(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۱۴)
وعن أبی ھریرة، قال: قال أتی أعرابی النبی صلی اﷲ علیه وسلم، فقال: دلنی علی عمل إذا عملته دخلت الجنة، قال: تعبد اللہ ولا تشرک به شیأ، وتقیم الصلاة المکتوبة، وتؤدی الزکاة المفروضة، وتصوم رمضان. قال والذی نفسی بیدہ لا أزید علی ھذا ولا أنقص منه. فلما ولی، قال النبی صلی اللہ علیه وسلم: من سرہ أن ینظر إلی رجل من اھل الجنة فلینظر إلی ھذا.
اعرابی: بدوی مراد ہے اعراب سے اسمِ نسبت ہے جس کے معنی بادیہ کے رہنے والے کے ہیں ۔ اسی طرح شہر کے رہنے والوں کو عرب کہا جاتا ہے۔
تعبد اللّٰہ: یہ خبر امر کے معنی میں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مصدر کے محل پر فعل استعمال کیا گیا ہے۔ گویا جملہ یہ ہے کہ ’ھو عبادتک اللّٰہ‘۔اس کی مثال قرآنِ مجید میں بھی ہے: ’ومن آیاته یریکم البرق‘ (الروم ۳۰: ۴۲)۔
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کی: میری ایسے عمل کی طرف رہنمائی کیجیے کہ جب میں اسے کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا : تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، فرض نماز قائم کرے، فرض زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، نہ میں اس پر کچھ اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی۔ پھر جب وہ لوٹا تو آپ نے فرمایا : جسے کسی جنت والے کو دیکھنے سے مسرت ہوتی ہے اسے چاہیے کہ وہ اس شخص کو دیکھے ۔‘‘
اس روایت کو بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل نے تقریباً انھی الفاظ میں روایت کیا ہے۔ ’’مرقاۃ‘‘ میں ملا علی قاری نے کسی دوسرے متن کا حوالہ نہیں دیا۔ البتہ یہ توضیح ضرور موجود ہے کہ جس طرح اس روایت میں حج کا ذکر نہیں، اسی طرح ایک روایت میں روزے، ایک میں زکوٰۃ اور ایک میں ایمان کا ذکر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ بعض میں صلۂ رحمی اور بعض میں خمس کی ادائیگی کا ذکر ہے۔
اس روایت میں دین کی بنیادی تعلیمات پر کماحقہٗ عمل کو یقینی نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے ارشادات درحقیقت مخاطب کی رعایت سے ہیں۔ چنانچہ انھیں حتمی معنی میں لینا درست نہیں۔ اس طرح کے تمام ارشادات کو سورۂ عصر کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ جس میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ کامیابی کے لیے اصل تقاضا کیا ہے۔
اعرابی کا آخری جملہ اس کی طرف سے تصدیق اور قبولیت میں شدت کا اظہار بھی ہے اور تردیدِ بدعت کا اعلان بھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اسی عزم کو دیکھ کر اسے جنتی قرار دیا ہے۔
قرآنِ مجید میں یقینی نجات کا معیار سو رۂ عصر میں بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ایمانیات، تمام اعمالِ صالحہ اور اپنے ماحول میں نیکی کی تلقین کو بنیادی شرائط کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن قرآنِ مجید کے دوسرے مقامات پر سیاق و سباق کے مطابق کہیں ایک چیز اور کہیں دوسری کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً ’فمن کان یرجوا لقاء ربه فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادة ربه احدا‘ میں ’تواصی‘ کا ذکر نہیں ہے۔ جس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی حیثیت بنیادی عنوانات کی ہے۔ روایات اور قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر انھی میں سے کسی چیز کو نمایاں کرنے کے لیے اس کا ذکر الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس سے اس چیز کی الگ اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب ۱۔ مسلم، کتاب الایمان باب ۴۔ مسندِ احمد عن ابوہریرہ ۔
___________