(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۱۵)
وعن سفیان بن عبد اللّٰہ الثقفی، قال: قلت: یا رسول اﷲ، قل لی فی الاسلام قولا لا أسئل عنه أحدا بعدک، وفی روایة: غیرک. قال: قل، آمنت باللّٰہ ثم استقم.
فی الاسلام: اسلام کے بارے میں۔
الاستقامة: یہاں اس سے دین کے اوامر پر عمل اور نواہی سے گریز پر ثابت قدمی مراد ہے۔
’’حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیے کہ آپ کے بعد (اور ایک روایت میں آپ کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں (یعنی پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔) آپ نے فرمایا : کہو میں ایمان لایا اور پھر اس پر جم جاؤ۔‘‘
اسی مضمون کی ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
قلت: یا رسول اللّٰہ او صنی فقال: قل ربی اللّٰہ ثم استقم قال، قلت ربی اللّٰہ و ما توفیقی الا باللّٰہ علیه توکلت والیه انیب فقال لیھنک العلم ابا الحسن.
’’میں نے رسول اللہ سے نصیحت کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا : کہو اللہ میرا آقا ہے ، پھر اس پر جم جاؤ۔ میں نے کہا : میرا آقا اللہ ہے ۔ توفیق اللہ ہی دیتا ہے۔ میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں۔ اسی کے آگے جھکتا ہوں ۔ اس پر آپ نے کہا : ابو الحسن تمھیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘
لیکن الفاظ اور راوی ہی سے واضح ہے کہ مضمون میں کامل اشتراک کے باوجود یہ ایک الگ روایت ہے۔ البتہ ترمذی نے سفیان رضی اللہ عنہ کے ایک اور سوال کو بھی روایت کیا ہے:
قلت: یا رسول اللّٰہ، ما اخوف ما اخاف علی. فاخذ بلسانه ثم قال ھذا.
’’میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ ڈرنے والی چیز کون سی ہے کہ میں اس سے اندیشہ رکھوں ۔ اس پر آپ نے اپنی زبان پکڑی اور کہا یہ ہے ۔‘‘
اس اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل گفتگو میں سوالات اور بھی کیے گئے ہوں گے۔ بہر حال موجود روایات میں سب سے مکمل روایت ترمذی ہی کی ہے۔
یہ روایت جوامع الکلم میں سے ہے اس میں دو ہی جملوں میں ساری بات سمیٹ دی گئی ہے۔ توحید کو ہمارے دین میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح اسلام کو قبول کرنے کے بعد جو چیز مطلوب ہے وہ دین کے اوامر و نواہی پرعمل ہے۔ حقیقت کو قبول کرنے اور راہِ حق پر قدم رکھ دینے کے بعد جو چیز مراتب کے حصول کا ذریعہ ہو سکتی ہے وہ ایمانیات اور اعمالِ صالحہ پر استقامت ہے ۔
یہ روایت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سراسر قرآنِ مجید سے ماخوذ ہے۔ سورۂ احقاف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.(۴۶: ۱۳)
’’لاریب وہ لوگ جنھوں نے کہا : اللہ ہمارا رب ہے ، پھر اس پر جم گئے تو ان کے لیے وہ ٹھکانا ہے جس میں نہ ان کے لیے کوئی خوف ہوگا اور نہ ان کے لیے کوئی غم ۔‘‘
اس آیۂ کریمہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کردار کی یہ خوبی کس شان دار انجام پر منتج ہو گی۔
مسلم، کتاب الایمان، باب ۱۳۔ ابنِ ماجہ، کتاب الفتن باب ۱۲۔ ترمذی کتاب الزہد، باب ۵۱۔ مسندِ احمد، عن سفیان ۔
___________