(عید کی نسبت سے مشکوٰۃ المصابیح سے ایک انتخاب)
عن ابی سعید الخدری قال: کان النبی صلی اللّٰہ علیه وسلم یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی. فاول شیء یبدا به الصلاة. ثم ینصرف. فیقوم مقابل الناس. والناس جلوس علی صفوفھم. فیعظھم، ویوصیھم، ویامرھم. وان کان یریدان یقطع بعثا قطعه. اویامر بشیء امربه. ثم ینصوف.
المصلی: نماز پڑھنے کی جگہ ۔ یہاں اس سے مراد وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز پڑھاتے تھے۔ یہ جگہ مدینے کے باہر تھی۔
فاول شیء یبدابه الصلاة: پہلی چیز جس سے آپ آغاز کرتے وہ نماز ہوتی۔ یہ جملہ اس پس منظر میں ہے کہ مدینہ کے اموی گورنر مروان بن حکم نے نماز سے پہلے خطبہ دینا چاہاتھا۔
بعثا: مصدر بمعنی مفعول۔ یہاں اس سے کوئی مہم وغیرہ بھیجنا مراد ہے۔
قطع: طے کر دیا یا نافذ کر دیا۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے موقع پر عید گاہ کی طرف آتے۔ چنانچہ سب سے پہلے نماز پڑھاتے۔ اس کے بعد لوگوں کی طرف رخ پھیرتے اور ان کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ لوگ اپنی اپنی جگہ قطاروں میں بیٹھے رہتے۔ آپ انھیں دین بتاتے۔ انھیں تلقین کرتے اور انھیں ہدایات دیتے۔ اگر کوئی مہم بھیجنی ہوتی تو اس (کے معاملات) طے کر دیتے یا کوئی کام کرانا ہوتا تو اسے کرنے کے لیے کہہ دیتے۔ پھر (گھر کی طرف) واپس آ جاتے ۔‘‘
صاحبِ مشکوٰۃ کے اختیار کردہ اس متن کوبخاری نے ایک فرق کے ساتھ کتاب الجمعہ میں درج کیا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ بخاری نے اس روایت کے آخر میں مروان بن حکم کے نماز سے پہلے خطبہ دینے کے واقعے کا بھی ذکر کیاہے۔ اسی سند سے بخاری نے کتاب الزکوٰۃ میں جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم عام طور پرخطباتِ عید میں خیرات کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اس مضمون کی روایات میں حضور کے اس خطاب کا بھی ذکر ہے جس میں آپ نے خواتین کو الگ سے نصیحتیں کیں اور انھیں ان کی مزاجی اورطبعی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی۔
یہ بات طے کرنا مشکل ہے کہ یہ تمام روایات ایک ہی عید سے متعلق ہیں یا ان کا تعلق مختلف مواقع سے ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری نے جب گورنر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے انحراف کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے بات حضور کے عید سے متعلق معمول سے شروع کی اور پھر ان کی توجہ حضور کے ایک خاص خطبے کی طر ف چلی گئی اور انھوں نے اس کی تفصیلات بیان کرنی شروع کردیں۔
یہ روایت بنیادی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید کی نماز پڑھانے کا طریقہ بیان کرتی ہے۔ جو آپ نماز عید پڑھانے کے لیے اختیار کرتے تھے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت اسی طریقے پر عمل پیرا ہے اور اس کے اس عمل کی بنیاد کسی روایت پر نہیں بلکہ صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر پر ہے ۔ حضور عید کے دن نماز و خطبے کے لیے مسجدِ نبوی کے بجائے کھلے میدان میں جاتے تھے۔ پہلے نماز پڑھاتے، پھر خطبہ دیتے اور بعد ازاں اگر ضروری ہوتا تو دوسرے امور انجام دیتے ۔
شریعت کے متعدد امور کا اصل ماخذ سنت ہے۔ عیدین کی نماز اور خطبہ بھی انھی امور میں سے ایک ہے۔ اگرچہ سنت پر مبنی بعض امور کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن عیدین کے معاملے میں قرآنِ مجید میں کوئی بات بھی بیان نہیں ہوئی۔ اس مثال سے ان لوگوں کے نقطۂ نظر کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو سارے کے سارے دین کو قرآنِ مجید ہی سے برآمد کرنا چاہتے ہیں۔
بخاری، کتاب الحیض، باب ۶، کتاب الجمعہ، باب ۱۵، کتاب الزکوٰۃ، باب ۴۴، کتاب الصوم، باب ۴۰، کتاب الشہادات، باب ۱۲۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۲۴، کتاب صلاۃ العیدین، باب ۱۔ نسائی، کتاب صلاۃ العیدین، باب ۲۰، باب ۲۳۔ ابنِ ماجہ کتاب الاقامۃ، باب ۱۵۸ اور مسندِ احمد، عن ابی سعید الخدری ۔
___________