا یہ کہ رشوت کا گناہ ہونا ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ اس کو سب جانتے ہیں۔ عقل اس کی گواہ ہے، فطرتِ انسانی اس کی شاہد ہے، دنیا کا معروف اس پر حجت ہے اور تمام مذاہب و ادیان اس کی حرمت پرمتفق ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ ’وانتم تعلمون‘(اورتم اس بات کو جانتے ہو)۔‘‘ (تدبرِ قرآن ج ۱ ص ۴۶۵)
رشوت کے یہ پہلو ہیں، جن کی بنا پر اس کے دینے اورلینے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملعون قرار پائے ہیں۔ ابو داؤد میں ہے:
لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم الراشی والمرتشی. (کتاب الاقضیۃ)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے، دونوں پر لعنت کی ہے ۔‘‘
جوئے کے بارے میں ہرشخص جانتا ہے کہ یہ نری قسمت آزمائی ہے۔ قرآن ِمجید نے اسے ’رجس من عمل الشیطان‘(نجس، شیطانی کاموں میں سے) قرار دیا ہے۔ اس کے لیے یہ تعبیر، بالبداہت واضح ہے کہ اس اخلاقی فساد کی بنا پر اختیار کی گئی ہے جو اس سے آدمی کی شخصیت میں پیدا ہوتا اور بتدریج اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی عمل کی بنیاد اگر حقوق و خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھی جائے تو اس سے جس طرح انسان میں اخلاقِ عالیہ کے داعیات کو قوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح اس کی بنیاد اگر محض اتفاقات اور قسمت آزمائی پر رکھ دی جائے تو اس کے نتیجے میں محنت، زحمت، خدمت اور جاں بازی سے گریز کا رویہ انسان میں پیدا ہو جاتا ہے، پھر بزدلی و کم ہمتی اور اس طرح کے دوسرے اخلاقِ رذیلہ کی آکاس انسانی شخصیت کے شجرِ طیب پر نمایاں ہوتی اور آہستہ آہستہ عفت، عزت، ناموس، وفاوحیا اور غیرت و خودداری کے ہر احساس کو بالکل فنا کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان خدا کی یاد اور نماز سے غافل ہو جاتا اور دوسروں کے ساتھ اخوت و محبت کے بجائے بغض و عداوت کے جذبات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِﵐ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ. (۵: ۹۰- ۹۱)
’’ اے ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور یہ قسمت کے تیر بالکل نجس شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمھارے درمیان بغض اور عداوت ڈال دے اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز آتے ہو ؟ ‘‘
اس جوئے کے بارے میں ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے میں یہ امیروں کی طرف سے فیاضی کے اظہار کا ایک طریقہ اور غریبوں کی مدد کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ ان کے حوصلہ مند لوگوں میں یہ روایت تھی کہ جب سرما کا موسم آتا، شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں اور ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہو جاتی تو وہ مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوتے، شراب کے جام لنڈھاتے اور سرور و مستی کے عالم میں کسی کا اونٹ یا اونٹنی پکڑتے اور اسے ذبح کر دیتے، پھر اس کا مالک جو کچھ اس کی قیمت مانگتا، اسے دے دیتے اور اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ اس طرح کے موقعوں پر غربا و فقرا پہلے سے جمع ہو جاتے تھے اور ان جوا کھیلنے والوں میں سے ہر شخص جتنا گوشت جیتتا جاتا، ان میں لٹاتا جاتا۔ عربِ جاہلی میں یہ بڑی عزت کی چیز تھی اور جو لوگ اس قسم کی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں شامل ہوتے، وہ بڑے فیاض سمجھے جاتے تھے اور شاعر ان کے جودوکرم کی داستانیں اپنے قصیدوں میں بیان کرتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ ان تقریبات سے الگ رہتے انھیں ’برم‘ کہا جاتا تھا جس کے معنی عربی زبان میں بخیل کے ہیں۔
جوئے اور شراب کی یہی منفعت تھی جس کی بنا پر انھیں جب ممنوع قرار دیا گیا تو لوگ متردد ہوئے، لیکن قرآن نے صاف واضح کر دیا کہ ان کی یہ منفعت اپنی جگہ، مگر انسان کی شخصیت میں جو اخلاقی فساد ان سے پیدا ہوتا ہے، اس کے پیشِ نظر یہ کسی حال میں بھی گوارا نہیں کیے جا سکتے۔ ارشاد فرمایا ہے:
يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِﵧ قُلْ فِيْهِمَا٘ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِﵟ وَاِثْمُهُمَا٘ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.(البقرہ ۲: ۲۱۹)
’’وہ تم سے شراب اورجوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو : ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ منفعتیں بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کی منفعتوں سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
سود بھی ایک ایسی ہی اخلاقی نجاست ہے جس میں ملوث افراد اور ادارے اپنے اصل سرمائے کو بالکل بے داغ محفوظ رکھ کر اور کوئی جو کھم برداشت کیے بغیر منافع بٹانے کے لیے اپنے مقروض کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس کے لیے ’ربٰو‘ کا لفظ مستعمل ہے۔ قرآن نے اس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ عربی زبان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس سے مراد وہ معین اضافہ ہے جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ قرآنِ مجید نے اسے پوری شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے:
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّﵧ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْ٘ا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰواﶉ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواﵧ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰي فَلَهٗ مَا سَلَفَﵧ وَاَمْرُهٗ٘ اِلَي اللّٰهِﵧ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ. (۲: ۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہو گا کہ انھوں نے کہا: بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ جس کو اس کے پروردگار کی یہ تنبیہ پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا، سو لے چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اب اس کا اعادہ کریں گے تو وہی اہلِ دوزخ ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ‘‘
اسی سورہ میں آگے فرمایا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰ٘وا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ. فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖﵐ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْﵐ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ.(۲: ۲۷۸ - ۲۷۹)
’’ ایمان والو، اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمھیں حق ہے، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا ۔‘‘
ان آیات میں سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے، دراں حالیکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے ؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں ہی کی طرح اٹھنا چاہیے۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی سود خواروں کے اس اظہارِ تعجب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اس قیاس کو..... لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہتہً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے، وہ محنت، زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اگر حاصل کر سکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کر دیا۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلہ کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتاہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کرلے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کرکے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے۔
بھلا بتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جانباز، غیور اور خدمت گزار سرمایہ سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل، بے غیرت اور دشمن انسانیت سرمایہ کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ج ۱، ص ۶۳۲ - ۶۳۳)
سود کی یہی شناعت ہے جس کی بنا پر، بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الربوٰا سبعون حرباً ايسرها ان ينكح الرجل امه.(ابن ماجہ، کتاب التجارات)
’’ سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اگر ستر حصے کیے جائیں تو سب سے ہلکا حصہ اس کے برابر ہو گا کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘
قرآنِ مجید نے اگرچہ سود لینے ہی کو حرام ٹھیرایا ہے، لیکن اس حرمت کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ بغیر کسی عذر کے اس کے کھانے اور کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں کو بھی تعاون علی الاثم کے اصول پر یکساں مجرم قرار دیا جائے۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
لعن الرسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اكل الربوٰا و موكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء.(مسلم، کتاب البیوع)
’’ سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اگر ستر حصے کیے جائیں تو سب سے ہلکا حصہ اس کے برابر ہو گا کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘
اسی طرح مبادلۂ اشیا کی صورت میں ادھار کے معاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہر آلایش سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
الذهب بالذهب وزناً بوزن، مثلًا بمثل، فمن زاد و استزاد فهو ربا.(مسلم، کتاب البیوع)
’’ تم سونا ادھار بیچو تو اس کے بدلے میں وہی سونا لو، اسی وزن اور اسی قسم میں اور چاندی ادھار بیچو تو اس کے بدلے میں وہی چاندی لو، اسی وزن اور اسی قسم میں، اس لیے کہ جس نے زیادہ دیا اور زیادہ چاہا تو یہی سود ہے ۔‘‘
الورق بالذهب ربا الا هاء وهاء والبر بالبر رباً الاهاء وهاء والشعير بالشعير رباً الاهاء وهاء والتمر بالتمر ربا الاهاء وهاء. (مسلم، کتاب البیوع)
’’ سونے کے بدلے میں چاندی ادھار بیچو گے تو اس میں سود آ جائے گا۔[46] گندم کے بدلے میں دوسری قسم کی گندم، [47]جو کے بدلے میں دوسری قسم کے جو اور کھجور کے بدلے میں دوسری قسم کی کھجور میں بھی یہی صورت ہو گی۔ ہاں البتہ یہ معاملہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
ان روایتوں کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر اپنے ترجمہ میں واضح کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، وہ یہی تھا۔ روایتیں اگر اسی صورت میں رہتیں تو لوگ ان کا یہ مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کرتے، لیکن بعض دوسرے طریقوں میں راویوں کے سوء فہم نے ان میں سے دوسری روایت سے ’هاء وهاء‘کا مفہوم پہلی روایت میں، اور پہلی روایت سے ’الذهب بالذهب ‘ کے الفاظ دوسری روایت میں ’الورق بالذهب‘ کی جگہ داخل کر کے انھیں اس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ ان کا حکم اب لوگوں کے لیے ایک لاینحل معما ہے۔ ہماری فقہ میں ’ربوٰا الفضل‘ کا مسئلہ اسی غتربود کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں واضح کر دی ہے کہ ’انما الربوٰا في النسيئة ‘[48] (سود صرف ادھار ہی کے معاملات میں ہوتاہے)۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سود کا تعلق صرف انھی چیزوں سے ہے جن کا استعمال ان کی اپنی حیثیت میں انھیں فنا کر دیتا اور اس طرح مقروض کو انھیں دوبارہ پیدا کر کے ان کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عقل و نقل دونوں کی رو سے ظلم ہے، لیکن اس کے برخلاف وہ چیزیں جن کے وجود کو قائم رکھ کر ان سے استفادہ کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں، اپنی اصل حیثیت ہی میں ان کے مالک کو لوٹا دی جاتی ہیں، ان کے استعمال کا معاوضہ کرایہ ہے اور اس پر، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ قرض کسی غریب اور نادار کو دیا گیا ہے یا کسی کاروباری یا رفاہی اسکیم کے لیے اس چیز کو ربوٰ کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ بات بالکل مسلم ہے کہ عربی زبان میں ربوٰ کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطعِ نظر محض اس معین اضافے ہی پر ہوتا ہے جو کسی بھی قرض کی رقم پر لیا جائے۔ چنانچہ یہ بات خود قرآنِ مجید ہی نے واضح کر دی ہے کہ اس کے زمانۂ نزول میں سودی قرض زیادہ تر کاروباری لوگوں کے مال میں جا کر بڑھنے ہی کے لیے دیے جاتے تھے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۠ فِيْ٘ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ.(الروم ۳۰: ۳۹)
’’اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دی تو اسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھاتے ہیں۔‘‘
اس میں دیکھ لیجیے ’ليربوا في اموال الناس ‘(اس لیے کہ وہ دوسروں کے اموال میں پروان چڑھے) کے الفاظ نہ صرف یہ کہ غریبوں کو دیے جانے والے صرفی قرضوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہیں، بلکہ صاف بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد ہی کے لیے دیا جاتا تھا اور اس طرح قرآنِ مجید کی تعبیر کے مطابق گویا دوسروں کے مال میں پروان چڑھتا تھا۔
یہی بات سورۂ بقرہ کی اس آیت سے بھی واضح ہوتی ہے:
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰي مَيْسَرَةٍﵧ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.(۲: ۲۸۰)
’’ اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو اور اگر تم بخش دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو ۔‘‘
استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ اس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عرب میں زمانہ نزول قرآن سے پہلے، جوسود رائج تھا یہ صرف مہاجنی سود تھا۔ غریب اور نادار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات ِ زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اوریہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے۔ اسی سود کو قرآن نے ربو ٰ قرار دیا ہے اور اسی کو یہاں حرام ٹھہرایا ہے۔ رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اس زمانے میں رواج ہے تو ان کا اس زمانے میں نہ تو دستور تھا نہ ان کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے۔
ان لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اس آیت کے اندر ہی موجود ہے۔جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذوعسرة) ہو تو اس کو کشادگی (ميسرة) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اس زمانے میں قرض لینے امیراور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے۔ بلکہ یہاں اگر اسلوبِ بیان کا صحیح صحیح حق ادا کیجیے تو یہ بات نکلتی ہے کہ قرض لین دین کی معاملت زیادہ تر مال داروں ہی میں ہوتی تھی۔ البتہ امکان اس کا بھی تھا کہ کوئی قرض دار تنگ حالی میں مبتلا ہو کہ اس کے لیے مہاجن کی اصل رقم کی واپسی بھی ناممکن ہو رہی ہو تو اس کے متعلق یہ ہدایت ہوئی کہ مہاجن اس کو اس کی مالی حالت سنبھلے تک مہلت دے اور اگر اصل میں معاف کر دے تو یہ بہتر ہے۔ اس معنی کا اشارہ آیت کے الفاظ سے نکلتا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ ’ان كان ذوعسرة فنظرة الي ميسرة‘ (اگر قرض دار تنگ حال ہو تو اس کو کشادگی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے)۔ عربی زبان میں ’ان‘کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ’اذا‘ ہے۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر قرض دار ’ذوميسرة‘ (خوش حال) ہوتے تھے لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ قرض دار غریب ہو یا قرض لینے کے بعد غریب ہو گیا ہو تو اس کے ساتھ اس رعایت کی ہدایت فرمائی۔ ‘‘ (تدبر قرآن، ج ۱، ص ۶۳۸ - ۶۳۹)
اس کے بعد انھوں نے اپنی اس بحث کا نتیجہ اس طرح بیان کیا ہے:
’’ ظاہر ہے کہ مال دار لوگ اپنی ناگزیرضروریاتِ زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے، بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ان قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا؟ ‘‘(تدبر قرآن، ج ۱، ص ۶۳۹)
سود کی حرمت کا یہ حکم قرض لینے اور دینے میں منفعت کا کوئی محرک چونکہ کسی صورت میں باقی نہیں رہنے دیتا، اس وجہ سے اس کا ایک اہم نتیجہ یہ بھی ہے کہ سرمایہ دار کی اعانت کے لیے قرض پر سرمایہ فراہم کرنے کا کوئی نظام کسی حال میں قائم نہیں ہو سکتا اور سرمایہ داری نظام کی عمارت بینکاری کے جس ستون پر کھڑی ہے، وہ ستون ہی اس طرح ڈھے جاتا ہے کہ کتاب الحیل کی مراجعت کے سوا پھر اس کی تعمیر کی کوئی صورت اس زمین پر باقی نہیں رہتی۔
لیکن قومی بچت کی تنظیم پھر اس کے بعد کس طرح کی جائے ؟ اس سوال کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے:
’ اولاً، یہ تنظیم ’كي لا يكون دولة‘کے اصول پر نجی شعبے کے لیے بالکل ممنوع قرار دی جائے۔ تمام بنک بیت المال کی شاخوں میں تبدیل کر دیے جائیں اور لوگ ان میں اپنی جو بچت جمع کرائیں، اسے حفاظت، مبادلہ اور تھوڑی مدت کے قرضوں اور اس طرح کی دوسری سہولتوں کے ساتھ عند الطلب واپسی کے وعدے پر ایک وسیع تر قومی شعبے کی تشکیل میں صرف کیا جائے جسے ریاست اجتماعی ضروتوں کے پیشِ نظر اپنی ترجیحات کے لحاظ سے اور اپنی منصوبہ بندی کے مطابق وجود میں لائے۔
ثانیاً، اس طریقے سے صنعت و حرفت کے جو ادارے اس شعبہ میں قائم کیے جائیں، ان کے قیام وانصرام اور ان کو چلانے کی ذمہ داری حکومت خود بھی قبول کرے اور جہاں مناسب ہو ان کے حصص کی ایک متعین مقدار نجی شعبہ کے ہاتھ فروخت کر کے ان کے نظم و نسق میں اسے بھی شریک کر لیا جائے یا ان پر خراج عائد کر کے انھیں اسی طرح نجی شعبہ کے حوالے کر دیا جائے، جس طرح سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں شام و عراق کی مفتوحہ زمینیں ریاست کی ملکیت قرار دے کر ان کے پرانے مالکوں ہی کے تصرف میں رہنے دیں اور ان کی پیداوار کے لحاظ سے ایک متعین رقم ان پر بطورِ خراج عائد کردی۔
ثالثاً، بازارِ حصص کو جوئے اور ضرر و غرر پر مبنی سودوں کی لعنت سے پاک کر کے اس طرح منظم کیا جائے کہ لوگ نجی اور قومی شعبہ کے کاروباری منصوبوں میں بغیرکسی تردد کے حصہ دار بن سکیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں، یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دنیا جدید معاشی نظریات کی پرپیچ راہوں سے نکل کر ٹھیک اس سواء السبیل کو پا لے گی، جہاں نہ سرمایہ داری کی لعنت باقی رہے گی اور نہ اشتراکیت کا ظلم و استبداد انسان کے تعاقب میں ہو گا۔
(باقی)
ـــــــــــــــــــــــــ
[13]۔ احمد بن حنبل، ج ۱ ص ۳۸۸۔
[14]۔ احمد بن حنبل، ج ۳ ص ۴۲۔
[15]۔ احمد بن حنبل، ج ۳ ص ۴۲۔
[16]۔ احمد بن حنبل، ج ۳ ص ۴۲۔
[17]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۵۴۔
[18]۔ احمد بن حنبل، ج ۳ ص ۴۲۔
[19]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۵۶۔
[20]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۵۸۔
[21]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۵۸۔
[22]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۵۸۔
[23]۔ احمد بن حنبل، ج ۳ ص ۴۲۔
[24]۔ احمد بن حنبل، ج ۱ ص ۱۱۶۔
[25]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۳۔
[26]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۳۔
[27]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۳۔
[28]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۳۔
[29]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۔
[30]۔ بخاری، کتاب البیوع، باب ۶۲۔
[31]۔ ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب ۲۲۔
[32]۔ بخاری، کتاب السلم، باب ۸۔
[33]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۲۔
[34]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۶۲۔
[35]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۵۰۔
[36]۔ بیہقی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی النہی عن بیع الصوف۔
[37]۔ بیہقی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی النہی عن بیع الصوف۔
[38]۔ ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب ۴۵۔
[39]۔ بخاری، کتاب السلم، باب ۶۴۔
[40]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۴۔
[41]۔ بخاری، کتاب السلم، باب ۷۔
[42]۔ مسلم، کتاب البیوع، باب ۱۳۔
[43]۔ بخاری، کتاب الحرث و المزارعتہ، باب ۷۔
[44]۔ بخاری، کتاب الشفعتہ، باب ۱۔
[45]۔ ترمذی، کتاب الاحکام، باب ۳۲۔
[46]۔ یہ سدِ ذریعہ کی نوعیت کا حکم ہے۔ آپ نے اس اندیشے سے کہ معاملہ چونکہ ادھار کا ہے اور صنف کے اختلاف کی وجہ سے اس میں کمی بیشی تو بہر حال ہو گی، لوگوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔
[47]۔ اس جملے کاعطف چونکہ ’الورق بالذهب‘پر ہوا ہے جس میں صنف کا اختلاف بالکل واضح ہے، اس وجہ سے عربیت کی رو سے ’البر بالبر‘میں پہلے ’البر ‘کے معنی، ظاہر ہے کہ دوسری قسم کی گندم ہی کے ہوسکتے ہیں۔
[48]۔ مسلم، کتاب البیوع۔