عن عائشة قالت: ان ابابکر دخل علیها. وعندھا جاریتان فی ایام منی تدفقان وتضربان. وفی روایة: تغنیان بما تقاولت الانصار یوم بعاث. والنبی متغش بثوبه. فانتھر ھما ابوبکر. فکشف النبی صلی اللّٰہ علیه وسلم عن وجهه. فقال: دعھما یا ابابکر، فانھا ایام عید. وفی روایة: یا ابابکر ان لکل قوم عیدا. وھذا عیدنا.
ابابکر: بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ واقعہ سناتے ہوئے اپنے والد کا نام اس طرح نہیں لیا ہو گا۔ اور یہ بعد میں کسی راوی نے تصرف کیا ہے۔
جاریتان: دو چھوٹی بچیاں ۔
تدفقان: دف بجانا ۔
تضربان: اس کا مطلب اگرچہ مارنا ہے لیکن یہاں یہ دف بجانے ہی کے معنی میں ہے ۔ دف بجاتے ہوئے مختلف آوازیں پیدا کی جاتی ہیں۔ غالباً ’تدفیق‘ اور ’ضرب‘ کے الفاظ اسی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یکجا استعمال کیے گئے ہیں۔
تقاولت: ایک دوسر ے سے بڑھ چڑھ کر باتیں کرنا ۔
بعاث: مدینے سے باہر ایک مقام جہاں قبیلہ اوس کا قلعہ تھا۔ اس مقام پر اوس و خزرج کے مابین ایک خوف ناک جنگ ہوئی جس میں بڑی تعداد میں فریقین کے مرد کام آئے۔
متغش: ڈھنپا ہوا۔
انتھر: ڈانٹا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے ہاں تشریف لائے۔ قربانی کے دن تھے اور ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ بعاث کی جنگ میں گائی گئی کوئی نظم بھی گا رہی تھیں۔ (پاس ہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر لے کر (لیٹے ہوئے تھے)۔ حضرت ابوبکر نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سے (چادر) ہٹائی اور فرمایا : ابوبکر، انھیں نہ روکو، کیونکہ یہ عید کے دن ہیں۔ ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد ان الفاظ میں ہے: ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔
اس روایت میں عام طور پر یہی بات بیان کی گئی ہے کہ یہ واقعہ عید الاضحیٰ کے موقع پر پیش آیا۔ لیکن بخاری نے کتاب المناقب میں جن روایات کو لیا ہے ان میں سے ایک روایت میں اس معاملے میں شبہے کا اظہار کیا گیا ہے۔ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کسی عیدِ قربان ہی کے موقع پر پیش آیا۔ بعض روایات میں اسی موقع پر حبشیوں کے کرتب دکھانے کے واقعے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے اس گانے بجانے پر ’مزمار الشیطان‘ کا تبصرہ بھی کیا تھا۔
ان اہم اختلافات کے علاوہ اس روایت میں لفظی فرق بھی ہیں، مثلاً ایک روایت میں ’جاریتان‘ کے بجائے ’قینتان‘ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بعض روایات میں ’متغش‘ کی جگہ ’ مسجی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس واقعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تفریح سے متعلق رویہ سامنے آتا ہے۔ مذہبی زندگی اختیار کرنے کے بعد لوگوں میں عام طور پر ہنسی کھیل سے گریز پیدا ہو جاتا ہے۔ اس گریز کی اپنی جگہ پر ایک اہمیت ہے۔ لیکن اس کی حد کیا ہے؟ اس روایت میں یہی بات واضح کی گئی ہے۔ عید اور شادی بیاہ کے موقع پر ہر قوم میں خوشی منانے کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے جو اس روایت میں بیان ہوا ہے۔
ہمارے بعض علما موسیقی کو مطلقاً حرام سمجھتے ہیں۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ مضامین کی صورت میں موسیقی جائز ہے۔ تمام فنونِ لطیفہ کی یہی صور ت ہے۔ یہ اصلاً مباح ہیں بشرطیکہ دین و اخلاق کی حدود پامال نہ کی جائیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گانے بجانے کو ’مزمار الشیطان‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے یہ بات یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کردہ ماحول ہی کے باعث کہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے انھیں ڈانٹنے سے روک کریہ واضح کر دیا کہ میری اس نوع کی باتوں کا اس گانے بجانے سے تعلق نہیں ہے۔
قرآنِ مجید میں تفریح سے بالکلیہ منع نہیں کیاگیا۔ اسی طرح گانے بجانے سے بھی گانے بجانے کا ذکر کرکے نہیں روکا گیا۔ بعض علما سورۂ جمعہ میں ’لھو‘ کے بارے میں وارد ناپسندیدگی سے استدلال کرتے ہیں۔ ’لھو‘ کا لفظ کھیل کود اور بے کار مشغلے کے معنی میں آتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ تفریح کی بہت سی صورتیں اس لفظ کے تحت آتی ہیں۔ لیکن سورۂ جمعہ میں یہ ناپسندیدگی کا اظہارمطلق نہیں ہے۔ اس ناپسندیدگی کا تعلق ان مواقع سے ہے جب دین کے تقاضے پر تفریح غلبہ پالے۔ ظاہر ہے اس صورت میں تفریح کی طرف رغبت کو ناپسندیدہ ہی قرار دیا جائے گا۔
بخاری، کتاب الجمعہ، باب ۴۷، ۴۸، ۷۰، کتاب الجہاد، باب ۸۰،کتاب المناقب، باب ۱۳، ۱۰۰۔ مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، باب ۵۔ نسائی، کتاب صلاۃ العیدین، باب ۳۳، ۳۴، ۳۵۔ ابنِ ماجہ، کتاب النکاح ،باب ۲۱۔ مسندِ احمد، عن عائشہ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
___________