[نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظر ثانی اور بعض اہم مباحث کے اضافے کے ساتھ]
ہمارے خانقاہی نظام کی بنیاد جس دین پر رکھی گئی ہے، اُس کے لیے ہمارے ہاں’ تصوف‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ یہ اُس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے جس کی دعوت قرآن مجید نے بنی آدم کو دی ہے۔ اسلام اور تصوف کے بارے میں اپنا یہ نقطۂ نظر ہم ذیل میں تفصیل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
قرآن کی رو سے توحید بس یہ ہے کہ الٰہ صرف اللہ کو مانا جائے جو اُن تمام صفات کمال سے متصف اور عیوب و نقائص سے منزہ ہے جنھیں عقل مانتی اور جن کی وضاحت خود اللہ پروردگار عالم نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے کی ہے۔ ’ الٰہ ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جس کے لیے کسی نہ کسی درجے میں اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف ثابت کیا جائے۔ قرآن مجید کے نزدیک کوئی ایسی صفت یا حق بھی اگر کسی کے لیے تسلیم کیا جائے جو اِس امرو تصرف ہی کی بنا پر حاصل ہو سکتا ہو تو یہ درحقیقت اُسے ’ الٰہ ‘ بنانا ہے۔ چنانچہ وہ اِس امرو تصرف اور اِن حقوق و صفات کو صرف اللہ کے لیے ثابت قرار دیتا ہے۔ بنی آدم سے اُس کا مطالبہ ہے کہ وہ بھی اپنے ایمان و عمل اور طلب و ارادہ میں اِسے اللہ ہی کے لیے ثابت قرار دیں۔’ شرک‘ اُس کی اصطلاح میں اِسی سے انحراف کی تعبیر ہے۔
یہی توحید ہے جس پر اللہ کا دین قائم ہوا۔ یہی اُس دین کی ابتدا، یہی انتہا اور یہی باطن و ظاہر ہے۔ اِسی کی دعوت اللہ کے نبیوں نے دی۔ ابراہیم و موسیٰ، یوحنا و مسیح اور نبی عربی ـــــ اِن پر اللہ کی رحمتیں ہوں ــــسب اِسی کی منادی کرتے ہیں۔ تمام الہامی کتابیں اِسے ہی لے کر نازل ہوئیں۔ اِس سے اوپر توحید کا کوئی درجہ نہیں ہے، جسے انسان اِس دنیا میں حاصل کرنے کی سعی کرے۔ قرآن مجید نے شروع سے آخر تک اِسے ہی بیان کیا ہے۔ سورۂ حشر میں ہے :
هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَﵐ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِﵐ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ. هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَﵐ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُﵧ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ. هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰيﵧ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵐ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(۵۹ :۲۲ -۲۴)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، غائب و حاضر سے باخبر۔ وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، پادشاہ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب، بڑے زور والا، بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ اُن سے جو یہ شریک بتاتے ہیں۔ وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت دینے والا۔ سب اچھے نام اُسی کے ہیں۔ اُسی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والاہے۔ ‘‘
سورۂ اخلاص میں یہ اِس طرح بیان ہوئی ہے :
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ. اَللّٰهُ الصَّمَدُ. لَمْ يَلِدْﵿ وَلَمْ يُوْلَدْ. وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ.(۱۱۲ :۱- ۴)
’’کہہ دو، اللہ یکتا ہے۔ اللہ سب کا سہارا ہے۔ وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔‘‘
توبہ میں ہے :
اِتَّخَذُوْ٘ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَﵐ وَمَا٘ اُمِرُوْ٘ا اِلَّا لِيَعْبُدُوْ٘ا اِلٰهًا وَّاحِدًاﵐ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَﵧ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ.(۹: ۳۱)
’’اُنھوں نے اپنے علما اور راہبوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالاں کہ اُنھیں بس یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک ہی الٰہ کی عبادت کریں، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ پاک ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
اہل تصوف کے دین میں یہ توحید کا پہلا درجہ ہے۔ وہ اِسے عامۃ الناس کی توحید قرار دیتے ہیں۔ توحید کے مضمون میں اِس کی اہمیت، اُن کے نزدیک، تمہید سے زیادہ نہیں ہے۔ توحید کا سب سے اونچا درجہ اُن کے نزدیک یہ ہے کہ موجود صرف اللہ کو مانا جائے، جس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی درحقیقت موجود نہیں ہے۔ تمام تعینات عالم، خواہ وہ محسوس ہوں یا معقول، وجود حق سے منتزع اور محض اعتبارات ہیں، اُن کے لیے خارج میں وجود حق کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے۔ ذات باری ہی کے مظاہر کا دوسرا نام عالم ہے۔ یہ باعتبار وجود خدا ہی ہے، اگرچہ اِسے تعینات کے اعتبار سے خدا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس کی ماہیت عدم ہے۔ اِس کے لیے اگر وجود ثابت کیا جائے تو یہ شرک فی الوجود ہو گا۔ ’لا موجود إلا اللّٰه‘ سے اِسی کی نفی کی جاتی ہے :
جاروب ’لا‘ بیار کہ ایں شرک فی الوجود
باگرد فرش و سینہ بایواں برابرست
صاحب ’’منازل‘‘[1] لکھتے ہیں :
التوحید علی ثلاثة أوجه: الوجه الأوّل: توحید العامة وھو الذي یصح بالشواھد، والوجه الثاني: توحید الخاصة وھو الذي یثبت بالحقائق، والوجه الثالث: توحید قائم بالقدم وھو توحید خاصة الخاصة۔ فأما التوحید الأول فھو شھادة أن لا إله إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک له، الأحد الصمد الذي لم یلد ولم یولد، ولم یکن له کفوًا أحد.(۴۷)
’’توحید کے تین درجے ہیں : پہلا درجہ عوام کی توحید کا ہے، یہ وہ توحید ہے جس کی صحت دلائلm Tasaw[2] پر مبنی ہے۔ دوسرا درجہ خواص کی توحید کا ہے، یہ حقائق[3] سے ثابت ہوتی ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں وہ ذات قدیم ہی کے ساتھ قائم ہے،[4] یہ اخص الخواص کی توحید ہے۔ اب جہاں تک عوام کی توحید کا تعلق ہے تو وہ بس یہ ہے کہ اِس بات کی گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، صرف وہی الٰہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، وہ یکتا ہے، سب کا سہارا ہے، وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔ ‘‘
اپنی اِس توحید کی وضاحت میں، جسے اُنھوں نے ’ قائم بالقدم‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
إنه إسقاط الحدث وإثبات القدم.( ۴۷)
’’یہ حادث کی نفی اور قدیم کا اثبات ہے۔ ‘‘[5]
یہی بات غزالی[6] نے لکھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
والرابعة: أن لا یری في الوجود إلا واحدًا وھي مشاھدة الصدیقین و تسمیه الصوفیة الفناء في التوحید، لأنه من حیث لا یری إلا واحدًا فلا یری نفسه أیضًا وإذا لم یر نفسه لکونه مستغرقًا بالتوحید، کان فانیًا عن نفسه في توحیدہ بمعنی أنه فنی عن رؤیة نفسه والخلق. (احیاء علوم الدین ۴/۲۴۵)
’’توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری ہی کو موجود دیکھے۔ یہی صد یقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیہ اِسے ہی فنا فی التوحید کہتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا۔ اور جب وہ توحید میں اس استغراق کے باعث اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا تو اُس کی ذات اِس توحید میں فنا ہو جاتی ہے، یعنی اِس مرتبہ میںاُس کا نفس اور مخلوق، دونوں اُس کی نگاہوں کے لیے معدوم ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
ابن عربی نے اپنی کتابوں، بالخصوص ’’فصوص‘‘ اور ’’فتوحات‘‘[7] میں اِسی عقیدہ کی شرح و وضاحت کی ہے۔ اُن کے نزدیک عارف وہی ہے جو ذات حق اور ذات عالم کو باعتبارحقیقت الگ الگ نہ سمجھے، بلکہ جس کو، جس سے، جس میں اور جس کے ذریعے سے دیکھے، سب کو اِس اعتبار سے ذات حق ہی قرار دے۔[8]
فص ہودیہ میں ہے :
فمن رأی الحق منه فیه بعینه فذلک العارف، ومن رأی الحق منه فیه بعین نفسه فذلک غیر العارف، ومن لم یر الحق منه ولا فیه وانتظر أن یراہ بعین نفسه فھو الجاھل المحجوب.(فصوص الحکم ۱۱۳)
’’پس جس نے حق کو، حق سے، حق میں، چشم حق سے دیکھا، وہی عارف ہے۔ اور جس نے حق کو حق سے، حق میں دیکھا، مگر بچشم خود دیکھا، وہ عارف نہیں ہے۔ اور جس نے حق کو نہ حق سے دیکھا اور نہ حق میں اور اِس انتظار میں رہا کہ وہ اِسے بچشم خود ہی دیکھے گاeen[9] تو وہ مشاہدۂ حق سے محروم محض جاہل ہے۔‘‘
وہ لکھتے ہیں :
فلم یبق إلا الحق لم یبق کائن
فما ثم موصول و ما ثم بائن[10]
’’وجود ایک ہی حقیقت ہے، اِس لیے ذات باری کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ چنانچہ نہ کوئی ملاہوا ہے، نہ کوئی جدا ہے، یہاں ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے۔ ‘‘
فص ادریسیہ میں ہے :
فالأمر الخالق المخلوق، والأمر المخلوق الخالق، کل ذلک من عین واحدة، لا بل ھو العین الواحدة، وھو العیون الکثیرة. (فصوص الحکم ۷۸)
’’اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے۔ ‘‘Di[11]
شیخ احمد سرہندی[12] نے صرف ممکنات کی ماہیت میں ابن عربی سے اختلاف کیا ہے۔ ابن عربی کے نزدیک وہ اسما و صفات ہیں جنھیں مرتبۂ علم میں امتیاز حاصل ہوا ہے اور شیخ اُنھیں عدمات قرار دیتے ہیں جنھوں نے علم خداوندی میں تعین پیدا کیا اور مرتبۂ و ہم و حس میں ثابت ہو گئے ہیں۔ رہا اُن کے وجود کا مسئلہ تو اِس کے بارے میں اُن کی راے بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں :
ممکن را وجود ثابت کردن و خیر و کمال باو داشتن فی الحقیقت شریک کردن است او رادر ملک و ملک حق جل سلطانہ. (مکتوبات ۲، مکتوب ۱)
’’ممکن کے لیے وجود ثابت کرنااور خیر و کمال کو اُس سے متعلق ٹھیرانا درحقیقت اُسے ذات باری کی مِلک اور مُلک میں شریک کرنا ہے۔ ‘‘
تاہم، اپنے اِسی اختلاف کی بنا پر اُنھوں نے توحید شہودی کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عالم چونکہ مرتبۂ وہم میں بہرحال ثابت ہے، اِس لیے نفی صرف شہود کی ہونی چاہیے۔ اُن کے نزدیک، اِس مقام پر سالک اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ چنانچہ اِس وقت اُس کی توحید یہ ہے کہ وہ مشہود صرف اللہ کو مانے۔ ’’مکتوبات‘‘ میں ہے :
توحید شہودی یکے دیدن است، یعنی مشہود سالک جزیکے نہ باشد. (مکتوبات ۱، مکتوب ۴۳)
’’توحید شہودی یہ ہے کہ تنہا ذات حق ہی دکھائی دے، یعنی سالک کا مشہود اُس ذات کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو۔‘‘
یہ محض تعبیر کا فرق ہے۔ اِس باب میں قرآن مجید کی اُس صراط مستقیم سے انحراف کے بعد، جس میں نہ ممکن کے لیے وجود کا اثبات کوئی شرک ہے اور نہ موجود یا مشہود صرف اللہ ہی کو قرار دینا توحید کا کوئی مرتبہ ہے، اہل تصوف نے جو راہ اختیار کی ہے، یہ سب اُسی کے احوال و مقامات ہیں۔
شاہ اسمٰعیل اِس حقیقت کی وضاحت میں کہ یہ فی الواقع محض تعبیر کا فرق ہے، اپنی کتاب ’’عبقات‘‘[13]میں لکھتے ہیں :
اتفق أھل الکشف والوجدان وأرباب الشھود والعرفان مویدین بالبراھین العقلیة والإشارات النقلیة علی أن القیوم للکثرات الکونیة واحد شخصي. (اشارہ ۱، عبقہ ۲۰)
’’وہ سب لوگ جو کشف ووجدان اور شہود و عرفان کی نعمت سے بہرہ یاب ہوئے، [14]اِس بات پر متفق ہیں کہ تمام مخلوقات کے لیے مابہ التعین[15] ایک ہی متعین وجود ہے[16] اور عقل کے دلائل اور قرآن و حدیث کے اشارات سے اُن کی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ‘‘
وہ فرماتے ہیں :
ولیس بینھم وبین الشھودیة الظلیة اختلاف عند التحقیق، إلا في العبارات الناشئة من تغایر مقاماتھم واختلاف انحاء وصولھم إلی اللاھوت.(اشارہ۱، عبقہ ۲۰)
’’اور اُن میں (وجودیہ ورائیہ میں)[17]اور شہودیہ ظلیہ [18]میں، اگر تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو اِس کے سوا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اُنھوں نے اپنے مقامات کے فرق اور لاہوت[19] تک پہنچنے کی راہوں کے اختلاف کی وجہ سے اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے ایک دوسرے سے ذرا مختلف اسلوب اختیار کیا ہے۔ ‘‘
چنانچہ خود صاحب ’’عبقات‘‘ نے اپنی اِس توحید کے مراتب اِس طرح بیان کیے ہیں :
التفطن بالوحدة القیومیة للکثرة الکونیة واستقلالھا بالتحقیق والمبدیئة للاٰثار واضمحلال الکثرة تحتھا وتبعیتھا في الوجود یقینًا واطمئنانًا علمًا أو عینًا أو حقًا یسمی بتوحید ظاھر الوجود.(اشارہ ۱، عبقہ ۱۴)
’’یہ بات،اگر فی الواقع سمجھ میں آ جائے، خواہ یہ علم الیقین کے درجے میں ہو یا عین الیقین کے درجے میں اور خواہ حق الیقین کے درجے میں کہ تمام مخلوقات کے لیے مابہ التعین ایک ہی ہے ؛ استقلال، درحقیقت اُسے ہی حاصل ہے ؛ آثار کا مبدا وہی ہے ؛ کثرت اُس کے سامنے کچھ نہیں اور باعتبار وجود اُس کے تابع ہے، تو اِسے ’توحید ظاہر الوجود‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
اِسی ’’اشارہ‘‘ میں ہے :
فلا یزال العارف یسیر في اللّٰه حتی ینکشف الوحدة الجامعة لشتات الأسماء وھٰذا یسمی بتوحید باطن الوجود.(اشارہ۱،عبقہ ۳۶)
’’چنانچہ عارف کی یہ ’سیر فی اللہ‘h[20] جاری رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اُس وحدت کو پالیتا ہے جو تمام اسما کے لیے وحدت جامعہ ہے۔ یہ ’توحید باطن الوجود‘[21] ہے۔ ‘‘
پھر یہی نہیں، قرآن جس توحید کی دعوت بنی آدم کو دیتا ہے، وہ اُس کے نزدیک ایک واضح حقیقت ہے، جسے خود عالم کے پروردگار نے اپنی کتابوں میں بیان کیا، جس کی تعریف اُس کے نبیوں نے کی، جسے دلوں نے سمجھا، جس کا اقرار زبانوں نے کیا، جس کی گواہی اُس کے فرشتوں اور سب اہل علم نے دی اور جس کا کوئی پہلو اب سننے والوں اور جاننے والوں سے پردۂ خفا میں نہیں ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے :
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَﶈ وَالْمَلٰٓئِكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًاۣ بِالْقِسْطِﵧ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(آل عمران ۳: ۱۸)
’’اللہ، اُس کے فرشتوں اور اہل علم نے گواہی دی ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ عدل کا قائم رکھنے والا ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ سب پر غالب ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘
اللہ کے سب نبی اِسے دنیا میں عام کرنے اور انسانوں کو اِس کی طرف بلانے کے لیے آئے۔ اُنھیں اُس ہستی نے جس کا ارشاد ہے کہ وہ کسی کو تکلیف مالایطاق نہیں دیتی، اِس کا مکلف ٹھیرایا کہ وہ اِس کی تبلیغ کریں۔ اُنھیں بتایا گیا کہ اِس میں اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو یہ عین اُس فرض رسالت کے ادا کرنے میں کوتاہی ہو گی، جس کے ادا کرنے ہی کے لیے اللہ نے اُنھیں اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
يٰ٘اَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَﵧ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ.(المائدہ ۵: ۶۷)
’’اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتارا گیا ہے، اُسے اچھی طرح پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھا جائے گا کہ) تم نے اُس کا کچھ پیغام نہیں پہنچایا۔ ‘‘
اہل تصوف کے دین میں جب سالک اِس توحید کے اسرار پر مطلع ہوتا ہے جو اوپر بیان ہوئی تو الفاظ اُس کی تعبیر سے قاصر اور زبان اُس کی تعریف اور اُس کی تبلیغ سے عاجز ہو جاتی ہے۔[22] ’’منازل‘‘ میں ہے :
فإن ذٰلک التوحید تزیدہ العبارة خفاء والصفة نفورًا والبسط صعوبة.( ۴۸)
’’چنانچہ اِس توحید کو ظاہر کیجیے تو اور چھپتی ہے، اِس کی وضاحت کیجیے تو اور دور ہوتی ہے اور اِس کو کھولیے تو اور الجھتی ہے۔ ‘‘
وہ فرماتے ہیں :
وألاح منه لائحًا إلی أسرار طائفة من صفوتهه وأخرسھم عن نعته وأعجزھم عن بثه.( ۴۷)
’’اور یہ توحید ذات باری کی طرف سے اُس کے منتخب بندوں کی ایک جماعت ہی کے اسرار میں کچھ ظاہر ہوئی اور اِس نے اُنھیں اُس کے بیان سے قاصر اور اُس کے پھیلانے سے عاجز کر دیا۔‘‘
غزالی نے لکھا ہے :
فاعلم أن ھذہ غایة علوم المکاشفات وأسرار ھذا العلم لا یجوز أن تسطر في کتاب، فقد قالالعارفون: إفشاء سر الربوبیة کفر.(احیاء علوم الدین ۴/ ۲۴۶)
’’پس جاننا چاہیے کہ علوم مکاشفات کی اصل غایت یہی توحید ہے اور اِس علم کے اسرار کسی کتاب میں لکھے نہیں جا سکتے، اِس لیے کہ حدیث عارفاں ہے کہ سرربوبیت کو فاش کرنا کفر ہے۔‘‘
توحید کے باب میں یہی نقطۂ نظر اپنشدوں کے شارح شری شنکر اچاریہ، شری رام نوج اچاریہ، حکیم فلوطین اور اسپنوزا کا ہے۔ مغرب کے حکما میں سے لائبنز، فختے، ہیگل، شوپن ہاور اور بریڈلے بھی اِسی سے متاثر ہیں۔ اِن میں سے شری شنکر، فلوطین اور اسپنوزا وجودی اور رام نوج اچاریہ شہودی ہیں۔ گیتا میں شری کرشن نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔ اپنشد، برہم سوتر، گیتا اور فصوص الحکم کو اِس دین میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نبیوں کے دین میں تورات، زبو ر، انجیل اور قرآن کو حاصل ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت، یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالم گیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
نبوت و رسالتقرآن کی رو سے نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی و الہام اور مشاہدۂ غیب کا کوئی امکان ہے اور نہ اِس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ ختم نبوت کے یہ معنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے :
لم یبق من النبوة إلا المبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحة.(بخاری، رقم ۶۹۹۰)
’’نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا : یہ مبشرات کیا ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب۔‘‘ [23]
اہل تصوف کے دین میں یہ سب چیزیں اب بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔ اُن کے نزدیک وحی اب بھی آتی ہے، فرشتے اب بھی اترتے ہیں، عالم غیب کا مشاہدہ اب بھی ہوتا ہے اور اُن کے اکابر اللہ کی ہدایت اب بھی وہیں سے پاتے ہیں جہاں سے جبریل امین اُسے پاتے اور جہاں سے یہ کبھی اللہ کے نبیوں نے پائی تھی۔ غزالی کہتے ہیں :
من أول الطریقة تبتدیٔ المکاشفات والمشاھدات حتٰی أنھم في یقظتھم یشاھدون الملٰئکة وأرواح الأنبیاء ویسمعون منھم أصواتًا ویقتبسون منهم فوائد.(المنقذ من الضلال۵۰)
’’اِس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے، اُن کی آوازیں سنتے اور اُن سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘
اِن اکابر کا الہام اِن کی عصمت کی وجہ سے قرآن مجید ہی کی طرح شائبۂ باطل سے پاک اور ہر شبہ سے بالا ہوتا ہے۔ صاحب ’’عبقات‘‘ اُس ہستی کے بارے میں جو اُن کے نزدیک مقامات وہبیہ میں پہلے مقام[24]a پر فائز ہوتی ہے، لکھتے ہیں :
فھو وجیه معصوم صاحب ذوق حکیم، ثم إن مما یقتضي تربیة اللّٰه إیاه أن یلقي علیه علومًا نافعة في قیامه بمنصبه فھذا الإلقاء یسمّٰی تفھیمًا. وإن مما یقتضي تیقظ روحه وعصمته إلا یختلط بعلومه شيء مغایر لما تلقاہ من الغیب. ولذٰلک کانت الحکمة کلھا حقًا لا یاتیه الباطل من بین یدیه ولا من خلفه. ولما کان التفھیم من أعلٰی أقسامھا فلا بعد أن یسمی بالوحي الباطن. (اشارہ ۴، عبقہ ۱۱)
’’چنانچہ یہ ہستی صاحب وجاہت، معصوم، صاحب ذوق اور صاحب حکمت ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اِس کی تربیت کے پیش نظر اِس پر وہ علوم القا فرماتے ہیں جو اِس کے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اِس کے لیے نافع ہوتے ہیں۔ اِس القا کو تفہیم بھی کہتے ہیں۔ پھر اِس کی عصمت اور اِس کی روح کی بیداری کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اِس نے جو کچھ غیب سے پایا ہے، اُس میںکسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کی حکمت تمام تر حق ہوتی ہے، جس میں باطل نہ آگے سے کوئی راہ پا سکتا ہے، نہ پیچھے سے۔ اور یہ تفہیم چونکہ اِس حکمت کی سب سے اعلیٰ قسم ہے، اِس وجہ سے اِسے اگر ’وحی باطن‘سے تعبیر کیا جائے تو یہ کوئی بعید تعبیر نہ ہو گی۔ ‘‘
اُن کے نزدیک یہ ہستی اگر نبی کی مقلد بھی بظاہر نظر آتی ہے تو صرف اِس وجہ سے کہ اِسے غیب سے اُس کی تائید کا حکم دیا جاتا ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ ہدایت الٰہی اور علوم غیب کو پانے کے لیے کسی نبی یا فرشتے کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں :
فالحکیم لوجاھته وعصمته وکونه باسطًا لحظیرة القدس، شأنه شأن الملأ الأعلٰی، یتلقی العلوم من حیث یتلقون، لا یقلد أحدًا في علومه، اللّٰھم إلا أن یسمّٰی موافقته لصاحب الشرع تقلیدًا لکونه مامورًا من الغیب بموافقته وتائیدہ. (اشارہ۴، عبقہ ۱۱)
’’پس اِس ہستی کا معاملہ اِس کی وجاہت و عصمت کی بنا پر اور اِس بنا پر کہ عالم قدس کی تجلیات اِسی سے پھیلتی ہیں، بالکل وہی ہوتا ہے جو آسمان کے فرشتوں کا ہے۔ یہ اپنے علوم وہیں سے حاصل کرتی ہے جہاں سے وہ حاصل کرتے ہیں اور اِس معاملے میں کسی کی مقلد نہیں ہوتی۔ ہاں، البتہ صاحب شریعت نبی کی تائید و موافقت کے لیے چونکہ یہ غیب سے مامور ہوتی ہے، اِس وجہ سے کوئی شخص اگر اِس تائید و موافقت کو اُس نبی کی تقلید کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے۔ ‘‘
یہ ہستی جب زمین پر موجود ہوتی ہے تو حق وہی قرار پاتا ہے جو اِس کی زبان سے نکلتا اور اِس کے وجود سے صادر ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی حجت بھی اِس کے سامنے اِس کی اپنی حجت کے تابع ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
و إن الحق یدور معه حیث دار وذلک لعصمته والتحاقه بالملأ الأعلٰی، فلیس الحق إلا ما سطع من صدرہ، فالحق تابع له لا متبوع.(اشارہ۴، عبقہ ۱۱)
’’اور حق جہاں یہ ہستی گھومتی ہے، اِس کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہستی ملاء اعلیٰ کے ساتھ شامل اور معصوم ہوتی ہے۔ چنانچہ حق وہی قرار پاتا ہے جو اِس کے سینے سے نمایاں ہوتا ہے۔ پس حق اِس ہستی کے تابع ہوتا ہے، وہ حق کے تابع نہیں ہوتی۔ ‘‘
صاحب ’’عوارف‘‘[25] نے غالباً اِسی مقام کے حامل شیخ تصوف کے بارے میں لکھا ہے :
فالشیخ للمریدین أمین الإلھام کما أن جبریل أمین الوحي، فکما لا یخون جبریل في الوحي، لا یخون الشیخ في الإلھام، و کما أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم لا ینطق عن الھوی فالشیخ مقتد برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ظاھرًا وباطنًا لا یتکلم بھوی النفس.(۴۰۴)
’’چنانچہ شیخ اپنے مریدوں کے لیے اُسی طرح الہام کا امین ہے، جس طرح جبریل امین وحی ہیں۔ پھرجس طرح جبریل وحی میں کوئی خیانت نہیں کرتے، اُسی طرح شیخ الہام میں خیانت نہیں کرتا اور جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتے، اُسی طرح شیخ بھی ظاہر و باطن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیروی کرتا ہے، وہ بھی اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولتا۔ ‘‘
چنانچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اِن کے بعض اکابر بھی آسمان پر گئے، تجلیات کا نظارہ کیا اور وہاں آپ ہی کی طرح مخاطبۂ الٰہی سے سرفراز ہوئے۔ صاحب ’’قوت القلوب‘‘[26] بایزید بسطامی[27] کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے خود بیان کیا :
أدخلني في الفلک الأسفل فدورني في الملکوت السُّفلی فأراني الأرضین وما تحتھا إلی الثرٰی، ثم أدخلني في الفلک العلوي فطوف بيفي السمٰوٰت وأراني ما فیھا من الجنان إلی العرش، ثم أوقفني بین یدیہ فقال لي: سلني أي شيء رأیت حتی أھبه لک. (۲/۷۰)
’’اللہ تعالیٰ مجھے فلک اسفل میں لے گئے اور ملکوت سفلی کی سیر کرائی، اِس طرح مجھے ساری زمینیں اور پاتال تک دکھائی، پھر فلک علوی میں لے گئے اور مجھے سارے آسمان اور اُن میں بہشت کے باغوں سے لے کر عرش بریں تک جو کچھ ہے، وہ سب دکھایا۔ اِس کے بعد مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا : مانگو جو کچھ تم نے دیکھا ہے، میں تمھیں دوں گا۔ ‘‘
اُن کا عقیدہ ہے کہ انسان کامل کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہر زمانے میں اُن کے اکابر کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ عبد الکریم الجیلی[28] نے لکھا ہے :
إن الإنسان الکامل ھو القطب الذي تدور علیه أفلاک الوجود من أوله إلٰی آخرہ وھو واحد منذکان الوجود إلی أبد الآبدین، ثم له تنوع في ملابس و یظھر في کنائس فیسمی به باعتبار لباس، ولا یسمی به باعتبار لباس آخر، فاسمه الأصلي الذي ھو له محمد وکنیته أبو القاسم ووصفه عبد اللّٰه ولقبه شمس الدین، ثم له باعتبار ملابس أخری أسامي وله في کل زمان اسم ما یلیق بلباسه في ذلک الزمان. فقد اجتمعت به صلی اللّٰه علیه وسلم وھو في صورة شیخي شرف الدین إسمٰعیل الجبرتي وکنت أعلم أنه النبي صلی اللّٰه علیه وسلم وکنت أعلم أنه الشیخ.(ورقہ ۴۶ اب)[29]
’’انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابدالآباد تک وہ ایک ہی ہے، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے، جب کہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمد ہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیار کرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں۔ ‘‘
وہ بالصراحت کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے معنی صرف یہ ہیں کہ منصب تشریع اب کسی شخص کو حاصل نہ ہو گا۔ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات اُسی طرح باقی ہیں اور یہ اب بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ ’’فتوحات‘‘[30] میں ہے :
فإن النبوة التي انقطعت بوجود رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إنما ھي نبوة التشریع لا مقامھا، فلا شرع یکون ناسخًا لشرعه صلی اللّٰه علیه وسلم ولا یزید في حکمه شرعًا آخر. وھٰذا معنی قوله صلی اللّٰه علیه وسلم: إن الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدي ولا نبي: أي لا نبي بعدي یکون علی شرع مخالفًا لشرعي، بل إذا کان یکون تحتحکم شریعتي.(۳/۶)
’’چنانچہ جو نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی، وہ محض تشریعی نبوت ہے۔ نبوت کا مقام ابھی باقی ہے، اِس وجہ سے بات صرف یہ ہے کہ اب کوئی نئی شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہ منسوخ کرے گی اور نہ آپ کے قانون میں کسی نئے قانون کا اضافہ کرے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نبوت و رسالت ختم ہو گئی، اِس لیے میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہ ہو گا، درحقیقت اِسی مدعا کا بیان ہے۔ آپ کے اِس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جس کی شریعت میری شریعت کے خلاف ہو، بلکہ وہ جب ہو گا تو میری شریعت ہی کا پیرو ہو گا۔ ‘‘
شیخ احمد سر ہندی لکھتے ہیں :
باید دانست کہ منصب نبوت ختم بر خاتم الرسل شدہ است علیہ و علی آلہ الصلوٰت و التسلیمات، اما از کمالات آں منصب بطریق تبعیت متابعان اور انصیب کامل است. (مکتوبات ۱، مکتوب ۲۶۰)
’’جاننا چاہیے کہ منصب نبوت، بے شک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، لیکن اِس منصب کے کمالات آپ کے پیرووں کو آپ کے پیرو ہی کی حیثیت سے اب بھی پورے حاصل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
اِس کے بعد وہ آگے بڑھتے ہیں او رحریم نبوت میں یہ نقب لگانے کے بعد ــــــ یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ، کا نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے لا مکاں کی پہنائیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت اُن کے علم و تصرف کا عالم کیا ہوتا ہے، قشیری[31] لکھتے ہیں :
کان یری جملة الکون یضئ بنور کان له حتی لم یخف من الکون علیه شيئ، وکان یری جمیع الکون من السماء والأرض رویة عیان ولکن بقلبه.(ترتیب السلوک ۶۷)
’’اِس راہ کے سالک کو یہ سارا عالم اُس کے اپنے ہی نور سے روشن دکھائی دیتا ہے، یہاں تک کہ اُس کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ آسمان سے زمین تک یہ ساری کائنات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ ہاں، مگر دل کی آنکھوں کے سامنے۔ ‘‘
’’الانسان الکامل‘‘ میں ہے :
فکل واحد من الأفراد والأقطاب له التصرف في جمیع المملکة الوجودیة ویعلم کل واحد منھم ما اختلج في اللیل والنھار فضلاً عن لغات الطیور. وقد قال الشبلي رحمه اللّٰه تعالٰی: لو دبت نملة سوداء علی صخرة صماء في لیلة ظلماء ولم أسمعھا لقلت: إني مخدوع أو ممکور بي. (ورقہ ۱۳۶ ب)
’’اِن افراد و اقطاب میں سے ہر ایک کو اِس پوری مملکت وجود میں تصرف حاصل ہوتا ہے۔ پرندوں کی بولیاں تو کیا، رات اور دن میں جو کھٹکا بھی ہوتا ہے، وہ اُس سے واقف ہوتے ہیں۔ شبلی نے کہا ہے: اگر کوئی کالی چیونٹی بھی اندھیری رات میں کسی سخت پتھر پر چلتی اور میں اُس کی آواز نہ سنتا تو بے شک، میں یہی کہتا کہ مجھے فریب دیا گیا ہے یا میں دھوکے میں رہا ہوں۔ ‘‘
ابن عربی نے لکھا ہے :
وھم من العلم بحیث إذا راٰی أحدھم أثروطأة شخص فيالأرض علم أنھا وطأة سعید أو شقي.(فتوحات مکیہ۳/۱۳)
’’اُن کے علم کی شان یہ ہوتی ہے کہ اُن میں سے کوئی اگر کسی شخص کا نقش قدم بھی دیکھ لے تو اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے یا اہل جنت میں سے۔ ‘‘
وہ کہتے ہیں :
...حتی یھتف بک، وأنت لا تراہ ویمشي علی الماء وفي الھواء و یصیر کالھیولٰی قابلاً للتشکیل والصور کالعالم الروحاني، مثل جبریل علیه السلام الذي کان ینزل تارة علی صورة دحیة و قد تجلی له صلی اللّٰه علیه وسلم وقد سد الآفاق وله ست مائة جناح.(مواقع النجوم ۶۵)
’’... یہاں تک کہ تم اُس کی آواز سنتے ہو، لیکن وہ تمھیں دکھائی نہیں دیتا، اور وہ پانی پر چلتا اور ہوا میں اڑتا ہے، اور ہیولا کی طرح ہر شکل اختیار کر لینے اور ہر صورت بدل لینے کے قابل ہو جاتا ہے، جس طرح عالم روحانی کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ مثال کے طور پر جبریل علیہ السلام دحیہ کی صورت میں بھی آتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ اِس طرح بھی آئے کہ سارا افق اُن سے بھرا ہوا تھا اور آپ نے دیکھا کہ اُن کے چھ سو بازو ہیں۔ ‘‘
چنانچہ خدا کی پادشاہی میں وہ اِس شان سے اُس کے شریک ہو جاتے ہیں کہ خامۂ تقدیر کو لوح محفوظ پر لکھتے ہوئے ہر لحظہ دیکھتے، دل کے خیالات کو جانتے، اِس عالم کو صبح و شام تھامتے، سنبھالتے اور عالم امر میں ذات خداوندی کا آلہ بن جاتے ہیں۔
ابن عربی لکھتے ہیں :
من الصوفیة من لا یزال عاکفًا علی اللوح.(مواقع النجوم ۲۲)
’’صوفیوں میں سے وہ بھی ہیں، جن کی نگاہیں ہمیشہ لوح محفوظ ہی پر لگی ہوتی ہیں۔ ‘‘
وہ فرماتے ہیں :
العارف ھو الذي ینطق عن سرک وأنت ساکت.(مواقع النجوم ۲۶)
’’عارف، درحقیقت وہی ہے جو تجھ سے کچھ سنے بغیر تیرے دل کی بات تجھے بتا دے۔‘‘
اپنے ’مردان غیب‘[32] میں سے اوتاد کے بارے میں اُنھوں نے لکھا ہے :
الواحد منھم یحفظ اللّٰه به المشرق وولایته فیه، والآخر المغرب، والآخر الجنوب والآخر الشمال، والتقسیم من الکعبة، وھٰؤلاء قد یعبر عنھم بالجبال لقوله تعالٰی: ’’اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا‘‘. فإنه بالجبال سکن مید الأرض، کذلک حکم ھٰؤلاء في العالم حکم الجبال في الأرض.(فتوحات مکیہ۳/۱۲)
’’اُن میں سے ایک کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت کرتے ہیں اور اُس کی ریاست اِسی میں ہے۔ دوسرے تین مغرب، جنوب اور شمال کی حفاظت پر مامور ہیں۔ سمتوں کا یہ تعین بیت اللہ سے ہوتا ہے۔ یہی وہ اشخاص ہیں جنھیں ارشاد خداوندی ’اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا‘[33] کی بنا پر کبھی کبھی ’جبال‘، یعنی پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پہاڑ ہی ہیں جو زمین کو جھک پڑنے سے روکتے ہیں۔ اِن اشخاص کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ زمین کے پہاڑوں ہی کی طرح اِس عالم کو تھامے رہتے ہیں۔‘‘
شاہ ولی اللہ دہلوی[34] اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
رأیتني في المنام قائم الزمان، أعني بذلک أن اللّٰه إذا أراد شیئًا من نظام الخیر جعلني کالجارحة لإتمام مرادہ.(فیوض الحرمین، مشاہدہ ۴۴)
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظام خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے۔ ‘‘
یہی مقام ہے، جس پر پہنچنے کے بعد پھر وہ کہتے ہیں : ’معاشر الأنبیاء، أوتیتم اللقب، وأوتینا ما لم تؤتوا‘،[35] اے جماعت انبیا، تمھیں صرف نبی کا لقب دیا گیا اور ہمیں وہ کچھ دیا گیا جس سے تم محروم ہی رہے۔
قرآن جس دین کو لے کر نازل ہوا ہے، اُس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان سے اُس کے خالق کو جو اصل چیز مطلوب ہے، وہ اُس کی عبادت ہے۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِعَعْبُدُوْنِ.(الذّٰریٰت ۵۱: ۵۶)
’’اور جنوں اور انسانوں کو میں نے صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر انسان کو اِسی حقیقت سے آگاہ کر دینے کے لیے بھیجے تھے۔ سورۂ نحل میں ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ.(۱۶: ۳۶)
’’اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اِس دعوت کے ساتھ اٹھایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘
اِس سے جو تعلق انسان اور اُس کے خالق کے مابین قائم ہوتا ہے، وہ عبد اور معبود کا تعلق ہے، اور انسان کی ساری سعی و جہد کا مقصود اِس دنیا میں یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت کا حق اِس طرح ادا کرے کہ دنیا اور آخرت میں اُس کی رضا اُسے حاصل ہو جائے۔
اہل تصوف کے دین میں، اِس کے برخلاف انسان چونکہ ذات خداوندی ہی کے ایک تعین کا نام ہے، اور اِس تعین کی وجہ سے وہ چونکہ عالم لاہوت سے اِس عالم ناسوت میں آ پڑا ہے، اِس لیے جو چیز اصلاً اُس سے مطلوب ہے، وہ اپنی اِس حقیقت کی معرفت اور اِس کی طرف رجعت کی جدوجہد ہے۔ چنانچہ انسان کا جو تعلق اِس دین میں ذات خداوندی سے قائم ہوتا ہے، وہ عاشق و معشوق کا تعلق ہے۔ وہ اپنی اصل حقیقت، یعنی ذات خداوندی کو معشوق قرار دے کر اُس کے ہجر میں تڑپتا، نالہ کھینچتا، فریاد کرتا اور پھر کسی مرشد کی رہنمائی میں پہلے اِس حقیقت کی معرفت حاصل کرتا اور پھر مقام جمع تک رسائی حاصل کر کے اپنے معشوق سے واصل ہو جاتا ہے۔
صاحب ’’منازل‘‘ اپنی کتاب میں اِس ’جمع‘ کو ’ غایة مقامات السالکین‘ قرار دیتے اور اِس کی تعریف میں فرماتے ہیں :
الجمع: ما أسقط التفرقة وقطع الإشارة وشخص عن الماء والطین بعد صحة التمکین والبراءة من التلوین والخلاص من شھود الثنویة والتنافي من إحساس الاعتلال والتنافي من شھود شھودھا.(منازل السائرین ۴۶)
’’جمع وہ مقام ہے، جو خالق و مخلوق کے مابین اُن کی حقیقت کے اعتبار سے تفرقہ مٹا دے اور اشارہ[36] ختم کر دے اور آب و گل سے اِس طرح رحلت کرے کہ حادث پوری صحت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے محو اور قدیم ثابت ہو،[37] اور اِس محو و اثبات کے مابین تردد کی ہر صورت سے براء ت ہو جائے[38] اور دوئی کے شہو د سے نجات پا لی جائے اور علت و معلول کا احساس فنا ہو جائے، یہاں تک کہ اِن سب چیزوں پر اطلاع پانے کی اطلاع بھی باقی نہ رہے۔ ‘‘
مثنوی کی ابتدا میں یہی بات ہے جسے رومی نے اپنے لافانی اشعار میں اِس طرح بیان کیا ہے :
بشنواز نے چوں حکایت می کند وز جدائی ہا شکایت می کند
کزنیستاں تا مرا ببریدہ اند درنفیرم مرد و زن نالیدہ اند
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تا بگویم شرح درد اشتیاق
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش
موت اور قیامت اِن مقامات کے حاملین کے لیے یہی رجعت اور وصال ہے۔ لہٰذا اِس کی یاد میں جو تقریب منعقد کی جاتی ہے، اُسے ’عرس‘،یعنی تقریب نکاح کہا جاتا ہے۔ تصوف کی ساری شاعری اِسی معاملۂ عشق کا بیان ہے، جس سے ایک ہی وقت میں عامی بادۂ انگور کے مزے لیتے، اور عارف بادۂ عرفان کی لذت پاتے ہیں :
ما در پیالہ عکس رخ یار دیدہ ایم
اے بے خبر ز لذت شرب مدام ما
قرآن نے جو دین ہمیں دیا ہے، اُس کے بارے میں یہ بات بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ گیا ہے، اور اُس میں اب کسی اضافے یا کمی کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں، قرآن نے بتایا ہے کہ اِس اکمال دین کی صورت میں اتمام نعمت بھی ہوا ہے، لہٰذا عوام و خواص کے وہ سب مراتب جو دین میں مطلوب ہیں، اُن کے لیے ساری ہدایت اُسی میں ہے، اُس سے باہر کسی کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.(المائدہ ۵: ۳)
’’آج میں نے تمھارا دین تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے، اور (اِس طرح) اپنی نعمت تم پر پوری کر دی، اور تمھارے لیے دین اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ ‘‘
چنانچہ اِسی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں فرمایا کرتے تھے :
فإن خیر الحدیث کتاب اللّٰه وخیر الھدی ھدی محمد وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة. (مسلم، رقم ۲۰۰۵)
’’بہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت (اللہ کے پیغمبر) محمد کی ہدایت ہے اور سب سے بری باتیں وہ ہیں جو اِس دین میں نئی پیدا کی جائیں، اور اِس طرح کی ہر نئی بات گم راہی ہے۔ ‘‘
اہل تصوف کے دین میں اللہ تعالیٰ کی یہ ساری ہدایت جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے، درحقیقت لوگوں کی اصلاح کے لیے ایک عمومی ضابطہ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ کوئی چیز اگر حاصل کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ظلم اور آخرت کے عذاب سے نجات پا لیں۔ رہا اِس سے آگے خواص اور اخص الخواص کے مراتب فنا و بقا اور تمکین تام تک پہنچنے کا طریقہ، تو یہ ہدایت نہ اِس کے لیے آئی ہے، اور نہ اِس طرح کی کوئی چیز اِس میں کسی شخص کو کبھی تلاش کرنی چاہیے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی کتاب ’’الطاف القدس‘‘ میں لکھتے ہیں :
وعلت غائیہ آں اخلاص ازتظالم در دنیا و مبتلاشدن بعذاب قبر و روز حشر است، نہ وصول بفنا و بقاے ہر لطیفہ و حصول مرتبۂ بقاے مطلق و تمکین تام۔ ہر کلامے ازاں خلاصۂ بشر علیہ افضل الصلوٰت والتسلیمات کہ بتورسد محمل آں فی الحقیقت ہماں قدر است۔ مقاصد و مصالح او امرو نواہی آں حضرت نشناختہ است کسے کہ بر مراتب دیگر حمل می کند۔ (۱۴)
’’اور اِس (شریعت) کا مقصود یہ ہے کہ لوگ دنیا میں ایک دوسرے کے ظلم اور (مرنے کے بعد) قبر اور حشر کے عذاب سے بچ جائیں۔ ہر لطیفہ کی فنا و بقا تک پہنچنا اور بقاے مطلق اور تمکین تام کا مرتبہ حاصل کرنا اِس میں پیش نظر ہی نہیں ہے۔ جو کلام بھی خلاصۂ بشر صلی اللہ علیہ وسلم سے تمھیں پہنچے، اُس کا محمل درحقیقت یہی مقدار ہے۔ آپ نے جو احکام دیے اور جن چیزوں سے روکا ہے، اُن کے مقاصد اور مصالح اُس شخص نے سمجھے ہی نہیں جو اُنھیں دوسرے مراتب پر محمول کرتا ہے۔ ‘‘[39]
لیکن یہ لطائف فنا و بقا اور تمکین تام پھر کہاں سے حاصل ہوں ؟ شاہ ولی اللہ اِسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ اِن کا علم سب سے پہلے سید الطائفہ جنید بغدادی نے مرتب فرمایا، اور اِسے قرآن و سنت سے نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست اِس طرح اخذ کیا ہے، جس طرح مثال کے طو رپر، خربوزہ آفتاب سے اپنی نشوونما اور تکمیل کے لیے کسب فیض کرتا ہے، دراں حالیکہ نہ خربوزہ جانتا ہے کہ اُس کی تکمیل آفتاب کی مرہون منت ہے اور نہ آفتاب ہی کو کچھ خبر ہوتی ہے کہ اُس سے دور زمین پر کوئی خربوزہ اُس کے ذریعے سے اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
بہ ہمیں اسلوب نفوس کلیہ کہ مبدء فیض ایشاں را براے مصلحت کلیہ بزمین فرود آوردہ است، نفوس ناقصہ را مکمل می سازند۔ وایں جاہیچ پیغامی و کلامی درمیاں نمی باشد۔ آرے اذکیا نفوس بوجہی از وجوہ ایں منت رامی شناسند و آں معنی حاصل برآں می شود کہ از کلمات و اقوال آں برزخ برسبیل اعتبار و اشارہ استنباط آں اسرار کنند۔ (۱۴)
’’یہی طریقہ ہے[40] جس سے نفوس کلیہ جنھیں مبدء فیض نے مصلحت کلی کے لیے زمین پر اتارا ہے، ناقص لوگوں کی تکمیل کرتے ہیں، اور اِس جگہ کوئی پیغام و کلام اُن کے درمیان نہیں ہوتا۔ ہاں، ذکی طبیعتیں کسی نہ کسی طرح اِس عنایت کو پہچان لیتی ہیں اور اِس کا نتیجہ اُن کے لیے یہ نکلتا ہے کہ اُس برزخ، (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال و کلمات سے اعتبار و اشارہ کے طور پر وہ اُن اسرار کا استنباط کر لیتی ہیں۔ ‘‘
یہ صاحب ’’الطاف القدس‘‘ کا اسلوب ہے۔ اِس زمانے کے اہل تصوف اِس معاملے میں اپنے مدعا کی تقریر بالعموم اِس طرح کرتے ہیں کہ دین کا منتہاے کمال ’’احسان‘‘ ہے۔ اِس کے حصول کا کوئی طریقہ قرآن و سنت میں بیان نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ ارباب تصوف تھے، جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقے دریافت کیے، اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ’’طریقت‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔
رشید احمد گنگوہی[41] فرماتے ہیں :
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت روحانی کی یہ حالت تھی کہ بڑے سے بڑے کافر کو ’ لا إلٰه إلا اللّٰه‘ کہتے ہی مرتبۂ ’’احسان‘‘ حاصل ہو جاتا تھا جس کی ایک نظیر یہ ہے کہ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم پاخانہ پیشاب کیسے کریں اور حق تعالیٰ کے سامنے ننگے کیوں کر ہوں؟ یہ انتہا ہے۔ اور اُن کو مجاہدات اور ریاضات کی ضرورت نہ ہوتی تھی اور یہ قوت بہ فیض نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں تھی، مگر جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کم تھی، اور تابعین میں تھی، مگر صحابہ سے کم تھی، لیکن تبع تابعین میں یہ قوت بہت ہی کم ہو گئی، اور اِس کی تلافی کے لیے بزرگوں نے مجاہدات اور ریاضات ایجاد کیے۔ ‘‘[42] (ارواح ثلاثہ ۲۹۷)
چنانچہ اِس تصور کے تحت اور ادواشغال اور چلوں اور مراقبوں کی ایک پوری شریعت[43] ہے جو خدا کی شریعت سے آگے اور قرآن و سنت سے باہر، بلکہ اُن کے مقاصد کے بالکل خلاف اِن اہل تصوف نے طریقت کے نام سے رائج کرنے کی کوشش کی ہے، اور اِس کے بارے میں وہ برملا کہتے ہیں کہ اِس کا علم جس طرح ہمارے مشائخ سے تعلق پیدا کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے، اُس طرح کسی دوسرے طریقے سے اِس کا حصول اب لوگوں کے لیے آسان نہیں رہا۔
پھر یہی نہیں، محاسن اخلاق، یعنی صبر، شکر، صدق، ایثار، رضا، حیا، تواضع، توکل اور تفویض وغیرہ کے جو درجات اِس دین میں بیان کیے جاتے ہیں، اُن کے لحاظ سے اللہ کے پیغمبر اور اُن کے صحابہ کو بھی دیکھیے تو بہ مشکل پہلے یا دوسرے درجے تک ہی پہنچتے معلوم ہوتے ہیں۔ صاف واضح ہوتا ہے کہ اِس سے آگے اخص الخواص کے درجے تک اُن کی رسائی بھی نہیں ہو سکی۔ تصوف کی امہات کتب میں سے مثال کے طور پر ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘، ابو اسمٰعیل ہروی کی ’’منازل السائرین‘‘ اور غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ کا ایک بڑا حصہ اِنھی مباحث کے لیے خاص ہے۔ اِن کتابوں کے مطالعے سے ہر شخص یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ اِس معاملے میں جو آخری مقامات اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں مقرر کیے ہیں، اہل تصوف کا ہدف اُن سے فی الواقع بہت آگے ہے۔
یہ چند بنیادی نکات ہیں۔ ہماری یہ تحریر اِس موضوع پر کسی مفصل بحث کے لیے نہیں ہے۔ تاہم ان چند نکات ہی سے پوری طرح واضح ہے کہ تصوف فی الواقع ایک متوازی دین ہے، جسے دین خداوندی کی روح اور حقیقت کے نام سے اِس امت میں رائج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اللّٰھم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ’’منازل السائرین‘‘، علم تصوف کا اہم ترین ماخذ۔ شیخ الاسلام ابو اسمٰعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الانصاری الہروی کی تصنیف ہے۔ خراساں کے شیخ اور اپنے زمانے کے اکابر حنابلہ میں سے تھے۔ ۴۸۱ھ میں وفات پائی۔
[2]۔ یعنی وہ دلائل جو عقل و فطرت اور وحی الٰہی کی شہادت سے ثابت ہیں۔
[3]۔ یعنی مکا شفہ و مشاہدہ وغیرہ، وہ حقائق جن کا ذکر اُنھوں نے اِسی عنوان کے تحت ’’منازل السائرین‘‘ میں کیا ہے۔
[4]۔ یعنی اِس مرتبہ میں بندے کے لیے وجود چونکہ ثابت نہیں رہتا، اِس لیے وہ جس کی توحید بیان کی جاتی ہے، وہی درحقیقت اپنی توحید بیان کرتا ہے۔ چنانچہ توحید صرف ذات باری ہی کے ساتھ قائم قرار پاتی ہے، ذات باری کے سوا کسی موحد کا اثبات اِس مرتبہ میں اُن کے نزدیک الحاد کے مترادف ہے۔ صاحب ’’منازل‘‘ کہتے ہیں :
توحیدہ إیاہ توحیدہ ونعت من ینعته لاحد
’’اُس کی توحید درحقیقت اُس کا آپ ہی اپنی توحید بیان کرنا ہے، دوسرا اگر اُس کی توحید بیان کرے تو یہ الحاد ہے۔‘‘
[5]۔ یعنی اِس بات کا اقرار کہ موجود صرف اللہ ہی ہے ۔
[6]۔ ابوحامد محمد بن محمد الغزالی، حجۃ الاسلام کے لقب سے معروف ہیں۔ طوس کے قصبہ طابران میں ۴۵۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ’’احیاء علوم الدین‘‘ علوم تصوف میں اُن کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے۔ ۵۰۵ھ میں وفات پائی۔
[7]۔ ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحات مکیہ‘‘ شیخ محی الدین ابن عربی کی اہم ترین تصنیفات ہیں۔ اہل تصوف اُنھیں شیخ اکبر کہتے ہیں۔ ۵۶۰ھ میں اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۸ھ میں دمشق میں وفات پائی۔
[8]۔ یعنی اِس بات کا اقرار کرے کہ اصل شہود و شاہد ومشہود ایک ہے ۔
[9]۔ یعنی اس نقطۂ نظر پر قائم رہا کہ خالق اور مخلوق میں باعتبار حقیقت مغایرت ہے۔
[10]۔ فصوص الحکم، فص اسماعیلیہ ۹۳۔
[11]۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کے بیٹے کو ایک بڑی قربانی کے عوض میں چھڑا لیا۔ پس مینڈھے کی صورت میں وہی تو ظاہر ہوا جو انسان، یعنی ابراہیم کی صورت میں اور جو ابراہیم کے بیٹے کی صورت میں ظاہر ہواتھا۔ نہیں، بلکہ بیٹے کے حکم کے ساتھ وہی ظاہر ہوا جو والد کا عین تھا، یعنی اللہ تعالیٰ۔‘‘(فص ادریسیہ ۷۸)
[12]۔ شیخ احمد بدر الدین ابو البرکات فاروقی سرہندی، شیخ مجدد اور مجدد الف ثانی کے لقب سے معروف ہیں۔ ۹۷۱ھ میں پیداہوئے۔ اُن کے افکار کے بہترین ترجمان اُن کے ’’مکتوبات‘‘ ہیں۔ ۱۰۳۴ھ میں اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔
[13]۔ ’’عبقات‘‘، علم تصوف کا بے مثال شہ پارہ۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ محمد اسمٰعیل کی تصنیف ہے۔ ۱۱۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ سید احمد بریلوی کی قیادت میں دعوت و جہاد کی عظیم تحریک برپا کی۔ ۱۲۴۶ھ میں بالا کوٹ کے مقام پر سکھوں کے خلاف ایک معرکہ میں شہید ہوئے۔
[14]۔ یعنی ارباب تصوف۔
[15]۔ یعنی جس سے کوئی چیز موجود ہوتی ہے، جیسے لوہے سے تلوار اور چھری وغیرہ۔
[16]۔ یعنی ذات باری مرتبۂ ’وجود منبسط‘ میں۔ یہ ذات باری کا وہی مرتبہ ہے جسے ابن عربی ’ظاہر الوجود‘ کہتے ہیں۔ اِس مرتبہ میں اُن کے نزدیک، ذات باری کے لیے عالم کے ساتھ وہ نسبت وجود میں آتی ہے جو، مثلاً لوہے کو اُس تلوار کے ساتھ ہے جو اُس سے بنائی جاتی ہے۔ یہ مراتب اسما میں سے پانچواں مرتبہ ہے۔
[17]۔ یعنی توحید وجودی کے ماننے والے۔
[18]۔ یعنی توحید شہودی کے ماننے والے۔
[19]۔ ’لاہوت‘ کا لفظ اہل تصوف کے ہاں ذات باری ہی کے لیے مستعمل ہے۔ صاحب ’’عبقات‘‘ لکھتے ہیں : ’ قد جرت عادتھم بأن یسموا ذات الفاطر باللاھوت‘ (اشارہ ۱، عبقہ ۱۷)۔
[20]۔ ’سیر فی اللہ‘ سالک کے لیے ذات باری کے اُس مرتبے کا انکشاف ہے جس کے لیے اُن کے ہاں ’باطن الوجود‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔
[21]۔ اُن کی اصطلاح میں ذات باری کے مراتب اسما میں سے تیسرا مرتبہ جسے یہ واحدیت، تنزل علمی اور عالم عقلی بھی کہتے ہیں۔
[22]۔ تاہم، یہ اسرار اگر کبھی زبان پر آتے ہیں تو خانقاہوں کی فضا ’ أنا الحق ‘ (میں حق ہوں)، ’ سبحاني ما أعظم شأني‘! (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے )! اور ’ ما في جبتي إلا اللّٰه‘ (میرے جبے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں)کی صداؤں سے معمور ہو جاتی ہے۔
[23]۔ اِس مضمون کی روایات مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، موطا، مسند احمد بن حنبل اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہیں۔
[24]۔ یہ اُن کے نزدیک سابقین کے مقامات میں سے تیسرا مقام ہے۔ قدما اِسے ’صدیقیت‘ کہتے تھے۔ شیخ احمد سرہندی کی اصطلاح میں یہ ’ولایت علیا‘ ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی اِسے ’قرب وجود‘ اور ’حکمت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِس سے آگے ’مقام تحدیث‘ ہے۔ اِس کا حامل اور نبی، اُن کے نزدیک ایک ہی نوع کی دو صنفیں ہیں، اُن میں باہم وہی فرق ہے جو مثال کے طور پر یوحنا و مسیح اور محمد عربی میں ہے۔(اشارہ ۴، عبقہ ۱۱- ۱۲)
[25]۔ ’’عوارف المعارف‘‘، شیخ ابو حفص عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی کی تصنیف ہے۔ شیخ عبد القاہر بن عبد اللہ سہروردی کے بھتیجے اور بغداد میں صوفیہ کے شیخ تھے۔ ۵۳۹ھ میں سہرورد میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۲ھ میں وفات پائی۔
[26]۔ ’’قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب‘‘ علم تصوف کی سب سے بلند پایہ کتاب، غزالی نے اِس کے بیسیوں صفحے اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں نقل کیے ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے بھی ’’فتوح الغیب‘‘ میں اِس سے استفادہ کیا ہے۔ ابوطالب محمد بن علی الحارثی المکی کی تصنیف ہے۔ مکہ میں پیدا ہوئے۔ ۳۸۶ھ میں، بغداد میں وفات پائی۔
[27]۔ ابو یزید طیفور البسطامی، تیسری صدی ہجری کے اکابر صوفیہ میں سے ہیں۔ ’سبحاني ما أعظم شأني!‘ (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے)! اور ’ تاللّٰه، إن لوائي أعظم من لواء محمد‘ (خدا کی قسم، میرا علم محمد کے علم سے بڑا ہے)، جیسی خرافات اِنھی سے صادر ہوئیں۔ ۲۶۱ھ میں خراسان کے شہر بسطام میں اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔
[28]۔ عبد الکریم قطب الدین الجیلی، جلیل القدر صوفی ہیں۔ ’’الانسان الکامل فی معرفۃ الاواخروالاوائل‘‘ اِن کی مشہور تصنیف ہے۔ بغداد میں پیدا ہوئے۔ ۸۳۲ھ میں وفات پائی۔
[29]۔ قلمی نسخہ، پنجاب یونیورسٹی لائبریری، لاہور۔
[30]۔ فتوحات مکیہ، ابن عربی۔
[31]۔ ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری، اکابر صوفیہ میں سے ہیں۔ ۳۷۶ھ میں نیشا پور کے قصبہ استوا میں پیدا ہوئے۔ ’’الرسالۃ القشیریہ‘‘ اُن کی مشہور تصنیف ہے۔ ۴۶۵ھ میں اِس دنیا سے رخصت ہوئے۔
[32]۔ صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ زمین پر اللہ کے خاص بندوں کی ایک جماعت ہمیشہ موجود رہتی ہے جو اِس عالم کا سب کام جاری رکھتے ہیں۔ زمین و آسمان کی ہر چیزاُن کی مرضی کے تابع اور روزو شب کا یہ سلسلہ اُن کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ کے یہ بندے چونکہ اِس حیثیت سے عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں، اِس وجہ سے اِنھیں مردان غیب، اولیاے مکتوم یا رجال الغیب کہتے ہیں۔ قطب اِن کا امام ہوتا ہے۔ اُسے قطب الارشاد، غوث اور قائم الزماں بھی کہا جاتا ہے۔ اُس کے ماتحت دو وزیر ہوتے ہیں جو امام کہلاتے ہیں۔ اِن کے بعد اوتاد کا منصب ہے جو بعض کے نزدیک چار اور بعض کے نزدیک سات ہیں۔ ابن عربی کا بیان ہے کہ اُن میں سے ایک کے ساتھ، جس کا نام ابن جعدون تھا، شہر فاس میں اُن کی ملاقات بھی ہوئی۔ خود ابن عربی کا دعویٰ ہے کہ وہ قطب کے مقام پر فائز تھے۔ ہندوستان کے صوفیہ میں سے شیخ احمد سرہندی بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اُنھیں قطب الارشاد کا خلعت عطا ہوا۔ ابن عربی کے نزدیک سب سے آخری درجہ ختم کا ہے جس پر اولیاے امت کے یہ سب مناصب ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اِس منصب کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ابدال، نقبا، نجباوغیرہ کے مناصب اِن کے نیچے ہیں۔
اِس باب کی تفصیلات کوئی شخص اگر چاہے تو ابن عربی کی ’’فتوحات مکیہ‘‘، ابوطالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘، علی ہجویری کی ’’کشف المحجوب‘‘ اور الجیلی کی ’’الانسان الکامل‘‘ میں دیکھ لے سکتا ہے۔
[33]۔ النباء ۷۸: ۶ -۷۔ ’’کیا ہم نے زمین کو گہوارہ اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا۔ ‘‘
[34]۔ احمد بن عبد الرحیم شاہ ولی اللہ فاروقی دہلوی۔ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘، ’’ التفہیمات الالہٰیہ‘‘، ’’ازالۃ الخفا‘‘ اور ’’الانصاف‘‘ کے مصنف، جلیل القدر صوفی، مفکر اور عالم۔ ۱۱۱۴ھ میں پیدا ہوئے۔ ۱۱۷۶ھ میں دہلی میں وفات پائی۔
[35]۔ فتوحات مکیہ، ابن عربی ۳/۱۳۶، عن امام العصر عبد القادر۔
[36]۔ مطلب یہ ہے کہ ثنویت اِس طرح ختم ہو جائے کہ نہ کوئی مشیر رہے او رنہ کوئی مشار الیہ۔
[37]۔ اصل میں لفظ ’ تمکین‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ علم تصوف کی اصطلاح ہے اور اِس کے معنی وہی ہیں جو ہم نے اپنے ترجمہ میں واضح کر دیے ہیں ـ۔
[38]۔ اصل میں لفظ ’ تلوین‘ آیا ہے۔ یہ بھی ایک اصطلاح ہے اور علم تصوف میں سالک کی اُس حالت کے لیے مستعمل ہے، جب وہ حادث کے اثبات و محو کے مابین متردد ہوتا ہے۔
[39]۔ یعنی اُن سے یہ لطائف فنا و بقا اور تمکین تام وغیرہ استنباط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
[40]۔ یعنی وہ طریقہ جو اوپر خربوزے اور آفتاب کی مثال میں بیان ہوا ہے۔
[41]۔ حلقۂ دیو بندکے جلیل القدر عالم اور شیخ تصوف۔ ہندوستان کے ایک قصبہ گنگوہ میں مدفون ہیں۔ جمادی الثانیہ ۱۳۲۳ھ کو دنیا سے رخصت ہوئے۔
[42]۔ دوسرے لفظوں میں بیان کیجیے تو گویا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکمال دین اور اتمام نعمت کے باوجود قرآن و سنت کی ہدایت میں جو کمی اِن بزرگوں کے نزدیک رہ گئی تھی، وہ بہ کمال عنایت اپنے اجتہادات سے اُنھوں نے پوری کر دی ہے۔
[43]۔ اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے، مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ دہلوی کی ’’القول الجمیل فی بیان سواء السبیل‘‘۔