بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ٨ﶭ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْاﵐ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا٘ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ٩ﶠ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌﶈ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاﵐ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌﵿ ۣبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ١٠ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِﶈ قَالُوْ٘ا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ١١ اَلَا٘ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ١٢ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَا٘ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْ٘ا اَنُؤْمِنُ كَمَا٘ اٰمَنَ السُّفَهَآءُﵧ اَلَا٘ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ ١٣ وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْ٘ا اٰمَنَّاﵗ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰي شَيٰطِيْنِهِمْﶈ قَالُوْ٘ا اِنَّا مَعَكُمْﶈ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ ١٤ اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٥ اُولٰٓئِكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰيﵣ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ ١٦
اور انھی لوگوں[15]میں وہ بھی ہیں[16] جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو بھی[17]دراں حالیکہ وہ اصلاً اِن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں مانتے۔[18]وہ اللہ اور اہلِ ایمان، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں[19]اور واقعہ یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کو فریب دے رہے ہیں، لیکن اس کا شعور ہیں رکھتے۔[20]ان کے دلوں میں (حسد کی) بیماری تھی تو اللہ نے (اب) اِن کی اس بیماری کو اور بڑھا دیا ہے،[21]اور ان کے اس جرم کی پاداش میں کہ یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں، اِن کے لیے ایک بڑا ہی درد ناک عذاب ہے۔ اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ (اپنے اس رویے سے) تم اس سرزمین میں فساد پیدا نہ کرو[22]تو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔[23]خبردار، یہی فسادی ہیں، لیکن اِس کا احساس نہیں کر رہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اُسی طرح ایمان لاؤ، جس طرح (تمھارے سامنے) یہ لوگ[24]ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کیا اِن احمقوں کی طرح ایمان لائیں؟ سن لو، یہی احمق ہیں، لیکن نہیں جانتے۔ اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا،[25]اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں کے پاس پہنچتے ہیں[26]تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے اور اپنے (قانون کے مطابق) اِن کی سرکشی میں اِن کی رسی دراز کیے جاتا ہے،[27]یہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ یہی ہیں جنھوں نے ہدایت پر ضلالت کو ترجیح دی[28]تو ان کا یہ سودا ان کے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوا اور نہ یہ کوئی راستہ کہیں پا سکے ہیں۔[29]۸ - ۱۶
[15]۔ یعنی اِنھی یہود میں۔
[16]۔ اس سے مراد وہ منافقینِ یہود ہیں جو اسلام کی کھلی مخالفت کے بجائے اس کے اور یہودیت کے درمیان ایک قسم کے سمجھوتے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی مخالفت مصلحت اندیشی اور مصالحت پسندی کے پردے میں چھپی ہوئی تھی۔ اپنے زعما کے طریقے پر یہ اسلام کے مقابلے میں مجرد انکار اور ضد کی پالیسی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جس حد تک اپنے آبائی طریقے پر قائم رہتے ہوئے اسلام سے موافقت پیدا کی جا سکتی ہے، کی جائے۔ چنانچہ یہ اللہ اور آخرت پر اپنا ایمان مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور ان سے یہ چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنے لیے بے شک پیغمبر مانیں، لیکن یہود کے لیے آپ کو اپنا پیغمبر ماننے کا مطالبہ وہ ان سے نہ کریں اور اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہوئے دین داری اور خدا پرستی کا ایک مقام ان کے لیے بھی تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کفر و ایمان کی جوکشمکش یثرب میں پیداکر دی گئی ہے، اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور دونوں فریق امن و سلامتی کے ساتھ وہاں رہ سکیں گے۔ اسی لحاظ سے یہ اپنے اس طرزِعمل کو اصلاح کی کوشش سے تعبیر کرتے تھے۔
[17]۔ یعنی یہ دونوں باتیں ہم مانتے ہیں، لہٰذا اس پر مزید کسی ایمان کا تقاضا تم کو ہم سے نہیں کرنا چاہیے۔
[18]۔ اس لیے کہ وہ اگر خدا اور آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہوتے تو حق کے معاملے میں یہ منافقانہ طرزِعمل کبھی اختیار نہ کرتے۔
[19]۔ اصل الفاظ ہیں: ’یخادعون اللّٰہ‘۔ ’مخادعة‘ کے معنی کسی کو دھوکا دینے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ غور کیجیے تو ’خدع‘ کے مقابلے میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے نہایت موزوں استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی کوشش تو کوئی شخص اپنی حماقت کے سبب سے کر سکتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اُس کو دھوکا دے نہیں سکتا۔
[20]۔ یعنی اس کا نتیجہ چونکہ ابھی ان کے سامنے نہیں آیا، اس لیے یہ اس حقیقت کا احساس نہیں کر رہے ہیں کہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش میں یہ خود دھوکا کھا رہے ہیں۔
[21]۔ یعنی انھیں اس بات پر حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت سے بنی اسمٰعیل کو کیوں نوازا ہے۔ پھر جب اسلام اور اس کی برکتوں میں روز بروز ترقی ہوئی تو ان کا یہ حسد اور بڑھ گیا، یہاں تک کہ اس نے اِن کو بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچا کر چھوڑا۔
[22]۔ یعنی حق کی گواہی دینے کے بجائے حق و باطل میں التباس سے تم اللہ کے پیغمبر پر ایمان کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس سر زمین میں فساد پیدا کرنے والے نہ بنو۔
[23]۔ ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ دو فریقوں میں مصالحت کی جو پالیسی ہم نے اختیار کی ہے، تم اسے فساد قرار دیتے ہو، دراں حالیکہ اصلاح اگر ہو سکتی ہے تو ہمارے اس طریقے کو اختیار کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔
[24]۔ یعنی یہ انصار و مہاجرین ۔
[25]۔ یہود اس بات سے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے تھے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کر رہے ہیں، لیکن اپنے دل میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ اگر آپ کو مان رہے ہیں تو ان امیوں ہی کے لیے اللہ کا رسول مان رہے ہیں۔ رہے وہ تو اُن کے لیے اُن کے اپنے نبی اور اپنے صحیفے ہی کافی ہیں، وہ اس دائرے سے باہر کسی ہدایت کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں۔
دور حاضر میں بھی یہود و نصاریٰ میں سے جو لوگ اسلام لائے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں اسی مفہوم میں کرتے ہیں۔
[26]۔ اصل میں ’خلوا الی‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’خلا‘ کے بعد ’الی‘ کا تقاضا ہے کہ اسے کسی ایسے فعل پر متضمن مانا جائے جو اس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح رہے کہ لفظ ’شیطان‘اس آیت میں یہود کے لیڈروں کے لیے بالکل اسی طرح استعمال ہوا ہے، جس طرح یہ لفظ ہم اردو میں اس طرح کے مواقع پر استعمال کرتے ہیں۔
[27]۔ اوپر اللہ کے جس مذاق کا ذکر ہوا ہے، یہ اسی کی وضاحت ہے۔ یعنی وہ سرکشی میں جتنا آگے بڑھ رہے ہیں، اللہ اسی کے حساب سے اُن کی رسی دراز کیے جاتا ہے تاکہ جب انھیں پکڑا جائے تو ان کے پاس کوئی عذر اس کے حضور میں پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہ جائے۔
[28]۔ اصل میں لفظ ’اشتری‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی خریدنے کے ہیں۔ خریدنا چونکہ قیمت کے مقابل میں ایک لحاظ سے اس شے کو ترجیح دینا بھی ہے جسے آدمی کوئی قیمت ادا کر کے خریدتا ہے، اس وجہ سے یہ ترجیح دینے کے معنی اس میں پیدا ہو گئے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ اس مفہوم میں جگہ جگہ آیا ہے۔
[29]۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی منافقت کا پردہ چونکہ بالکل چاک کر دیا ہے، لہٰذا مصالحت کی اس پالیسی سے جو راہ انھوں نے پیغمبر کی طرف سے اتمامِ حجت کے نتائج سے بچنے کے لیے نکالنا چاہی تھی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
[باقی]
_______