تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات ہی صحیح نہیں ہے کہ محکم اور متشابہ کو ہم پورے یقین کے ساتھ ایک دوسرے سے ممیزنہیں کر سکتے یا متشابہات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ قرآن کی وہ سب آیتیں محکم ہیں جن پر اس کی ہدایت کا مدار ہے اور متشابہات صرف وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کی صفات و افعال اور ہمارے علم اور مشاہدے سے ماورا اُس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے، مثلاً آدم میں اللہ تعالیٰ کا اپنی روح پھونکنا یا سیدنا مسیح علیہ السلام کا بن باپ کے پیدا کرنا یا جنت اور جہنم کے احوال و مقامات وغیرہ۔ وہ سب چیزیں جن کے لیے ابھی الفاظ وجود میں نہ آئے ہوں، انھیں تمثیل اور تشبیہ کے اسلوب ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ کسی نادیدہ عالم کے حقائق دنیا کی سب زبانوں کے ادب میں اسی طرح بیان کیے جاتے ہیں۔ آج سے دو صدی پہلے ہم میں سے کوئی شخص اگر مستقبل کا علم پا کر بجلی کے قمقموں کا ذکر کرتا تو غالباً اسی طرح کرتا کہ دنیا میں ایسے چراغ جلیں گے جن میں نہ تیل ڈالا جائے گا اور نہ انھیں آگ دکھانے کی ضرورت ہو گی۔ متشابہ آیات کی نوعیت بالکل یہی ہے۔ وہ نہ غیر متعین ہیں اور نہ ان کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے۔ ان کے الفاظ عربیِ مبین ہی کے الفاظ ہیں اور ان کے معنی بھی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ان کی حقیقت ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اس جاننے یا نہ جاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کسی صاحبِ ایمان کو اس کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں، وہ بجاے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے عقل اس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے، جتنا سمجھنا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے، البتہ چونکہ اس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے، اس وجہ سے قرآن ان کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدرِ استعداد ان سے فائدہ اٹھا لیں اور ان کی اصل صورت و حقیقت کو علمِ الہٰی کے حوالے کریں۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے، اتنا ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے اور اس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر ان کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اس کے اندر چبھا لیتا ہے، یہاں تک کہ اس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اس لیے تکذیب کر دیتا ہے کہ ان کی شکل و صورت ابھی اس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔‘‘ ( تدبرِ قرآن، ج ۲، ص۲۵ - ۲۶)
قرآن کی جس آیت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ متشابہات کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہات کے معنی اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے لیے اصل میں ’تاويل‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بالکل اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ سورۂ یوسف میں آیا ہے: ’قال يابت هذا تاويل رؤياي من قبل قد جعلها ربي حقاً‘[20]U (اس نے کہا: ابا جان، یہ ہے میرے اس خواب کی حقیقت جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اسے ثابت کر دکھایا ہے)۔ یہ خواب جن لفظوں میں قرآن نے بیان کیا ہے، اُن کے معنی ہر شخص پر واضح ہیں۔ عربی زبان کا ایک عام طالب علم بھی قرآن کی اُس آیت کا مفہوم جس میں یہ خواب بیان ہوا ہے[21] بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتا ہے، لیکن سورج اور چاند اور اُن گیارہ ستاروں کا مصداق کیا تھا جنھیں یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے دیکھا ؟ اس سے پوری قطعیت کے ساتھ کوئی شخص اُس وقت تک واقف نہیں ہو سکتا تھا جب تک یہ مصداق اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آ جاتا۔ متشابہ قرآن نے انھی چیزوں کو کہا ہے۔ اس کے معنی جس طرح کہ لوگ بالعموم سمجھتے ہیں، مشتبہ اورمبہم کے نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کے لیے میزان اور فرقان ہے، کسی حیثیت سے مجروح ہو۔ آیت یہ ہے:
هُوَ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌﵧ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖﵙ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗ٘ اِلَّا اللّٰهُﴵ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖﶈ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاﵐ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا٘ اُولُوا الْاَلْبَابِ.(آل عمران۳: ۷)
’’ وہی ہے جس نے تم پر کتاب اتاری جس میں کچھ آیتیں محکم ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہ،so[22] پھر جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ اس میں سے متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، اِس لیے کہ فتنہ پیدا کریں اور اِس لیے کہ اُن کی حقیقت جان لیں، دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جنھیں علم میں رسوخ عطا ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اِن پر ایمان لائے ہیں، یہ سب ہمارے پروردگار کے پاس ہی سے آیا ہے اور ان سے نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘
(باقی)
ـــــــــــــــــــــــــ
[20]۔ ۱۲: ۱۰۰۔
[21]۔ ۱۲: ۴۔
[22]۔ محکم اور متشابہ کے الفاظ اِس آیت میں اُس خاص اصطلاحی مفہوم کے لیے آئے ہیں جس کی وضاحت ہم نے اوپر کردی ہے۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر یہی دونوں لفظ اس سے مختلف معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں، یعنی محکم جامعیت اور ایجاز کی حامل آیتوں کے لیے اور متشابہ ہم رنگ اور ہم آہنگ کے مفہوم میں۔ ملاحظہ ہو: ہود ۱۱ : ۱ اور الزمر ۳۹: ۲۳۔